محمد عزیزالدین خالد، حیدرآباد۔
اللہ تعالیٰ جو کہ رحمٰن و رحیم ہے اور رحم کرنا اس کا شیوہ ہے۔ اسی کے رحم و کرم کے نتیجے میں اس کائنات کا نظام پر سکون طریقے پر چل رہا ہے۔ اسی صفتِ رحمت کے اقتضا سے اس نے انسان جیسی ذی عقل ذی شعور اور اپنے اندر بے پناہ خواہشات رکھنے والی ہستی کو زمین میں بسانے کے بعد اس کی رہنمائی کے لیے پیغمبروں کو بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا تاکہ وہ خواہش نفس کے طوفان میں بہہ کر جہنم میں نہ جا پڑے اور اپنی اصل منزل جنت کو نہ کھو بیٹھے۔ پیغمبروں کا یہ سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوا۔
آپؐ کو اگرچہ عرب کی سر زمین پر بھیجا گیا لیکن در حقیقت آپ کو عرب کے باہر کی دنیا، بلکہ رہتی دنیا تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے لیے پیغمبرِ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے آپ پر ایمان لا کر آپ کی اطاعت قبول کر لی وہ خدا کی رحمت کے امیدوار ہو گئے، اور جو اس نعمت سے محروم رہ گئے وہ خدا کی رحمت سے بھی محروم رہ گئے۔ آپؐ نے خود فرمایا کہ میں انسانوں کو کمر سے پکڑ پکڑ کر جہنم میں گرنے سے بچا رہا ہوں اور وہ ہیں کہ اس میں ایسے گرے جا رہے ہیں جیسے پروانے شمع پر گرتے ہیں۔ (مفہوم حدیث)
آپؐ لوگوں کو دعوت دیتے کہ لوگو! اللہ کی بندگی بجا لاؤ، بندگی میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، برائیوں سے توبہ کرو، نیک عملی اختیار کرو اور ڈرو اس دن سے جس دن حساب کتاب قائم ہو گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ نیکو کاروں کو جنت میں داخل کیا جائے گا اور بد کاروں کو جہنم کے حوالے کیا جائے گا۔
یہ ایسی بات تو نہ تھی کہ جس پر کسی کو کچھ اعتراض ہو سکتا ہو۔ لیکن آپ کی قوم نے اس سیدھی اور سچی بات پر نہ صرف اعتراض کیا بلکہ دشمنی کی حد تک مخالفت کی۔ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو آبادی سے دور بنجر مقام پر لے جا کر قید کر دیا اور تین سال تک پلٹ کر نہ دیکھا۔ سخت اذیتیں دیں، جان سے مار دینے کی سازشیں کیں، وطن چھوڑنے پر مجبور کیا، دوسرے شہر میں پناہ لی تو وہاں بھی فوجیں لے کر چڑھ دوڑے۔ الغرض ہر طرح سے آپ کو ستایا گیا اور ظلم و ستم ڈھانے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا گیا۔ لیکن آپ نے ان کے حق میں نہ کبھی بد دعا کی نہ کبھی اپنی طرف سے ان کے خلاف تلوار اٹھائی بلکہ ہمیشہ ان کی خیر خواہی کرتے رہے اور برابر ان کو اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے رہے۔
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ آپ نے مکہ فتح کر لیا۔ اب آپ کے خون کے پیاسے آپ کے سامنے کھڑے خوف سے تھرتھر کانپ رہے ہیں۔ موت ان کو صاف دکھائی دے رہی ہے، جس سے بھاگنے کے سارے راستے بند ہو چکے ہیں۔ دفعتاً رحمة للعالمين ان سے پوچھتے ہیں کہ بتاؤ تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟ اس سوال سے ان کی جان میں جان آئی، دلوں میں کچھ امید جاگی جس سے ان کے اندر بولنے کی طاقت پیدا ہوئی اور وہ پکار اٹھے کہ تم ایک کریم بھائی ہو اور کریم بھائی کے بیٹے ہو۔ رحمة للعالمين ﷺ نے فرمایا آج تم پر کوئی مواخذہ نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو۔ آپ نے اپنے خون کے پیاسوں کو نہ صرف معاف کیا بلکہ پناہ بھی دی، اور جب آپ اپنا مشن مکمل کر کے دنیا سے رخصت ہو رہے تھے تو دنیا کی گاڑی جو کہ پٹری سے اتر چکی تھی دوبارہ اپنی پٹری پر واپس آ گئی تھی اور منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں تھی۔
پچھلی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ میں کیا انسانوں کا کوئی خیر خواہ ایسا گزرا ہے جس نے لوگوں کو گمراہی سے نکال کر راہ راست پر لانے کے غم میں اپنے آپ کو اس قدر گُھلا دیا ہو کہ خداوند عالم کو کہنا پڑا کہ ’’شاید تم ان کے غم میں اپنی جان کھو دو گے اگر یہ ایمان نہیں لاتے۔‘‘ (قرآن)
گزشتہ ڈیڑھ ہزار سالوں میں جتنی بھی نام نہاد
انقلابی شخصیات اٹھیں انہوں نے دنیا کی گاڑی کو صحیح سمت میں چلانے کے نام پر اسے الٹی سمت میں ہی چلایا۔ ہاں مگر اسے مرغوباتِ نفس سے خوب مزیّن کیا اور آسائشوں سے بھر دیا تاکہ مسافروں کو مخالف سمت میں چلنے کا احساس ہی نہ ہو۔ ایسے میں متبعینِ رحمتِ عالم ﷺ کے کرنے کا اصلی کام یہ ہے کہ وہ دنیا کی گاڑی کو دوبارہ صحیح رخ پر ڈالیں تاکہ مسافر بھی محفوظ رہیں اور خود بھی سلامت رہیں اور جشن اس وقت منائیں جب گاڑی بھی بخیریت منزل مقصود تک پہنچ جائے اور خود بھی۔
***
متبعینِ رحمتِ عالم ﷺ کے کرنے کا اصلی کام یہ ہے کہ وہ دنیا کی گاڑی کو دوبارہ صحیح رخ پر ڈالیں تاکہ مسافر بھی محفوظ رہیں اور خود بھی سلامت رہیں اور جشن اس وقت منائیں جب گاڑی بھی بخیریت منزل مقصود تک پہنچ جائے اور خود بھی
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 31 اکتوبر تا 6 نومبر 2021