موقف: رام کا نام پھر سے بدنام

ايوانِ پارليمان کے بجٹ اجلاس کے دوران وزير اعظم نريندر مودی نے لوک سبھا ميں يہ اعلان کرکے سب کو چونکا ديا کہ سپريم کورٹ کے حکم کے مطابق ايودھيا ميں رام مندر کی تعمير کے ليے ايک ٹرسٹ تشکيل ديا گيا ہے۔ يہ بات درست ہے کہ بابری مسجد سے متعلق سپريم کورٹ کا فیصلہ مرکزی حکومت کو مندر کے تعمير کے ليے ٹرسٹ بنانے کا پابند کرتا ہے۔ عدالتِ عظميٰ نے اس کام کی خاطر تين ماہ کا جو وقت ديا تھا اس کی ميعاد 9 فروری کو ختم ہونے والی تھی ليکن اس کا اعلان دہلی ميں صوبائی انتخاب کے پيش نظر 5 فروری کو ہی کر ديا گيا۔ يہ اعلان وزير قانون بھی کرسکتے تھے ليکن مودی جی نے خود يہ فريضہ ادا کيا تاکہ اس کا زيادہ سے زيادہ فائدہ اٹھايا جاسکے۔ سنگھ پريوار رام جنم بھومی کو اپنی آستھا (عقيدے) کا معاملہ اس ليے کہتا ہے کيونکہ اس کے پاس اپنا دعويٰ ثابت کرنے کے ليے کوئی ٹھوس ثبوت نہيں ہے ليکن وہ گزشتہ 30 سالوں سے مسلسل اس کا سياسی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ سپريم کورٹ کا فیصلہ اپنے حق ميں کروا لينے کے بعد بھی يہ سلسلہ جاری ہے اور کون جانے اس ’’گائے‘‘ سے کب تک ’’دودھ‘‘ نکالا جاتا رہے گا؟
وزير اعظم نريندر مودی نے اس موقع پر بھی اپنی عادت کے مطابق ايک متضاد بيان ديا۔ پہلے تو کہا کہ ’’ہماری حکومت نے مندر کی تعمير اور اس کی پلاننگ کے ليے ايک منصوبہ تيار کيا ہے‘‘ پھر کہا کہ ’’يہ ٹرسٹ مندر کی تعمير اور اس سے متعلق تمام معاملات پر فیصلے کرنے کے ليے مکمل طور پر آزاد ہوگا۔‘‘ يہ بات سمجھ ميں نہيں آتی کہ اگر ٹرسٹ پوری طرح آزاد ہے تو حکومت کو مندر کی تعمير کا منصوبہ بنانے کی ضرورت کيوں پيش آئي؟ اس دنيا ميں جھوٹ کی چغلی اس کے اندر پوشيدہ تضادات کر ديتے ہيں۔ وزير اعظم نے سپريم کورٹ کے حکم کے مطابق کافی غور و خوض کے بعد اتر پرديش حکومت سے ايودھيا ميں جو پانچ ايکڑ زمين سنی وقف بورڈ کو سونپنے کی بات کی وہ بھی ايودھيا سے باہر 18 کلوميٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس طرح مودی جی کی دوسری کذب بيانی بھی کھل کر سامنے آگئی۔ جو شخص فیک نيوز کی ويب سائٹ سے بيان اٹھا کر ايوانِ پارليمان کے اندر اپنے مخالف (عمر عبداللہ) کو بدنام کرنے سے دريغ نہ کرے اس سے اور کيا توقع کی جائے؟
مودی جی کا لالی پاپ تو خير دہلی کے رائے دہندگان کو لبھا کر ان کا ووٹ لينے کے ليے تھا ليکن اس کے آگے کا پيچيدہ کام وزير داخلہ کے حوالے کيا گيا۔ انہوں نے بتايا کہ رام مندر ٹرسٹ ميں پندرہ ٹرسٹی ہوں گے جن ميں سے ايک کا تعلق دلت سماج سے ہوگا۔ اپنے آپ کو ذات پات سے بالاتر کہنے والے سنگھ پريوار کا دلتوں کی اس طرح خوشنودی (appeasement) حاصل کرنا اس کی منافقت کا روشن ثبوت ہے۔ ويسے جملہ 15 ميں صرف ايک رکن 7 فیصد بھی نہيں ہوتا جو دلتوں کی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ دلتوں کو اول تو رام مندر ميں کوئی دلچسپی نہيں ہے اور سنگھ کے اندر پلنے بڑھنے والے دلت رہنماؤں کو ان کا سماج اسی نظر سے ديکھتا ہے جيسے مسلمان مختار عباس نقوی وغيرہ کو ديکھتے ہيں۔رام مندر کی تعمير سے متعلق ٹرسٹ کے اعلان کا دہلی کے رائے دہندگان پر کيا اثر ہوا يہ تو جلد ہی سامنے آجائے گا ليکن اس سے نام نہاد رام بھکت سادھو سنتوں کے مابين ايک زبردست دھرم يدھّ چھڑ گيا ہے کيونکہ رام مندر تيرتھ ٹرسٹ ميں کئی اہم سادھو سنتوں کا نام شامل نہيں کيا گيا اور وہ ممکن بھی نہيں ہے۔ اس کے علاوہ سربراہی کے معاملے پر بھی شديد قسم کے اختلافات ہيں۔ اس ٹرسٹ کی نامزدگيوں سے غير سنگھی سادھو برہم ہيں۔ ان ميں سب سے آگے رام جنم بھومی نياس کے سربراہ مہنت نرتيہ گوپال داس نے ٹرسٹ ميں عدم شموليت پر شديد برہمی کا اظہار کرتے ہوئےاس کو ايودھيا کے سادھو سنتوں کی توہين قرار دے ديا۔ ان کا الزام ہے کہ جن لوگوں نے اپنی پوری زندگی رام مندر تحريک ميں کھپا دی اس ٹرسٹ ميں ان کا کہيں نام ونشان نہيں ہے۔ مہنت کمل نين داس نے ٹرسٹ ميں شامل ايودھيا راج پريوار کے ومليندر مشرا پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ان کا رام مندر تحريک سے کبھی کوئی واسطہ نہيں رہا اور وہ بی ايس پی کے ٹکٹ پر اليکشن بھی لڑ چکے ہيں۔ سياسی اختلاف سے آگے بڑھ کر انہوں نے شيوا اور ويشنو سماج کے پرانے اختلاف کو چھيڑ ديا ہے۔ ان کے بقول رام مندر تحريک کی شروعات ہی ميں يہ طے ہوگيا تھا کہ اس ٹرسٹ کا سربراہ ويشنو سماج ہی کا سادھو ہوگا۔ اس وچن کو توڑ کر ويشنو سادھو سنتوں کی توہين کی گئی ہے۔
رام بھکتوں کے درميان فی الحال اختلافات کا ايک پنڈورا بکس کھلا ہوا ہے۔ مہنت نرتيہ گوپال داس نے اپنی شکايات کے پيش نظر ايک ہنگامی ميٹنگ طلب کی تھی جس کو اميت شاہ کی مداخلت نے ملتوی کروا ديا۔ وزير داخلہ نے غالباً ٹيليفون پر يہ يقين دہانی کرائی ہے کہ ٹرسٹ کے سربراہ وہی ہوں گے ليکن گوپال داس کو ياد رکھنا چاہيے کہ اميت شاہ اپنے وعدوں کو ڈھٹائی کے ساتھ اڑا دينے ميں مہارت رکھتے ہيں۔ گوپال داس اور نين داس کو تو کسی طرح مقامی رکن اسمبلی ويد پرکاش گپتا وغيرہ کی مدد سے مناليا گيا، ليکن اس راہ کی ايک بڑی رکاوٹ تپسوی چھاؤنی کے معطل شدہ مہنت پرم ہنس داس ہيں جنھوں نے چندولی ميں بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔ مہنت گوپال داس کے سخت مخالف مانے جانے والے مہنت پرم ہنس داس مقامی سادھو سنت کی سربراہی اور روپيوں کی بندر بانٹ کے سخت مخالف ہيں۔ اس طرح سادھو سنتوں کی انا، عقيدے کا اختلاف اور مندر سےحاصل ہونے والی دکشنا کو لے کر سر پھٹول بيک وقت چوراہے پر آگيا ہے۔ ہوسکتا ہے اب بی جے پی سوچ رہی ہو کہ اگر يہ معاملہ عدالت معلق ہی رہتا تو اچھا تھا۔ ہندو سماج کے اندر اختلاف کی ايک طاقتور بنياد ذات پات کی تفريق و امتياز ہے۔ حيرت کی بات يہ ہے کہ بی جے پی کی سابق مرکزی وزير اور رام مندر تحريک کا معروف چہرہ اوما بھارتی نے اس کی جانب توجہ مبذول کراکے سنگھ کے اس دعوے کی نفی کر دی ہے کہ اس نے ذات پات کا فرق مٹا ديا ہے۔ اوما بھارتی نے کہا کہ او بی سی (ديگر پسماند ہ ذات) کے کسی فرد کو نوتشکيل رام مندر ٹرسٹ ميں ہونا چاہيے تھا کيونکہ اس طبقہ نے بھی رام مندر تحريک ميں بڑھ چڑھ کر حصہ ليا تھا۔ انھوں نے او بی سی سماج کے کليان سنگھ، ونے کٹيار اور خود اپنی مثال دے کر کہا کہ رام جنم بھومی تحريک کی قيادت او بی سی طبقہ نے کی ہے۔ حکومت اگر ٹرسٹ ميں کسی سياسی ليڈر کو شامل نہيں کرنا چاہتی تو او بی سی طبقہ کے کسی غير سياسی فرد کو شامل کيا جا سکتا تھا۔ اوما بھارتی نے دلت سماج سے کاميشور چوپال کو نامزد کرنے پر خوشی کا اظہار کرنے کے بعد او بی سی کو نظر انداز کرنے پر افسوس کا ظاہر کيا۔اوما بھارتی کو اب احساس ہوگيا ہوگا کہ کس طرح براہمنوں نے ان سے محنت کرائی اور کاميابی کا پھل آپس ميں بانٹ ليا۔ اس کھلی دھوکہ دہی کے باوجود اوما بھارتی کی زبان سے وزير اعظم مودی کی تعريف و توصيف افسوسناک ہے، ليکن ايک نہ ايک دن ان کے صبر کا پيمانہ بھی لبريز ہوجائے گا۔ بی جے پی کے ليے ہندو سماج کا گرہ يدھّ (خانہ جنگي) شاہين باغ کی تحريک سے زيادہ سنگين مسئلہ ہے کيونکہ اس ميں اس کا اپنا وہ ووٹ بنک ملوث ہے جس کی مدد سے وہ اقتدار ميں آئی ہے۔ زعفرانيوں کے ليے اس کو نظر انداز کرنا ممکن نہيں ہے۔ اس تنازع ميں شنکر آچاريہ سوروپانند سرسوتی کے شاگرد سوامی اوی مکتيشورانند کا يہ اعلان کہ وہ ٹرسٹ کی تشکيل کے خلاف عدالت جائيں گے خاصہ خطرناک ہے۔ ويسے اميت شاہ دھونس، دھمکی اور لالچ و بليک ميل کے ذريعہ انہيں روکنے کی بھرپور کوشش کريں گے ليکن اگر شنکر آچاريہ نہيں مانے تو يہ ديکھنا دلچسپی سے خالی نہيں ہوگا کہ ہندتوا کے يہ دو ستون عدالت ميں ايک دوسرے سے کيسے ٹکراتے ہيں؟ يہ عجيب ستم ظريفی ہے کہ بنگلا ديش، پاکستان اور افغانستان کے معتوب ہندؤوں کو خوش کرنے والی حکومت اپنے ہی ملک ميں بسنے والے رام بھکت سادھؤوں کو ناراض کر بيٹھی ہے۔
****