مصر کا ابوالہول ( Sphinx )جسے دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے
ہزاروں سال قبل دیوہیکل بُت کی تخلیق کامقصد مصر کی حفاظت تھا
ڈاکٹرابوالفرقان
دنیا بھر میں ہر طرف عجائب بھرے پڑے ہیں۔ ان میں سے ایک مصر کے اہرام بھی ہیں۔ دنیا بھر کی مختلف ویب سائٹس پر ابوالہول کی بکھری ہوئی معلومات کو قارئین ہفت روزہ دعوت کی دلچسپی کے لیے یہاں یکجا کیا جا رہا ہے۔ اہرامِ مصر کے درمیان ہی ابوالہول نامی ایک آثار موجود ہے جس کا دھڑ شیر کا اور سر آدمی کا بنا ہوا ہے۔ ابوالہول عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’خوف کا باپ‘‘ ہیں۔ اس کو انگریزی میں Sphinx کہتے ہیں جو کہ قدیم یونانی کہانیوں سے ماخوذ ہے جس میں بھی ایک خاتون کا تذکرہ ہے جس کا دھڑ شیر کا اور چہرہ عورت کا ہوتا ہے۔ جس کو Sphinx کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ عظیم الجثہ بت ہے جو کہ جیزہ (قاہرہ) میں اہرام مصر کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ ابوالہول نام فاطمی دور میں رائج ہوا۔ اس سے قبل اس کا قبطی نام ’’بلہیت‘‘ مشہور تھا۔ عہد قدیم میں لفظ ’’ابوالہول‘‘ کا اطلاق صرف اس مجسمے کے سر پر ہوتا تھا کیونکہ اس زمانے میں اس کا پورا دھڑ ریت میں دبا ہوا تھا۔ قدیم مصر کے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ بت ایک طلسم ہے جو وادی نیل کی حفاظت کرتا ہے۔ ابوالہول کی لمبائی 189 فٹ اور اونچائی 65 فٹ کے قریب ہے۔ قدیم مصری دیو مالا میں اس قسم کے مجسمے فراعنہ کی الوہیت کی علامت سمجھے جاتے تھے اور بعض مجسموں میں مینڈھے یا عقاب کا سر بھی بنایا جاتا تھا۔جیزہ کا ابوالہول ایک ہی چٹان سے تراش کر بنایا گیا تھا جو خفرع کے ہرم کے نزدیک ہے۔ اب اتنی بڑی چٹان کو معلوم نہیں وہ کیسے اس صحرا تک لائے ہوں گے۔ ابوالہول کا تصور دراصل یونانیوں نے مصر کے علم الاصنام یا دیو مالا سے مستعار لیا۔ یونانیوں کے نزدیک ابوالہول ایک پردار مادہ ببر شیر تھا جس کا چہرہ نسوانی تھا۔ اس کے بارے میں ایک عجیب داستان مشہور ہے۔ یونانیوں کا کہنا تھا کہ یونان کی ابوالہول یونان کے شہر ییوٹیا کی ایک اونچی پہاڑی پر رہا کرتی تھی۔ جو لوگ بھی اس کے سامنے سے گزرتے وہ انہیں ایک معمہ حل کرنے کو دیتی جو اس کا صحیح حل نہ بتا سکتا اس کو وہ ہڑپ کر جاتی۔ بالآخر ایک تھبیس ہیرو اوڈی پس نے اس معمہ کا صحیح حل پیش کیا اور یوں اس کی موت کا سبب بنا۔ معمہ یہ تھا کہ وہ کون ہے جو صبح کو چار ٹانگوں پر چلتا ہے دوپہر کو دو ٹانگوں پر اور شام کو تین ٹانگوں پر۔ جو بھی اس معمہ کا حل نہ بوجھ سکتا اسے یہ عفریت ہلاک کر ڈالتا۔ آخر اوڈی پس نے یہ معمہ حل کر لیا۔ اس پر sphinx نے چٹان سے گر کر خودکشی کر لی اور اوڈی تھیبس شہر کا بادشاہ بن گیا۔ ابوالہول مجسمہ تقریباً تین ہزار سال قبل مسیح کے لگ بھگ ایک بڑی چٹان کو تراش کر بنایا گیا تھا۔ اس کی انسانی شکل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فرعون (Khafre) کی شبیہہ ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی شبیہہ (Khafre) کے بجائے اس کے بھائی (Rededef) سے ملتی جلتی ہے۔ بعد کے محقیقن کا کہنا ہے کہ یہ چونے کے پتھر (Lime Stone) کی پہاڑی کو کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ جب یہ مجسمہ تیار ہوا ہوگا تو بہت ہی حسین نظر آتا ہوگا کیونکہ اس میں جا بجا رنگ استعمال کیے گئے۔ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود اس کی شکل میں یہ رنگ آج بھی نظر آتے ہیں۔ اس کے سر پر اب بھی فرعون کے روایتی رومال اور اس کے درمیان پیشانی پر ناگ کی شبیہہ صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ ناگ کی اس شبیہہ کو قدیم مصری (Wadjet) کہتے اور سر کے رومال کو اپنے دیوتا (Horus) کے پھیلے ہوئے دونوں پروں سے تشبیہ دیتے تھے۔ اس مجسمہ کی ناک اور ڈاڑھی بھی ٹوٹی نظر آتی ہے۔ ان دونوں چیزوں کے ٹوٹنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ 820ء میں خلیفہ ہارون رشید کے بیٹے عبداللہ مامون نے اہرام اعظم کے اندرونی حصے کی مکمل معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنے کچھ ماہرین تعمیرات کے ساتھ مصر میں قدم رکھا۔ کافی عرصے تک جان توڑ کوشش کے باوجود بھی جب مسلمانوں کو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی تو غصے میں انہوں نے ابوالہول کے مجسمے کی ناک اور ڈاڑھی کو توڑ ڈالا۔ یہ ٹوٹی ہوئی ناک قاہرہ کے عجائب گھر اور ڈاڑھی برطانیہ کے مشہور برٹش میوزیم میں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ ابوالہول کے اگلے دونوں پنجوں کے درمیان سنگ خارا (Granite) کا ایک کتبہ موجود ہے جس کے مطابق فرعون (Tothmusis iv) جس نے 1420 قبل مسیح تک حکومت کی تھی۔ اس کی جوانی کا ایک واقعہ درج ہے کہ ابوالہول کے سامنے ریگستان میں شکار کھیلتے ہوئے ایک بار وہ تھکن سے چور ہو کر اس مجسمے کے سائے میں سو گیا۔ اس زمانے میں یہ مجسمہ ریگستان کی ریت میں کندھے تک دھنس چکا تھا اور اگر کچھ عرصہ اور اسی طرح رہتا تو شاید یہ مکمل طور پر ریت میں دھنس جاتا۔ قدیم مصریوں کے مطابق ابوالہول ان کے سورج دیوتا ’’راحوراختے‘‘ (Rahor-Akhte) کا دنیاوی ظہور تھا۔ یہ دیوتا سوئے ہوئے شہزادے کے خواب میں آیا اور اسے مخاطب کرکے یہ ہدایت دی کہ اگر شہزادہ اسے ریت کے اندر سے پوری طرح باہر نکال دے تو جلد ہی شہزادہ تخت وتاج کا مالک ہو جائے گا۔ نیند سے بیدار ہوتے ہی شہزادے نے ایسا ہی کیا اور واقعی کچھ عرصے کے بعد وہ مصر کا شہنشاہ بن گیا۔ اسی واقعہ کی یاد میں اس فرعون نے یہ کتبہ ابوالہول کے اگلے دونوں پنجوں میں نصب کرایا۔ ابوالہول کے مجسمہ کی عمر کے بارے میں آج تک نہیں معلوم ہو سکا۔ فرعون خوفو کا دور تقریباً 2600 ق م تھا۔ اس سے بھی پہلے یعنی تقریباً 3100 ق م میں فرعون مینیس (Menes) کا زمانہ تھا۔ اس قدیم دور سے بھی پہلے موجودہ عراق (سمیری Sumeri) کی ترقی یافتہ تہذیب انتہائی عروج پر پہنچی ہوئی قوم سمیرین (Sumeren) اپنی بہت ساری دستاویزات میں اہرام اور ابوالہول کی موجودگی کی شہادتیں چھوڑ گئی۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری ایسی شہادتیں موجود ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ابوالہول انسانی تعمیرات کا ایک انتہائی قدیم شاہکار ہے اور اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا تقریباً ناممکن ہے کہ اسے کب، کس نے اور کیوں بنایا تھا؟ اسے سورج دیوتا مان کر اس کی پوجا بھی کی جاتی تھی۔ امتداد زمانہ سے اس کی صورت کافی بگڑ گئی ہے اور اس کا وہ ’’پروقار تبسم‘‘ جس کا ذکر قدیم سیاحوں نے کیا ہے ناپید ہو چکا ہے۔ اب یہ ایک ہیبت ناک منظر پیش کرتا ہے۔ اسی وجہ سے عربوں نے اس کا نام ’’ابوالہول‘‘ (خوف کا باپ) رکھ دیا ہے۔
ایک خبر کے مطابق اس دیو قامت بُت کو مصر میں سڑک بنانے والے انجینئرز نے دریافت کیا ہے، جو اب بھی زیر زمین ہے۔ تاہم برطانوی ماہرین نے اسے قدیم شہر کا داخلی دروازہ کہہ کر مشہور کر دیا۔ رپورٹ کے مطابق حال ہی میں سڑک بنانے والے مصری انجیبئرز کو جب علم ہوا کہ اس جگہ عظیم مصری تاریخ کے کردار ابو الہول کا دوسرا مجسمہ بھی ریت تلے دبا ہوا ہے تو وہ حیران رہ گئے۔ اس عجیب وغریب لیکن قیمتی دریافت سے مصری ماہرین اور حکومت میں ایک نیا جوش پایا جاتا ہے۔ جبکہ دیو مالائی اور پراسرار مصری تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد مصر سمیت دنیا بھر سے ابوالہول کے دوسرے مجسمہ کو دیکھنے کی اشتیاق میں مصر پہنچ رہے ہیں۔ مصری ڈائریکٹر جنرل آف این ٹیکس ایم عبد العزیز نے ابوالہول کے نئے مجسمہ کی دریافت سے متعلق بتایا ہے کہ اس کی تاریخ تین ہزار سال پرانی ہے، مجسمہ کو ابھی زمین سے مکمل طور پر باہر نہیں نکالا جاسکا ہے، لیکن شائقین اس کو دیکھنے کے لیے ابھی سے جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور جائے دریافت پر پہنچ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ابوالہول کے نئے دوسرے جوڑی دار مجسمے کی دریافت نے برطانوی محقق گیری کینن کے اس نظریہ میں جان ڈال دی ہے کہ ابوالہول کا مجسمہ کوئی عام بت نہیں بلکہ کسی قدیمی مصری تاریخی شہر کا داخلی دروازہ ہے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق برطانوی محقق گیری کینن نے برطانوی جریدے ڈیلی ایکسپریس سے گفتگو میں کہا ہے کہ ان کے اس مطالبہ کو وقعت دینی چاہیے کہ مصر کی فرعونی تاریخ کے زیر زمین اور پُر اسرار شہر کو دریافت کیا جائے۔ مصری حکام کا خیال ہے کہ ابوالہول کے دوسرے مجسمے کی دریافت نے مصری سیاحت کو ایک نئی زندگی دی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ ہزاروں سیاح ابو الہول کے اس نئے دریافت شدہ مجسمہ کو دیکھنے جوق در جوق مصر پہنچیں گے۔
مصر کا ابوالہول (سفنکس) ایک ہی چٹان سے تراش کر بنایا گیا تھا جو خفرع کے ہرم کے نزدیک ہے۔ اب اتنی بڑی چٹان کو معلوم نہیں وہ کیسے اس صحرا تک لائے ہوں گے۔ ابوالہول کا تصور دراصل یونانیوں نے مصر کے علم الاصنام یا دیو مالا سے مستعار لیا۔ یونانیوں کے نزدیک ابوالہول ایک پردار مادہ ببر شیر تھا جس کا چہرہ نسوانی تھا۔
برطانوی ماہر نے کہا ہے کہ گمشدہ فرعونی شہر تک جانے کے لیے ابو الہول کے مجسمہ کے سر کے اوپر کی جانب ایک بڑا کنویں نما سوراخ ہے، جو اس زیر زمین پراسرار اور افسانوی شہر تک جانے کا داخلی راستہ ہے۔ مصری وزیر برائے آثار قدیمہ خالد العنانی کا کہنا ہے کہ ابوالہول کا پرانا مجسمہ دریائے نیل کے مغربی کنارے پر غزہ شہر میں ایستادہ ہے جو دنیا بھر میں کسی بھی قسم کا پہلا دیو ہیکل چٹانی مجسمہ ہے جس کو سورج دیوتا کے روپ میں ماہرین نے تراشا تھا، لیکن امتداد زمانہ کے سبب یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ بہرحال نئے ابوالہول کے دوسرے مجسمہ کی دریافت نے ابھی سے ماہرین اور عوام کے اندر جوش بھر دیا ہے اور انہیں یقین ہے کہ ابھی مصری سر زمین پر ایسے مزید نوادرات، مجسمے اور قصائص سامنے آئیں گے جن سے ہمیں اس عظیم سلطنت کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملے گا۔ اس سلسلے میں 2017 میں ایک مقالہ میں مصری ماہرین آثار قدیمہ کے ساتھ کام کرنے والے بعض عالمی محقق حضرات نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں اس بارے میں تحقیق سے روک دیا گیا ہے کہ در اصل مصری مجسمہ ابوالہول کسی تاریخی اور پر اسرار مصری فرعونی شہر کا اندرونی یا داخلی دروازہ ہے۔ مصری حکام نے کئی عالمی محققین کے اس دعویٰ یا نظریہ پر مکمل خاموشی اختیار کرلی ہے کہ مصری ابوالہول کے مجسمہ کے اطراف یا اندر جدید ترین ریڈیو کاربن یا ایکسرے ٹیکنالوجی کی مدد سے جانچا جائے کہ پر اسرار مصری فرعونی شہر کے کھنڈرات کہاں تک پھیلے ہوئے ہیں اور ان تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے۔ برطانوی پروفیسر گیری کہتے ہیں کہ اگر اس مجسمہ کو داخلی دروازہ مان کر جانچ کی جائے تو ہمیں ایسے گمشدہ مصری شہر کا سراغ مل سکتا ہے جو قیمتی معلومات فراہم کر سکتا ہے۔
قدرت ہمیشہ انسان کو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلاتی ہے۔ انسان ڈر اور خوف کے مارے معبودِ حقیقی کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے اپنے من پسند معبود، بُت کی شکل میں تراش لیتا ہے اور ان کی پوجا پاٹ میں لگا رہتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بُت اپنے چہرے پر جمی ہوئی ریت کو بھی نہیں ہٹا سکتے تو انسانوں کی حفاظت کیا خاک کریں گے۔ انسان یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے پھر بھی ان کی سیوا میں لگا رہتا ہے۔ تمام انسانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ رب العزت کی عبادت کریں جس کے سوا کوئی خدا نہیں اور جس نے انہیں صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔
***