موتکا خوف اور ہمارا رویہ

عارضی زندگی میں ابدی زندگی کی تیاری کرنے میں ہی کامیابی ہے

اشہد رفیق ندوی، علی گڑھ

ابے شک موت ایک بدیہی حقیقت ہے، یہ بات ہر آدمی جانتا اور مانتا ہے، کیوں کہ موت و حیات ایسی چیزیں ہیں جس پر بندے کا کچھ بھی اختیار نہیں، انسان اپنی مرضی سے آسکتا ہے نہ وہ اپنی مرضی سے جا سکتا ہے۔یہ قدرت کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ہے جس کے تمام تر اختیارات اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہیں۔ اس قدر واضح حقیقت کے باوجود انسان غفلت کی چادر اوڑھے ہوئے ہے۔ پچھلے دنوں ہم نے اس موت کے خوف ناک اور حیرت انگیز مناظر دیکھے ہیں۔ یقیناً ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی طرح اس کلفت سے گزرا ہے۔ اس طور پر کہ کسی کا دوست یا ساتھی، کسی کا استاد یا شاگرد، یا پھر کسی کا کوئی عزیز ساتھ چھوڑ گیا اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ موت کیا ہے؟ اور اس کا پیغام کیا ہے؟ اس سلسلے میں کئی طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں۔
پہلا نظریہ:
پیدائش و موت کا فلسفہ کسی کے قبضے میں نہیں، بس یہ تو ایک فطری کھیل ہے۔ انسان خود بخود وجود میں آتا ہے اور خود بخود ختم ہوجاتاہے، اس لیے جسے یہ زندگی نصیب ہوگئی ہے اسے خوب عیش و مستی میں گزار لینا چاہیے۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزاء کا پریشاں ہونا
دوسرا نظریہ:
زندگی میں دولت و ثروت اور جاہ و جلال مل جائے تو اسے عیش ومستی میں گزار لو، کیوں کہ یہ زندگی دوبارہ ملنے والی نہیں۔ ایک بڑی تعداد اس فریب میں بھی مبتلاہے۔ ان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ زندگی کو عیش ومستی کا ذریعہ سمجھتے ہیں، پھر ان اعمال کے نتیجے میں ایسی تہذیبیں وجود میں آتی ہیں اور آئی ہیں کہ جنہوں نے انسانی معاشرے کو جس طرح نقصان پہنچایاہے وہ سب جگ ظاہر ہے۔ جنسی انارکی کا فروغ،حیا باختگی کا عام ہو جانا، ظلم و جبرکا رواج اور عدل و انصاف کا خاتمہ اس کے مظہر ہیں۔ ان حضرات کا فلسفہ حیات جوانی کی امنگ وترنگ کو بھر پور موج ومستی میں گزار لینا،مال ودولت، اقتدار واختیار، طاقت وعزت جہاں سے اور جیسے ہو سکے حاصل کر ناہے۔ ع بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
تیسرا نظریہ:
زندگی بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا نہایت حسین عطیہ ہے۔جس کا مقصد کوئی عیش و مستی یا مال و دولت کے انبار لگانا نہیں بلکہ حاکمِ اعلیٰ کی عبادت و اطاعت اور اسی کے سامنے سرنگوں ہونا ہے۔ ’’وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُونِ‘‘ (الذاریات: ۵۶) زندگی دینے والی وہی واحد ہستی ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہر شئی کی زندگی کا آغاز واختتام ہے۔ وہ جب چاہتا ہے کسی کو زندگی بخشتا ہے اور جب چاہتا ہے موت کا شکنجہ کس دیتا ہے۔ ’’اِنَّ اللہ علیٰ کلّ شیٍٔ قدیر‘‘ واضح رہے موت زندگی کی انتہا نہیں بلکہ ایک ابدی زندگی کا آغازہے۔ یہ دنیوی زندگی در اصل عارضی زندگی ہے جو ابدی زندگی کی تیاری ہے۔ یہ اسلام کا نظریہ ہے اور یہی زندگی کا حقیقی فلسفہ ہے۔ نیز اسی نظریے کے بیان میں قرآن مجید کا ایک تہائی حصہ صرف ہوا ہے اور اللہ کے رسول ﷺ کی پوری دعوت کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ یہ دنیوی زندگی ایک مہلت عمل اور آزمائش ہے۔
یہ بات اسلامی عقیدہ رکھنے والوں سے کسی بھی طرح مخفی نہیں کہ نظریات وافکار اس دنیائے آب وگِل میں بہتیرے وجود پذیر ہوئے (ان سے ہمیں بحث نہیں) لیکن مسلمانوں کے ہاں زندگی کے فلسفوں میں سب سے بڑا فلسفہ موت اور موت کے بعد کی زندگی ہے اور یہی بدیہی حقیقت ہے۔
’’ کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَان، وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالاِکْرَام‘‘ (الرحمٰن: ۲۶ تا ۲۷)
(ہر چیز جو اِس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔)
ذی نفس انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب کرکے فرمایاہے:
’’کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَا اْلحَیٰوۃُ الدُّنْیَا ِاَّلا مَتَاعُ الْغُرُوْر‘‘ (آل عمران: ۱۸۵)
(ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کامیاب در اصل وہ ہے جو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے۔ رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔)
در حقیقت یہ دنیوی زندگی صرف ایک دھوکے کی ٹٹی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ انسان نے اپنی دنیاوی زندگی میں اچھے اعمال کیے، مقصدِ زندگی کے تقاضوں کو صحیح طور پر، دیانت داری کے ساتھ پورا کیا تو جہنم کی آگ سے بچ نکلے گا ورنہ اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔
اگر انسان موت کا انکاری ہو یا اس سے بچ نکلنے کی ہزار ترکیبیں کرے تو یاد رکھیے یہ کسی طرح ممکن نہیں کیوں کہ اللہ رب العزت کا صاف اعلان ہے:
’’ اَیْنَ مَا َتکُونُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ ِفیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ‘‘ (النساء: ۷۸)
(رہی موت، تو جہاں بھی تم ہووہ بہر حال تمہیں آ کر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو۔)
ایسی واضح حقیقت اور نظریے کے باوجود ہر آدمی اپنی اپنی زندگی میں مست ہے۔ موت کا ننگا ناچ آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے لیکن بحیثیت مجموعی ہم اپنے معاشرے اور زندگی کے ساتھ ساتھ پورے عالم کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتاہے کہ بظاہر کوئی بڑی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔ اپنے عقیدہ واعمال درست کرنے کی فکر کسی کو نہیں ہے نہ ہی اپنی عبادتوں کو ٹھیک کرنے کی فکر ہے۔ حقوق( حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد) اس جانب بہت غفلت ہے۔ ہمیں اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ پھر آئندہ اس تقصیر سے بچنے اور حقوق کی ادائیگی کے لیے کمر کس لینا چاہیے۔کیوں کہ موت کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کب اور کہاں آ جائے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚوَ اتَّقُوااللّٰهَ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(الحشر:۱۸)
( اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر ایک یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقینا تمہارے ان سب اعمال سے با خبر ہے جو تم کرتے ہو۔)
یہ قرآن مجید کا صاف اور واضح اعلان ہے کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے مسلم معاشرے میں پچھلے دنوں یہ مناظر دیکھنے کو ملے کہ گھر میں قریبی بیمار ہے اور قرابت دار کرونا کے ڈرسے چھوڑ بھاگ رہے ہیں۔ مریض بستر پر دوا اورپانی کے لیے تڑپتا رہے لیکن کوئی پانی اور دوا دینے والا نہیں۔ مریض کو ہاسپٹل پہنچانے سے گھر کے افراد ہی کٹتے نظر آ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ مریض بستر پر تڑپ تڑپ کر مرجاتا ہے، پر کوئی جنازہ اٹھانے والا میسر نہیں آتا۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ جو قوم موت کی حقیقت سے آگاہ ہے، ان کے ہاں ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہر ایک کو یہ ڈر لاحق ہے کہ کہیں اسے کرونا جیسی مہلک بیماری نہ آ جکڑے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ فلاں تودنیا سے چلاگیا،میں بھی نہ چل بسوں! آخر ایسے کوئی بچ سکتا ہے؟ یا کوئی تدبیر بچا سکتی ہے؟ نہیں ہرگز نہیں! بلکہ ہونا وہی ہے تم جہاں کہیں بھی چاہو قید ہوجاؤ، قلعہ بند ہو کر اپنے اوپر تالوں پہ تالے ڈال لو لیکن موت تو ہر حال میں تمہیں آدبوچے گی۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْب اَوْعَابِرُ سَبِیْل‘‘ (صحیح البخاری)
(دنیا میں ایسے رہوگویا تم اجنبی ہو یا راستہ چلنے والے مسافر کی طرح ہو جاؤ)
اسی بات کو حضرت علیؓ نے اس طرح فرمایا کہ ’’کن فی الدنیا کعابر سبیل واترک ورائک کلّ أثر جمیل‘‘ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تم ایک راستہ گزرنے والے مسافر کی طرح زندگی گزارو! اور اپنے پیچھے ایسے آثار، نقوش اور کردار چھوڑو کہ کل تمہارے لیے توشہ آخرت بن سکیں۔پھر آگے کے الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ سب لوگ دنیا میں ایک مہمان کی طرح ہیں اور مہمان ٹھہرنے کے لیے نہیں آتا؛ مہمان کو بہر حال جانا ہی ہوتا ہے۔ ایسی صاف حقیقت اور ایسی واضح دین کی ترجمانی کے باوجود اگر ہم موت سے ڈریں اور اس کی تیاری کیے بغیر بھاگتے رہیں۔ یہ تو بڑی افسوس ناک صورتِ حال ہے۔
ضروت ہے کہ ہمیں اس وبائی ماحول میں یہ جان کرآگے بڑھنا چاہیے، کہ یہ اللہ کی جانب سے ایک آزمائش ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے اعمال کی درستی کا موقع ہاتھ آیا ہے، اس میں اپنی کردار سازی کرنی ہے، اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے قوانین اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے موافق ڈھالنا ہے۔مزید یہ کہ ہمیں اس سے عبرت حاصل کرنی ہے۔یاد رکھیے اگر ہم اس آزمائش میں ناکام ہوئے توپھر یہی آزمائش ہی عذاب بن کر برسے گی۔گزشتہ قوموں کے مثل ہم بھی ہلاک ہوجاتے چلے جائیں گے، ہماری بستیاں تباہ و برباد کر دی جائیں گی۔ چوں کہ جو کچھ بھی فیصلے ہوتے ہیں وہ صرف اللہ ہی کے طے کردہ ہوتے ہیں۔ ’’لِلّٰہ الْأمرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ بَعْدُ‘‘۔
ہمیں ڈاکٹروں کی سجھائی ہوئی تدابیرکو ضرور برتنا چاہیے لیکن خوف و ہراس میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ علاج و معالجہ بھی کرنا ہے لیکن اتنا غلو کیوں کہ عزیزوں کو سسکتا بلکتا چھوڑا دیا جائے؟ ساتھ ساتھ اس کا خیال بھی رکھنا ہوگا کہ ہم فرائض سے غافل نہ ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ اس زندگی کے بچانے کے چکر میں آخرت کی زندگی کے ساتھ خسارے کا سودا کر بیٹھیں۔یہ بات ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہے کہ جب ہماری ابدی زندگی کا آغاز ہو تو ہم ایمان کی اچھی حالت میں ہوں۔ قرآن مجیدکے اعلان کردہ انعامات، خوبیوں، لذات اور نعمتوں کے مستحق بنیں اور ان سے سرشار ہو سکیں۔
قرآن مجید اور احادیث شریفہ کا مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنا سخت گناہ ہے اور نہ ہی موت کی دعا کرنے کو کہا گیا ہے۔ ’’وَ لَا تُلْقُوا بِأَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ۔ (سورۃ البقرۃ: ۱۹۵) لیکن موت کی تمنا کرنا چاہیے۔ اس طور پر کہ اللہ تعالیٰ ایمان کی حالت میں پاکیزہ کردار کے ساتھ، کلمہ شہادت زبان پر جاری ہو- موت عطا فرما! انبیائے کرام نے بھی اس طرح کی تمنائیں کی ہیں۔ رسول اللہﷺ خود بھی اس طرح کی تمنا کیا کرتے تھےاور اسی بات کی تلقین بھی کی ہے۔
(مضمون نگار ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ کے سکریٹری ہیں )
***

 

***

 یہ بات ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہے کہ جب ہماری ابدی زندگی کا آغاز ہو تو ہم ایمان کی اچھی حالت میں ہوں۔ قرآن مجیدکے اعلان کردہ انعامات، خوبیوں، لذات اور نعمتوں کے مستحق بنیں اور ان سے سرشار ہو سکیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021