ملک کو ’ وشو گرو ‘ بنانے کے لئے عملی اقدام کی ضرورت

نئی تعلیمی پالیسی کے تحت ’ڈیوٹیز ‘ کی تعلیم غلام بنانے کی سازش تو نہیں؟

سرکاری اسکولوں کے معیار تعلیم کو بہتر بنانے عوام کو بیدار ہونےکی ضرورت
تعلیم ایک بنیادی ضرورت ہے ۔اس سے قوموں کا مستقبل طے ہوتا ہے اور ملکوں کی ترقی و خوشحالی کی راہیں کھلتی ہیں۔ اسی لیے باشعور قومیں اور ترقی یافتہ ممالک تعلیمی شعبے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور نئی نسل کو معیاری تعلیم سے آراستہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔البتہ ہمارے ملک میں اس شعبے میں کچھ تذبذب اور کمیاں پائی جاتی ہیں جنہیں دور کیے بغیر ہم اپنے بچوں کو تابناک مستقبل دینے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کرسکتے۔ تعلیمی شعبے کو ترقی دینے اور معیاری بنانے کے تئیں مرکزی اور ریاستی حکومتیں اتنی سنجیدہ اور کوشاں نظر نہیں آرہی ہیں جتنی ہونا چاہیے ۔ابھی کچھ دنوں پہلے حکومت کی جانب سے قومی تعلیمی پالیسی 2020ء جاری کی گئی ۔ یہ بڑی اہم پالیسی ہے ۔اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ ملک کو ایک نالج پاور اور عالمی طاقت بنایا جائے گا۔لیکن کیا صرف نعروں اوربلند بانگ دعوؤں سے کسی ملک کو ایک نالج پاور اور تعلیم میں سپر پاور بنایا جاسکتا ہے ؟ صورت حال یہ ہے کہ سرکاریں ہمیں لوری سناتی ہیں اور ہم اس لوری کو سن کر سو جاتے ہیں۔ ہم اکثر وبیشتر اپنی گفتگو اور مباحث میں وہی ایشوز لاتے ہیں جو سرکاریں یا سیاسی پارٹیاں متعارف کراتی ہیں یا وہ چاہتی ہیں کہ ان پر مباحث ہوں جس کے ذریعہ ان کی سیاست چمکے اور ووٹ بینک تیار ہو۔ آج یہی ہورہا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں صلاحیتیں بہت ہیں اور با صلاحیت افراد کی بہتات ہے۔ اگر ہم تعلیمی شعبوں میں سنجیدگی سے کام کریں تو یقیناً ہم ’وشو گرو‘ بن کر دنیا میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں ۔ امریکا جیسے ملک کی سلیکون سٹی میں امریکیوں کے بعد سب سے زیادہ انجینئرس ہندوستان کے ہی ہیں۔دیگر ملکوں میں بھی ہندوستان کے لوگ اپنی علمی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ ہمارے ملک میں صلاحیتوں کی افراط ہے ،مگر بدقسمتی سے ان کا صحیح استعمال نہیں ہورہا ہے۔ باصلاحیت افراد کو عالمی سطح کے قابل بنانے کے بارے میں نہ تو ہم سوچتے ہیں اور نہ ہی ہماری سرکاریں سوچتی ہیں۔
قومی تعلیمی پالیسی 2020ء میں ایک عجیب بات کہی گئی ہے کہ طلبا کو ان کی ڈیوٹیز (فرائض) پڑھائی جائیں گی۔ یہ ایک سنگین بات ہے ۔اگر کسی ملک میں طلبا کو صرف ان کی ڈیوٹیز پڑھائی جاتی ہیں اور رائٹس (حقوق) نہیں پڑھائے جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت ملک کے عوام کو سبجیکٹ ( رعایا ) بنانا چاہتی ہے ، سیٹیزن ( شہری ) بنانا نہیں چاہتی ۔ سبجیکٹ اور سٹیزن میں بڑا فرق ہے۔ سبجیکٹ راجاؤں کے زمانے میں ہوتے تھے ، لوگوں کو غلام سمجھا جاتا تھا اور جو راجا کہہ دے، اسے تسلیم کرنا لازمی ہوتا تھا ۔ لیکن جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ جمہوری ملک میں عوام کی رائے کی اہمیت ہوتی ہے ۔ لوگ جو کہتے ہیں ، اسے حکومت کو ماننا پڑتا ہے اور سرکاریں ان کی مرضی سے چلتی ہیں۔ اگر آپ تعلیمی پالیسی میں لکھتے ہیں کہ طلباء کو صرف ڈیوٹیز پڑھائی جائیں گی تو اس کا مطلب ہے کہ آپ انہیں اور آنے والی نسلوں کو صرف یہ پڑھا رہے ہیں کہ ملک کے تئیں آپ کو کیا کرنا ہے ، بس اتنا ہی ۔مگر آپ یہ نہیں پڑھا رہے ہیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں تو لازماً یہ تشویش پیدا کرنے والی بات ہے ۔ اس کی تصحیح کرکے اس میں ڈیوٹیز اور رائٹس دونوں پڑھانے جانے کی شق شامل کی جانی چاہیے ۔ یہ دونوں ہی جمہوریت کی اساس ہیں ۔قومی تعلیمی پالیسی میں صرف ڈیوٹیز کو شامل کرنا اور رائٹس کو نظر انداز کردینا، کسی گہری سازش کا حصہ نظر آرہا ہے۔ اس کے ذریعہ طلباء کو صرف سبجیکٹ بنایا جارہاہے ، آگے چل کر کہا جائے گا کہ آپ کو بس یہ کام کرنا ہے اور یہ کام نہیں کرنا ہے ۔ اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ملک بھر میں خوف کا ایک نیا ماحول پیدا کیا جارہا ہے کہ آپ سرکار کے خلاف کچھ نہ بولیں، نہ ہی نکتہ چینی کریں اور نہ ہی اس کی کمزوریوں کو اجاگر کریں ۔اگر ایسا کرتے ہیں تو دیش دروہی کا لیبل آپ کے نام کے ساتھ چپکایا جاسکتا ہے اور آپ ملک دشمن قرار دیے جائیں گے۔یہ سوچ جمہوریت کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی ہے اور خطرناک بھی ۔تعلیم کے شعبے میں ایک اور منفی صورت حال جنم لے رہی ہے وہ ہے سرکاری تعلیمی اداروں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دینا۔ بابا صاحب امبیڈکرنے سماجی مساوات کے لیے ایجوکیشن کو ٹول ( آلہ ) اور طاقت کے طور پر استعمال کرنے کا فلسفہ پیش کیا تھا۔ اسی فلسفے کی وجہ سے ریزرویشن کی پالیسی اپنائی گئی تھی مگر اس ایجوکیشن کے ذریعہ سماج میں مساوات اور عدل نہیں
لایا جاسکا نتیجتاً یہ فلسفہ بڑی حد تک ناکام ثابت ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ایجوکیشن سسٹم سرکار کے ہاتھ سے نکل کر پرائیویٹ ہاتھوں میں جارہا ہے۔آج تقریباً 40 فیصد سیکنڈری اسکولوں کو پرائیویٹ سیکٹرس چلا رہے ہیں۔جب تعلیم پرائیویٹ سیکٹر میں منتقل ہوجاتی ہے تو پھر وہ مارکیٹ کا حصہ بن جاتی ہے ۔کوئی بھی مارکیٹ سوشل جسٹس نہیں دیکھتا ، وہ منافع دیکھتا ہے اور جب بات منافع کی ہوگی تو تعلیم کا حصول مہنگا ہوگا۔ ایسی صورت میں سماج کا وہ طبقہ جو معاشی اعتبار سے کمزور ہے ، بھاری فیس برداشت نہیں کرسکتا اور وہ اچھی تعلیم سے محروم رہے گا ۔
سرکاری اسکولوں کا تعلیمی معیار سب پر عیاں ہے ۔ یہاں طلباء کو اس معیار کی تعلیم نہیں مل پاتی جو پرائیویٹ سیکٹر کے اسکولوں میں دی جاتی ہے جس کی وجہ سے نظریہ سماج بری طرح متاثر ہورہا ہے ۔ ہمیں آزاد ہوئے 75 سال ہوچکے ہیں ۔ اس طویل عرصے میں ہمیں اس شعبے میں جتنا آگے بڑھنا چاہیے تھا، نہیں بڑھ سکے ہیں۔ اس پر حکومت کو گہرائی سے سوچنا چاہیے مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس شعبے میں ترقی اور فروغ دینے کے بجائے نجکاری کو فروغ دینے کا عزم پروان چڑھ رہا ہے ۔جبکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں جتنا پرائیویٹائزیشن ہوگا ، اتنا ہی ہمارے تعلیمی نظام پر اس کا منفی اثر پڑے گا۔ اس سلسلے میں عوام کی سوچ بھی باعث تشویش ہے ۔ ملک کے لوگ اس پہلو سے سوچنے کی زحمت کم ہی کرتے ہیں کہ تعلیم کی ذمہ داری سرکار پر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے تعلیمی شعبے میں پائے جانے والے نقص پر ہم سرکار کے سامنے سوالات نہیں اٹھاتے ہیں ۔ ہم پرائیویٹ سیکٹروں کے اسکولوں میں بڑی فیس ادا کرکے ایجوکیشن خرید لیتے ہیں مگر سرکاری اسکولوں میں تعلیمی معیار کوبہتر کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی سرکار سے یہ پوچھتے ہیں کہ تعلیم کی بنیادی ذمہ داری کس کی ہے؟ دراصل تعلیم کے تئیں بیداری میں فقدان کے سبب ایسا ہورہا ہے۔ترقی یافتہ ممالک جیسے جاپان، کینیڈا یا یوروپین ممالک جن کو ہم مثالی ممالک کہتے ہیں، وہاں ایجوکیشن مکمل طور پر سرکار کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں 14 سال تک کی عمر کے طلباء کے لیے مفت تعلیمی بندوبست کی بات کی جاتی ہے مگر اس کی جو صورت ہے وہ انتہائی ابتر ہے۔
تعلیمی شعبے کے تعلق سے ہمارے اندر بیداری کی کمی ہے ، اسی وجہ سے سرکار کی جانب سے اس شعبے میں ہونے والی کوتاہیوں کے خلاف کبھی کوئی احتجاج نہیں ہوتا۔ انتخابی منشوروں میں اس کے تئیں کوئی نکتہ درج نہیں کیا جاتا ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں میڈیا کا کردار بھی حوصلہ افزا نہیں ہے ۔میڈیا کو سرکار اور عوام کے درمیان پُل کہا جاتا ہے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارا بیشتر میڈیا حکومت کا آلہ کار بن گیا ہے۔ حکومت اپنی مرضی سے جہاں چاہتی ہے اسے استعمال کرتی ہے ۔ایجوکیشن اور اس سے منسلک مسائل پر میڈیا میں کبھی مباحث نہیں ہوتے ہیں۔اگر ہوتے بھی ہیں تو پرائم ٹائم میں کم ہی ہوتے ہیں ۔ نئی نسلوں کی تعلیم کو معیاری اور ان کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے بیداری لانی ہوگی اور سرکار سے سوالات کرنے ہوں گے ۔اگر سرکاریں چاہیں تو وہ اپنے اسکولوں کے تعلیمی معیار کو پرائیویٹ اسکولوں سے کہیں بہتر بنا سکتی ہیں ۔ اس کی مثال دلی سرکار کی کوششوں سے دی جاسکتی ہے جس نے کسی حد تک مثبت اقدام کیا ہے اور سرکاری اسکولوں کے معیار کو بہتربنایا ہے۔ دیگر ریاستیں بھی ایسا کرسکتی ہیں۔ اگر ہم ملک میں تعلیمی شعبے کو مضبوط اور معیاری بنانا چاہتے ہیں تو خود کو بیدار ہونا ہوگا اور سرکاروں کو بھی بیدار کرنا ہوگا ۔صرف نعرے لگانے سے ہمارا ملک’ وشو گرو‘ نہیں بن سکتا۔ اس کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 تا 19 مارچ  2022