معاشی پیکیج کا پوسٹ مارٹم

کیا20 لاکھ کروڑ کا پیکیج صرف زبانی جمع خرچ ہے

ڈاکٹر سلیم خان

دنیا میں شاید اپنا برّصغیر ہی وہ واحد علاقہ ہے جہاں آج بھی بینڈ باجا اور باراتیوں کا رواج زندہ وتابندہ ہے۔ شادی سے قبل دولہا ودلہن کے خاندانوں اور مہمانوں کا ایک جگہ بیٹھ کر کھانا پینا تو ہر جگہ ہوتا ہے لیکن بڑی شان سے ’گھوڑی پہ ہو کے سوار چلا ہے میرا یار‘ والا منظر کہیں اور نظر نہیں آتا۔ بچے، بوڑھے، مرد اور خواتین کا موسیقی کی تھاپ پر سڑک پر ناچنا کودنا بھی یہیں ہوتا ہے۔ معاشرت کی یہ تہذیب سیاست کے اندر بھی گھر کر گئی ہے۔ کورونا کی بیماری آئی تو دنیا بھر کی حکومتوں نے اس سے نمٹنے کے لیے راحت پیکیج کا اعلان کیا۔ یہی ہندوستان میں بھی ہوا لیکن قسطوں میں، جیسے اپنے یہاں شادی بیاہ میں ہوتا۔ پہلے بات چیت ہوتی ہے کچھ چیزیں طے ہوتی ہیں اور بیانیہ کے طور کچھ تحفے تحائف دیے جاتے ہیں۔ یہ تو مودی جی کے پہلے پندرہ ہزار کروڑ روپے تھے اس کو نئی اصطلاح میں ٹوکن منی کہہ لیں۔ اس کے بعد نرملا سیتا رامن نے ایک لاکھ 75 ہزار کروڑ روپیوں کا اعلان کرکے منگنی کی رسم ادا کی۔ اس دوران وزیر اعظم جشن مناتے رہے یعنی کبھی تالی اور تھالی پٹواتے تو کبھی دیا اور بتی جلواتے۔ جب عوام بیزار ہوگئے تو فوج کو پھول برسانے کا حکم دے دیا اور جب بہاروں نے پھول بھی برسا دیا تب جا کر عظیم معاشی پیکیج کا اعلان کر دیا گیا۔ اس طرح تقریباً دو ماہ کے اندر غریب عوام کی وہی حالت ہوگئی جو دلہن کے غریب باپ کی ہوتی ہے لیکن ملک کے 130 کروڑ باراتی خوش ہوگئے اور بھکت تو لاج شرم کو چھوڑ کر ایسے جھوم کے ناچے کہ گھنگھرو ٹوٹ گئے۔
وزیر اعظم نے جو منتر پڑھے وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آئے اس کے بعد سات پھیرے لگوانے کی ذمہ داری انہوں نے پھر سے ‘منگنی ماسٹر’ نرملا سیتارامن کو سونپ دی اس لیے کہ اس معاشی پیکیج کا چھلاوہ نہایت پیچیدہ تھا۔ اس کو سمجھنا اور سمجھانا کم ازکم وزیر اعظم کے بس کی بات تو نہیں تھی۔ عام لوگوں کی شادی کی رسم چند گھنٹوں میں نمٹ جاتی ہے لیکن خاص لوگوں کو کوئی کام تو ہوتا نہیں ہے اس لیے ان کے رسوم و رواج اور ناچ رنگ کا سلسلہ کم ازکم ہفتہ بھر تو چلتا ہی ہے۔ ملک کی معیشت کو نیا رخ دینے میں پوری طرح ناکام ہو جانے والی وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن نے اس فضول کام کا حق ادا کر دیا۔ مودی جی کا ٹریلر تو ۳۳ منٹ کا تھا مگر نرملا سیتا رامن سیریز ۵ دنوں تک گھسٹتی رہی اور حال یہ ہوا کہ کئی پر جوش باراتی ناچتے ناچتے بے ہوش ہوگئے۔ نرملا جی اپنے کئی معاونین کے ساتھ ہر روز پریس کانفرنس میں نمودار ہو کر پیکیج کی جستہ جستہ نقاب کشائی فرماتی رہیں۔ پہلے دن جب وہ اخبار نویسوں کے سامنے آئیں تو ان کے چہرے پر پورا ماسک تھا۔ وقت کے ساتھ پیکیج کا پردہ اٹھتا گیا اور ان کا ماسک بتدریج گرتا گیا یہاں تک کہ آخری دن جب پیکیج مکمل بے نقاب ہوگیا تو ماسک بھی پوری طرح غائب ہو چکا تھا۔ اس پیکیج میں بار بار جھانکنے کے بعد بھی جب کوئی ٹھوس شئے نظر نہیں آئی تو بے ساختہ نصف صدی پرانی فلم نیل کمل میں ساحر لدھیانوی کا لکھا مشہور نغمہ یاد آگیا۔
خالی ڈبہ خالی بوتل لے لے میرے یار
خالی سے مت نفرت کرنا خالی ہے سنسار
خالی کی گارنٹی دوں گا بھرے ہوئے کی کیا گارنٹی
ہم نے اس دنیا کے دل میں جھانکا ہے سوبار
وزیر اعظم کے لیے یہ راحت پیکیج نہیں بلکہ سیاسی سودے بازی تھی۔ تجارت کا آسان سا اصول یہ ہے کہ واجبی منافع کمانے کے لیے سرمایہ لگا کر محنت کرنی پڑتی ہے لیکن اگر کوئی کم سے کم وقت میں بہت زیادہ منافع سمیٹ لینا چاہتا ہے تو اسے مذکورہ بالا اجزائے ترکیبی میں دھوکہ اور فریب کی ملاوٹ کرنی پڑتی ہے۔ یہ خطر ناک عمل ہے کیونکہ ایسا کرنے والوں کو کبھی کبھار غیر معمولی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے مثلاً جیل جانا یا خودکشی کرنا وغیرہ۔ حکومت نے جو جوا کھیلا ہے اس سے اسے جی ڈی پی میں دس فیصد کے برابر فائدے کی توقع ہے جبکہ اس پر ایک فیصد سے بھی کم خرچ کیا جا رہا ہے۔ اب کوئی ایک روپے کا مال گاہکوں کو بیوقوف بناکر دس روپے میں بیچ رہا ہو تو کیا وہ ایماندار تاجر کہلائے گا؟
کورونا راحت پیکیج میں سرکار کی جانب سے دیا جانے والا قرض، بنک گارنٹی اور حکومت کی اجازت سے کاروبار میں ہونے والے متوقع فائدے کو پیکیج میں جوڑ دیا گیا ہے اور بڑی چالاکی سے معاشی اصلاحات کا خرچ اور بجٹ کے اس خسارے کو بھی شامل کرلیا گیا ہے جس کا کوویڈ-19 کی وباء سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ملک کو خود کفیل بنانے وا لے 20 لاکھ کروڑ روپیوں میں سرکار کی جیب سے صرف ۱۱ لاکھ کروڑ روپے خرچ ہوں گے جو کل جی ڈی پی کا ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ان ۱۱ لاکھ کروڑ روپیوں میں بھی سرکاری خزانے سے دو کروڑ سے کم پردھان منتری غریب کلیان یوجنا سے آئے گا اور ۸ لاکھ کروڑ ریزرو بنک آف انڈیا دے گا۔ عوام کے ساتھ حکومت نے یہ دھوکہ دہی چونکہ بڑی صفائی سے کی ہے اس لیے تفصیل میں جانے سے قبل اسے چند مثالوں کی مدد سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً سرکار نے اعلان کیا کہ خیراتی اور دیگر تجارتی اداروں کی جو واجب الادا رقم ہے اسے پیکیج کے تحت حکومت کے خزانے سے فوراً لوٹا دیا جائے گا۔ عوام کا روپیہ جو حکومت دبائے بیٹھی ہے اس کی واپسی راحت پیکیج کا حصہ کیوں کر ہو گئی؟
ایک اور تماشہ دیکھیں کہ سرکار دس فیصد ٹیکس ریٹرن فائل ہونے سے پہلے ہی کاٹ لیتی ہے اور سال کے آخر میں حساب کتاب ہونے پر زائد جمع شدہ ٹیکس واپس کرتی ہے۔ اب پیشگی ٹیکس کٹنے کی شرح 7.5 فیصد کر دی گئی لیکن یہ کوئی سہولت نہیں ہے یعنی سال کے آخر میں جو ٹیکس بنے گا اسے تو ادا کرنا ہی ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے 2.5 فیصد ٹیکس پیشگی لینے کے بجائے چند ماہ کے لیے موخر کر دیا اور اس سہولت کے 50 ہزار کروڑ کو پیکیج میں شامل کر دیا۔ یہ فریب کاری نہیں تو اور کیا ہے؟ منظم شعبے کے اندر ملازمین کی تنخواہوں میں سے ہر ماہ 12 فیصد کٹ جاتا ہے اور کمپنی اس میں 12 فیصد ملا کر مستقبل کے لیے محفوظ کر دیتی ہے۔ اب حکومت نے کہا کہ اگلے تین مہینوں تک صرف 10 فیصد کٹے گا۔ اس سے اول تو مالک کے 2 فیصد بچ جائیں گے اور ملازم کو 2 فیصد اضافی تنخواہ مل جائے گی لیکن اس کی بچت میں 4 فیصد کی کمی واقع ہو جائے گی اور جو لوگ سود کو حلال سمجھتے ہیں ان کا سود بھی کم ہو جائے گا۔ اسی کے ساتھ اس کو زیادہ ٹیکس دینا پڑے گا یعنی حکومت نے اپنی جیب سے ایک روپیہ بھی خرچ کیے بغیر دو طرح سے ملازم کی جیب پر ڈاکہ ڈالا اور دو طرفہ نقصان کرنے کے بعد اس پر الٹا احسان بھی تھوپ دیا نیز جو اضافی 6,750 کروڑ روپیہ نقدی بازار میں آئے گی اسے پیکیج میں جوڑ لیا۔ اس پیکیج میں غیر قومی بنکنگ اداروں کو تین لاکھ کروڑ کی ضمانت (کریڈٹ) دی گئی تاکہ وہ چھوٹے اور درمیانہ صنعتوں کو قرض دے سکیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ان قرض خواہوں میں سے کوئی لوٹا نہ سکے تو وہ حکومت ادا کرے گی۔ وہ کتنا ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا لیکن پوری رقم 45,000 کروڑ کو پیکیج میں جوڑ لیا گیا۔ یعنی یہ فرض کرلیا گیا کہ سارے قرض ڈوب جائیں گے جو کہ نا ممکن ہے۔ ملک کے اندر بجلی تقسیم کرنے والے قومی ادارے فی الحال وسائل کے فقدان کا شکار ہیں۔ پاور فائنانس کارپوریشن انہیں 90 ہزار کروڑ روپیوں کا قرض دے گا۔ اس قرض کا بھلا کورونا سے کیا تعلق؟ یہ قرض تو آگے چل کر حکومت سود سمیت وصول کرلے گی۔ لیکن جو لوگ عوام کو فائدہ پہنچانے کے بجائے انہیں بیوقوف بنانے کو ہی کار گزاری سمجھتے ہوں وہی ایسے تماشے کرتے ہیں۔ درحقیقت اس 20 لاکھ کروڑ کے پیکیج کی حیثیت ہاتھی ان بڑے بڑے دانتوں کی ہے جو کھانے کے نہیں بلکہ دکھانے کے کام آتے ہیں۔
حساب کتاب کرنے کے بعد ماہرینِ معاشیات اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جملہ 21 لاکھ کروڑ روپیوں میں سے عوام کو براہِ راست صرف 3.15 لاکھ کروڑ روپے ہی ملیں گے یعنی صرف ٪14 لوگوں کو ہی فائدہ پہنچے گا۔ اس 3.15 کروڑ کے علاوہ 1.70 کروڑ پی ایم غریب کلیان کے بجٹ سے آئے گا۔ وہ تو بجٹ میں شامل تھا ہی کورونا اگر نہیں آتا تب بھی یہ رقم خرچ ہونی ہی تھی۔ اس کے تحت غریبوں کی فلاح وبہبود کے لیے اسکیمیں چلائی جاتی ہیں مثلاً طبی عملہ کے انشورنس کے پریمیم کی ادائیگی، غریب خاندان کو تین ماہ کے لیے ۵ کلو گیہوں اور ایک کلو دال۔ کسانوں اور خواتین کو مفت گیس، بزرگوں اور بیواؤں کے لیے ایک ہزار روپیوں کی امداد وغیرہ۔ ان اخراجات کو بلا وجہ کورونا راحت پیکیج میں شامل کیا گیا ہے۔ حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ جن صنعتوں میں سو سے کم لوگ کام کرتے ہیں ان میں سے جن کی تنخواہ پندرہ ہزار روپے سے کم ہے ان کی آمدنی کا چوبیس فیصد یعنی زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین ہزار روپے فی کس حکومت ادا کرے گی اور وہ بھی صرف تین ماہ کے لیے۔ ان شرائط کو دیکھنے کے بعد جب اس سے ملنے والی رقم کو دیکھا جائے تو بے ساختہ ہنسی آ جاتی ہے۔
منریگا یو پی اے کے زمانے سے چلنے والی ایک دیہی روزگار کی اسکیم ہے۔ اس کے تحت یومیہ اجرت میں صرف 20 روپیہ کا اضافہ کیا گیا جو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر ضروری ہو گیا تھا یعنی 182 کے بجائے اجرت کی نئی شرح 202 روپے طے کی گئی لیکن اس پورے خرچ کو اب پیکیج میں شامل کر دیا گیا جس کی کوئی تُک نہیں ہے۔ ایک زمانے میں وزیر اعظم منریگا کو کانگریس حکومت کی نا اہلی کا تمغہ قرار دے کر تمسخر اڑایا کرتے تھے لیکن اب اس کی ستائش کر کے اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے تحت دیہی علاقوں میں 300 دنوں تک لوگوں کو روزگار دینے کے لیے حکومت نے 40000 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ اس سے ہر فرد کے لیے سو دنوں کے روزگار کا حساب لگایا گیا ہے۔ اس طرح صرف تین کروڑ محنت کشوں کو کام ملے گا۔ اس برسوں سے جاری وساری معمول کے بجٹ خرچ کو پیکیج میں شمار کرنا شرمناک ہے۔ مہاجر مزدوروں کے قیام وطعام کے لیے سرکار نے چار ہزار کروڑ روپے مختص تو کیے ہیں لیکن وہ کب خرچ ہوں گے اور اب تک کتنا خرچ ہوا یہ کسی کو نہیں معلوم؟ وہ بیچارے سڑکوں پر بھوکے پیاسے انتظامیہ کے ڈنڈوں پر ڈنڈے کھاتے چلے جا رہے ہیں اور حکومت ان کے نام پر بھرم پھیلا کر اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے۔ اس راحت پیکیج میں مدد کم اور قرض زیادہ ہے نیز قرض کی ادائیگی میں جو تین ماہ کی سہولت دی گئی ہے اس خرچ کو بھی اس میں شمار کیا گیا ہے مثلاً متوسط طبقے کے وہ لوگ جن کی سالانہ آمدنی اٹھارہ لاکھ روپیوں سے کم ہے ان کو گھر خریدنے پر حکومت کی جانب سود میں ۳ سے ۴ فیصد تک کی سہولت ملتی رہی ہے۔ اس سہولت کو آئندہ سال تک بڑھانے کے نتیجے میں جو خسارہ ہوگا وہ پیکیج کا حصہ ہے۔ صنعتی استحکام کے لیے جو رقم بجٹ میں شامل تھی اس کو پیکیج کا نام دے دیا گیا۔ فوڈ پروسسنگ انڈسٹری کی ترقی کے لیے دس ہزار کروڑ کی رقم یہاں چلی آئی۔ پھلوں اور سبزیوں کی ترسیل اور گوداموں پر جو ایک ہزار کروڑ خرچ ہونے تھے وہ راحت پیکیج میں ڈال دیے گئے۔ یہ سارے اعلانات وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن نے پہلے دن کیے۔ ان کا تو عوام سے کھینچ تان کر کوئی نہ کوئی سروکار ڈھونڈا بھی جاسکتا ہے لیکن دوسرے دن سے جو کہانی شروع ہوئی اس کا نہ تو عام لوگوں سے کوئی واسطہ تھا اور نہ کورونا سے کوئی تعلق۔ وہ تو نام نہاد معاشی اصلاحات کے لیے کیے جانے والے اقدامات تھے۔ ان پر ایک غائر نظر ڈال کر ہر کوئی اس حقیقت کا ادراک کر سکتا ہے۔
حکومت چاہتی ہے کہ کاروباری لوگ قرض لیں لیکن اس کے لیے معاشی اداروں اور بنکوں کے پاس پیسہ ہونا چاہیے چنانچہ اس مقصد کے تحت حکومت نے ان کو بالترتیب 8 اور 9 لاکھ کروڑ روپے مہیا کیے تاکہ وہ سود پر قرض دے سکیں لیکن اس کو بھی پیکیج کا حصہ بنا دیا گیا۔ جیسا کہ اوپر کہا جا چکا ہے کہ یہ نقدی نہیں بلکہ کریڈٹ لائن ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قرض کے جال میں پھنسایا جا سکے۔ ان قرضہ جات کے خسارے کو سرکار نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ذاتی قرض اور گاڑی کا قرض جو عام طور پر کم ہوتا ہے اور نہیں ڈوبتا۔ اس کی پوری گارنٹی حکومت لے گی مگر جہاں ڈوبنے کا امکان ہے یعنی ادارہ جاتی قرض تو وہاں صرف 20 فیصد خسارہ حکومت برداشت کرے گی لیکن اپنے 80 فیصد بچانے کے لیے بنک ایسے لوگوں کو قرض ہی نہیں دے گا جس کے ڈوبنے کا اندیشہ ہو اس لیے یہ رقم کبھی خرچ ہی نہیں ہوگی بس کاغذ پر لکھی جائے گی اور انتخابی جلسوں میں اسے دہرایا جائے گا۔
صنعتوں کے علاوہ کسانوں کو ٹریکٹر اور بیج وغیرہ کے لیے قرض دینے کی خاطر سرکاری ادارہ نابارڈ کوآپریٹیو اور دیہی بنکوں کو 30 ہزار کروڑ روپے قرض دے گا لیکن قرض تو قرض ہی ہے مدد تھوڑی ہے۔ ایسے میں راہل گاندھی کی وہ بات یاد آتی ہے کہ بچے کو بھوک لگی ہو تو ماں اسے قرض نہیں دیتی بلکہ اس کے ساتھ مشفقانہ سلوک کرتی ہے مگر یہ سفاک حکومت اپنی ہی مجبور عوام کے لیے مہاجن بن گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے دن سے نرملا سیتا رامن کے تئیں عام لوگوں کے اندر اس قدر بیزاری پیدا ہوگئی کہ انہوں نے ان کی، پریس کانفرنس کو دیکھنا اور ان کے اعلانات کو پڑھنا تک گوارا نہ کیا۔ اخبارات میں بھی وہ خبر شاہ سرخی بننے کے بجائے نیچے اتر گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی مودی جی نے اپنے پانچویں خطاب میں جو غبارہ چھوڑا تھا اس کی ہوا نکل چکی تھی اور پیکیج کی حالت امیر مینائی کے اس شعر کی طرح ہوچکی تھی ؎
سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
تیسرے دن درمیانہ صنعتوں کی سہولت اس طرح شروع ہوئی کہ جن فیکٹریوں کا ٹرن اوور ۱۰۰ کروڑ روپے ہے اور وہ پچیس کروڑ کی مقروض ہیں تو انہیں مزید پانچ کروڑ روپے قرض مل سکے گا ان کی گارنٹی حکومت لے گی۔ ان میں شرائط کا فائدہ اٹھانے والا تو پہلے ہی مقروض ہے اس کا بوجھ کم کرنے کے بجائے مزید بڑھا کر کیا حکومت اس سے خود کشی کروانا چاہتی ہے؟ اس کے علاوہ نجی سرمایہ کاروں کو درمیانہ صنعتوں میں سرمایہ کاری کے لیے سرکار ی قرض ملے گا۔ سوال یہ ہے کہ حکومت براہِ راست قرض دینے کے بجائے نجی سیٹھوں کو درمیان میں کیوں لا رہی ہے؟ کیا وہ چاہتی ہے کہ بڑے سرمایہ دار حکومت کی مدد سے متوسط درجہ کے کارخانوں کو خرید لیں۔ اس قرض در قرض کے پچاس ہزار کروڑ روپیوں کو پیکیج میں شامل کرلیا گیا۔ حد یہ ہے کہ ٹھیلا لگانے والوں اور چھوٹے کسانوں کی مدد کرنے کے بجائے کہا گیا کہ ان کو قرض دیا جائے گا۔ زراعتی شعبے میں انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری کے لیے حکومت نے ایک لاکھ کروڑ روپیوں کی گنجائش رکھی ہے لیکن اس سے ان کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا جن کی فصل تیار ہے اور وہ اسے بیچنے کے لیے پریشان ہیں۔
پانچویں دن جب کچھ نہیں بچا تو وزیر خزانہ نے 63 ہزار کروڑ روپے ماہی گیری، مویشی پالنے اور شہد کی مکھیوں کو سنبھالنے وغیرہ کے لیے مختص کرنے کا اعلان کر دیا۔ صحت اور تعلیم کے شعبے میں نجی اداروں کو 20 تا 30 فیصد حصہ داری کی اجازت اور اس کے لیے سرمایہ مہیا کرانے کا وعدہ کیا۔ اس طرح ایمرجنسی آلات خریدنے پر بھی کچھ خرچ کرنے کی بات کی۔ ان کھوکھلے اعلانات سے عوام تو کنفیوز ہوتے اور بہلتے رہے جب کہ اندھے بھکت بغیر کچھ سمجھے بغلیں بجاتے رہے لیکن شیئر بازار کے گھاگ سرمایہ دار جھانسے میں نہیں آئے۔ اس ہفتے پہلے ہی دن سین سیکس 1068 اور نفٹی 313 پوائنٹ نیچے بند ہوا جو تقریباً ساڑھے تین فیصد کی غیر معمولی گراوٹ تھی۔ حصص بازار کی یہ گراوٹ پیکیج کے تئیں مایوسی کا کھلا اظہار تھا ورنہ کیا وجہ ہے کہ امریکہ میں پیکیج کے اعلان سے بازار سنبھلنے لگا اور یہاں لڑھکنے لگا۔ بامبے اسٹاک ایکسچینج کی ٪69 کمپنیوں کے حصص نیچے اترے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طرٖف سرکار بنکوں کو قرض دینے کے لیے سہولت دے رہی تھی اور دوسری جانب ۹ بڑے بنکوں کے شیئر ساڑھے پانچ سے لے کر ساڑھے نو فیصد تک گر رہے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام کو بیوقوف بنانا جس قدر سہل ہے سرمایہ داروں کو احمق بنانا اتنا ہی مشکل ہے۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ جو پیکیج گھریلو سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکا وہ بھلا غیر ملکی سرمایہ داروں کو ہندوستان میں آکر سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب کیسے دے سکے گا؟ مودی جی کو یاد رکھنا چاہیے کہ عوام کو احمق بنا کر ان کا ووٹ کاٹ لینا سہل ہے لیکن سرمایہ دار کا چوکیدار بننے کے باوجود اس کی تجوری میں سیندھ لگانا کتنا مشکل ہے۔ اس پیکیج کے پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا کہ یہ بھی کورونا زدہ نکلا۔ پہلی نظر میں اس کے علامات ظاہر نہیں ہوتے لیکن بہت جلد سانس اکھڑنے لگتی ہے اور پتہ چل جاتا ہے کہ یہ بھی لادوا وباء کا شکار مریض ہے۔ اس پیکیج کی بابت جب وقت کے ساتھ ساتھ اندھے بھکتوں کی آنکھوں پر پڑی پٹی ہٹے گی تو ان کی حالت امیر مینائی کی سی ہو جائے گی ؎
وہ بے دردی سے سر کاٹیں امیرؔ اور میں کہوں ان سے
حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ
***

 

اس دوران وزیر اعظم جشن مناتے رہے یعنی کبھی تالی اور تھالی پٹواتے تو کبھی دیا اور بتی جلواتے۔ جب عوام بیزار ہوگئے تو فوج کو پھول برسانے کا حکم دے دیا اور جب بہاروں نے پھول بھی برسا دیا تب جاکر عظیم معاشی پیکیج کا اعلان کر دیا۔ اس طرح تقریباً دو ماہ کے اندر غریب عوام کی وہی حالت ہوگئی جو دلہن کے غریب باپ کی ہوتی ہے لیکن ملک کے 130 کروڑ باراتی خوش ہوگئے