ملکی معیشت کے لیے 5ٹریلین ڈالر ہدف! حقیقت پسندی یا خود فریبی!

پروفیسرظفیر احمد، کولکاتا

مودی کی مرکزی حکومت نے مرجھائی ہوئی ملکی معیشت کو نظر انداز کرتے ہوئے 2024-25تک 5ٹریلین ڈالر کے مجموعی شرح نمو کا ایک بہت بڑا ہی ہدف اپنے لیے متعین کرلیا ہے جو ناممکن نظر آتا ہے۔ حکومت کے پاس نعرہ بازی کے سوا کچھ نہیں ہے تاکہ اندھ بھکتوں کو بھارت کے جگت گرو بنانے کا خواب دکھایا جاتا رہے۔ 2018-19میں بھارت کی مجموعی شرح نمو 2.75ٹریلین ڈالر تھی۔ گزشتہ سال ہماری شرح نمو 4.5فیصد ہی رہی جو ۵ فیصد سے بھی کم تھی ممکن ہے کہ یہ مختصر مدت کے لیے ہی ہو۔ اس لیے 2019-20میں معیشت کی رفتار کا اندازہ کرتے ہوئے 2.87ٹریلین ڈالر کا ہدف رکھا گیا ہے جو 2.75ٹریلین ڈالر کے مقابلے میں 4.5فیصد کا اضافہ ہوگا۔ اگر ہماری معیشت کی اضافے کی رفتار یہی رہی تو 5 ٹریلین ڈالر کا ہدف 2024-25میں نہیں بلکہ 2032-33میں حاصل ہوپائے گا اگر ہم نے 2024-25کے لیے 5ٹریلین ڈالر کا ہدف مقرر کر ہی لیا ہے تو حساب کرکے دیکھیں تو ہمارے مجموعی شرح نمو میں اضافہ کی شرح اندازاً 10.48فیصد کی رفتار سے ہونی چاہیے۔ فی الوقت ہماری معیشت نیچے کی سمت میں غوطہ لگارہی ہے۔ اگر ہمارے جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح کی رفتار 10.5فیصد مسلسل 6برسوں تک رہے گی تب ہی ہم اس ہدف کو پاسکیں گے جو ناممکن نظر آتا ہے۔ اکثر ماہرین اقتصادیات مانتے ہیں کہ ۵ ٹریلین ڈالر کا ہدف تقریباً ناقابل رسائی ہے دوسری طرف حکومت سے وابستہ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر یہ ہدف مجموعی شرح نمو کے اضافہ کی شرح 7فیصد ہوتو ممکن ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ملک کے افراط زر کی شرح 3.7فیصد رہے۔ فی الوقت افراط زر کی شرح کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے آسمان کو چھورہی ہے۔
عام آدمی مہنگائی کی مار جھیلتے جھیلتے اب سڑکوں پر آگئے ہیں۔ مہنگائی اور افراط زر کی رفتار جس طرح بڑھی ہے وہ عوام الناس کے پیٹ پر لات مارنے کے مترادف ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تھوک قیمتوں پر مبنی افراط زر کی شرح جنوری 2020میں 3.1فیصد ہوگئی جبکہ سال 2019کی اسی مدت میں 2.76فیصد تھی۔ اس سے پہلے دسمبر میں افراط زر کی شرح 2.59فیصد تھی۔ پیاز، آلو جیسے خوردنی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے افراط زر کی شرح کافی بڑھی ہے۔ ادھر گیس سلنڈر میں یکبارگی 150روپے اضافہ کی وجہ سے افراط زر بڑھ کر 7.59فیصد ہوگئی اس لیے مہنگائی صرف 3ماہ نومبر 2019میں 5.54فیصد، دسمبر میں 7.35فیصد اور جنوری 2020میں 7.59فیصد اضافہ درج کیا گیا۔
موجودہ تناظر میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ترجمان گیری رائس نے ملک کے حالیہ بجٹ پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا موجودہ معاشی ماحول ہماری پیش گوئی سے زیادہ ہی کمزور ہے۔ بھارت کو دور رس مالی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ درمیانی مدت میں آمدنی کو بڑھایا جاسکے۔ اس سمت میں جو بھی کوششیں کی گئی ہیں وہ ناکافی ہیں۔ حکومت ٹیکس کے ذریعہ محصول وصول کرتی ہے اور پھر خرچ کرتی ہے جب حکومت کے اخراجات محصولات کے ساتھ بڑھ جاتے ہیں تو پھر اسے بازار سے اضافی رقم لینی پڑتی ہے۔ حکومت کی کل آمدنی اور اخراجات کے فرق کو مالی خسارہ کہتے ہیں۔ سماجی عدم مساوات، غربت کی مار اور اس جیسے دیگر مسائل سے ہمارا ملک لڑرہا ہے۔ ملک میں سماجی انصاف اور معاشرتی فلاح کے تمام دعووں کے باوجود امیری اور غریبی کی خلیج زیادہ ہی بڑھی ہے۔ آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کے کل 63ارب پتیوں کی املاک ملک کے سال 2018-19کے کل بجٹ 24.42کھرب روپے سے زیادہ ہے۔ ہندوستان کے ایک فیصد امرا کی کل املاک 70فیصد نچلے اور متوسط طبقے کے املاک سے 4گنا سے بھی زیادہ ہے جس کی وجہ سے عوام قوت خرید سے بھی محروم ہورہے ہیں تو دوسری جانب امرا کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ معاشرہ کے اندر اضطراب اور تخریب کا باعث بن رہا ہے۔ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 2153ارب پتیوں کے پاس 4.6بلین افراد سے زیادہ دولت ہے اس لیے ارب پتیوں اور سیاست پر اثر انداز ہونے والے حکمرانوں کی بڑھتی تعداد ہر جگہ مزید غربت میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔ وزیر مالیات نرملا سیتا رمن کے 5ٹریلین ڈالر کے ہدف کے بلند بانگ دعوے کو مسترد کرتے ہوئے موڈیز کی انوسٹرس سرویس نے مالی سال 2020کی بھارت کی مجموعی شرح نمو کی پیش گوئی کو کم کرکے رکھا ہے۔ موڈیز نے بھارت کی مجموعی شرح نمو کے تخمینہ کو 6.4فیصد سے کم دکھایا ہے۔ اس عالمی سروس ایجنسی کے مطابق بھارت کی معیشت گزشتہ دو سالوں میں زوال پذیر رہی ہے۔ پی ایم آئی انڈیکس مضبوط معیشت کا ضرور اشارہ کررہا ہے لیکن مجموعی شرح نمو پہلے کے تخمینے سے کم ہی رہے گی۔ ایجنسی نے کہا ہے کہ معیشت کی رفتار تیز کرنے کے لیے گھریلو مانگ اور کریڈٹ میں اضافہ بہت ضروری ہے لیکن آر بی آئی کی ہدایت کے باوجود بھارتی بینک قرض دینے میں کوتاہی کررہے ہیں۔ دسمبر 2018میں نن فوڈ بینک کریڈٹ گروتھ 12.8فیصد تھی جو دسمبر 2019میں کم ہوکر 7فیصد رہ گئی۔ اس مدت میں صنعت کی کریڈٹ گروتھ 5.3فیصد رہی ہے۔ تمامشعبوں کے کریڈٹ گروتھ کا حال برا ہے لیکن تجارتی شعبہ کا حال مزید بدتر ہے۔ بھارت کے لیے گزشتہ ہفتہ اس لیے مایوس کن رہا کہ ملک کی تجارتی برآمدات چھٹے مہینے بھی زوال کی شکار رہی ہیں۔ گراوٹ کے اس رجحان نے معاشی نمو کی رفتار کو سست کردیا ہے۔ برآمدات کے میدان میں اہم کردار ادا کیے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ انہیں وجوہات کے مد نظر وزیراعظم کے مشاورتی کونسل کی پارٹ ٹائم رکن آشمہ گوئل نے بجٹ میں امید اور دور اندیشی کا فقدان بتایا۔ انہوں نے کہا کہ محصولات کے ہدف میں بہت زیادہ اضافہ ہے۔ سبسیڈی پر نظر ثانی کی ضرورت تھی کیونکہ لوگوں میں کھپت کی عادت بدل چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ مالی سال میں مجموعی شرح نمو محض ۵فیصد ہی رہے گی۔
ہماری معیشت آئی سی یو میں پڑی ہوئی ہچکیاں لے رہی ہے اس لیے معیشت کو آکسیجن لگانے کی لیے نجکاری کا زور دار سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ مثلاً ریلوے۔ ٹیلی کمیونیکیشن، شہری پرواز، توانائی پٹرولیم مصنوعات، کوئلہ اور کانکنی جیسی صنعتوں کو دھیرے دھیرے نجی ہاتھوں کو بیچا جارہا ہے اس کے علاوہ عوامی ملکیت کے بے حد منافع بخش اداروں کو بھی حکومت فروخت کرنےکا فیصلہ کرچکی ہے ان درجن بھر کمپنیوں میں انڈین و آئل کارپوریشن ، بی ایچ ای ایل ۔ جی اے آئی ایل، آئل انڈیا لمیٹیڈ، بھارت الکٹرانکس وغیرہ کو جلد از جلد بیچنے کے لیے ریلائنس میچول فنڈ کی ایڈوائزری ٹیم کو متعین کردیا گیا ہے۔ دراصل نجکاری سے حاصل ہونے والی رقم کو قرضوں کی ادائیگی ، اداروں کی تشکیل نو، بیمار صنعتوں کو چست کرنا اور بنیادی ، سماجی فلاح و بہبود کی اسکیموں کی بہتری کے لیے ہونا چاہیے لیکن مودی حکومت اس رقم کو اپنا مالی خسارہ پورا کرنے میں لگانے جارہی ہے۔ ویسے بھی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے غیر دانشمندانہ اقدامات سے 3 کروڑ16 لاکھ بے روزگاروں کی فوج سڑکوں پر آگئی ہے۔ آج بھارت معاشی لحاظ سے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ آسمان کو چھوتی مہنگائی، کساد بازاری، پیداوار میں کمی، بجٹ خسارہ، ختم ہوتا ہوا زر مبادلہ، بڑھتا افراط زر، بھارتی معیشت کے لیے ایک بڑی مصیبت اور عذاب سے کم نہیں ہے۔
**