مہاراشٹر پردیش کانگریس کمیٹی کی تشکیل جدید سوالات کے گھیرے میں
آر ایس ایس کی شبیہ رکھنے والے افراد کی شمولیت پر ہنگامہ ۔جنوبی ہند میں قدیم سیاسی جماعت کی ساکھ متاثر !
ڈاکٹرمحمدکلیم محی الدین
مہاراشٹر کانگریس پارٹی کی تشکیل جدیدگزشتہ دنوں عمل میں آئی۔ 190 آفیسرس کی جمبو ٹیم میں 18 نائب صدور، 65 جنرل سکریٹریز اور 104سکریٹریز شامل ہیں۔ اس مرتبہ کانگریس پارٹی کےدو جنرل سکریٹریز بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ آکولہ سے تعلق رکھنے والے ابھئے پاٹل اور دوسرے پونے سے تعلق رکھنے اجیت آپٹے دونوں کانگریس پارٹی کے جنرل سکریٹری کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں جبکہ ان کا تعلق آر ایس ایس سے بھی بتایا جاتا ہے۔ کانگریس پارٹی ایک طرف سخت سیکولر پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تو دوسری طرف آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے اور موہن بھاگوت کے ساتھ مختلف پروگرامس میں شرکت کرنے والوں کو پارٹی میں شامل کرتی ہے۔
مہاراشٹر کانگریس پارٹی میں آر ایس ایس کے افراد کی شمولیت پر کافی ہنگامہ برپا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے ذمہ داروں، دانشوروں اور صحافیوں نے ہفت روزہ دعوت سے بات چیت میں اپنا ملا جلا ردعمل ظاہر کیا ہے۔
مہاراشٹر کانگریس پارٹی کے ترجمان سچن ساونت سے جب اس تعلق سے بات کی گئی تو انہوں نے کانگریس کی نئی ٹیم کو بہتر بتاتے ہوئے آنے والے انتخابات کے لیے اسے موزوں قرار دیا جبکہ آر ایس ایس کی شبیہ رکھنے والے دونوں جنرل سکریٹریز کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے صاف انکار کر دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ممبئی میں موجود قومی جماعت کے ریاستی ترجمان کی جانب سے ایک اہم معاملہ پر اظہار لا تعلقی کرنا کیا اس بات کا غماز نہیں ہے کہ وہ اسے درست فیصلہ گردانتے ہیں؟
ایس ڈی پی آئی کے ضلعی صدر اعجاز احمد شیخ کانگریس کے اس فیصلے کو پرانی روش قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’کانگریس پارٹی ہمیشہ سے مسلم مخالف اور سنگھ پریوار کے موافق رہی ہے ۔بہت سارے سنگھی ذہنیت کے افراد آج بھی کانگریس میں شامل ہیں۔ یہ ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف کام کرنے والی پارٹی ہے، چاہے وہ بابری مسجد کا معاملہ ہو یا پھر مسلم ریزرویشن کا یا کوئی دیگر معاملہ ہو ہر معاملے میں کانگریس نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا ہی کام کیا ہے۔ لیکن مسلمان یہ سوچ کر کہ ان کے سامنے کوئی متبادل نہیں ہے کانگریس کو ہی ووٹ دیتے آئے ہیں۔ لیکن اب جب کہ متبادل موجودہےتومسلمانوں کو اسے اپنانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہاکہ کانگریس پارٹی میں آر ایس ایس کے افردا کی شمولیت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جو کانگریس سے واقف نہیں ہے ان کے لیے یہ نئی بات ہوگی لیکن اس طرح کے افراد کی شمولیت پہلے بھی ہوچکی ہے۔ کانگریس نرم ہندوتوا پارٹی کی شبیہ بنا رہی ہے۔‘‘
کانگریس کے اس فیصلے کے پیش نظر انہوں نے پارٹی کے ہر معاملے کو مسلم دشمن قرار دے دیا، یہ بات تو کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ ماضی میں کانگریس پارٹی میں قد آور مسلم شخصیات شامل رہیں جنہوں نے ملک، قوم اور ملت کے لیے بہت کچھ اچھا کیا ہے۔ حالیہ دنوں بھی اگرچہ ملک میں ایک قلیل تعداد اسلاموفوبیا کو پھیلانے کاکام کررہی ہےجس کی وجہ سے ملک میں ماب لنچنگ کا سلسلہ ابھی تک نہیں تھما ہے لیکن اس کے لیے کانگریس کو مکمل طور پر موردِ الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔ اصل میں آر ایس ایس کا سخت ہندوتوا ملک کے لیے نقصاندہ ہے۔
اظہر خان ایم پی جے ناندیڑ ضلع صدر نے بتایاکہ ’’ویسے تو ہم سیاسی پارٹیوں کے بارے میں اپنی رائے دینا مناسب نہیں سمجھتے کیوں کہ سبھی ایک جیسے ہی ہیں اور کانگریس سے تو سبھی واقف ہیں اور یہ مسلمانوں کی مجبوری بھی ہے، لیکن ایک تبدیلی مہاراشٹر میں ضرور دیکھی جا رہی ہے کہ شیوسینا میں مسلمانوں کے بارے میں نرمی آئی ہے جب تک کوئی نئی پارٹی اور مسلمانوں کی لیڈر شپ مضبوط نہیں ہو گی تب تک کانگریس مسلمانوں کی مجبوری ہوگی‘‘۔ لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ اب اس مجبوری سے باہر نکلنے کا وقت آگیا ہے۔ اظہر خان ریاستی سطح پر شیوسینا کو کانگریس کے متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں۔
الطاف ثانی سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ ’’کانگریس پارٹی ایک سیکولر پارٹی رہی ہے۔اس پارٹی میں ماضی میں جو قائدین تھے وہ بہت زیادہ سیکولر تھے اور اس کے نتائج بھی ملک کی ترقی کی شکل میں برآمد ہوئے۔ لیکن پچھلے کچھ دہوں میں فرقہ پرست عناصر کانگریس پارٹی میں سیکولر ازم کا لبادہ اوڑھ کر داخل ہو گئے۔ کانگریس کی ناکامی اور کانگریس کی پسپائی میں سب سے بڑی وجہ یہ بھی رہی ہے کہ کانگریس پارٹی اپنے موقف سے ہٹی ہے۔ گاندھی جی سخت سیکولر تھے ان کے بعد بھی کانگریس کے قائدین سیکولرازم پر ڈٹے رہے لیکن اب کانگریس پارٹی قیادت سے محروم ہو گئی ہے‘‘
الطاف ثانی نے آر ایس ایس اور کانگریس کے درمیان تعلق کو مضبوط بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ڈاکٹر ولاس کھیرات کی کتاب ’کانگریس آر ایس ایس کی ماں‘ کےمطالعہ سے معلوم ہوگا کہ کانگریس پارٹی کی حقیقت سچ کیا ہے۔ ڈاکٹر کھیرات نے اس کتاب میں بڑے دلائل کے ساتھ کانگریس کو آر ایس ایس کی ماں قرار دیا ہے۔ یہ کتاب بازار میں بھی دستیاب ہے۔ الطاف ثانی نے مزید کہا کہ مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہندو ووٹ ضروری ہے۔ صرف مائناریٹی کے ووٹوں پر حکومتیں نہیں بنتیں۔ اس لیے اب کانگریس ہندوؤں کی جانب سے زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ یہ ان کی کوشش ہے جس کے ذریعے وہ اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مسلم ووٹ تو بے حیثیت ہوکر رہ گئے ہیں۔ سیکولر ووٹ بینک بھی قصہ پارینہ بن رہا ہے لہٰذا اب وہ ہندو ووٹ کی جانب سے توجہ دے رہے ہیں۔ ‘‘
بلڈانہ سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ نگار نے بتایا کہ کانگریس پارٹی کی مرکزی قیادت کو ضلعی اور ریاستی پر عہدیداروں کے تقرری کے لیے موصولہ سفارشوں پر غورکرنا چاہیے۔ گزشتہ دنوں کیرالا کے ڈی سی سی (ڈسٹرکٹ کانگریس کمیٹی) کے صدر کے عہدے پر ایک آر ایس ایس کی شبیہ رکھنے والے شخص کو نامزد کیا گیا اور اب مہاراشٹر کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری کے عہدے پر دو آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والوں کو شامل کیا گیا ہے۔ اگر مرکزی کانگریس کمیٹی اس طرح کے غیرسنجیدہ فیصلے کرتی رہی تو اس کا خمیازہ پارٹی کو بھگتنا پڑے گا۔
پونا سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کانگریس پارٹی کی مرکزی قیادت بحران کا شکار ہے۔ وہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد سے بے چین اور واپس اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہندوؤں کوقریب کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے وہ آر ایس ایس کی شبیہ والے افراد کو کانگریس میں شامل کررہی ہے۔ کانگریس قائدین سفارشات پر غور بالکل نہیں کررہے ہیں۔ آپ کویہ بھی بتادیں کہ کانگریس پارٹی نے پہلی مرتبہ دو ٹرانس جنڈر (تبدیلی جنس)کرنے والے افراد کو بھی مہاراشٹرا پردیش کانگریس کمیٹی کے سکریٹریز کی حیثیت سے نامزد کیا گیا ہے۔کانگریس کی قیادت کن لوگوں کے ہاتھوں میں جا ٓرہی ہے اور وہ ملک وقوم کے لیے کیا کام کریں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
مہاراشٹرا کانگریس پارٹی 2024کے انتخابات کے لیے تیاری کررہی ہے۔ جب کہ دوسری جانب عہدیداروں کا تقرر کرتے وقت وہ کانگریس کی سیکولرامیج کو بھی داغ دار کررہی ہے۔ کیا کانگریس اپنی سیکولرامیج کو مجروح کرتے ہوئے انتخابی میدان میں ٹک پائے گی یہ تو آنے والے دنوں میں رائے دہندگان ہی طے کریں گے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 ستمبر تا 18 ستمبر 2021