پروفيسر ظفير احمد، کولکاتا
ٹيکس وصولي ميں اضافے کے باوجود مالي خسارہ ميں کمي کي اميد نہيں!
بڑھتي ہوئي مہنگائي نے لوگوں کي کمر توڑ کر رکھ دي ہے اور لوگوں کا جينا محال ہوتا جارہا ہے۔ غذائي اشيا ايندھن اور بجلي کي قيمت ميں مسلسل اضافہ ہونے سے تھوک مہنگائي لگاتار 13ويں ماہ بھي دوہرے ہندسے ميں برقرار ہے۔ ہول سيل پرائس انڈيکس (WPI) يعني شرح مہنگائي اپريل ميں 15.08فيصد تک پہنچ گئي ہے۔ گذشتہ دسمبر 1998کے بعد پہلي بار تھوک شرح مہنگائي 15فيصد کے پار پہنچي ہے جب کہ دسمبر 1998ميں يہ 15.32فيصد تھي۔ اس سے قبل مارچ 2022ميں 14.55فيصد جب کہ فروري ميں 13.11فيصد تھي۔ اپريل 2021سے تھوک شرح مہنگائي دوہرے ہندسے ميں برقرار ہے۔ ماہرين کے مطابق خوردني اشيا اور ايندھن کي قيمت بڑھنے سے مہنگائي کو پر لگ گئے ہيں۔ اپريل ميں خوردني اشيا کي شرح مہنگائي 8.35فيصد رہي ہے جو مارچ 2022ميں 8.06فيصد تھي۔ خام پٹروليم اور قدرتي گيسوں کے ليے اپريل ميں مالي خسارہ (Infaltion) 69.07فيصد رہا وہيں توانائي اور ايندھن کي شرح مہنگائي اچھل کر 38.66فيصد تک پہنچي جو مارچ 2022ميں 34.52فيصد تھي۔ اس کے ساتھ مينو فيکچرنگ پيداوار کي شرح مہنگائي اپريل ميں 10.85فيصد رہي جو مارچ 2022ميں 1071فيصد تھي۔ گيہوں، پھلوں، سبزيوں، آلو اور پياز کي قيمتيں سالانہ بنياد پر بڑي تيزي سے بڑھي ہيں جس کي وجہ سے خوردني اشيا کي مہنگائي 8.35فيصد ہوگئي۔ اس کے ساتھ ہي سبزياں 2324فيصد مہنگي ہوئي ہيں۔ تلہنوں کي قيمت ميں 16.01فيصد کا اضافہ ہوا۔ وزارت تجارت و صنعت کے اعلاميہ ميں کہا ہے کہ اپريل ميں تھوک شرح مہنگائي ميں اضافہ کي وجہ منرل آئل، بيسک ميٹل، خام پٹروليم، خوردني اشيا کي اور قدرتي گيس، غير خوردني اشيا، کيميکل اور کيميکل پروڈکٹس کي قيمتيں گذشتہ سال کے اسي مدت کے مقابلے ميں بڑي تيزي سے بڑھي ہے۔
ہمارے ملک ميں مہنگائي کي پيمائش دو طرح سے ہوتي ہے ايک ريٹيل يعني خوردہ اور دوسري تھوک مہنگائي يعني ہول سيل۔خوردہ مہنگائي عام صارفين کي طرف سے دي جانے والي قيمتوں پر منحصر کرتي ہے جسے بالفاظ ديگرکنزيومر پرائس انڈيکس (CPI) کہتےہيں وہيں ہول سيل پرائس انڈيکس کي پيمائش ان قيمتوں سے ہوتي ہے جو تھوک بازار ميں ايک تاجر دوسرے تاجر سے وصول کرتا ہے۔ يہ قيمتيں تھوک ميں کيے گئے سودوں سے جڑي ہوئي ہوتي ہيں دونوں اقسام کي مہنگائي ناپنے کے ليے مختلف طرح کے آئيٹم کو شامل کيا جاتا ہے۔ مثلاً تھوک مہنگائي ميں مينو فيکچرڈ پروڈکٹس کي شراکت 5..75فيصد پرائمري آرٹيکل مثلاً خوراک 20.02فيصد اور پاور اينڈ فيول 14.23فيصد ہوتي ہے۔ وہيں خوردہ مہنگائي ميں فوڈ اور فوڈ، پروڈکٹس کي شراکت 45.86فيصد ہاوسنگ کي 10.07فيصد، کپڑے اور ملبوسات کي 6.53فيصد اس کے علاوہ ديگر آئٹمس کي شراکت اور حصہ داري ہوتي ہے۔ اس کے قبل خوردني اشيا کے علاوہ تيل کي قيمت بڑھنے سے خوردہ مہنگائي 8سال ميںسب سے اونچائي پر پہنچ گئي ہے۔ واضح رہے کہ ہول سيل پرائس انڈيکس حقيقتاً صارفين کے بجائے کارخانہ داروں کي زيادہ نمائندگي کرتي ہے۔ صارفين قيمت اشاريے (سي پي آئي) کے ذريعہ اپريل ميں مالياتي خسارہ 7.79فيصد تھا يعني 2014کے بعد سے ابھي سب سے زيادہ مہنگائي ہے۔ اس ليے کہا جاسکتا ہے کہ في الحال مہنگائي کا اثر پيداوار اور تعمير پر زيادہ ہے اور صارفين پر تھوڑا کم۔ ماہرين کے مطابق کارخانہ دار مہنگائي کے ايک حصہ کو خود ہي جھيل رہا ہے کيونکہ اس کے پيداوار کي قيمت وقت کے ساتھ نہيں بڑھي ہے۔ في الحال ہماري معيشت ميں بے ربط طلب اور سپلائي کا بڑا مسئلہ ہے۔ مالياتي خسارہ يا مہنگائي زيادہ تر کم وقت ميں سپلائي کي نسبت زيادہ طلب کا نتيجہ ہوتا ہے۔ عالمي پيمانے پر جھٹکے کے باوجود بھارت ميں اس وقت مالياتي خسارہ کے ا‘ضافے ميں زيادہ طلب کا ہي نتيجہ لگتا ہے۔ اس ضمن ميں اعداد و شمار کا بھي فقدان ہے ويسے ہمارے ملک کے منظم شعبہ ميں پائيدار اصلاح اچھي طرح ہورہي ہے اس ليے کہ وہاں صلاحيت کا بھرپور استعمال ہورہا ہے۔ اس ليے منظم شعبہ ميں کافي بہتري آئي ہے پھر بھي کلي طور سے طلب کي صورت حال بدحال ہے اب مانيٹري پاليسي ميں شرح سود ميں اضافہ اور رقيقيت کو کم کرنے کے ليے تھوڑا دباو ضروري ہے اس کے باوجود حکومت کو پٹروليم اور پيٹرو پروڈکٹس کي قيمتوں کو صارفين سے اشتراک کرنا ہوگا۔
ملک کے بڑے بينک ايس بي آئي کے ماہرين معيشت کا ماننا ہے کہ مالياتي خسارہ ميں آنے والي تيزي ميں روس اور يوکرين جنگ کي 60 فيصد حصہ داري ہے۔ ان ماہرين معيشت نے انديشہ ظاہر کيا ہے کہ مالياتي خسارہ کو کنٹرول کرنے کے ليے آر بي آئي اگست تک پاليسي ريپوريٹ کورونا وبا کے قہر سے قبل کے 5.5کے سطح پر پہنچائے گي۔ ديکھنے ميں آيا ہے کہ قيمتوں ميں ہونے والے کم از کم 59فيصد اضافے کے پس پشت حاليہ جنگ سے پيدا شدہ حالات رہے ہيں۔ اس مطالعہ ميں فروري کي قيمتوں کو بنياد بنايا گيا ہے۔ مطالعہ کے مطابق محض جنگ کي وجہ سے خوردني اور مشروبات، حمل و نقل، ايندھن اور توانائي کي قيمتوں ميں ہونے والے اضافے کے مالياتي خسارہ ميں 52فيصد شراکت داري ہے جب کہ 7فيصد يوميہ استعمال ميں آنے والي اشيا کي لاگت ميں اضافے سے ہوئي ہے۔ ماہرين معيشت نے اپنے مطالعہ ميں لکھا ہے کہ مالياتي خسارہ کي موجودہ حالت ميں اصلاح کي فوري ضرورت ہے مگر جس کي في الحال کوئي اميد نظر نہيںآرہي ہے حالاں کہ شہري اور ديہي علاقوں ميں قيمتوں ميں اضافے کے مختلف وجوہات سامنے آئي ہيں۔ ديہي علاقوں ميں پٹرول اور ڈيزل کي قيمتيں بڑھنے کے زيادہ اثرات پڑے ہيں۔ رپورٹ کے مطابق مالياتي خسارہ ميں مسلسل اضافہ کو ديکھتے ہوئے اب ے ہے کہ آربي آئي آئندہ جون يا اگست کي مانيٹري پاليسي کميٹي کي ميٹنگ ميں شرح سود کو بڑھائے گي اور اسے اگست تک 5.5فيصد کے ماقبل کورونا کي سطح پر لے آئے گي۔
مرکزي حکومت نے پٹرول اور ڈيزل پر سے اکسائز ڈيوٹي ميں 8روپے في ليٹر پٹرول اور 6 روپے في ليٹر ڈيزل ميں کمي کردي ہے اس کے ساتھ ہي حکومت نے خام اشيا پلاسٹک پيداوار کے جزيات، لوہا اور اسٹيل پر سے کسٹم ڈيوٹي کو بھي ہٹاليا ہے۔ بلاشبہ يہ فيصلہ بڑھتے ہوئے مالي خسارہ کي تخفيف ميں ضرور مدد کرے گا۔ مگر حاليہ اعداد و شمار کے حساب سے خوردہ مالي خسارہ (Retail Inflation) جو اپريل 2022ميں بڑھ کر 8سالوں ميں سب سے زيادہ ہوگيا ہے جب کہ ہول سيل خسارہ13ماہ سے بھي زيادہ مدت سے دہرے ہندسے 13سے اوپر برقرار ہے۔ چند تجزيہ نگاروں کے مطابق ايندھن کے ٹيکس ميںکمي سے انفليشن پر براہ راست 20پوائنٹس کي شرح سے جون تک کنٹرول کيا جاسکے گا توقع ہے کہ اس کے اثرات اس وقت ظاہر بھي ہوسکيں گے يہ دوسرا موقع ہے کہ ايندھن کے ٹيکس ميں کمي گذشتہ نومبر ميں کي گئي تھي۔ اس وقت مرکز نے 5رياستوں کے انتخابات جيتنے کے ليے اکسائز ڈيوٹي بالترتيب 5 روپے في ليٹر پٹرول ميں اور 10روپے في ليٹر ڈيزل ميں کمي کي تھي۔ 21رياستوں نے بھي مرکز کے ديکھا ديکھي وياٹ (VAT) ميں کمي کردي ہے۔ اگر رياستيں مرکز کے موافق اقدام کرتي ہيں تو عوام الناس کو اور بھي راحت ملے گي۔ حاليہ کمي سے مرکز نے اکسائز ڈيوٹي کو ماقبل کرونا کي سطح تک پہنچاياہے۔ وزير ماليات کے مطابق حکومت کو اس سے ايک لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوگا۔ حکومت کو جي ايس ٹي اور ديگر ذرائع سے زيادہ آمدني ہونے کي توقع ہے۔ تجزيہ نگاروں کے مطابق ٹيکس کي وصولي بجٹ کے تخمينہ 1.3لاکھ کروڑ روپے سے بڑھ جائے گي۔ اس سے ضرور ہي معيشت کي قيمتوں کے دباو ميں اعتدال آئے گا۔ اس کے باوجود تجزيہ نگاروں کا ماننا ہے کہ مالي خسارہ تب بھي آر بي آئي کے ہدف سے اوپر ہي ہوگا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 05 جون تا 11 جون 2022