موقف: اسلام ہی خواتین کی حفاظت، مقام اور خوش حالی کا ضامن

ڈاکٹر محی الدین غازی

اسلام کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ تمام کم زوروں اور خاص طور سے عورت کا محافظ ہے۔ عورت کے حقوق کا تحفظ، اس کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت قرآن مجید کے احکام کا سب سے نمایاں پہلو ہے۔ قرآن مجید کے بیشتر عائلی احکام عورت کے مفادات کو تحفظ دینے والے ہیں۔ عورت کے تحفظ کے سلسلے میں قرآن مجید کا تصور ہمہ گیر ہے، وہ عورت کو ایسے ایسے پہلوؤں سے تحفظ دیتا ہے کہ جس طرف عام کیا خواص کا بھی ذہن نہیں جاتا۔
قرآن مجید ایک طرف عورت کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف عورت کو اس احساس سے نکالتا ہے کہ وہ مطلق کم زور ہے، بے بس ہے۔ وہ جسمانی لحاظ سے تو کم زور ہے لیکن قوت ارادی کے لحاظ سے بہت مضبوط اور طاقت ور ہے۔ قرآن مجید میں عورت کے جتنے کردار ذکر کیے گئے ہیں وہ سب عورت کی قوتِ ارادی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اور ایک طاقت ور عورت کی تصویر پیش کرتے ہیں، جو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرتی ہے اور اپنے کسی فیصلے کے سلسلے میں مرد پر منحصر نہیں ہوتی ہے۔ وہ فرعون کے ظلم کا نشانہ تو بن سکتی ہے مگر فرعون کے آگے سر نہ جھکانے کا فیصلہ بھی کرسکتی ہے۔
قرآن مجید عورت کے احوال وظروف اور اس کی عظیم تر ذمہ داریوں کے پیش نظر کفالت کی مکمل ذمہ داری مرد پر عائد کرتا ہے۔ مرد اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی معاشی ضروریات کا مکمل طور پر ذمہ دار ہے۔ اس کے علاوہ مرد ایسی عورتوں کی کفالت کا بھی ذمہ دار ہے جو اس کی زیرِ ولایت آتی ہیں، یعنی جن کا وہ ولی ہوتا ہے۔ اس طرح عورت کی کفالت ہر حال میں کسی نہ کسی مرد کے ذمے رہتی ہے، چاہے عورت خود کتنی ہی مال دار اور صاحب ثروت ہو۔ گویا عورت زندگی بھر خوش حال رہتی ہے، اور کمائی کی مشقت اٹھائے بغیر خوش حال رہتی ہے۔ مرد کی محنت کی کمائی سے اس کے اخراجات پورے ہوتے ہیں، اور مرد کی بنائی ہوئی جائیداد میں اسے وراثت ملتی ہے۔
اسلام عورت کو عزت کا بلند ترین مقام عطا کرتا ہے، حمل وولادت اور تربیت ورضاعت سے متعلق اس کی قربانیوں کی خصوصی ستائش کرتا ہے، اور انسان پر لازم کرتا ہے کہ انھیں زندگی بھر یاد رکھے اور زندگی بھر ان کا حق ادا کرتا رہے۔ اسلام اسے خاندانی معاملات میں مشاورت کا اساسی رکن اور ذاتی معاملات میں فیصلے کا تنہا مالک بناتا ہے۔
خواتین کو ان کے حقوق اور مقام ومرتبہ دلانے کے لیے اسلام کا طریقہ کار بہت انوکھا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سےخواتین کے کھوئے ہوئے مقام کو بحال کرنے کے لیے نہ تو انھیں مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑا کرنے کی ضرورت ہے، اور نہ ہی مردوں کے آمنے سامنے لانے کی۔ ان کا مقام مردوں کی صف میں کھڑا ہونا نہیں بلکہ اپنی صف بنا کر اس میں کھڑا ہونا ہے۔ اسی طرح ان کے مقام کی باز یافت کے لیے ضروری نہیں ہے کہ انھیں مردوں کے خلاف کھڑا کیا جائے اور مردوں کے ساتھ ان کا معرکہ گرم کیا جائے، بلکہ مردوں کے تعاون سے ان کے مقام کی بازیافت کو زیادہ آسان اور پائیدار بنایا جاسکتا ہے۔
اسلام نے عورتوں کو ظلم وزیادتی اور محرومی ومحکومی کی چکی سے نکال کر عزت وشرف اور آزادی واحترام کے اونچے مقام پر پہونچایا ہے اور اتنا بڑی یافت کے لیے عورتوں کو نہ میدان میں اترنا پڑا ہے نہ کوئی قربانی دینی پڑی ہے اور نہ ہی مردوں کے ساتھ کوئی جنگ لڑنی پڑی ہے۔ اسے اسلام کی آمد کے ساتھ ہی یکایک یہ سب چیزیں مل گئی ہیں۔ یہ در حقیقت اسلام کا عورت پر بلکہ اس کے توسط سے تمام انسانیت پر بہت بڑا احسان ہے۔
اسلام نے عورتوں کے اندر باعزت و بااختیار ہونے کا احساس جگایا، اور مردوں پر ذمہ داری ڈالی کہ وہ عورتوں کو ان کے حقیقی اور شایانِ شان مقام پر بحال کریں۔ اس طرح مردوں سے لڑوا کے نہیں بلکہ مردوں ہی کے ذریعہ عورتوں کو ان کا وہ مقام دلایا، جس کے بارے میں اس زمانے کی عورت نے نہ سوچا تھا نہ مطالبہ کیا تھا۔
***