تحریکِ آزادی اور مسلمانوں کے لیے فکر و عمل کی راہ

(ماخوذ: تحریک آزادی ہند اور مسلمان،حصہ اوّل ،تالیف : مولانا سید ابولاعلیٰ مودودیؒ)

ہندوستان میں تیزی کے ساتھ ایک نیا انقلاب آرہا ہے جو بلحاظ اپنے اثرات اور اپنے نتائج کے 1857 کے انقلاب سے بھی زیادہ شدید ہوگا۔ پھر اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر ایک دوسرے انقلاب کا سامان تمام دنیا میں ہورہا ہے اور بہت ممکن ہے یہ وسیع تر انقلاب اس برصغیر پر اثر انداز ہوکر یہاں کے متوقع انقلاب کا رخ اچانک پھیر دے اور اس کو ہماری توقعات سے بہت زیادہ پر خطر بناکر رہے۔

جو لوگ خس و خاشاک کی طرح ہر رو پر بہنے کے لیے تیار ہیں اورجن کو خدا نے اتنی سمجھ بوجھ ہی نہیں دی ہے کہ اپنے لیے زندگی کا راستہ متعین کرسکیں، ان کا ذکر تو قطعاً فضول ہے۔ انہیں غفلت میں پڑا رہنے دیجیے ، زمانہ کا سیلاب جس رخ پر بہے گا وہ آپ سے آپ اسی رخ پر بہہ جائیں گے۔ اسی طرح ان لوگوں سے بھی قطع نظر کیجیے جو آنے والی انقلابی قوتوں پر سمجھ بوجھ کر ایمان لائے ہیں اور بالا رادہ اسی رخ پر جانا چاہتے ہیں جس پر زمانہ کا طوفانی دریا جارہا ہے۔ اب صرف وہ لوگ رہ جاتے ہیں جو مسلمان ہیں، مسلمان رہنا چاہتے ہیں، مسلمان مرنا چاہتے ہیں، اور یہ تمنا رکھتے ہیں کہ ہندوستان میں اسلامی تہذیب زندہ رہے اور ہماری آئندہ نسلیں محمد عربیؐ کی بتائی ہوئی راہ راست پر قائم رہیں۔ ان لوگوں کے لیے یہ وقت روا روی سے گزار دینے کا نہیں بلکہ گہری سوچ اور غایت درجہ کے غو رو فکر کا ہے ۔ وہ اگر اس نازک وقت میں غفلت اور بے پروائی سے کام لیں گے تو ایک جرم عظیم کا ارتکاب کریں گے اور اس جرم کی سزا صرف آخرت ہی میں نہ ملے گی بلکہ اس دنیا کی زندگی میں ان پر چھاجائے گی۔ زمانہ کا بے درد ہاتھ ان کی آنکھوں کے سامنے تہذیب اسلامی کے ایک ایک نشان کو مٹائے گا اور وہ بے بسی کے ساتھ اس کو دیکھا کریں گے۔ زمانہ ان کےقومی وجود کو ملیا میٹ کرے گا۔ ایک ایک کرکے ان کے امتیازی حدود کو ڈھائے گا جن سے اسلام غیر اسلام سے ممیز ہوتا ہے ہر اس خصوصیت کو فنا کردے گا جس پر مسلمان دنیا میں فخر کرتا رہا ہے۔ وہ سب کچھ دیکھیں گے اور کچھ نہ کرسکیں گے۔ ان کی آنکھیں خود اپنے گھروں میں اپنی نوخیز نسلوں کو خدا پرستی سے دور، اسلامی تہذیب سے بیگانہ اور اسلامی اخلاق سے عاری دیکھیں گی۔ اور آنسو تک نہ بہاسکیں گی۔ ان کی اپنی اولاد اس فوج کی سپاہی بن کر اٹھے گی جسے اسلام او راس کی تہذیب کے خلاف صف آرا کیا جائے گا۔ وہ اپنے جگر گوشوں کے ہاتھوں سے تیر کھائیں گے اور جواب میں کوئی تیر نہ چلاسکیں گے۔ یہ انجام یقینی ہے اگر کام کے وقت کو غفلت میں کھودیا گیا۔ انقلاب کا عمل شروع ہوچکا، اس کے آثار نمایاں ہوچکے ہیں اور اب فکر و عمل کے لیے بہت ہی تھورا وقت باقی ہے۔