ملک کی تباہی کا ذمہ دار کون؟

جمہوریت کے ستون گررہے ہیں۔بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ مجروح

سید وہاج الدین ہاشمی، حیدر آباد

بھارت کو جتنا نقصان یہاں کی سیاسی جماعتوں اور لیڈروں سے پہنچا ہے اتنا کسی اور سے نہیں پہنچا۔ پچھلے تیس چالیس برسوں بالخصوص بابری مسجد کی شہادت کے بعد فرقہ پرست سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں نے بھارت کی سیاسی، سماجی، معاشی اور تہذیبی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھا ہی تھا کہ مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت نے اپنے اکثر نا عاقبت اندیشی پر مبنی فیصلوں کے ذریعے ان کو گرانا شروع کر دیا ہے۔ اس طرح مودی حکومت نے آزاد بھارت کی تاریخ میں اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اسی لیے اب سیاسی تجزیہ نگار اور سیاسی پنڈت ’56 انچ کا سینہ رکھنے والے مرد آہن‘ کو دنیا کا سب سے ناکام ترین حکم راں قرار دے رہے ہیں کیوں کہ ان کی ترجیحات میں ملک وعوام کی فلاح وبہبود سے زیادہ ملک میں فرقہ پرستی کے بیج بونے والی ان کی مربی جماعت آر ایس ایس کے فرقہ پرست ایجنڈے کو نافذ کرنا شامل ہے، جو کہ ملک کے عوام کی روح، ملک کے بنیادی ڈھانچے، آئین، سیکولرازم اور جمہوریت کے بالکل مغائر ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آزاد بھارت کی تاریخ میں شاید ہی ایسی کوئی سیاسی جماعت رہی ہو یا ایسا کوئی سیاسی رہنما گزرا ہو جسے ملک کی ترقی سے حقیقی دلچسپی رہی ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں ملک سے زیادہ خود اپنی ذات کی اور اس کے بعد اپنی پارٹی کی ترقی عزیز رہی ہے۔ اپنے مفادات کے حصول کے لیے ملک اور عوام کے مفادات کا استحصال ان کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ اس مضمون میں تفصیلی جائزہ پیش کرنا تو بہت مشکل ہے اجمالاً کچھ اشارے پیش کیے جا رہے ہیں جس سے اندازہ ہو جائے گا کہ ان سیاست دانوں نے مفادات کو حاصل کرنے اور اپنے نظریات کو عوام پر تھوپنے کی چکر میں آج ملک کو کہاں لا کھڑا کیا ہے۔حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ہمارے ملک کے یہ شاطر سیاستدان ملک کے بگاڑ کا ٹھیکرا ہمیشہ دوسروں کے سر پر پھوڑتے آرہے ہیں۔ ملک کی بگڑتی معیشت کا ذمہ دار وہ دوسروں کو قرار دیتے ہیں کہ انہوں نے لوٹ کر اسے کنگال کر دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان سے زیادہ ان دیش بھکتی کا شور مچانے والے سیاستدانوں نے ملک کو لوٹا ہے۔ چنانچہ اگر آزاد بھارت کی تاریخ میں ان سیاستدانوں کے اسکامس، اسکینڈلس اور گھوٹالوں کی فہرست اگر کوئی مرتب کرنا چاہے تو یہ ایک انتہائی طویل فہرست ہوگی، مزید یہ کہ لوٹی گئی رقم کا تخمینہ بھی جس کا شمار کرنا ماہرین معیشت کے بھی بس کی بات نہ ہوگی۔ سابقہ حکم رانوں نے اگر اس ملک سے کچھ لیا تو اسے بہت کچھ دیا بھی ہے، ایسے ذرائع انہوں نے پیدا کیے کہ جس سے ملک کو آج بھی اچھی خاصی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس وطن پرستی کے جھوٹے دعوے کرنے والے سیاستدان اور ان کی پارٹیوں کی آمدنیوں پر نظر ڈالی جائے تو پہلی ہی نظر میں ان کی مکاری اور جھوٹی وطن پرستی عیاں ہو جاتی ہے۔ 10جنوری 2020 کے ’دی ویک‘ میگزین کے مطابق سال 19-2018 کے دوران بی جے پی کی سالانہ آمدنی 134 فی صدی اضافہ کے ساتھ 1،027 کروڑ روپیوں سے بڑھ کر 2،410 روپے یعنی دوگنی ہوگئی۔ وہیں وزیر داخلہ امیت شاہ کے فرزند کا کاروبار 15-2014 میں 50 ہزار روپیوں سے بڑھ کر صرف ایک سال کے اندر 80 کروڑ روپیوں تک پہنچ جاتا ہے۔اقتدار میں آنے سے پہلے مودی نے بہت ہی بڑے اور بلند بانگ دعوے کیے تھے جس میں ایک یہ بھی تھا کہ وہ کالے دھن کو بیرون ملک سے واپس لائیں گے لیکن ان کے چھ سالہ دور حکومت میں عوام نے دیکھ لیا کہ وہ کالا دھن تو کیا واپس لاتے الٹا ملک کا دس ٹریلین سفید دھن ان کے صنعت کار ان کی آنکھوں کے سامنے لوٹ کر بیرون ملک فرار ہوگئے۔ یہ حکومت کی لاپرواہی یا غفلت بھی ہو سکتی ہے اور ان لٹیروں سے ساز باز بھی ہو سکتا ہے، جو بھی ہو لیکن اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان نقلی دیش بھکتوں کو ملکی مفاد سے زیادہ اپنوں اور اپنی پارٹی کا مفاد پیارا ہوتا ہے۔نوٹ بندی کے اچانک اعلان سے ملک کی معیشت آج تک سنبھل نہیں پائی ہے۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی کے سنٹر فار سسٹین ایبل ایمپلائمنٹ کی رپورٹ کے مطابق نوٹ بندی کی وجہ سے 18-2015کی مدت کے دوران پانچ ملین لوگ بیروزگار ہو گئے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے نوٹ بندی کو ملک کی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی بتایا تھا۔ 2 سپٹمبر2018 کے معروف انگریزی اخبار اکنامک ٹائمز کے مطابق نوٹ بندی سے ملک کو ایک لاکھ کروڑ روپیوں سے زائد کا خسارہ ہوا ہے۔مودی حکومت نے اسکامز، اسکینڈلس اور گھوٹالوں کے تمام ریکارڈز توڑ دیے ہیں۔ ان کی شمار بندی کے لیے اب انگریزی حروفِ تہجی بھی کم پڑنے لگے ہیں۔ اے ٹو زیڈ اسکامز اور دنیا کے 175 رشوت خور ملکوں کی فہرست میں ہندوستان نے اپنے روایتی حریف پاکستان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 78 ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔ ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے، جی ڈی پی میں مسلسل گراوٹ آتی جا رہی ہے۔
بڑھتی ہوئی ہندتوا دہشت گردی نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں پر جاری ظلم وستم نے بین الاقوامی سطح پر ملک کی شبیہ بری طرح خراب کر دی ہے۔ کئی مرتبہ امریکہ اور یو این او نے اپنی تشویش کا اظہار کیا لیکن حکومت کے کان پر جون تک نہیں رینگ رہی ہے۔ مسلم کش منظم فسادات، ماب لنچنگ، ہندو غنڈوں کو کھلی چھوٹ اور اپنے حق کے لیے لڑنے والے مودی مخالفین کو جھوٹے مقدمات کے تحت فوری گرفتاریاں، ظلم وناانصافی۔ اور حد یہ کہ ظالموں اور مجرموں کو انعامات سے نوازا جا رہا ہے۔ اس کی تازہ مثال کپل مشرا ہے۔ کشمیر میں جس انداز سے دفعہ ۳۷۰ کو ختم کیا گیا اور اپنی ہی عوام پر جو ظلم وستم ڈھایا گیا وہ آزاد بھارت پر ایک سوالیہ نشان ہے جس سے کشمیر کی معیشت پر بھی بہت زبردست اثر پڑا ہے، کشمیر چیمبر آف کامرس انڈسٹری کے مطابق 18000 کروڑ روپیوں کا نقصان ہوا اور 496000 لوگ بیروزگار ہو گئے۔مودی حکومت نے ملک کے سارے محکموں کو اپنے قابو میں کرلیا ہے حتیٰ کہ عدلیہ بھی اپنی ساکھ نہیں بچا پائی ہے۔ چنانچہ بابری مسجد کا غیر منصفانہ فیصلہ بھارتی عدلیہ کی تاریخ کے ایک تاریک ترین باب کے طور پر رقم ہو چکا ہے۔ فیصلہ سنانے والے جج کو راجیہ سبھا کی ممبری بھی بطور انعام بھی مل چکی ہے۔ لالچی بھارتی میڈیا نے اپنے آقاؤں کے چند ٹکڑوں کے عوض میں ملک کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ اس نے مسلم دشمنی میں صحافت کی تعریف ہی کو بدل کر رکھ دیا ہے جس سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی سیکولر تصویر کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ غرض یہ کہ بھارت میں جمہوریت کا چوتھا ستون گر چکا ہے۔کرونا وائرس کی وبا کے بعد جس طرح کے غیر منصوبہ بند اقدامات کیے گئے اس نے حکومت کی پول کھول دی ہے۔ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت کو عوامی مفادات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ حکومت کی نا اہلی سامنے آچکی ہے۔ حکومت کے غلط اور ناعاقبت اندیشی پر مبنی فیصلوں نے سیکڑوں مزدوروں اور غریبوں کی نہ صرف پریشانیوں اور مصیبتوں میں اضافہ کیا ہے بلکہ بے شمار جانیں بھی لی ہیں۔ لاک ڈاؤن میں حکومت کے لا اُبالی پن سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت میں کوئی حکومت ہی نہیں ہے۔ برُا ہو ہندو راشٹر کا خواب دیکھنے والوں کا اور اس کا نظریہ گھڑنے والوں کا جنہوں نے ملک کو تباہی کے غار میں دھکیل دیا ہے۔بھارت کی یہ تاریخ رہی ہے کہ اس کی ہر نازک گھڑی میں مسلمان ہی اسے سنبھالتے رہے ہیں اور سب سے آگے رہتے ہوئے اسے سنوارنے میں موثر کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ بھارت کی ترقی وتعمیر میں مسلمانوں کا کردار کسی بھی طرح دوسری قوموں سے کم نہیں رہا بلکہ کچھ زیادہ ہی رہا ہے۔ آج بھی مسلمان، چاہے وہ عوامی شہریت کا مسئلہ ہو یا کرونا وائرس کی وبا کا، ہر محاذ پر وہی ڈٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ کوششیں انشاء اللہ ضرور رنگ لائیں گی۔


 

بھارت کی ترقی وتعمیر میں مسلمانوں کا کردار کسی بھی طرح دوسری قوموں سے کم نہیں رہا بلکہ کچھ زیادہ ہی رہا ہے۔ آج بھی مسلمان، چاہے وہ عوامی شہریت کا مسئلہ ہو یا کرونا وائرس کی وبا کا، ہر محاذ پر وہی ڈٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ کوششیں انشاء اللہ ضرور رنگ لائیں گی