مودی سرکار اور سنگھ پریوار میں شادی کی عمرپر اختلاف

یکساں سیول کوڈ کے متوالوں کی مت ماری گئی ہے

ڈاکٹر سلیم خان ، ممبئی

وزیر اعظم نریندر مودی پر چونکہ ہر کام کا کریڈٹ لینے کا جنون سوار رہتا ہے اس لیے فی الحال سرکار دربار میں گاڑی آگے اور گھوڑا پیچھے چلتا ہوا نظر آتا ہے یعنی سرکاری فیصلے بعد میں ہوتے ہیں اور ان کا اعلان پہلے ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال گزشتہ برس یوم آزادی کے موقع پر لال قلعے کی فصیل سے وزیر اعظم کی تقریر میں لڑکیوں کے نکاح کی کم از کم عمر میں اضافہ کا اعلان تھا۔ اس کے بعد مودی کابینہ نے چائلڈ میرج ایکٹ 2006ء، اسپیشل میرج ایکٹ اور ہندو میرج ایکٹ 1955ء میں ترمیم کر کے لڑکیوں کی شادی پر لڑکوں کے مانند 21 برس تک روک لگانے کی منظوری دے دی۔ فی الحال 18 برس کی لڑکیوں کو شادی کی قانوناً اجازت حاصل ہے۔ حکومت نے گزشتہ سال دسمبر میں یہ بل ایوان میں پیش کیا تھا مگر حزب اختلاف کی تنقید کے سبب اسے پارلیمانی امور کی کمیٹی کوسونپ دیا گیا۔ اس طرح گویا اکثریت کی بنیاد پر اسے بزور قوت نافذ کرنے کے بجائے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا۔
یہ عجب تماشہ ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم کہتے ہیں کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے اس لیے اسے تجارتی امور میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے دوسری جانب وہ سماجی معاملات میں بے دریغ مداخلت کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اس دراندازی کی آڑ میں پرسنل لا کے توسط سے تسلیم شدہ شرعی آزادی کو پامال کیا جاتا ہے۔ ایک طرف تو یوگی جیسے لوگ شادی کی جھنجھٹ میں پڑنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے اور مودی جیسے لوگ ماں باپ کی زبردستی سات پھیرے تو لگاتے ہیں پھر موقع ملتے ہی رسی توڑ کر بھاگ نکلتے ہیں۔ ستم بالائے ستم اس غیر فطری طرزِ حیات کو قابلِ رشک سمجھا جاتا ہے۔ آر ایس ایس کے اندر برہما چاریہ کا پالن ہوتا ہے یعنی اس کے کارکن مجرد زندگی گزارتے ہیں۔ اس لیے ان کا ازدواجی زندگی کی نزاکتوں کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس کے باوجود سنگھ پریوار کا اسے محسوس کرنا اور ذرائع ابلاغ میں اپنی ہی حکومت سے شادی کی عمر کے معاملے میں اختلاف کرنا خوش آئند ہے۔
آر ایس ایس کو بی جے پی کی مادر تنظیم ہونے کا شرف حاصل ہے لیکن جب کوئی بچہ مودی جیسے خود سر مربی کی نگرانی میں پروان چڑھے تو وہ اپنے سرپرست کی کم ہی سنتا ہے۔ اس لیے مذکورہ قانون پر سنگھ کے اعتراض کو کس قدر قابلِ توجہ سمجھا جائے گا یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ویسے بھی موجودہ سرسنگھ چالک موہن بھاگوت کی قیادت میں سنگھ کی حالت عجیب سی ہوگئی ہے۔ وہ ایک دن جو کچھ کہتے ہیں اگلے دن بلکہ کبھی کبھار اسی دن اپنا موقف بدل دیتے ہیں۔ مثلاً پچھلے دنوں انہوں نے خلاف توقع دھرم سنسد پر تنقید کردی حالانکہ انتخابی موسم میں بی جے پی کی مرضی کے بغیر اس طرح کی تقریب کا انعقاد ناممکن تھا۔ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ جہاں وی ایچ پی اور آر ایس ایس نے دیر سویر اس سے پلہ جھاڑا، یوگی مودی یا شاہ نے اس پر لب کشائی سے گریز کیا یہاں تک کہ اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرسکے۔ اگر سپریم کورٹ میں جواب طلبی نہ ہوتی تو گرفتاریاں بھی ہوتیں۔ اس طرح گویا دھرم سنسد پر بی جے پی اور آر ایس ایس کا اختلاف کھل کر سامنے آگیا۔
سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے ’دھرم سنسد‘ کے کچھ بیانات کی بابت یہ وضاحت کی کہ وہ ’’ہندوؤں کے الفاظ‘‘ نہیں تھے اور ہندوتوا کے پیروکار ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ اسی بیان میں بھاگوت نے یہ بھی کہہ دیا کہ آپ مانیں یا نہ مانیں، یہ ایک ’ہندو راشٹر‘ ہے۔ اس سے قبل وہ مسلمانوں سمیت سارے لوگوں کو ہندو کہہ چکے ہیں۔ سرسنگھ چالک کے ان متضاد بیانات کی روشنی یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا اس کا خیر مقدم کیا جائے یا اس پر تنقید کی جائے ۔آر ایس ایس سے مرعوب لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ایسا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے لیکن ایک ایسے وقت میں جبکہ حکومت بھی اپنی ہو یعنی کسی کارروائی کا خطرہ نہ ہو اور میڈیا بھی ہر معاملے کو توڑ مروڈ کر اپنے حق میں کردیتا ہو تو اس قسم کی متضاد بیانی کی ضرورت ناقابلِ فہم ہے۔ ایسے میں تو یہی ماننا ہوگا کہ وہ خود کنفیوز ہیں اس لیے انہیں اپنے متضاد موقف کا ادراک ہی نہیں ہے ۔ ان کی اس کیفیت کا سب سے بڑا ثبوت اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں دو مرحلوں کے بعد بی جے پی کی مایوس کن کارکردگی کا حوصلہ شکن اعتراف ہے۔
اس بابت قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ سنگھ کی اپنی ۵۵ ہزار شاخوں کے باوجود بی جے پی کی خراب حالت کا اندازہ آئی بی کی سرکاری رپورٹ سے ہوتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے اس کے کارکنان نہایت نااہل ہیں وہ ذرائع ابلاغ میں چیخ چیخ کر کہنے والے جانے مانے سیاسی مبصرین کی آراء سے بھی واقف نہیں ہیں۔ اول تو ان لوگوں کو زمینی حقیقت کا علم نہیں ہے دوم یہ کسی جانکار کی بات پر توجہ دینے کے بجائے خوابِ خرگوش میں مست رہتے ہیںاور اس وقت جاگتے ہیں جب چڑیاں کھیت چگ چکی ہوتی ہیں۔ وہ اس قدر ناقابلِ اعتماد ہیں کہ اپنے سربراہ کی ہدایت پر خاموشی سے عمل کرنے کے بجائے ذرائع ابلاغ میں اس راز کو فاش کرکے عام رائے دہندگان کے اندر بھی مایوسی پھیلا دیتے ہیں ۔ دورانِ انتخاب جو سنگھ اتنی بڑی حماقت کر کے کنول کی شبیہ بگاڑ دے اس سے مودی اور شاہ کس قدر نالاں ہوں گے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔
ان کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود آر ایس ایس ایک منظم تحریک ہے اور ہر سال مارچ کے مہینے میں اپنی کارکردگی اور حالات کا جائزہ لینے کی خاطر اپنی مجلس نمائندگان کا انعقاد کرتی ہے۔ پانچ صوبوں کے انتخابی نتائج 10؍ مارچ کو آنے والے ہیں اس لیے سنگھ کا مذکورہ اجلاس 11 تا13 مارچ کے دوران احمد آباد میں رکھا جائے گا۔ اس کو اگر اتر پردیش میں کامیابی کا یقین ہوتا تو لکھنو میں رکھا جاتا۔ ویسے احمد آباد میں رکھنے کا جواز یہ ہے کہ آئندہ جن صوبوں میں انتخابات ہوں گے ان میں سب سے اہم گجرات ہے۔ وہاں اگر بی جے پی کی شکست ہوجائے تو ملک بھر میں اس کی ہوا اکھڑ جائے گی۔ اس لیے مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے گجرات کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اس سالانہ نشست کی اہمیت اس لیے بھی ہے کیونکہ اس میں سنگھ پریوار کی 30 سے زیادہ تنظیمیں شریک ہوتی ہیں اور انہیں اپنے رہنماوں سے استفادہ کا موقع ملتا ہے۔
سنگھ کی مجلس نمائندگان میں اس بار سیاسی معاملات کے علاوہ کم عمر میں لڑکیوں کی شادی کے خلاف قانون کا معاشرتی پہلو بھی زیر بحث آئے گا۔ آر ایس ایس کے خیال میں شادی کی عمر کے بارے میں قانون سازی کرنے کے بجائے اس معاملے کو سماج پر چھوڑ دیا جانا چاہیے کیونکہ دیہاتوں اور قبائل میں شادیاں کم عمری میں ہوتی ہیں۔ سنگھ اس طرح کے معاملات میں سرکاری مداخلت کی حدبندی کا قائل ہے اور ان چیزوں کو معاشرے پر چھوڑ دینے کی وکالت کرتا ہے۔ قانون سازی کی بابت سنگھ کی رائے ہے کہ مجبور معاشرہ ہر شے کے لیے قانون مانگتا ہے اس کے برعکس مضبوط سماج ازخود اپنے مسائل کو حل کرتا ہے۔ جس طرح کم حکومت کے سبب حکمرانی بہتر ہوتی ہے اسی طرح سماج بھی بہتر ہوتا ہے۔ یہ معقول بات ہے لیکن ملک میں یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کرتے وقت ان کی یہ معقولیت غائب ہوجاتی ہے۔ اس وقت نہ جانے کہاں سے ملک کی سالمیت اور اتحاد زیر بحث آجاتا ہے حالانکہ پرسنل لاء کا تعلق دین کے معاملے میں زور زبردستی کرنے کے بجائے مذہبی امور میں آزادی سے ہے۔
آر ایس ایس معقول باتیں کرتے کرتے کس طرح بہک جاتا اس کا اندازہ حجاب کی بابت سنگھ کے خیالات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ سنگھ کے مطابق اس معاملے کو بلاوجہ طول دیا گیا۔ اس سے مسلمان سیاسی اعتبار سے متحد ہو گئے۔ اسے مقامی سطح پر حل کر لیا جانا چاہیے تھا۔ اس لیے حجاب پر بھی مجلس نمائندگان میں تفصیلی گفتگو ہو گی۔ حجاب کی بابت سنگھ کا خیال ہے کلاس کے اندر حجاب پہننے کے معاملہ کو ضرورت سے زیادہ بڑھا دیا گیا۔ سنگھ نے جان بوجھ کر اس کو نہیں اٹھایا۔ اس کے ساتھ سنگھ یہ بھی کہتا ہے کہ مذہبی تشخص پر اصرار مناسب نہیں ہے۔ یہ بات اگر کوئی اشتراکی کہے تب تو ٹھیک ہے لیکن ہندو راشٹر کی علمبردار تنظیم جو درسگاہوں میں سوریہ نمسکار کی حامی ہو اگر اس موقف کااظہار کرے تو ہنسی آتی ہے۔ اس کے معنیٰ یہ نکلتے ہیں کہ وہ اپنے سوا کسی اور کے مذہبی تشخص کو برداشت کرنے کا روادار نہیں ہے۔
حجاب کے معاملے میں سنگھ پوری طرح پاپولر فرنٹ کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے۔ اس کے خیال میں پی ایف آئی اپنا حلقہ اثر بڑھانے کے لیے اسے اچھال رہا ہے حالانکہ اگر درسگاہوں کا انتظامیہ اپنے موقف میں لچک پیدا کرتا، صوبائی سرکار احمقانہ سرکولر نہیں نکالتی، وزراء غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں دیتے اور ہندوتوا کے حامی اوباش غنڈے اگر مسکان جیسی طالبات کو ہراساں نہیں کرتے تو یہ معاملہ عالمی سطح تک نہ جاتا۔ یہ سبھی لوگ چونکہ سنگھ کے ہمنوا ہیں اس لیے انہیں چھوڑ کر پاپولر فرنٹ پر نزلہ اتارنا سراسر زیادتی ہے۔ حکومت کو لڑکیوں کے نکاح کی عمر میں اضافہ سے منع کرنے والا سنگھ پریوار شہری ترمیمی قانون (سی اے اے) کا حامی ہے۔ اس کے اندر عدم مساوات کا پہلو اس کو نظر نہیں آتا کیونکہ تفریق وامتیاز کا شکار مسلمان عوام اور مسلم ممالک ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کی دشمنی میں سنگھ کو چین، سری لنکا اور میانمار میں ہندو مظلومین بھی نہیں نظر آتے۔ اسی طرح سنگھ این آر سی کا بھی حامی ہے اور اس سلسلے میں ملک کے غریب لوگ کن صعوبتوں میں مبتلا ہو جائیں گے اس کا احساس اسے نہیں ہے۔
فی الحال وطن عزیز میں نکاح کے اندر عصمت دری کا قضیہ بھی زیر بحث ہے اور مغرب زدہ دانشوروں کے ساتھ عدالت کا بھی حکومت پر دباو ہے مگر سنگھ کے خیال میں اس کا حل بھی خاندان پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔ ان مسائل کی بابت سنگھ کی تشخیص درست معلوم ہوتی ہے کہ یہ قومی سطح پر خاندانی رشتوں کو بہتر بنانے والی مہم کے خلاف ہیں۔ سنگھ کے خیال میں جدید معاشی مجبوریوں اور
مغربی اثرات کے سبب خاندانی رشتے دباو میں ہیں۔ آر ایس ایس خاندان کو معاشرے کی سب سے اہم اکائی مانتا ہے۔ وہ کٹمب پربودھن (خاندانی افہام و تفہیم) کے عنوان سے ایک پروگرام چلاتا ہے۔ اس کے تحت افراد کو ہفتے میں کم ازکم ایک دن اپنے وسیع خاندان کے ساتھ وقت گزارنے اور مل جل کر کھانا کھانے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ اس دوران سیاسی موضوعات کے بجائے سماجی مسائل پر گفتگو کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سیاست اور معاشرت کے درمیان توازن کا بگڑ جاناصحتمند سماج کے لیے مضر ہے۔ آر ایس ایس جیسی کوتاہ بین تحریک کو اس ضرورت کا احساس ہونا اور اس کی خاطر عملی اقدام کرنا قابلِ تعریف ہے۔ ایک معاشرے میں رہنے والے مختلف بلکہ مخالف لوگوں کے کئی مسائل مشترک ہوتے ہیں۔ اس لیے ایک دوسرے سے سیکھنے کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ بہت ممکن ہے کہ آر ایس ایس کو خاندانی رشتوں کی کمزوری کا احساس تنظیمی سرگرمیوں میں بے شمار اضافہ کے سبب ہوا ہو۔ ایسا کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ 2025ء میں سنگھ اپنی عمر کے سو سال مکمل کر لے گا۔ صد سالہ تقریب کی منصوبہ بندی بھی اس نشست میں ہو گی۔ اس کے تحت سنگھ موجودہ شاخوں کو ۵۵ ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ تک پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ نوجوانوں اور پیشہ ور حضرات کی خاطر ان کے مزاج کا لحاظ کرتے ہوئے سنگھ نے صرف صبح کے بجائے رات ساڑھے نو بجے شاکھا منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی کے ساتھ روزانہ کی شاکھا کے ساتھ ہفتہ وار پروگرام کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے۔ حالات کی تبدیلی کے پیش نظر اپنے لگے بندھے طریقہ کار میں لچک پیدا کرنا سنگھ یا کسی بھی تنظیم کی توسیع واستحکام میں معاون ومددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
دنیا کی کسی بھی تحریک کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا یہاں تک کہ وہ خود اپنی دشمن بن جائے۔ بزور قوت روکنے سے اکثر تحریکات زیادہ طاقتور ہوجاتی ہیں۔اپنے مخالفین سےخوفزدہ ہونے کے بجائے اس کی جو سرگرمیاں اپنے خلاف ہوں اس کے توڑ کا اہتمام کیا جانا چاہیے نیز اپنی طاقت کو بڑھانے پر توجہ ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ یہ ہمارے دائرہ اختیار میں بھی ہے اور ہم اسی کے مکلف و مسئول ہیں۔ نبی کریم ﷺ اپنے مخالفین پر نظر رکھتے تھے لیکن ان سے مرعوب یا خوفزدہ ہونے کے بجائے اپنے دفاع اور اقدام کی منصوبہ بندی فرما کر ان کو عملی جامہ پہناتے تھے۔ امت مسلمہ پر یہ اللہ تعالی کا احسان ہے کہ نکاح کی عمر کے سلسلے میں اس کے پاس واضح ہدایت موجود ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امیر جماعت اسلامی ہند انجنیر سعادت اللہ حسینی نے حکومت کے اس فیصلے کو غیردانشمندانہ قرار دے کر اس پر تنقید کی ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے شریعت کا موقف واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ نکاح انسانی زندگی کی ایک اہم ضرورت ہے، لیکن نکاح کس عمر میں ہو، اس کے لیے کسی متعین عمر کو پیمانہ نہیں بنایا جا سکتا، اس کا تعلق صحت وتندرستی کے ساتھ سماج میں اخلاقی اقدار کے تحفظ اور سوسائٹی کو اخلاقی بگاڑ سے بچانے سے بھی ہے۔ اسی لیے نہ صرف اسلام بلکہ دیگر مذاہب میں بھی نکاح کی کوئی عمر متعین نہیں کی گئی ہے۔ مولانا کے مطابق نکاح کے بعد عائد ہونے والے واجبات کو ادا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے نوجوان کو نکاح سے روکنا ظلم اور شخصی آزادی میں مداخلت ہے۔ شادی کی عمر 18 یا 21 سال متعین کر دینے سے سماج میں جرائم کو بڑھاوا مل سکتا ہے۔ آر ایس ایس کو چاہیے کہ وہ اس بیان کی روشنی میں اپنی تجویز مرتب کرے۔
اسلام کے برعکس حکومت کے خیال میں کم عمری کی شادی سے تعلیم متاثر ہوتی ہے اور حاملہ ہونے نوبت بھی بہت جلد آجاتی ہے۔ سرکاری ادارہ نیتی آیوگ نے اس کام کے لیے جیا جیٹلی کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس بنائی۔ جیا کے مطابق لڑکیوں کے نکاح کی عمر میں اضافے کی سفارش کا تعلق آبادی پر کنٹرول سے قطعی نہیں ہے کیونکہ ہندوستان میں مجموعی فرٹیلیٹی ریٹ مسلسل گر رہا ہے اور آبادی قابو میں ہے۔ اس سفارش کا اصل مقصد خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔ ان کے مطابق بڑے پیمانے پر ماہرین اور نوجوانوں، بالخصوص خواتین کے ساتھ صلاح ومشورے کے بعد ان سفارشات کو مرتب کیا گیاہے۔ راجستھان کے بیشتر اضلاع کے علاوہ جہاں کم سن بچوں کی شادی کا رواج عام ہے، ملک کے متعدد شہری اور دیہی علاقوں کے لوگوں سے رائے معلوم کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ اگر سب لوگ اس کے حامی ہیں تو یونیسیف کی رپورٹ یہ انکشاف کیوں کرتی ہے کہ ہر سال ملک میں 15 لاکھ سے زیادہ لڑکیوں کی 21 تو دور 18 برس سے بھی کم عمر میں شادی ہو جاتی ہے۔ جیا جیٹلی نے تسلیم کیا کہ بعض حلقوں نے لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ کی مخالفت کی ہے۔ ان کے مطابق خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں نیز خاندانی منصوبہ بندی (فیملی پلاننگ) کے ماہرین بھی لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے قانون سازی کے بعد آبادی کا ایک بڑا طبقہ غیر قانونی شادی کا راستہ اختیار کرلے گا۔ یہ دلیل اس لیے معقول ہے کہ ہندوستان میں لڑکیوں کے نکاح کی کم از کم قانونی عمر 18 برس ہونے کے باوجود اس سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی عام ہے۔ یعنی پہلے سے موجود قانون کی بجا آوری نہیں ہوتی اور انتہائی کم عمری میں شادیوں کی تعداد میں اس سے کوئی کمی واقع نہیں ہوتی تو اسے مزید سخت بنا دینے سے کیا فرق پڑے گا؟
خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 21 برس کا قانون منظور ہو جاتا ہے تو دیگر قوانین کی طرح اس کے بھی غلط استعمال کا خدشہ ہے اور اس کا سب سے زیادہ منفی اثر پسماندہ طبقات اور قبائلی لوگوں پر پڑے گا۔ زمینی سطح پر کام کرنے والوں کے خیال میں قانون سازی کی بجائے لڑکیوں کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع میں اضافہ کر کے اس رجحان کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ان مخالفین کا تعلق نہ تو اسلام پسندوں سے ہے اور نہ آر ایس ایس سے ہے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ کم ازکم ان کی سن کر یہ قانون نہ بنائے ورنہ پھر عوام کی مخالفت کے سبب اسے بھی کسان قانون کی طرح واپس لینے کی نوبت آجائے گی یا کاغذ پر تو قانون موجود ہو گا مگر عملی دنیا میں بلاروک ٹوک اس کی مخالفت ہوگی۔ اس سے سماج کے اندر نہ صرف بے راہ روی میں اضافہ ہوگا بلکہ رشوت ستانی بھی بڑھے گی کیونکہ انتظامیہ کے پاس عوام کو ہراساں کرکے روپیہ اینٹھنے کا ایک نیا وسیلہ ہاتھ آ جائے گا۔ اس لیے مودی حکومت اور سنگھ پریوار کے درمیان یہ اختلاف خوش آئند ہے بشرطیکہ وزیر اعظم اس پر توجہ دیں ۔
(ڈاکٹر سلیم خان ماحولیاتی سائنس میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔

 

***

 خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 21 برس کا قانون منظور ہو جاتا ہے تو دیگر قوانین کی طرح اس کے بھی غلط استعمال کا خدشہ ہے اور اس کا سب سے زیادہ منفی اثر پسماندہ طبقات اور قبائلی لوگوں پر پڑے گا۔ اس قانون سے سماج کے اندر نہ صرف بے راہ روی میں اضافہ ہوگا بلکہ رشوت ستانی بھی بڑھے گی کیونکہ انتظامیہ کے پاس عوام کو ہراساں کرکے روپیہ اینٹھنے کا ایک نیا وسیلہ ہاتھ آ جائے گا۔ اس لیے مودی حکومت اور سنگھ پریوار کے درمیان یہ اختلاف خوش آئند ہے بشرطیکہ وزیر اعظم اس پر توجہ دیں ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  6 تا 12 مارچ  2022