موجودہ سیاسی صورت حال اور ہماری اپروچ

’اقدار پر مبنی سیاست‘ بہترین متبادل

ایم آئی شیخ۔ لاتور

حالات تبدیل نہ ہوں تو طریقہ کار تبدیل کریں
شہر کے اندھیرے کو ایک چراغ کافی ہے
سو چراغ جلتے ہیں اک چراغ جلنے سے
’’آپ کا بویا ہوا کوئی بیج پھول پتے نہیں لا سکتا، جب تک آپ اس کوشش میں اس قانون کی پوری پوری پابندی نہ کریں جو کھیتوں کے فصل اگانے کے لیے طے کر دی گئی ہے۔ اسی طرح قیادت کے نظام کی وہ تبدیلی بھی جو آپ چاہتے ہیں صرف دعاؤں اور پاک تمنّاؤں سے نہیں آ سکتی، بلکہ اس کے لیے بھی ضروری ہے کے آپ اس قانون کو سمجھیں اور اس کی ساری شرطیں پوری کریں جس کے تحت قیادت قائم ہوتی ہے، کسی کو ملتی ہے اور کسی سے چھین لی جاتی ہے۔ سید ابو الاعلی مودودی ؒ (مشمولہ تحریکی تربیت)
مولانا کے اس قول کے پس منظر میں ہم جب اپنی سیاست کو دیکھتے ہیں تو اسے مولانا کے مذکورہ بالا قول کے مطابق نہیں پاتے۔ موجودہ مسلم لیڈرشپ، چاہے وہ آزاد ہو کہ کسی سیاسی پارٹی کے تابع ہو اس میں اور غیر مسلم لیڈرشپ میں کوئی فرق نہیں۔ یہ بھی اتنے ہی بدعنوان ہیں جتنے کہ وہ، یہ بھی اتنے ہی جھوٹے ہیں جتنےکہ وہ، یہ بھی اتنے ہی بدکردار ہیں جتنے کہ وہ۔ گزشتہ ستر سالوں کی ملکی اور ریاستی سیاست میں یاد نہیں آتا کے ایسا کوئی سیاستداں گزرا ہو جس نے اسلامی اخلاق کو ملحوظ رکھتے ہوئے سیاست کی ہو۔ مسلمانوں کی سیاست اکثر وبیشتر کسی نہ کسی نام نہاد سیکولر پارٹی کے ماتحت رہی ہے۔ ایسے میں ان سے اسلامی اخلاق کی امید کرنا بھی فضول بات لگتی ہے۔ وہ لوگ جو کسی مسلم پارٹی کی جانب سے یا آزاد امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہو کر آتے ہیں ان پر بھی ماحول کا اتنا دباؤ ہوتا ہے کہ وہ بھی اسلامی اخلاق پر مبنی سیاست نہیں کر پاتے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو عالم دین کہلاتے ہیں (الا ماشاء اللہ) ان میں کوئی ایسا لیڈر بھی ہو گا جو اپنی نجی زندگی میں یا سیاست میں کچھ حد تک اسلامی اخلاق کو ملحوظ رکھتا ہو گا مگر وہ بہت ہی محدود دائرے میں رہا ہو گا، اسی لیے اس کا اثر ملکی سطح پر کبھی محسوس نہیں کیا گیا۔ اس میں جموں وکشمیر اسمبلی کے وہ مسلم سیاستداں بھی شامل ہیں جو لگا تار منتخب ہو کر آتے رہے ہیں۔ اس ملک میں ڈبلیو پی آئی ایک ایسی کوشش ہے جو صحیح سمت میں کی گئی تھی مگر افسوس کہ اسے عوامی مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔
قصہ مختصر یہ کہ ملک میں موجود سبھی پارٹیوں کی سیاست (کمیونسٹ سیاست کو کچھ حد تک مستثنیٰ کر دیا جائے تو) بداخلاق اور بدعنوان گزری ہے اور گزر رہی ہے۔ مستقبل قریب میں ان میں کسی مثبت تبدیلی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ ایسے میں مسلمانوں کے لیے یہ سنہرا موقع ہے کہ وہ اچھی، سچی اور صاف ستھری متبادل سیاست سے ملک کو متعارف کرائیں۔ جس طرح خون کے دھبوں کو خون سے نہیں بلکہ پانی سے دھویا جا سکتا ہے اسی طرح بد کردار سیاست کو با کردار سیاست سے ہی بدلا جا سکتا ہے جس کا اپنے ملک میں فقدان ہے۔
ہمارے ملک میں proportional representational democracy کی سیاست نہیں simple mejoritycal democracy کی سیاست ہے، جس میں صرف اکثریت سے لوگ منتخب ہو کر آتے ہیں۔ ایسے میں چند بلدیاتی وارڈوں اور پنچایتوں کو چھوڑ دیں تو اکثر اسمبلی یا پارلیمنٹ میں مسلمان امیدواروں کے منتخب ہو کر آنے کی امید کم ہی ہوتی ہے۔ منتخب ہو کر جانے والے لوگوں کی سیاست بھی اوروں سے مختلف نہیں ہوتی جب کے فلاحی سیاست کا پورا تصور ہمارے پاس موجود ہے۔
سچ پوچھو تو تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانون کے سامنے کبھی اکثریت یا اقلیت کا مسئلہ رہا ہی نہیں۔ اس بات کی تصدیق قرآن مجید کی درج ذیل آیات سے ہو جاتی ہے۔
ولا تهنوا ولا تحزنوا وأنتم الأعلون إن كنتم مؤمنين (آل عمران:139) دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔
فلما فصل طالوت بالجنود قال إن الله مبتليكم بنهر فمن شرب منه فليس مني ومن لم يطعمه فإنه مني إلا من اغترف غرفة بيده فشربوا منه إلا قليلا منهم
فلما جاوزه هو والذين آمنوا معه قالوا لا طاقة لنا اليوم بجالوت وجنوده قال الذين يظنون أنهم ملاقو الله كم من فئة قليلة غلبت فئة كثيرة باذن الله والله مع الصابرين ( البقرۃ:249) پھر جب طالوت لشکر لے کر چلا، تو اُس نے کہا: ’’ایک دریا پر اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے جو اس کا پانی پیے گا وہ میرا ساتھی نہیں، میرا ساتھی صرف وہ ہے جو اس سے پیاس نہ بجھائے، ہاں ایک آدھ چلو کوئی پی لے تو پی لے‘‘ مگر ایک گروہ قلیل کے سوا وہ سب اس دریا سے سیراب ہوئے پھر جب طالوت اور اس کے ساتھی مسلمان دریا پار کر کے آگے بڑھے تو اُنہوں نے طالوت سے کہہ دیا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے، انہوں نے کہا بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے اللہ صبر کرنے والوں کاساتھی ہے۔
ان آیات کے عملی نمونے ہمیں برِصغیر سے لے کر عالمِ عرب اور اندلس تک کی تاریخ میں ملتے ہیں۔
مسلمانوں کی طاقت نسلوں میں نہیں اصولوں میں مضمر ہے۔ یہ اسلام کے اخلاقی اصول ہیں جنہوں نے ہمیں حکومتوں کے ایوانوں تک پہنچایا ہے اور جب بھی ہم نے ان اصولوں سے صرفِ نظر کیا ہے ہمیں حکومتی ایوانوں سے نکل کر سڑکوں پر بے یار ومددگار پھینک دیا گیا ہے۔ آج ہم اسی اصولوں کی پاسداری نہ کرنے کی سزا پا رہے ہیں۔
ہمیں اگر ملک کی موجودہ سیاست کے فریم میں فٹ بیٹھنا ہے تو سیاست کو وہ دینا ہوگا جو اس کے پاس نہیں ہے، یعنی اسلامی اقدار کی سیاست۔ اس کے سوا دوسرا راستہ نہیں ہے۔ گزشتہ ستر سالوں سے مسلمانوں نے غیر اسلامی سیاست کر کے دیکھ لیا نتیجہ سامنے ہے، اور اگلے ستر سالوں تک بھی یہی کرتے رہے تو بھی کچھ ہونے والا نہیں۔ اب ہمیں اسلامی اخلاق پر مبنی سیاست کی شروعات کرنی ہو گی۔ اس میں شک نہیں کے یہ طریقہ مشکل ہی نہیں طویل اور صبر آزما بھی ہے مگر صحیح یہی ہے۔
اس سلسلے میں محترم سید سعادت اللہ حسینی صاحب امیرِ جماعت کا موقف بھی واضح ہے کہ ’’مسلمانوں کو جوڑنے والی چیز ان کی نسل نہیں ہے بلکہ ان کے اصول وعقائد ہیں۔ اصول وعقائد کی بنیاد پر سیاست کا مطلب صرف ’جے شری رام‘ اور ’وندے ماترم‘ کی سیاست کا دفاع نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں مسلمان عدل، انسانی مساوات، اعلیٰ اخلاقی اقدار وغیرہ کے نمائندے بن کر ابھریں اور یہی ان کی سیاست بنے کیوں کہ یہی ان کو جوڑ سکتی ہے۔ (اشارات: زندگی نو، اکتوبر ۲۰۲۱ صفحہ نمبر ۲۰)
اس کے علاوہ اسی بات کو بانی جماعت سید ابوالاعلیٰ مودودی کا قول نقل کرتے ہوئے علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں کے ایک بار امام ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ایک صحافی نے سوال کیا تھا: ’’آپ کا راستہ بہت دشوار گزار ہے اور آپ کو اصلاحات یا اصلاح حال کی بہت زیادہ امید نہیں، پھر اس راستے میں آئندہ آنے والی مشکلات اور مصائب کے لیے آپ نے کیا تیاری کی ہے؟ اس پر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے فرمایا۔ رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ہمارا ہتھیار دین ہے، مصیبتوں سے نمٹنے کے لیے ہمارا ہتھیار ایمان ہے، مظالم کا سامنا کرنے کے لیے ہمارا ہتھیار صبر ہے، جیلوں اور قید خانوں کی زندگی گزارنے کے لیے ہمارا ہتھیار قرآن مجید اور ذکر الہیٰ ہے اور تختہ دار پر ہمارے لیے وجہ تسکین یہ آیت ہے۔ و عجلت الیک رب لترضی (سورہ طہ 84) میں جلدی کر کے تیرے حضور آگیا ہوں، اور میرے رب تاکہ تو مجھ سے خوش ہو جائے۔
(بحوالہ سید مودودیؒ… مفکر، مجدد، مصلح‘‘ صفحہ 74تا75)
اب یہ اسلامی اخلاق پر مبنی سیاست کیا ہے اس بات کی وضاحت اس مضمون میں تو ممکن نہیں ہے اس کے لیے مولانا سید ابوالا اعلیٰ مودودی رح کی کتاب ’اسلامی سیاست اور مسئلہ قومیت‘ کا مطالعہ موزوں رہے گا۔ جماعت اسلامی ہند نے اس اقدار پر مبنی سیاست‘ کا آغاز الحمدللہ مہاراشٹرا کے ضلع اکولہ کے ’ہتروں‘ پنچایت سے کر دیا ہے۔ یہاں جماعت اور اس کے ہم خیال ممبر انتخابات جیت کر پنچایت کا کاروبار سنبھال چکے ہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ یہ لوگ وہاں اسلامی اخلاقیات پر مبنی سیاست کرنے میں کامیاب ہوں۔۔۔آمین
***

 

***

 ہمیں اگر ملک کی موجودہ سیاست کے فریم میں فٹ بیٹھنا ہے تو سیاست کو وہ دینا ہوگا جو اس کے پاس نہیں ہے، یعنی اسلامی اقدار کی سیاست۔ اس کے سوا دوسرا راستہ نہیں ہے۔ گزشتہ ستر سالوں سے مسلمانوں نے غیر اسلامی سیاست کر کے دیکھ لیا نتیجہ سامنے ہے، اور اگلے ستر سالوں تک بھی یہی کرتے رہے تو بھی کچھ ہونے والا نہیں۔ اب ہمیں اسلامی اخلاق پر مبنی سیاست کی شروعات کرنی ہو گی۔ اس میں شک نہیں کے یہ طریقہ مشکل ہی نہیں طویل اور صبر آزما بھی ہے مگر صحیح یہی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 تا 19 مارچ  2022