مغرب کی تہذیبی یلغار اور ہندوستان کا تمدنی انتشار لمحہ فکریہ

تعمیری ادب کے نام لیواؤں کی ذمہ داری دوگنی

ڈاکٹر سید عبدالباری ، شبنم سبحانی

شعرا اور ادبا اقبال کی طرح مشرق کی رہبری کا فریضہ انجام دیں
اس وقت ہندوستان کے بڑے شہروں اور بڑی دانش گاہوں میں مغربی کلچر کی طوفانی ہوائیں ہر نو جوان لڑکے اور لڑکی کو اپنی لپیٹ میں لیتی جارہی ہیں ۔ یہ کلچر اقدار سے بغاوت ، مسلمہ اخلاقی اصولوں سے نفرت ، عریانی ،جنس زدگی اور شراب نوشی سے مرکب ہے۔ ہمارے رسائل و اخبارات بے تحاشا ننگی عورتوں کی تصویریں چھاپ کر اور ہمارے خاندان اپنی نو جوان لڑکیوں کو عریاں چست اور نہایت مکروہ لباسوں میں سڑکوں، پارکوں اور تعلیمی اداروں میں مٹر گشتی کی اجازت دے کر اسے اپنی روشن خیالی کی دلیل اور مغربی معیاروں پر اپنے کو اپ ٹو ڈیٹ ثابت کرنے کی کامیاب کوشش تصور کر رہے ہیں ۔طرح طرح کی جنسی بیماریاں طرح طرح کے اعصابی امراض اور طرح طرح کے ذہنی وجسمانی فساد کی زد میں ہمارا موجودہ معاشرہ آچکا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ عریانی بلکہ ننگا پن شاہراہوں ، یونیورسٹیوں اور تقاریب کو چھوڑیے فلم انڈسٹریز میں بھی ناپسندیدہ تھا۔ اخبارات ورسائل میں حیا سوز تصویر میں چھاپتے ہوئے ناشرین ڈرتے تھے۔ فحاشی اگر افسانوں ، ناولوں اور اشعار میں کہیں جھلک جائے تو معاشرہ سخت ناپسند کرتا تھا بلکہ مقدمہ بازی کی نوبت آ جاتی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ فحش و عریاں تصاویر اور جانوروں کی طرح جنسی افعال کے مظاہرے پر مبنی کہانیاں نو جوانوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرتی جارہی ہیں ۔ عریاں عورتوں کی تصاویر زیادہ تر مغربی آقاؤں کی حیا باختہ عورتوں کی ہوتی ہیں جسے دیکھ کر ہمارے نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ شاید طاقت و شوکت اور علمی و سائنسی ارتقاء کی بلندیوں پر پہنچنے والی قوم کے یہی لچھن ہوتے ہیں۔
ہندوستانی سماج میں جب تک اسلامی تہذیب کی صحت مند اقدار کا احترام تھا ملک کے غیر مسلم معاشرے میں بھی حیا وغیرت کو اپنے ماضی کا ایک بیش قیمت ورثہ تصور کرنے کا رجحان برقرار رہا۔ لیکن ادھر ایک عشرہ سے نہ صرف مغرب کی مصنوعات کے لیے برصغیر کا دروازہ چوپٹ کھل گیا نہایت تیزی سے وہاں کے چالاک تاجروں نے مغرب کی حیا باختہ سوسائٹی کے تمام امراض کو بھی ایکسپورٹ کرنا شروع کر دیا ہے۔ مغرب کا معاشرہ ایک بازاری معاشرہ ہے جس کی سب سے زیادہ کوشش یہ ہے کہ وہ اپنی غیر ضروری اشیا کو مشرق کے ہاتھ فروخت کر دے۔ اپنے سامان بیچنا ،خریداروں کو لبھانا ، نفسیاتی ہیجان میں مبتلا کرنا اور ایسی صورت حال پیدا کر دینا کہ وہ خریدنے پر مجبور ہو جائیں مغرب کا سب سے ترقی یافتہ فن ہے۔ بقول تھامس بے بیرٹ ’’کوئی بھی بیوقوف آدمی صابن بنا سکتا ہے لیکن اسے ایک ہوشیار آدمی ہی بیچ سکتا ہے‘‘ مغرب کا معاشرہ اشتہار کے ذریعہ جیتا اور اسی میں سانس لیتا ہے ۔ اس کے نزدیک انسان فطرتاً اشیاء پسند اور مادہ پرست ہے۔ میٹوچل کے الفاظ میں ’اشتہارات ہمارے نوجوانوں کے لیے سماجی مطالعہ کے نصاب بن گئے ہیں۔ کسی بھی نوجوان سے آزادی کے معنی پوچھیں تو وہ کہے گا کہ یہ وہ حق ہے جو وہ سب خرید نے کی چھوٹ دیتا ہے جو آپ خریدنا چاہتے ہیں ۔ایک جائزے کے مطابق امریکہ میں اوسط بالغ افراد ہر روز کوئی تین ہزار اشتہارات سے دو چار ہوتے ہیں ان میں بہت سے دو اشتہارات ہیں جو انسان کو حیوان بننے اور جو کچھ وہ جبلی طور پر کرنا چاہتے ہیں اسے کر گزرنے پر اکساتے ہیں‘‘۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج یہی مغرب ہمارے نوجوانوں کا امام ہے۔
ہماری یہ بھی بدقسمتی ہے کہ اس سیلاب کو روکنے کے لیے ہمارے پاس کوئی سدِّ سکندری موجود نہیں۔ ہماری تہذیب جو اس مادہ پرست تہذیب کا مقابلہ کر سکتی تھی خود صدیوں سے جمود کا شکار ہے ۔ ممتاز ترکی عالم قتیب چلیبی کے الفاظ میں ’’ہم خود چٹان کی طرح ساکن، جامد اور غیر متحرک ہیں ۔ اسلاف کی اندھی تقلید میں جمود کا شکار ہیں ۔ ہمارے علماء زمین و آسمان سے بے خبر ہیں حالانکہ قرآن حکیم زمین وآسمان کے نظام پر غور کرنے کی بار بار دعوت دیتا ہے ۔ زمین وآسمان پر غور وفکر کرنے سے مراد ان کے نزدیک یہ ہے کہ گائے کی طرح ٹک ٹک اسے دیکھتے رہیں اور اپنی جگہ پر جمود کی علامت بنے رہیں‘‘۔
لیکن اب تہذیبی انارکی کا جوطوفان آیا ہے وہ ہمیں ایک گوشہ میں بھی چپ چاپ بیٹھنے نہ دے گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بے حیائی اور حیوانیت اس میں ملوث نہ ہونے والوں کو بھی زندہ نہ رہنے دے گی۔ اس وقت دانشور اور قلمکار اگر اپنی تہذیب کی حفاظت اور اپنی اقدار کے دفاع کے لیے شعوری جد وجہد نہیں کرتا تو وہ گویا اپنی تاریخی ذمہ داری سے دامن کش ہور ہا ہے ۔ وہ یہ فارمولے تراش کر اجتماعی جواب دہی سے نجات نہ پا سکے گا کہ ادب وفن اس کا ذاتی مشغلہ ہے اور اس کا اجتماعی ومعاشرتی مسائل سے کیا لینا دینا اور اس خلجان میں وہ خود کو ڈال کر اپنے فن کو بر باد اور تخلیقی صلاحیت کو ضائع نہیں کرنا چاہتا ہے۔ مغرب جس نے گزشہ تین صدیوں کی مسلسل اورانتھک محنت کے بعد دنیا کے ذخائر پر قبضہ کر لیا ہے علم وفن کے میدان میں سب سے آگے نکل چکا ہے اور دنیا کی باگ ڈور سنبھالنے میں کوئی قوم اور کوئی تہذیب اس کے مد مقابل نہیں۔ اگر آج اپنے ادب اور معاشرہ میں طرح طرح کی بے ہنگم تفریحات سے دل بہلا رہا ہے اور حیا سوزی وحیوانیت کو آزادی فکر وعمل کے نام پر غیرترقی یافتہ ملکوں کو ایکسپورٹ کر رہا ہے تو اس سے اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوا اس لیے کہ وہ اس آوارگی فکر وعمل کے باوجود اپنے بے پناہ وسائل اور ایجادات کے ذریعہ دنیا پر حکمرانی کر سکتا ہے۔ ہاں مشرق ضرور اپنی بچی کھچی تہذیبی پونجی کو گنوا کر اور ننگوں کے ساتھ رقص دیوانگی میں شریک ہو کر اپنے لڑکھڑاتے وجود کو ملیامیٹ کر دے گا۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور خطرناک چیلنج کا اسے جواب دینا ہے ۔ دانشور اور قلم کار اس مرحلہ میں اقبال کی طرح آگے بڑھ کر مشرق کی رہبری کر سکتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ یہ تاریخ ساز کردار ادا کر یں گے ۔
( ماخوذ۔ماہنامہ پیش رفت اکتوبر ۲۰۰۳ء۔ مضمون نگار ادارہ ادب اسلامی ہند کے بانیان میں سےتھے، ماہنامہ پیش رفت کے ایڈیٹر تھے اور ادب کے حلقوں میں اسلامی نادب کے نمائندے کے طور پر جانے جاتے تھے۔ قلمی نام ’ شبنم سبحانی ‘کے نام سے معروف ہیں)

 

***

 اگر آج اپنے ادب اور معاشرہ میں طرح طرح کی بے ہنگم تفریحات سے دل بہلا رہا ہے اور حیا سوزی وحیوانیت کو آزادی فکر وعمل کے نام پر غیرترقی یافتہ ملکوں کو ایکسپورٹ کر رہا ہے تو اس سے اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوا اس لیے کہ وہ اس آوارگی فکر وعمل کے باوجود اپنے بے پناہ وسائل اور ایجادات کے ذریعہ دنیا پر حکمرانی کر سکتا ہے۔ ہاں مشرق ضرور اپنی بچی کھچی تہذیبی پونجی کو گنوا کر اور ننگوں کے ساتھ رقص دیوانگی میں شریک ہو کر اپنے لڑکھڑاتے وجود کو ملیامیٹ کر دے گا۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور خطرناک چیلنج کا اسے جواب دینا ہے ۔ دانشور اور قلم کار اس مرحلہ میں اقبال کی طرح آگے بڑھ کر مشرق کی رہبری کر سکتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ یہ تاریخ ساز کردار ادا کر یں گے ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 تا 19 مارچ  2022