ملک کا بدلتا منظرنامہ اور یوم آ زادی

حالات و واقعات کےمشاہدے سے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم جسمانی طور پر تو آ زاد ہیں مگر ہماری روح،فکر اور ذہن اب بھی ان طاقتوں کا غلام ہے جو اپنے مفادات کے لیے ملک میں بد امنی کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اپنے جسم کی طرح جب تک ہم روح و دماغ کو آزاد نہیں کریں گے اس وقت تک ہمارا اسی طرح اپنے مفادات اور خود غرضی کے لیے استعمال کیا جاتا رہےگا۔

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی،
علیگڑھ

 

آ زادی یقیناً ایک غیر معمولی نعمت ہے۔ تقریباً دنیا کا ہر معاشرہ اور سماج غلامی و قید و بند کے مد مقابل آ زادی کو ترجیح دیتا ہے۔ فطری تقاضا بھی یہی ہےکہ نوع انسانی کو آ زاد رکھا جائے ۔ کھلے ماحول میں زندگی گزارنے سے معاشروں کے اندر سوچ وفکرمیں صالحیت کے ساتھ ساتھ توانائی بھی آ تی ہے۔ ایک وقت تھا جب ہمارا وطن انگریزوں کے پنجہ استبداد میں بری طرح جکڑا ہوا تھا۔ یہاں کےعوام غلامی کی زندگی جی رہے تھے ۔ ملک کے اقتدار سے لیکر ہر حساس اور قابل ذکر شعبوں پر انگریزوں کا تسلط و قبضہ تھا۔ اسی بناء پر وہ یہاں کی عوام کے ساتھ ظلم و تعدی کے ساتھ ساتھ نا انصافی اور امتیازی سلوک جیسا قبیح رویہ اپناتے تھے۔ چنانچہ ملک کے عوام کے قلوب میں آ زادی کی فضا منور ہوئی اور اس ملک سے انگریزوں کو اپنا بوریا بستر باندھنا پڑا۔
قابل ذکر بات یہ ہےکہ آ زادی کی اس لڑائی میں ملک کے جملہ طبقات نے متحد ہوکر جد و جہد کی۔ سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ، دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے ۔۔اور انقلاب زندہ باد جیسے نعروں سے ملک کی عوام میں آ زادی کی روح پھونکی گئی۔ یہ ہمارے اتحاد اور قومی یکجہتی کا نتیجہ تھا کہ انگریز جیسے ظالم و جابر حکمراں ملک کے نظام و اقتدار سے باہر ہوگئے۔
اس لیے اب کوئی یہ کہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی کوئی جگہ نہیں ہے یا ان کی آزادی کی قربانیوں کو فراموش کر دے تو یقیناً یہ سیکولر اور جمہوری نظام والے ملک کے لیے قطعی مناسب نہیں ہے۔ آج آزادی کو ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے مگر ملک کا موجودہ منظر نامہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ جس آ زادی کے خمیر میں ہندو مسلم اتحاد اور گنگا جمنی تہذیب ، باہمی محبت و الفت اور یکجہتی و مرکزیت کو پیوست کیا گیا تھا اس کو فرقہ پرست عناصر نے کھوکھلا کرنا شروع کردیا ہے۔ جب بھی ملک کے کسی بھی کونے سے یہ خبر آ تی ہے کہ مذہب و رنگ اور قوم و ملت کی بناء پر زیادتی یا تشدد جیسا جرم اپنایا گیا ہے تو روح میں ایک لرزہ سا طاری ہوجاتا ہے، فوراً دماغ اسلاف و اکابر کی قربانیوں اور اس بھارت کی طرف جاتا ہے جس میں ایک ساتھ تمام مذاہب و ادیان کے لوگ بلا کسی بھید بھاؤ اور خوف وہراس کے رہتے تھے۔ کیونکہ ہمارے ملک کی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ جب بھی کوئی تیوہار یا تقریب مسلم برادری کے یہاں منعقد ہوتی تھی تو اتنی خوشی ہمارے ہندو بھائیوں کو ہوتی تھی جتنی کہ مسلم کمیونٹی کو ہوتی تھی۔ یا ہولی، دیوالی کے موقع پر بھی مسلم کمیونٹی کے افراد اس میں خوشی سے شرکت کرتے تھے ، اسی رکھ رکھا ؤاور سماجی تانے بانے کی بناء پر ہمارا ملک دنیاکی تمام تہذیبوں میں ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ افسوس کہ جو قومیں باہم اخوت و رواداری کے ساتھ رہنے کو فخر و سعادت محسوس کرتی تھیں آ ج انہیں فرقہ پرست اور سیاسی عناصر نے باہم دست و گریباں کردیا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ کسی مسلم کمیونٹی کے فرد کے ساتھ ظلم و تشدد نہ کیا جاتا ہو۔ المیہ یہ ہیکہ جس ملک کو دونوں قوموں نے مل جل کر آ زاد کرایا تھا آج اسی ملک میں ایک قوم اپنی ساتھی اور ہمنوا قوم کو دشمن سمجھنے لگی ہے اور اس پر حملہ آ ور ہے۔ مزید کرب و دکھ کی بات یہ ہیکہ نفرت و تعصب اور باہمی عدم اعتبار و ارتباط جیسی مکروہ و مذموم فکر، پیہم ہندوستانی سماج میں جگہ بنا رہی ہے۔ اس لیے جو بھی نفرت یا مذہب کی بنیاد پر ہندوستان جیسے عظیم سیکولر ملک کے سماجی ارتباط اور باہمی عدل و انصاف کی روح کو دفن کرنے کی سعی کررہے ہیں ہندوستان کی عوام کو چاہئے کہ وہ اس کا جواب محبت و انسیت سے دیں۔ اسی کے ساتھ نفرت و بے یقینی کی مسموم فضا کو فروغ دینے والوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہندوستان کی عظمت و شوکت کے تمام راز بھائی چارگی اور اخوت جیسی پاکیزہ صفات میں ہی پنہاں ہیں۔
جس ملک کا آ ئین و دستور ملک کی تمام برادریوں، طبقات اور معاشروں کے ساتھ برابری، انصاف اور جملہ حقوق و مراعات سے نوازنے کی بات کرتا ہے آ ج اسی ملک میں کھلم کھلا ایک طبقہ کے ساتھ نا انصافی اورظلم و ستم کے تمام طریقے اختیار کئے جارہے ہیں ۔ فطری طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا بھارت کو مسلم کمیونٹی نے اسی لیے آ زادی دلائی تھی کہ آگے چل کر ان کی اقدار و روایات اور جان و مال کو خطرے میں ڈال دیا جائے گا اور انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانے کے لیے تمام طرح کی کوششیں کی جائیں گی؟ یوں تو آ زادی کے بعد سے ابھی تک تمام سیاسی جماعتوں نے چاہے وہ نام نہاد سیکولر ہی کیوں نہ ہوں، سب نے دانستہ طور پر مسلمانوں کا استحصال ہی کیا ہے، آزادی کے بعد جو حیثیت مسلمانوں کو اس ملک ملنی چاہئے تھی اس سے مسلمان ابھی کوسوں دور ہیں۔ تعلیم کے شعبہ میں مسلمانوں کی جو صورت حال ہے وہ کسی بھی فرد سے مخفی نہیں ہے۔ اس پر مزید ظلم یہ کہ اب منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کو ستایا اور مارا پیٹا جارہا ہے۔ ہجومی تشدد جیسے جرائم کئے جارہے ہیں۔ اس طرح کی وارداتوں سے ہندوستان کی شفاف جمہوریت پر بد نما داغ لگ رہا ہے۔ اس لیے اب وقت ہیکہ سنجید گی سے غور کیا جائے اور جو ماحول میڈیا یا اپنے تربیت یافتہ افراد کے ذریعے سے مسلمانوں کے خلاف تیار کیا گیا ہے اس پر فوری طور پر قدغن لگائی جائے۔ سیکولر روایات کی بقا اور جمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے اصحاب اقتدار کی اولین ذمہ داری یہ ہیکہ ملک کے کسی بھی طبقہ کے ساتھ کہیں بھی نا خوشگوار واقعہ پیش نہ آ ئے۔
ملک کے منظر نامے پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اب سیاست سے لیکر تمام محکموں اور شعبوں میں کام کرنے والے افراد کے افکار و نظریات تبدیل ہوچکے ہیں۔ وہ ایک مخصوص فکر اور محدود سوچ کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔ سیاست اور حب الوطنی کی جدید تعبیر و تشریح نے عجیب و غریب ماحول بپا کر رکھا ہے۔ جس کا لب لباب یہ ہیکہ اب ملک میں صرف وہی وطن پرست ہے جو رواں حکومت کے تمام کارناموں پر ایمان لا ئے جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر حکومت کے کارنامے قابل تعریف ہیں تو عوام کو اس کی توصیف کرنی چاہئے اور جن امور و ہدایات سے عوام مطمئن نہیں ہے تو اس پر اعتراض کرنا عوام اور اپوزیشن کا جمہوری و آ ئینی حق ہے۔چنانچہ یوم آزادی کے موقع پر اصحاب اقتدار سے لیکر عوام تک اور خصوصاً وہ طاقتیں جو ملک کے امن و امان اور چین و سکون کے لیے سدباب بنتی ہیں اپنا محاسبہ کریں کہ واقعی ہمارا یہ ملک اسی راہ پر گامزن ہے جس کا خواب مہاتما گاندھی نے دیکھا تھا۔ ایسا تو نہیں ہے کہ ہماری جلد بازی یا اندھ بھکتی سے ملک کے عظیم کردا ر کو تو نقصان نہیں پہنچ رہا ہے۔کیونکہ حالات و واقعات کےمشاہدے سے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم جسمانی طور پر تو آ زاد ہیں مگر ہماری روح،فکر اور ذہن اب بھی ان طاقتوں کا غلام ہے جو اپنے مفادات کے لیے ملک میں بد امنی کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اپنے جسم کی طرح جب تک ہم روح و دماغ کو آزاد نہیں کریں گے اس وقت تک ہمارا اسی طرح اپنے مفادات اور خود غرضی کے لیے استعمال کیا جاتا رہےگا۔ اسی کے ساتھ ملک کے نوجوان طبقہ کوخصوصی طور پر سوچنا ہوگا اور یوم آ زادی کے موقع پر یہ عزم مصمم کرنا ہوگا کہ ہمارا مقصد و منشا ملک کی خدمت کرنا ہے اور ہر وہ کام انجام دینا ہے جس سے ملک میں امن و یکجہتی کی راہ ہموار ہوسکے۔ ملک کے اس بدلتے منظر نامے میں جہاں ایک طرف میڈیا سے لیکر دیگر تمام طاقتیں نفرت اور تعصب کی کھیتی کررہی ہیں تووہیں وہ مخصوص نظریہ و فکر کی بھی ترویج و اشاعت کا کام انجام دے رہی ہیں ۔ جس کی ہدایت ان کے آقاوں سے انہیں ملی ہوئی ہے۔ ملک کو اب اس فکر اور سوچ سے بھی آزادی دلانا لازمی ہے جو لگاتا رہماری روایات کو مخدوش و مجروح کررہی ہیں۔ اکابر و اسلاف اور مجاہدین کی قربانیوں اور ان کی روح کو سکون پہنچانے کے لیے ضروری ہیکہ ملک کے تمام طبقات کے ساتھ یکساں سلوک و برتاؤ کیا جائے تاکہ وطن عزیز کا جمہوری اور آینی نظام مستحکم ہوسکے۔
[email protected]
***

ملک کو اب اس فکر اور سوچ سے بھی آزادی دلانا لازمی ہے جو لگاتا رہماری روایات کو مخدوش و مجروح کررہی ہیں۔ اکابر و اسلاف اور مجاہدین کی قربانیوں اور ان کی روح کو سکون پہنچانے کے لیے ضروری ہیکہ ملک کے تمام طبقات کے ساتھ یکساں سلوک و برتاؤ کیا جائے تاکہ وطن عزیز کا جمہوری اور آینی نظام مستحکم ہوسکے۔