’آنکُس اتحاد‘ پر فرانسبرہم۔سفارتی جنگ کا آغاز

چینی خطرے کا احساس! امریکہ کا آسٹریلیا سے 8جوہری آبدوزوں کا سودا

مسعود ابدالی

نیوکلیر ہتھیاروں کا پھیلاو:چچا سام کے دوہرے معیارات
فرانس نے امریکہ اور آسٹریلیا سے اپنے سفیروں کو واپس بلالیا ہے۔ یہ ان ممالک کی سفارتی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے۔ابتدا میں کہا گیا تھا کہ فاضل سفرا ضروری مشورے کے لیے پیرس طلب کیے گئے ہیں لیکن 17 ستمبر کو فرانسیسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ مستقبل قریب میں ان سفیروں کی واپسی کا کوئی امکان نہیں۔
اس سفارتی جنگ کا آغاز 16 ستمبر کو امریکہ، آسٹریلیا اور برطانیہ کے مابین سہ فریقی اتحاد آکوس (AUKUS) کے اعلان سے ہوا۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس اتحاد کا تلفظ آکوس ہے لیکن یہ تینوں ممالک جس انداز میں دنیا کو ہانکنا چاہتے ہیں اس مناسبت سے ازراہ تفنن ہم نے اپنے سرنامہِ کلام میں اسے آنکُس لکھدیا ہے جو اپنے ہاتھیوں کو قابو میں رکھنے کے لیے فیل بان استعمال کرتے ہیں۔
اتحاد کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا تھا کہ یہ کسی ایک ملک سے متعلق نہیں ہے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے قصرِ مرمریں کی ترجمان محترمہ جین ساکی نے فرمایا کہ یہ شراکت داری امریکہ کے دفاعی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے ہے جس میں ہند-بحرالکاہل (Indo-Pacific) علاقے میں امن اور استحکام کے فروغ کے لیے بین الاقوامی اصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے۔آسٹریلیاکے دارالحکومت کینبرا کے عسکری حلقوں نے اس کی جو تفصیلات بیان کی ہیں ان کے مطابق معاہدے کے تحت تینوں ممالک مصنوعی ذہانت (AI)، سائبر ٹیکنالوجی، دنیائے طبعیات کی کوانٹم ٹیکنالوجی اور زیر آب نظام سمیت مختلف حساس شعبوں میں معلومات اور مہارت کے تبادلے کو محفوظ اور آسان بنائیں گے۔
جہت اور گنجائش مختلف سہی لیکن ہئیت و ہدف کے اعتبار سے آکوس، معاہدہِ اربعہ یا QUADاتحاد کی شرطیہ نئی کاپی ہے۔ آسٹریلیا، ہندوسستان، جاپان اور امریکہ پر مشتمل معاہدہ اربعہ کا بنیادی ہدف بحر جنوبی چین سے بحر ہند کی طرف آنے والے بحری ٹریفک پر نظر رکھنا ہے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ بحرجنوبی چین کو جہاز رانی کے لیے کھلا رکھنا اور بحرالکاہل سے بحرہند تک آبی شاہراہ کو پابندیوں، رکاوٹوں اور خطرات سے پاک رکھنا کواڈ اتحادیوں کی ترجیح ہے۔اس بنا پر سیاسی و عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آکس معاہدے کا بنیادی مقصد عسکری میدان خاص طور سے بحری اور زیر آب ٹیکنالوجی کے شعبوں میں چین کی بڑھتی ہوئی قوت کو لگام دینا ہے ۔
چین کو خطرے کا احساس ہوگیا ہے اور وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاو لیجان (Zhao Lijian) نے بیجنگ میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ تینوں ملک یعنی آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ چین کے دشمنوں کو سرد جنگ کی ذہنیت ترک کرکے بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ معاہدے کو آخری شکل دینے کے لیے 18 ماہ تک مشاورت تجویز کی گئی ہے، یعنی 16 ستمبر کو ہونے والا اعلان ایک اصولی اتفاق ہے لیکن بیک جنبش قلم صدر بائیڈن نے آسٹریلیاکو 8 جوہری آبدوزیں فروخت کا اعلان کردیا۔یہ آبدوزیں جوہری ہتھیاروں سے لیس نہیں، بس ان کے انجن جوہری ایندھن استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ زیادہ گہرائی میں جاکر لمبے عرصے تک وہاں رہ سکتی ہیں۔ڈیزل سے چلنے والی آبدوزوں کو ایندھن لینے کے لیے ہر تھوڑے عرصے بعد سطح سمندر پر نمودار ہونا پڑتا ہے ان کے لیے ایک خاص گہرائی سے نیچے جانا ممکن نہیں ہوتا۔ تادم تحریر دنیا کے پانچ بڑوں کے علاوہ صرف ہندوستان کے پاس ایک جوہری آبدوز ہے اور اس لحاظ سے اب آسٹریلیا جوہری آبدوزوں کا حامل ساتواں ملک ہوجائے گا۔اس وقت امریکہ 68 جوہری آبدوزوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے جبکہ ہندوستان کا چھٹا نمبر ہے کہ ہندوستانی بحریہ کے پاس صرف ایک جوہری آبدوز ہے۔ چچا سام کی اسی پیشکش پر فرانس سخت مشتعل ہے۔
اس اشتعال کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ 2016 میں آسٹریلوی بحریہ نے آبی ہتھیار بنانے والے مشہور فرانسیسی ادارے DCNS سے 12 جدید ترین آبدوز خریدنے کامعاہدہ کیا تھا جس کی مجموعی مالیت 38ارب ڈالر کے قریب ہے۔ چار سال قبل ایک اور ادارے سے ادغام کے بعد DCNS کا نام نیول گروپ (NAVAL Group)رکھدیا گیا ہے۔ امریکہ سے جوہری آبدوز کی پیشکش پر آسٹریلیا نے نیول گروپ سے معاہدہ منسوخ کردیا۔ وزیر اعظم اسکاٹ موریسن کا کہنا ہے کہ ان کے ملک نے 2016 میں جب یہ معاہدہ کیا تھا اس وقت کسی اور ملک نے جوہری آبدوز فروخت کرنے کی پیشکش نہیں کی تھی لیکن اب جبکہ ہمارے امریکی دوست جوہری آبدوز فروخت کرنے کو تیار ہیں تو ہم کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں؟ وزیرِ اعظم موریسن نے کہا کہ وہ فرانس کی مایوسی کو سمجھتے ہیں لیکن انہیں ہماری سلامتی کو لاحق خطرات کا ادراک ہونا چاہیے۔
آسٹریلوی وزیردفاع پیٹر ڈٹن کا کہنا ہے کہ موثر دفاع کے لیے ان کی آبدوزوں کو زیادہ سے زیادہ گہرائی میں اترنے کے علاوہ دیر تک اور دور تک گشت کرنے کی ضرورت ہے جو روایتی ایندھن سے چلنے والی آبدوزوں کے لیے ممکن نہیں۔ اسی وجہ سے ہم نے امریکی پیشکش کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر بائیڈن کا موقف ہے کہ آسٹریلیا کو آبدوزوں کی فراہمی کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارا ہر اتحادی خود کو لاحق خطرات کے خلاف اپنے دفاع کے قابل ہو۔
فرانس، آسٹریلیا کی اس وضاحت سے مطمئن نہیں ہے۔ فرانسیسی وزیرِ دفاع نے سودے کی منسوخی کو فرانسیسی ملت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قراردیاہے۔ انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا سے ہماری دوستی کی بنیاد اعتماد و بھروسے پر تھی لیکن اب یہ اعتماد ختم ہوگیا ہے۔ انہوں نے صدر جو بائیڈن پر بھی شدید تنقید کی اور کہا کہ ’اس سنگ دلانہ، یکطرفہ اور غیر متوقع فیصلے سے صدرٹرمپ کی یاد تازہ ہوگئی ہے جو مخلص اتحادیوں سے ایسا ہی سلوک کرتے تھے‘
اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرانسیسی حکومت نے جمعرات کو واشنگٹن میں منعقد ہونے والی اس تقریب کو بھی احتجاجاً منسوخ کر دیا جسے وہ امریکہ کے ساتھ مل کر کر رہی تھی۔ستمبر 1781 امریکی ریاست ورجینیا اور ڈیلوئر (Delaware) کےدرمیان حائل خلیج چیساپیک (Chesapeake Bay)پر قبضے کے لیے فرانس اور برطانوی بحریہ کے درمیان خونریز جنگ ہوئی تھی جس میں برطانوی بحریہ کی شرمناک شکست نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی آزادی کی راہ ہموار کی۔ خلیج چیساپیک کے ساحل پر یہ دن ہر سال بہت تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔
امریکہ کو فرانس کی جانب سے اس شدید ردعمل کی توقع نہ تھی۔ فرانس کو اعتماد میں لیے بغیر اس فیصلے پر بائیڈن انتظامیہ کو ملک کے اندر بھی تنقید کا سامنا ہے اور اب تعلقات میں پڑی سِلوٹ کو ہموار کرنے کے لیے پیرس کی جانب ہرکارے دوڑائے جارہے ہیں۔ قصر مرمریں کی ترجمان نے کہا کہ فرانس امریکہ کا اہم اور مخلص اتحادی ہے۔ عالمی برادری کو درپیش مسائل کے حل میں واشنگٹن، فرانس کے ساتھ اپنی شراکت داری کو اہمیت دیتاہے اور پیرس کی یہ اہمیت کبھی ختم نہیں ہوسکتی ۔ محترمہ ساکی کا کہنا تھا کہ فرانس سے ہمارے تعلقات دہائی نہیں صدیوں پر محیط ہیں اور اسے کسی قیمت پر ٹھیس نہیں لگنے دی جائیگی۔ایک سوال کے جواب میں وہ بولیں کہ آسٹریلیا کو جوہری ٹیکنالوجی کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ بات کینبرا سے پوچھیں۔
جوہری آبدوزوں کے معاملے پر امریکہ، آسٹریلیا اور فرانس کے مابین کشیدگی خالص تجارتی معاملہ ہے۔ فرانسیسی حکام نے اسے اپنی پشت میں چھرا گھونپنے کے مترادف قراردیاہے، ہمارے خیال میں اسے پیٹ پر لات کہنا زیادہ مناسب ہے کہ آجکل جبکہ کرونا کی وجہ سے ساری دنیا کی طرح فرانس کی معیشت بھی دباو میں ہے 38 ارب ڈالر کا سودا منسوخ ہوجانا کوئی معمولی بات نہیں۔
لیکن جوہری پھیلاو کے تناظر میں مہذب دنیاکو اس معاملے پر سخت تشویش ہے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ یہ آبدوزیں جوہری ہتھیار سے لیس نہیں ہیں صرف ان کے انجن ایٹمی ایندھن استعمال کرتے ہیں جو ماحولیاتی کثافت کے معاملے میں ڈیزل اورپٹرول سے کہیں بہتر ہیں۔ برطانیہ اورآسٹریلیا کے رہنماوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے اپنا یہ عزم دہرایا کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے رہیں گے۔آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم اسکاٹ موریسن نے بھی کہا ہے کہ اُن کا ملک جوہری ہتھیاروں کا خواہش مند نہیں ہے اور نہ ہی غیر فوجی جوہری استعداد چاہتا ہے لیکن معاہدے کے تحت جوہری آبدوزیں آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں تیار کی جائیں گی۔ یعنی یہ محض جوہری آبدوزوں کا سودا نہیں ہے بلکہ امریکہ اور برطانیہ آسٹریلیا کو جوہری ٹیکنالوجی اور معاونت فراہم کریں گے بلکہ یوں کہیے کہ یہ نیوکلیر ٹکنالوجی کی منتقلی کا معاہدہ ہے۔
وزیراعظم موریسن کی یقین دہانی اور صدر بائیڈن کے بودے موقف کو کوئی بھی سائنسدان قبول نہیں کرے گا۔ یہ سیدھا سادہ ایٹمی پھیلاو کا معاملہ ہے۔ ماضی میں جوہری آبدوزیں حادثات کا شکار ہوچکی ہیں جن میں سب اہم واقعہ ایک سال قبل روس اور ناروے کے درمیان واقع بحر بیرینٹس (Barents Sea)میں روسی آبدوز کرسک KURSK کی تباہی کا ہے۔ بارہ اگست 2000کو ایک بحری مشق کے دوران ہائیڈروجن پرآکسائیڈ (Hydrogen Peroxide)کے حادثاتی اخراج سے ایک تارپیڈو پھٹ پڑا اور آن کی آن میں یہ جدید ترین آبدوز تباہ ہوگئی۔ اسکے نتیجے میں جوہری ایندھن کے تابکاری ذرات زیر آب پھیل گئے جس کی وجہ سےامدادی سرگرمیاں بروقت شروع نہ ہوسکیں اور عملے کے تمام کے تمام 118 افراد ہلاک ہوگئے۔ تباہ شدہ آبدوز کی باقیات بھی تلاش نہیں کی گئیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ سمندر کے اس حصے میں تابکاری اثرات اب بھی موجود ہیں۔
جوہری پھیلاؤ روکنے کے نام پر عراقی تنصیبات کو جب اسرائیل نے نشانہ بنایا تھا تو ساری مغربی دنیا نے اس کی حمایت کی تھی حالانکہ وہ ایک صریح جارحیت تھی۔ لیبیا کو جوہری توانائی کے استعمال سے روکنے کے لیے اتنی سخت پابندیاں عائد کی گئیں کہ کرنل قذافی نے نہ صرف جوہری پروگرام سے توبہ کرلی بلکہ کفارہ ادا کرتے ہوئے تمام تنصیبات تحلیل کرکے مشینیں لیبیا کے خرچ پرامریکہ بھیج دیں۔ آجکل شمالی کوریا اور ایران کے خلاف جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں وہ نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ہم پلہ ہیں۔
لیکن جب معاملہ اپنوں کا ہو تو چچا سام معیار تبدیل کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ آسٹریلیا کو جوہری آبدوزوں کی فراہمی ایٹمی پھیلاو کے عالمی قوانین کی سخت خلاف ورزی ہے لیکن کس میں ہمت ہے کہ وہ اس معاہدے پر اعتراض کرے۔ عالمی جوہری توانائی کمیشن IAEA بھی جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے کی اس سنگین خلاف ورزی پر خاموش ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیاآسٹریلیا پر اس مہربانی کا سبب چین ہے جس کے گھیراو اور بحر جنوبی چین پر نظر رکھنےکے لیے امریکہ، جاپان، ہندوستان اور آسٹریلیا پر مشتمل معاہدہ اربعہ یا QUAD اتحاد تشکیل دیا گیا ہے۔بحر جنوبی چین سے بحر ہند میں داخلہ آبنائے ملاکا سے ہوتا ہے۔ ساڑھے آٹھ سو میل لمبی یہ آبنائے جزیرہ نمائے ملائیشیا اور انڈونیشی جزیرے سماترا کے درمیان سے گزرتی ہے۔آبنائے ملاکا کے شمال مشرقی حصے کی نگرانی آسٹریلوی بحریہ کو سونپی گئی ہے جبکہ بحر ہند میں کھلنے والے دہانے پر ہندوستانی بحریہ تعینات ہے۔بحر جنوبی چین میں گشت کرتے آسٹریلیا کے جہازوں کو چونکہ براہ راست چینی بحریہ کا سامنا ہے اس لیے وہاں جوہری آبدوزیں بھیجی جارہی ہیں۔
اگر امریکہ کی اس دلیل کو درست مانتے ہوئے کہ جوہری آبدوزوں کی فروخت کا ایٹمی پھیلاو سے کوئی تعلق نہیں، چین اگر بحرِ جاپان کی نگرانی کے لیے شمالی کوریا کو ایٹمی آبدوز دے دے تو واشنگٹن کا رد عمل کیا ہوگا؟ امریکہ کے اس فیصلے پر صرف چین ہی معترض نہیں آسٹریلیا کے پڑوسی نیوزی لینڈ کو بھی اس پر تشویش ہے اور کیوی وزیراعظم محترمہ جسنڈا آرڈرن نے اعلان کیا ہے کہ آسٹریلیا کی جوہری آبدوزوں کو نیوزی لینڈ کے پانیوں سے گزرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
***

 

***

 جوہری پھیلاؤ روکنے کے نام پر عراقی تنصیبات کو جب اسرائیل نے نشانہ بنایا تھا تو ساری مغربی دنیا نے اسکی حمایت کی تھی حالانکہ یہ ایک صریح جارحیت تھی۔ لیبیا کو جوہری توانائی کے استعمال سے روکنے کے لیے اتنی سخت پابندیاں عائد کی گئیں کہ کرنل قذافی نے نہ صرف جوہری پروگرام سے توبہ کرلی بلکہ کفارہ ادا کرتے ہوئے تمام تنصیبات تحلیل کرکے مشینیں لیبیا کے خرچ پرامریکہ بھیج دیں۔ آجکل شمالی کوریا اور ایران کے خلاف جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں وہ نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ہم پلہ ہیں۔لیکن جب معاملہ اپنوں کا ہو تو چچا سام معیار تبدیل کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ آسٹریلیا کو جوہری آبدوزوں کی فراہمی ایٹمی پھیلاو کے عالمی قوانین کی سخت خلاف ورزی ہے لیکن کس میں ہمت ہے کہ وہ اس معاہدے پر اعتراض کرے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021