مومن خاتون کا مطلوب کردار

الٰہی ہدایات پر عمل کےذریعہ خواتین مثالی معاشرہ بناسکتی ہیں

صالحہ بیگم، ہبلی

خدا نے ہم سب انسانوں کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے۔ مگر عورت اور مرد کی جسمانی بناوٹ اور مزاج الگ الگ بنائے ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن دونوں کے کام اور میدان کار الگ الگ ہیں اور دونوں مل جل کر زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھاتے ہیں، آپس کا تعاون نہ ہوتو یہ گاڑی ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی۔
خدا کی بندگی کا مطالبہ مرد سے بھی ہے اور عورت سے بھی۔ آخرت کی جواب دہی دونوں کے لیے یکساں ہے لیکن اس یک رنگی کے باوجود دنوں کی صفات، قوت عمل اور دائرہ عمل میں فرق ہے۔ عورت مرد کے گھر کی زینت اور عزت ہوتی ہے۔ وہ گھر کی آبرو سنبھالتی ہے ۔ وہ گھر کی حفاظت اور بچوں کی پرورش کرتی ہے۔ خانہ داری کا انتظام درست کرتی ہے۔ مرد اس کے لیے روٹی کپڑے کا انتظام کرتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے، اس طرح زندگی کا کاروبار دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ باہر کے معاملات ایک کے ذمے اور گھر کے اندر کی ذمہ داری دوسرے پر ہے۔ یہ خدا کا کرم ہی ہے کہ مرد کو باہر کے کاموں کے لیے ضروری صفات دیں اور عورت کو گھر کی زینت بننے کے لیے مناسب خوبیاں دی ہیں۔
خدا نے عورت کو شرم و حیا کا زیور عطا کیا ہے، حجاب اس کا بہترین لباس ہے۔ضرورت پڑنے پر گھر سے نکلنے کی واقعی ضرورت ہوتو حکم ہے کہ اپنی حجاب کے ذریعہ اپنی آرائش و زیبائش کو چھپا کر نکلے اور کوئی بجنے والا زیور نہ پہنے۔ نماز عورت پر بھی فرض ہے مگر اسے مسجد جانے کی ضرورت نہیں گھر ہی میں پڑھنا زیادہ پسندیدہ ہے۔ عورتیں سفر تو کریں لیکن محرم کے بغیر سفر نہ کریں، غیر مردوں سے بے ضرورت باتیں نہ کریں، یہ ہیں وہ خدا کی بتائی ہوئی ہدایات جو اسلامی سماج میں ایک عورت کی شخصیت کو نکھارتی ہیں ، ان ہی ہدایات پر عمل کرنے کے بعد ایک عورت مومنہ بنتی ہے۔ حدیث شریف میں بتایا ہے کہ ایک مسلمان عورت بیوی کی حیثیت سے خوش سلیق ہوتی ہے۔ وہ اپنے شوہر کے بہترین رفیق برے دنوں میں اپنے شوہر کے لیے سہارا اور بہترین غم خوار ہوتی ہے۔ مشکل وقت میں صبر کرتی ہے اور اچھے دنوں میں شکر گزار ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں مومن خاتون کی مفصل خوبیاں بیان کی گئی ہیں۔ جو عورت ان خوبیوں کو اپنے کردار میں جذب کرلے وہ خدا کی پسندیدہ بندی اور ایک مومنہ بنتی ہے۔ قرآن میں مسلمان خاتون کی یہ خوبیاں بیان کی گئی ہیں۔
وہ مسلمہ ہوتی ہے۔ یعنی خدا کے احکام پر عمل کرنے والی اور اس کی رضا چاہنے والی۔
وہ مومنہ ہوتی ہے۔ خدا اور رسول اور آخرت کی جواب دہی پر ایمان لانے والی
قائنہ ہوتی ہے۔ زندگی کے سارے معاملات میں صرف خدا کی خوشی چاہنے والی اور اسی پر توکل کرتی ہے
صادقہ ہوتی ہے۔ سچ بات کہنے والی اور جھوٹ سے بچنے والی ہوتی ہے۔
صابرہ ہوتی ہے۔ مشکلات میں خدا کی رضا کے لیے صبر کرتی ہے اور راہ حق پر جمی رہتی ہے
خاشعہ ہوتی ہے۔ خدا کے احکام کی پابند اور اس کے حضور جھکی ہوئی ہوتی ہے
متصدقہ ہوتی ہے۔ خیرات و صدقہ دینے والی عزیزوں غربا اور مساکین کے حقوق ادا کرتی ہے۔
صائمہ ہوتی ہے۔ اپنے نفس کو پاک رکھنے کے لیے روزہ رکھنے والی فرض روزوں کے علاوہ نفل روزوں کا بھی اہتمام کرتی ہے۔
حافظہ ہوتی ہے۔ اپنی عصمت کی حفاظت کریت ہے، شرم و یات کا مجسمہ اور پاک دامن ہوتی ہے۔
تذاکرہ ہوتی ہے۔ خدا کوہمیشہ یاد رکھنے والی ہوتی ہے۔ کوئی حالت ہو کبھی خدا سے غافل نہیں ہوتی۔
قرآن میں مسلم خاتون کی یہ صفات گنانے کے بعد دو مثالی خواتین کے کردار بھی پیش کردیے ہیں وہ مثالی خواتین فرعون کی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ بی بی مریم صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ حضرت آسیہ اپنے وقت کے ظالم بادشاہ کی بیوی ہیں جو اپنی سلطنت میں خدائی کا ڈنکا بجارہا ہے مگر وہ خود سختی سے خدا کے دین پر کاربند رہتی ہیں۔ بی بی مریم صدیقہ ایک فسادی قوم میں پلتی بڑھتی ہیں مگر وہ اپنے دامن کو ہر فساد سے بچاتے ہوئے اللہ کی راہ میں چلتی ہیں وہ زندگی کی سختیوں کی شکایت نہیں کرتیں بلکہ خاموشی، صبر و استقامت اور ارادے کی پختگی کے ساتھ اپنے مالک کی رضا جوئی میں لگی رہتی ہیں۔ قرآن میں دو مثالی خواتین کے کردار پیش کرنے کے بعد دو خراب کردار بھی پیش کئے ہیں وہ کردار حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کے ہیں۔ یہ دونوں اپنے دور کے نبی کے گھروں میں رہتی ہیں مگر وہ خود اپنے شوہروں کی تعلیمات سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اللہ کے باغیوں کے ساتھ مل کر اپنے شوہر سے غداری کرتی ہیں وہ ہمیشہ کے لیے مسلط رہنے والے عذاب کی مستحق ہوتی ہیں۔
قرآن میں دو اچھے اور برے کردار پیش کردیے ہیں اب انتخاب کرنے والی کو اختیار ہے کہ وہ چاہے تو بھلے کردار کی روشنی سے اپنے کردار کو روشن کرے یا برے کردار کی ناپاکیوں سے اپنے دامن کو ناپاک کرے۔ کسی عورت کے لیے اس کی بڑائی اس کے کردار کی عظمت ہی میں ہے۔ حضور ﷺ اپنی بیٹی بی بی فاطمہ اور اپنی پھوپھی حضرت صفیہؓ سے فرمایا تھا کہ اپنی اپنی آخرت کی فکر کرو ، رسولؐ سے رشتہ داری آخرت میں کام نہ آسکے گی۔ آخرت میں صرف تمہارے نیک اعمال ہی کام آئیں گے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  6 تا 12 مارچ  2022