منفی شرح سود کی پالیسی

کیا عالمی مالی نظام سود سے پاک ہونے کی راہ پر چل پڑا ہے؟

ڈاکٹر فرحت حسین،اتر اکھنڈ

 

حالیہ معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے بعض مغربی ممالک منفی شرح سود کی پالیسی (Negative interest rate policy) کو اختیار کر رہے ہیں۔ ان میں یورپی یونین کے رکن ممالک کے علاوہ سویڈن، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ اور جاپان سرِ فہرست ہیں۔ شرح سود کے منفی ہونے کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ کھاتوں میں جمع رقم پر کوئی سود نہ دیا جائے بلکہ اس کے برعکس رقم ڈپازٹ رکھنے کے عوض اجرت یا فیس وصول کی جائے۔ یعنی اگر ملک کے کمرشیل اور دیگر بنکوں کے پاس فاضل فنڈ جمع ہو جائے اور وہ اسے مرکزی بنک کی تحویل میں رکھنا چاہیں تو ان بنکوں کو فیس دینا ہوگی۔ اسی کو منفی شرح سود کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی تفصیلات میں جانے سے قبل صفر یا زیرو شرح سود پر نظر ڈالنا مناسب ہوگا۔
زیرو شرح سود پالیسی
(Zero interest rate policy)
2008 میں عالمی سطح پر جو اقتصادی بحران پیدا ہوا تھا اس وقت امریکہ، یورپی یونین کے ممالک اور کچھ دوسرے ملکوں نے غیر روایتی حل کے طور پر شرح سود کو کم کر کے صفر اور اس کے قریب لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ جاپان نے اس پالیسی کو 1990 میں ہی اختیار کر لیا تھا جب اس کی ریئل اسٹیٹ کی قیمتوں کا بلبلہ پھوٹ گیا تھا اور جائیدادوں کی قیمتیں تمام اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے انتہائی نچلی سطح تک گر گئی تھیں۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے جاپان کے مرکزی بنک نے اپنی شرح
(Bank Rate) کو صفر کر دیا تھا جس کا مطلب تھا کہ دوسرے بنک بھی سود کی شرح کو کم سے کم کریں تاکہ مارکٹ میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو اور زر (Money) کا بہاؤ بنا رہے نیز ملک کو کساد بازاری سے نکالا جا سکے۔ 2008کے بحران کے بعد امریکہ نے بھی اس پالیسی کو اختیار کیا۔
صفر سے منفی کی طرف
شرح سود کو صفر پر لانے کی سلسلہ میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس طرح قرض کی لاگت ’نہیں‘ کے برابر ہوگی، اس سے سرمایہ بازار میں آئے گا اور معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ یہی دلیل شرح سود کو منفی کر دینے کے سلسلہ میں بھی ہے۔ کساد بازاری کے وجہ سے معاشی بحران میں اضافہ ہوتا گیا اور اب کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے لیے جو لاک ڈاؤن کا طریقہ اختیار کیا گیا اس نے معاشی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ تجارتی اداروں اور عوام کے اخراجات میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی جس کے نتیجے میں ان کے پاس فاضل سرمایہ جمع ہو گیا۔ دوسری طرف بنکوں میں رقم جمع کرنے والے تو موجود تھے مگر قرض لینے والے نہ تھے۔ ان حالات سے نمٹنے کے لیے منفی شرح سود کی وکالت کی گئی تاکہ بنک سستا قرض مہیا کرائیں اور مارکٹ میں سرمایہ کی کمی نہ ہو۔ اس کے لیے ملک کا مرکزی بنک اپنی شرح سود کو نفی (minus) میں کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ اس پالیسی پر ڈنمارک کے مرکزی بنک نے 2012 سے عمل شروع کر دیا تھا، یوروپین سنٹرل بنک نے 2014 سے، جاپان نے 2016 سے، سویڈن اور سوٹزرلینڈ نے 2015 سے۔ برطانیہ، روس وغیرہ بعض دوسرے ممالک Covid-19 کے بحران میں اس پالیسی کو اختیار کر رہے ہیں۔ بھارت میں فی الحال ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے البتہ ریزرو بنک آف انڈیا نے مئی 2020 میں اپنی شرح سود (جسے ریپو ریٹ Repo rate – کہتے ہیں) میں کمی کرکے عام شرح سود کو کم کرنے کا واضح اشارہ دے دیا ہے۔ اس پالیسی کے ذریعہ سرمایہ کے بے کار پڑے رہنے (Idle fund) میں کمی آ سکتی ہے اور بنک بھی زیادہ سے زیادہ قرض دینے کی طرف متوجہ ہونگے۔ مگر دوسری جانب قرضوں کا غیر پیدا آور کاموں میں خرچ ہونے کا بھی امکان ہے۔
کیا یہ حل کافی ہے؟
موجودہ سنگین اقتصادی بحران کے تناظر میں بہت سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ کیا یہ پالیسی بحران سے نمٹنے کے حل کی حیثیت سے کافی ہے؟ شرح سود کو کم کرکے صفر یا اس سے بھی نیچے تک لے آنا بازار میں سرمایہ (Capital) اور زر (Money) کی مقدار میں اضافہ کا سبب ہو سکتا ہے۔ اس کے ذریعہ تاجروں اور صنعت کاروں کے پاس سرمایہ زیادہ پہنچ سکتا ہے جس کی مدد سے وہ پیداوار (Production) کو بڑھا سکتے ہیں۔ مگر یہ صرف ایک رخ ہے جس کے ذریعہ رسد یا سپلائی سائڈ (Supply side) کو مضبوطی حاصل ہو رہی ہے۔ دوسرا رخ مانگ یا طلب (demand) کا ہے۔ جو یہاں حل نہیں ہوا۔ پیداوار کی کھپت کے لیے اس کی مانگ یا طلب ضروری ہے اور طلب کے لیے صارفین (Consumers) کے پاس رقم کا ہونا ضروری ہے۔ عام لوگوں کے پاس قوتِ خرید ہونی چاہیے۔ قوتِ خرید ہوگی تو وہ بازار میں مانگ پیدا کریں گے، پروڈکشن ہوگا، خام مال کی مانگ ہوگی، روزگار بھی پیدا ہوں گے اور سرمایہ کا بھی استعمال ہوگا۔ صرف زر کی رسد (Supply of money) کو بڑھانے سے خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوگا۔ اس لیے ہمارا خیال ہے کہ زیرو اور منفی شرح سود معاشی بحران کا مکمل اور پائیدار حل نہیں ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ شرح سود کو کم کرتے کرتے کہاں تک لے جائیں گے آخر اس کی بھی تو کوئی حد ہوگی؟
ایک دوسرا اہم پہلو
سود کا سفر (Journey) بھاری بھرکم شرح درمیانی شرح اور کم شرح سے چل کر صفر اور منفی تک جا پہنچا۔ (حالانکہ صفر اور منفی کو سود کہنا ہی غلط ہے۔ صفر کا مطلب ہے غیر سودی اور منفی سود کا مطلب ہے ڈپازٹ کے دیکھ ریکھ کی فیس) مگر غور طلب بات یہ ہے کہ اس بحران نے ماہرین کو ’بغیر سود‘ (without interest) پر پہنچا دیا ہے۔ اسلام سرے سے سود ہی کو حرام قرار دیتا ہے اور اس طرزِ فکر اور سوچ کو چیلنج کرتا ہے کہ سرمایہ اور زر تنہا اپنے آپ میں کوئی نمو (Productivity) رکھتا ہے۔ اسلام کا نظریہ یہ ہے اور یہی حقیقت بھی ہے کہ دوسرے معاشی عوامل جس میں محنت، زمین، آلات اور نظم و انصرام کے ساتھ جب زر (Money) بھی شامل ہوتا ہے تو اس میں کارکردگی آتی ہے ورنہ سرمایہ میں از خود کسی اضافہ کی قوت سرے سے ہوتی ہی نہیں۔ اسی لیے اسلامی نظمِ معیشت میں قرضوں پر کوئی اضافہ وصول نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ قرض واپسی کی ضمانت ہونی چاہیے وہ شخصی ہو یا رہن وغیرہ کے ذریعہ ہو۔ اسے اسلامی اصطلاح میں قرضِ حسن کہا گیا ہے۔ جو لوگ اپنے سرمایہ سے فائدہ (Return) چاہتے ہیں انہیں شرکت و مضاربت کے اصولوں کے تحت کاروبار کے نفع اور نقصان میں شریک ہونا پڑے گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں کاروبار کے نقصان کے خطرے (Risk) کو برداشت کرنے کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا۔ بحرانی حالات میں دراصل یہی طریقہ کار باہمی اعتماد کی فضا کو تیار کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ اصول عملی اور منصفانہ ہے اور تیزی مندی ہر طرح کے معاشی دور میں اعتدال کی راہ ہے۔
آخری بات
اسلام نے سود کو حرام قرار دے کر انسانی زندگی سے ظلم و ناانصافی کی ایک بہت بڑی شکل کو ختم کرنا چاہا ہے۔ سنگین معاشی مشکلات کی شکار آج کی انسانیت کو یہ بات باور کرانے کی ضرورت ہے کہ سود کی شرح کو کم کرنے، صفر پر لانے یا منفی کرنے کی پلاننگ کے بجائے سیدھے سیدھے سود کو ہی ختم کر دیجیے اور پھر پورے مالی نظام (Financial system) پر از سرِ نو غور کیجیے۔ مسلم ماہرینِ معاشیات نے بڑے مدلل انداز میں جدید پیرائے میں سود کا ابطال اور اس کے متبادل نظام کا خاکہ پیش کیا ہے جس کی کئی سیکولر ماہرین نے تائید کی ہے۔ شرح سود کو زیرو کی سطح پر لانے کے لیے مجبور ہونا خود اس بات کا بڑا ثبوت ہے کہ سود سے پاک (Interest free) مالی نظام پر غور کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ پوری دنیا گزشتہ دو دہائیوں سے شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ کورونا کی عالمی وبا نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ صورتِ حال کب تک جاری رہے گی اور اس میں مزید کتنی ابتری آئے گی۔ ان حالات میں انسانوں کے رب کے ذریعہ نازل کیے گئے ضابطوں، اور سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونوں کی روشنی میں معیشت کی تشکیلِ نو کی ضرورت ہے۔ اسلامی اسکالرس کو چاہیے کہ وہ پوری قوت اور مضبوط دلائل سے اسلامی اصولوں کو جدید دور اور اس غیر معمولی بحرانی کیفیت کی ضرورتوں کے لحاظ سے پیش کریں۔ کیا عجب کہ دنیا اسی راستہ سے اسلامی نظام کی ٹھنڈی چھاؤں میں عافیت محسوس کرے۔
(مضمون نگار ڈاکٹر سید فرحت حسین، ریٹائرڈ کامرس پروفیسر اور یو پی مغرب حلقہ کے سابق امیر جماعتِ اسلامی ہند ہیں )
***

مسلم ماہرینِ معاشیات نے بڑے مدلل انداز میں جدید پیرائے میں سود کا ابطال اور اس کے متبادل نظام کا خاکہ پیش کیا ہے جس کی کئی سیکولر ماہرین نے تائید کی ہے۔ شرح سود کو زیرو کی سطح پر لانے کے لیے مجبور ہونا خود اس بات کا بڑا ثبوت ہے کہ سود سے پاک (Interest free) مالی نظام پر غور کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ پوری دنیا گزشتہ دو دہائیوں سے شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ کورونا کی عالمی وبا نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔