مسلم مخالف تعصب کیسے کام کرتا ہے؟

تاریخی حقائق کی روشنی میں چشم کشا تحریر

ابھے کمار

مسلم مخالف تعصب کیا ہے اس کے اہم اجزاء کیا ہیں مسلمانوں اور ان کے دین کے خلاف کیسے پروپیگنڈا پھیلایا جاتا ہے ان کے خلاف کیسے تعصب کا ماحول تیار کیا جاتا ہے کیسے لوگوں کے دل ودماغ میں ان کے خلاف کٹر پن اور نفرت بھر دی جاتی ہے؟ کیا مسلم مخالف تعصب کی کوئی فکری تاریخ بھی ہے؟ ان سوالوں کا جواب کسی ایک مضمون میں سمیٹ لینا ممکن تو نہیں ہے پھر بھی کچھ پہلوؤں کو سمجھنے کی ایک چھوٹی سی کوشش یہاں کی جا رہی ہے۔
حالیہ دنوں میں جس طرح ملک کی سیاست فرقہ وارانہ ڈسکورس کی طرف مبذول ہوئی ہے وہ کافی تشویشناک ہے۔ سیکولرازم اور اقلیتی حقوق جیسے آئینی اقدار پر گہری چوٹ کی جا رہی ہے۔مسلمانوں کو مزید حاشیہ پر دھکیلا جا رہا ہے۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ کیونکہ مسلم مخالف جذبات ملک کے بڑے حصے میں پھیل چکے ہیں۔ دہلی انتخابات اور پھر مسلم مخالف فسادات کے بعد حالات نارمل ہوئے بھی نہ تھے کہ تبلیغی جماعت کا تنازعہ پیدا کر دیا گیا اسی لیے کشیدگی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہی ہے۔ اب تو مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ کرنے کی بھی خبریں آ رہی ہیں۔نفرت کا زہر کس قدر لوگوں کی رگوں میں سرائیت کر چکا ہے اس کا اندازہ ان دو مثالوں سے آپ لگا سکتے ہیں۔ کچھ روز پہلے سوشل میڈیا پر میں نے اپنی ایک تصویر پوسٹ کی تھی جس پر ایک نے بڑا ہی نفرت انگیز کمینٹ کیا، مجھے خبر دار کیا گیا کہ میں تبلیغیوں سے اپنے آپ کو’محفوظ‘رکھوں! مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ میری تصویر سے تبلیغی جماعت کا کیا رشتہ ہے؟ ایک دیگر پوسٹ میں مَیں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ اپنی توجہ تبلیغی جماعت سے ہٹا کر غریبوں اور مزدوروں کی فاقہ کشی اور دیگر مسائل پر مرکوز کرے۔ اس پر ایک شخص نے نا اتفاقی ظاہر کی اور کہا کہ حکومت ان کو راشن پانی کیوں دے جبکہ تبلیغی جماعت کے لوگ ’’تھوکتے‘ پھرتے ہیں؟
ان دونوں واقعات نے مجھے بہت مایوس کیا۔ اسی تناظر میں مَیں نے سوچا کہ کیوں نہ مسلم مخالف تعصب پر کچھ لکھوں۔ پریشانی کا سبب یہ ہے کہ بھگوا طاقتوں کا مسلم مخالف نظریہ سماج میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ بہت سارے لوگ بھی جانے انجانے فرقہ پرستوں کی زبان بول رہے ہیں۔ سوچیے کہ کیسے ایک بڑی تعداد، جن میں آپ کے ہمارے پڑوسی بھی شامل ہیں، مسلم مخالف وائرس سے متاثر ہو جاتے ہیں؟ یہ وائرس ان کی سوچ کو بھی آلودہ کر رہا ہے جو ہندو فرقہ پرست طاقتوں کے مخالف سمجھے جاتے ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف پھیلے اس تعصب، نفرت اور کٹر پن کو سوشل سائنس کی اصطلاح میں’’اسلامو فوبیا‘‘ (Islamophobia) کہا جاتا ہے۔ یعنی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ’’فوبیا‘‘۔کیمبرج لغت میں فوبیا کے معنی شدید خوف یا نا پسندیدگی بتائے گئے ہیں۔ یہ خوف یا نا پسندیدگی کسی بھی چیز کے خلاف ہو سکتی ہے۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس خوف اور تعصب کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہوتی بلکہ اسے تصور کر لیا جاتا ہے۔ اسے مسلسل پروپیگنڈے اور غلط فہمی کی مدد سے عوام کے دل ودماغ میں بٹھا دیا جاتا ہے اور پھر ہماری سوچ اور فکر بھی جانے انجانے میں اس سے آلودہ ہو جاتی ہے۔
جان ایل ایس اسپوسیٹو (Esposito) نے اپنی کتاب ’’دی چیلنجز آف پلورل ازم ان دی ٹوینٹی فرسٹ سنچری‘‘ (۲۰۱۱) کے مقدمہ میں اسلامو فوبیا کی اصطلاح کی تعریف پیش کی ہے۔ ١٩٩٧ کی برطانوی رنی مڈ (Runnymede) رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’اسلامو فوبیا در اصل مسلمانوں اور اسلام کے خلاف خوف، نفرت اور عداوت‘‘ ہے۔ اسلامو فوبیا کو بنائے رکھنے میں بند پڑے خیالات (closed views) کا ایک چین کام کرتا ہے۔ یہ مسلمانوں کے تئیں منفی اور حقارت آمیز سٹیریوٹائپز (stereotypes) خیالات کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے نزدیک اس کا آغاز ۱۹۸۰ کی دہائی کے آخر اور ۱۹۹۰ میں ہوا جبکہ یوروپ اور امریکہ میں اسلامو فوبیا خطرناک طریقے سے پھیلنے لگا۔ ورلڈ ٹریڈ سنڑس پر ہوئے حملوں کے بعد سے اسلامو فوبیا تیزی سے پھیلنا شروع ہو گیا۔ مسلمانوں کی مغربی ممالک میں ہجرت، ایرانی انقلاب، طیاروں کے یرغمال بنائے جانے کے واقعات نے اسلامو فوبیا کو بڑھانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
۲۰۰۴ میں اقوام متحدہ کے صدر کوفی عنان نے بھی اسلاموفوبیا پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ’’کنفرنٹنگ اسلاموفوبیا‘‘ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ستمبر 11 کے روز امریکہ میں رونما ہوئے حملے کے بعد، مغرب ممالک میں رہنے والے مسلمانوں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور وہ تعصب اور ہراسانی کے بھی شکار ہو رہے ہیں‘‘۔ پھر سال ۲۰۰۷ میں اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کی تنظیم کے ہائی کمشنر لوئیس آربر نے بھی یہ بات تسلیم کی کہ عام مسلمانوں کے خلاف یوروپ میں تعصب بڑھا ہے۔
یقیناً مغربی دنیا میں مسلمان اپنے آپ کو ۱۹۸۰ اور ۱۹۹۰ کے بعد غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ ان کی شبیہ مسخ کر دی گئی اور ان کو وہاں کے سماج کے لیے خطرہ سمجھا جانے لگا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک غیر مسلم کسی جرم میں گرفتار ہوتا تو اس کے جرم کو ایک فرد کی غلطی تک ہی محدود رکھا جاتا تھا۔ مگر جب کوئی مسلمان اسی طرح کے جرم میں گرفتار ہو جاتا تو اس واقعے کو پورے اسلام اور مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے پھر میڈیا اس پر خوب ہنگامہ برپا کرتا ہے۔اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اسلامو فوبیا ڈسکورس میں مسلمانوں کے اندر موجود تنوع کو در کنار کر کے ان کی ایسی امیج پیش کی جاتی ہے گویا دنیا کے کروڑوں مسلمان ایک ہی ہیں ان کے اندر کوئی فرق نہیں ہے اور سب ایک ہی طرح سے سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔ اس کے لیے انگریزی میں ایک اصطلاح homogenization استعمال ہوتی ہے۔ اس کے تحت گروپس، فرقے یا ملت کے سارے لوگوں کو ایک ہی رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے۔ سب کو یکساں بنا کر پیش کیا جاتا ہے یعنی سب کو ملا کر ایک کر دیا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ مساوات کا نظریہ بھی لوگوں کے درمیان طبقاتی خلیج کو پاٹتا ہے اور لوگوں کو برابر تصور کرتا ہے مگر homogenization کا نظریہ منفی ہے۔ یہ کسی سماج، مذہب، نسل اور ذات میں پیدا ہونے والے تمام لوگوں کو ایک رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ گویا سارے افراد ایک جیسے سلوک کے حق دار ہیں۔اسلامو فوبیا کے زیر اثر بہت سارے لوگ ایک مسلمان کی غلطی کے لیے سارے مسلمانوں کو قصور وار سمجھتے ہیں اور وہ سب کو خطرہ تصور کرنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ پھر یہ غلط فہمی دل ودماغ میں بیٹھ جاتی ہے کہ سارے مسلمان’’مجرم‘‘ ہیں۔
اس مسئلے پر پاکستانی نژاد برطانوی شہری اور انگریزی کے مشہور ناول نگار محسن حامد نے ایک اہم مضمون ۲۲ مئی ۲۰۱۳ کو ’’Islam is not monolithic‘‘ کے عنوان سے ’’گارڈین‘‘ میں لکھا۔ اس میں انہوں نے کہا ہے کہ اسلامو فوبیا مسلمانوں کے اندر موجود تنوع کو در کنار کر دیتا ہے اور ایسا تاثر پیش کرتا ہے گویا مسلمانوں کی کمیونیٹی کا تشخص سب پر بھاری ہے۔ اسلامو فوبیا نے مسلمانوں کے اندر پائے جانے والی ساری تکثریت اور تنوع کو نظر انداز کر دیا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ مسلمانوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کی وفا داری ملک سے نہیں بلکہ ان کی امت سے ہوتی ہے۔
محسن حامد نے جس بات پر مایوسی ظاہر کی ہے اس کا تعلق کہیں نہ کہیں مغربی اسکالرز کی متعصبانہ تحریر سے ہے، جنہوں نے مسلم معاشرے کی شبیہ کو بگاڑنے میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے۔ اس موضوع پر انگریزی اور تقابلی ادب کے ممتاز اسکالر ایڈورڈ سعید نے اپنی تحریروں میں بہت ہی مفصل اور اہم گفتگو کی ہے۔ 1978 میں مطبوعہ ’’Orientalism‘‘ (استشراقیت) ان کی شاہکار تخلیق ہے اس میں انہوں نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ زمانہ قدیم سے مغربی اسکالرز نے جن کو انہوں نے مستشرقین کہا ہے مشرق کی شبیہ بگاڑی کر رکھ دی ہے۔
حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ مستشرقین نے یوروپ کے زاویے سے مشرق، بشمول مسلم معاشرے اور اسلام کو دیکھا اور ان کےتشخص کو مسخ کر دیا۔ مثال کے طور پر مغرب عقل اور دلیل پر بھروسا کرتا ہے وہ لبرل ہے وہ سائنس میں یقین رکھتا ہے اس کے برعکس، مشرق منطق پر نہیں چلتا یہ پسماندہ ہے یہ وحشی ہے یہ زمانہ قدیم میں ٹھیرا ہوا ہے یہ بچہ ہے اور نفس پرست بھی ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامو فوبیا ایک بائینری (binary) میں چیزوں کو بانٹ دیتا ہے۔ بائینری کا مطلب یہ ہے کہ چیزیں دو مختلف حصوں میں منقسم ہیں۔ مستشرقین نے مغرب، یوروپ اور عیسائیت کو ایک کر کے پیش کیا اور ان کے آپس کے تمام اختلاف کو مٹا دیا۔ مغرب اچھائی کی علامت بتائی گئی جبکہ مشرق کے تمام مشرقی مذاہب اور معاشروں کو ایک ہی رنگ میں رنگ دیا اور برائی کی علامت بتایا۔ اس فریب کو ادب اور میڈیا کی مدد سے پھیلایا گیا اور اب بھی یہ مشرق کی سوچ میں پیوست ہے۔ اسی ناقص سوچ کو بہت سارے انقلابی اسکالرز نے ثقافتی سامراجیت (cultural imperialism) کا نتیجہ بتلایا ہے اور اس سے نجات پانے کی اہمیت پر روز دیا ہے۔ مگر اس سے ابھی بھی نجات نہیں ملی ہے۔ تیسری دنیا بھلے ہی سیاسی طور پر سامراجیت کو شکست دے چکی ہو مگر یہاں کا طرزِ حکومت، قانون اور فکر بہت حد تک مغربی سسٹم کی ہی نقل ہے۔ہندوستان میں فرقہ پرستی اور مسلم مخالف تعصب کے تار بھی انہیں مستشرقین کے افکار سے جڑے ہوئے ہیں۔ انگریزی حکومت نے اپنے دور میں عالم بھی پیدا کیے اور ہندوستان کی تاریخ بھی لکھوائی جنہوں نے ہمارے تشخص کو تباہ کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ ہم جو آج سوچتے ہیں اس پر بہت بڑا اثر انگریزی معلومات کا ہے۔ نو آبادی دور میں انگریزی حکومت نے اپنے مفادات کے مطابق ہندوستان کی تاریخ اپنے سرکاری مورخوں سے لکھوائی۔ پھر یہ درسی کتابوں اور ذرائع ابلاغ میں شامل کر کے سب تک پہنچا دیا گیا۔ ممتاز مورخ رومیلا تھاپر نے اپنے ایک مضمون "کمیونل ازم اور دیگر تحریکیں” (١٩٧٧) میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ انگریزی حکومت کی سر پرستی میں مستشرقین نے ہندوستان کی تاریخ کی ایسی تشریح کی جس نے ہندو فرقہ پرستوں کو بہت فائدہ پہنچایا۔ ہندوستان کی قدیم تاریخ کو ویدک دور (Vedic period) کہا اور اس کی خوب تعریف کی۔ ہندو فرقہ پرستوں نے مستشرقین کی انہیں باتوں کو پکڑ لیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ قدیم بھارت آریائی لوگوں سے منسوب ہے جو ان کے اسلاف ہیں۔ وہیں دوسری طرف یہ کمیونل پروپیگنڈا کیا گیا کہ مسلمان بھارت کے اصل باشندے نہیں ہیں وہ باہر کے ملکوں سے حملہ آور بن کر آئے ہیں۔
حالاںکہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ فرقہ پرست اس حقیقت کو قبول کرنا نہیں چاہتے ہیں کہ قدیم ہندوستان میں ویدک کلچر کے مد مقابل جین، بدھ اور چارواک نظریہ بھی تھا۔ ایک زمانے میں بدھ مذہب بھارت میں کافی پھیل گیا تھا بعد میں بدھ مذہب اور برہمن ازم کے درمیان بڑی لڑائی ہوئی اس کے بعد برہمن ازم کا احیاء عمل میں آیا۔ برہمنیت نے اپنے حریفوں کو دبا کر ختم کر دیا گیا اس لیے قدیم بھارت کی تاریخ صرف آریائی کلچر تک محدود نہیں کی جا سکتی۔ ویدک دور سے پہلے دریائے سندھ کے کنارے ایک بڑی ترقی یافتہ اور شہری تہذیب پروان چڑھی تھی جسے ہم انڈس یا ہڑپا تہذیب بھی کہتے ہیں۔ جنوب میں تمل کلچر بھی قدیم زمانہ میں بڑا ترقی یافتہ تھا۔ پیغمبر کے دور کے بعد عرب کے تاجروں نے اسلام کا تعارف ساحلی علاقوں میں کروایا تھا اور اس کی تاریخ دہلی سلطنت سے کافی پرانی ہے۔ عیسائیت بھی سامراجی طاقتوں کی آمد سے پہلے ہی بھارت میں قدم رکھ چکی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کسی ایک مذہب یا مذہبی گروپ کی اجارہ داری نہیں ہے بلکہ اس پر سب کا برابر کا حق ہے۔ ان باتوں کو مستشرقین اپنی تحریروں میں پیش نہیں کر سکے اور انہوں نے قدیم ہندوستان کو ہندو دور اور عہد وسطیٰ کو مسلم دور کہہ کر ایک binary بنائی، جسے لپک کر ہندو فرقہ پرستوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو شدت پسند بھارت کی تکثریت اور تنوع کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ اس سے ان کی فرقہ پرست سیاست کی پول کھل جاتی ہے۔ بھارت کو ہندی، ہندو اور ہندوستان کے ہم معنی بنا کر پیش کیا گیا۔ اسلام پر بطورِ خاص حملہ کیا گیا اور اس کی تاریخ کو مسخ کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ اس کے لیے انگریزی مورخ سب سے زیادہ قصور وار ہیں۔اسی مسخ شدہ تاریخ کا استعمال فرقہ پرست آج تک کرتے آ رہے ہیں۔ جب ملک میں فرنگیوں کے خلاف لڑائی ہو رہی تھی تب فرقہ پرست سامراجی حکومت سے لڑنے کے بجائے عوام کو مذہب کے نام پر تقسیم کر رہے تھے۔
اسلاموفوبیا کا یہ اثر ہے کہ مسلم سماج کو صرف کلچر اور مذہب کے زاویے سے دیکھا جاتا ہے۔مسلمانوں کے اندر نسل، علاقہ، جنس الگ الگ ہیں اور ان کے اندر مختلف طبقات ہیں، ایسی باتوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ امیر اور غریب مسلمان دونوں کو ایک ہی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ عقائد اور مسلک کےنام پر جو فرق ہے اس کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ہی مرتبہ تین طلاق دینے کو اہل حدیث اور شیعہ صحیح نہیں سمجھتے۔ مگر بھگوا طاقتوں نے ایسا تاثر پیش کیا کہ گویا سارے ہی مسلمان ایک ہی بار میں تین طلاق دینے کو صحیح سمجھتے ہوں۔ مسلم سماج میں لوگ مذہب کے پیروکار بھی ہیں اور مذہب پر عمل نہ کرنے والے بھی، مگر سب کو ایک ہی رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کو بھی اپنی سہولت کے مطابق فراموش کر دیا جاتا ہے کہ سیاسی طور پر بھی مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان ایک بڑا گروہ لبرل اور استشراقی مسلمانوں کا بھی ہے، مگر انہیں بھی اسلامو فوبیا کے تحت صرف مسلمان ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی مسلم قوم مختلف معاملوں میں منقسم ہے۔ اگر ان کے درمیاں ہم آہنگی دیکھی جاتی ہے تو ان کے درمیان خطرناک جنگیں بھی ہوئی ہیں۔تاریخ کے اوراق میں اگر ہم جائیں گے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں نے دنیا کے ایک بڑے حصے پر حکومت بھی قائم کی۔ انہوں نے ثقافت، ادب، علم وسائنس کے میدان میں زبردست خدمات بھی انجام دیں۔ جس نشاۃ ثانیہ کے بعد یوروپ کی تصویر بدل گئی وہ ممکن نہ ہو پاتی اگر مسلمانوں نے یونانی اسکالرز کی تحریروں کو اپنی زبانوں میں ترجمہ کر کے محفوظ نہ رکھا ہوتا۔ مگر پھر تنزلی اور ٹھیراؤ کا دور بھی دیکھا گیا۔ ان کے بہت سارے علاقوں میں مغربی ملکوں کی کالونیاں بنیں اور ان کا زبردست استحصال ہوا۔ ان پر ظلم بھی کیے گئے۔ مگر پھر مسلمانوں نے لڑ کر آزادی بھی حاصل کی۔ آزادی کے بعد ان کو ایک نیا چیلنیج ملا۔ مگر اسلامو فوبیا سے متاثر لوگ ان تمام تاریخی حقائق کو فراموش کر دیتے ہیں اور مسلمانوں کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ گویا ان کی تاریخ ہزاروں سالوں سے ایک ہی بات پر آکر اٹکی ہوئی ہے۔ اسلامو فوبیا مسلم سماج کے اندر مسلسل چل رہی تبدیلی کو قبول نہیں کرنا چاہتا۔ وہ یہ تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں ہے کہ ان کے اندر بھی اصلاح ہوئی ہے۔ کئی بار یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مسلم سماج میں اصلاح نہیں ہوئی ہے جبکہ دوسرے سماج وقت کے ساتھ بدل رہے ہیں مسلم سماج جمود کا شکار ہے، یہی چیزیں اسلامو فوبیا کا تمام تر خلاصہ ہیں۔ وہ قدیم زمانہ میں رکا ہوا ہے اور جدیدیت سے میلوں پیچھے ہے۔ یہ بھی اسلامو فوبیا پروپیگنڈے کا حصہ ہے کہ مسلم سماج سائنس اور عقل کی جگہ توہم پرستی اور جہالت میں غرق ہے۔ یہ اسی binary کا حصہ ہے جس کا ذکر ایڈورڈ سعید کر رہے تھے۔
ہندوستان میں بھگوا فرقہ پرست اپنی مسلم مخالف سیاست کو آگے بڑھانے کے لیے اسلامو فوبیا کے بہت سارے وہ طریقہ کار ادھار لیتے ہیں جو ان کے لیے مستشرقین نے پیدا کیے ہیں۔ جس طرح مستشرقین نے مغرب اور مشرق کی binary کھڑی کی ہے اسی طرح ہندو فرقہ پرستوں نے اسلام (اور عیسائیت) کو ہندو دھرم سے جدا اور اس کے لیے غیر بتلایا ہے۔ اگر آپ ہندو فرقہ پرست عناصر کی تحریروں کو پڑھیں گے تو یہ binary نظر آ جائے گی۔ مثال کے طور پر ہندو دھرم قومی (national) ہے جبکہ اسلام اور عیسائیت غیر ملکی (foreign) ہیں۔ ہندتوا کے نظریہ ساز بی ڈی ساورکر نے بڑی چالاکی سے سکھ اور بدھ مت کو ہندو دھرم کا ایک جز قرار دے کر ان کے تشخص کو غصب کرنے کی کوشش کی۔ جس کی مخالفت سکھ اور بدھ دھرم کے پیروکار بار بار کرتے رہے ہیں۔ فرقہ پرست یہ تعصب بھی پھیلاتے ہیں کہ ہندو دھرم شانتی یعنی امن اور رواداری کی بات کرتا ہے جبکہ اسلام کے پیروکار تشدد میں یقین رکھتے ہیں۔ یہ بات وہ کھل کر نہیں کہتے۔ خود کو لبرل دکھانے کے لیے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کو غیر ہندووں کے جداگانہ عقیدوں اور رسوم و رواجوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور وہ اس کا احترام بھی کرتے ہیں مگر وہ ہندو دھرم کی بڑائی کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ دیگر مذاہب خود بخود تعصب کے شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی رواداری کی پول تب کھل جاتی ہے جب وہ ہندوستان کی تاریخ اور اس کی سیاست پر لکھتے اور بولتے ہیں۔ وہاں وہ مسلم حکمرانوں کو اکثر "ظالم” اور "متشدد” بنا کر پیش کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے علاالدین خلجی (١٢٩٦۔۱۳۱۶) کو جم کر نشانہ بنایا ہے۔ اورنگ زیب (۱۶۱۸۔۱۷۰۷) کی شبیہ کو وہ بہت عرصے سے مسخ کرنے کوشش کر رہے ہیں۔ چند سال پہلے تو انہوں نے دہلی کی ایک شاہراہ کا نام اورنگ زیب سے بدل کر سابق صدر جمہوریہ اے پی جے کلام کے نام پر رکھ دیا تھا۔اسلامو فوبیا کے تحت یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلمان محب وطن نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی وفاداری امت کے تئیں ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلم جدیدیت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں یعنی وہ ماڈرن نہیں بن پائے ہیں ان کے اندر سائنس کا شعور نہیں ہے وہ جہالت میں پڑے ہوئے ہیں ان کے اندر سیکولر خیالات پروان نہیں چڑھ سکتے ہیں کیونکہ مسلم سماج پر بالادستی علماء اور مذہبی قائدین کی ہے۔ وہ یہ تاثر پھیلاتے ہیں کہ مسلمان مسجدوں سے کنٹرول ہوتے ہیں۔یہی نہیں مسلمانوں میں اظہارے رائے کی آزادی موجود نہ ہونے کا بھی الزام لگایا جاتا ہے۔ مسلم خواتین کی ’’حالتِ بد‘‘ پر مگر مچھ کی آنسو بہائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر دنیا ماڈرن ہو گئی ہے وہ سائنس، ترقی، اور جمہوریت کے راستے پر جا رہی ہے مگر مسلم سماج آج بھی قدامت پرستی اور مذہبی جنون سے باہر نہیں آ پایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندو سماج ماڈرن ہو چکا ہے؟ کیا اس کے اندر قدامت پسندی نہیں ہے؟ کیا ان کی خواتین طلاق، جہیز اور گھریلو تشدد کی شکار نہیں ہیں۔ کیا ہندو سماج توہم پرستی میں مبتلا نہیں ہے؟ ان سوالوں پر بھگوا شدت پسند بات نہیں کرتے کیونکہ ان کے نزدیک ساری برائیاں مسلم سماج کے اندر موجود ہیں اور وہ ہر طرح سے پاک پَوِتر ہیں۔جب طلاق ثلاثہ کے موضوع پر سیاست گرم تھی اور ماحول کو فرقہ وارانہ بنایا جا رہا تھا تب بھگوا فرقہ پرست اور ان کے حامی یہی مسلم مخالف تعصب کا کارڈ کھیل رہے تھے۔ اسلامو فوبیا پر مبنی بیانیہ کو پھیلایا گیا۔ ۵ مئی ۲۰۱۷ کو بی جے پی کے قومی جنرل سکڑیٹری بپندر یادو نے انگریزی کے اخبار ’’انڈین ایکسپریس‘‘ میں ایک مضمون لکھتے ہوئے کہا کہ مسلم پرسنل لا وقت سے کافی پیچھے ہے اور نئے بھارت کے لیے رکاوٹ ہے۔ فرقہ پرست یہ جان بوجھ کر کنفیوزن پیدا کرتے ہیں کہ پرسنل لا صرف مسلم سماج کے اندر ہی ہے جسے ختم کر دینا چاہیے۔ در حقیقت پرسنل لاز مسلمانوں کے علاوہ دیگر کمیونیٹیز کو بھی ملے ہوئے ہیں اور اس پر چلنے کا آئینی حق سب کو ملا ہوا ہے۔مسلم پرسنل لا میں اصلاح کی ضرورت پر اس طرح زور دیا گیا ہے گویا اس میں اصلاح کے بعد مسلمانوں اور ملک کی ساری پریشانی دور ہو جائے گی۔ اگر مسلم پرسنل لا میں اصلاح کی ضرورت ہے تو ہندو پرسنل لا میں کیوں نہیں؟ بہت سارے لوگوں کے اندر یہ بھی غلط فہمی ہے کہ ہندو پرسنل لا میں کوئی خامی نہیں ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ مسلم سماج کے اندر خواتین کے مسائل نہیں ہیں، مگر ہندو خواتین بھی تو اپنے سماج میں دقتیں جھیل رہی ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مسلم اور ہندو خواتین آج بھی اپنے سماج میں برابری نہیں پا سکی ہیں؟ کیا دونوں گھریلو تشدد کے شکار نہیں ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ان کو اب بھی معقول مزدوری نہیں ملتی؟ ملکیت میں بھی ان کو اپنے حقوق پانے میں سماج رکاوٹ ڈالتا ہے؟ کیا جہیز کی آگ میں بھارتی خواتین کو نہیں جلایا جا رہا ہے؟ اگر یہ سب باتیں صحیح ہیں تو صرف مسلم خواتین کی حالت زار پر کیوں آنسو بہایا جا رہا ہے؟ کیا ساری خواتین (خواہ وہ مسلم ہوں یا ہندو) کے مسائل ملتے جلتے نہیں ہیں؟ مگر فرقہ وارانہ ڈسکورس نے صرف مسلم خواتین کو ہی اپنے مردوں کے ظلم کا شکار بتلایا ہے۔ یہ بھی ایک طرح کا اسلامو فوبیا ہی ہے۔
بی جےپی کے ٹکٹ پر ۲۰۰۴ میں اتر پردیش سے انتخاب لڑ چکے عارف محمد خان کو فرقہ پرست اور سرکاری میڈیا مسلم خواتین کا چیمپین بنا کر پیش کرتا ہے۔ مگر ان کی بھی سوچ بہت حد تک اسلامو فوبک ڈسکورس سے متاثر ہے۔ تین طلاق کی جب سنوائی چل رہی تھی تو وہ کھل کر میڈیا میں بی جے پی کے موقف کی ترجمانی کر رہے تھے۔ میڈیا ان کو ماہر پرسنل لا اور مسلم خواتین کا خیر خواہ بنا کر پیش کر رہا تھا۔ اگر آپ ان کی تحریروں کو یاد کریں تو آپ کو ان میں مستشرقین کی تحریروں کا اثر نظر آ جائےگا۔ ان کے بیان کا ایک چھوٹا سا اقتباس یہاں پیش کرنا چاہوں گا جو انہوں نے طلاقہ ثلاثہ سے متعلق ۲۲ اگست (۲۰۱۷) کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد دیا تھا۔ مستشرقین کی طرح وہ مسلم سماج کی ساری برائیوں کے لیے مذہبی لیڈرشپ کو قصور وار قرار دیتے ہیں۔ ’’پرسنل لا بورڈ کے جن لوگوں نے طلاق ثلاثہ جیسی برائی کو بچانے میں اپنی پوری طاقت لگا دی تھی حقیقت میں وہ اس روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں جس نے گزشتہ ایک ہزار سال میں ترقی کے ہر ایک کام میں خواہ وہ جدید تعلیم کا معاملہ ہو یا پھر سماجی اصلاح کا، ہمیشہ رخنہ اندازی کی ہے (’دینک جاگرن‘، ٢٣ اگست ٢٠١٧)۔”
اس بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ عارف محمد خاں کو مسلم پرسنل لا بورڈ کی تنقید کرنے سے کوئی نہیں روک رہا ہے، لیکن جب وہ مستشرقین کی زبان بولنے لگیں گے تو مسلمان ناراض ہوں گے ہی۔ کیا ان کا یہ بیان تاریخی طور پر صحیح ہے کہ ہزاروں سالوں سے مسلم پرسنل لا اور علماء ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟ سب سے پہلی بات تو یہ کہ بطورِ کلاس، علماء کا دائرہ حلقہ پچھلے دو سو سالوں میں بہت بڑھا ہے۔ مغلیہ سلطنت کا چراغ بجھ جانے کے بعد مسلم سماج میں روشنی دکھانے کی غرض سے وہ سامنے آئے ہیں۔حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش کی متنازعہ مصنفہ تسلیمہ نسرین نے بھی تبلیغی جماعت پر پابندی کا مطالبہ کر کے ہندوتو طاقتوں کی فرقہ پرست سیاست کو تقویت دی ہے انہوں نے بھی مسلمانوں کی پریشانی کے لیے صرف مذہبی قیادت کو ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی قیادت مسلمانوں کو تاریکی کی طرف دھکیل رہی ہے۔مستشرقین بھی مسلم سماج کے اندر مذہبی قیادت کا دیو کھڑا کرتے ہیں اور یہ دکھلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر سیکولر آئیڈیا پروان نہیں چڑھ سکتا ہے۔ ۱۳ اپریل (۲۰۲۰) کے ہندی روزنامہ ’جن ستہ ‘میں انہوں نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم مسلم معاشرے کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتے ہیں، ان کو ترقی پسند بنانا بنانا چاہتے ہیں، ان کو توہم پرستی سے نکالنا چاہتے ہیں لیکن لاکھوں کی تعداد میں موجود یہ لوگ (تبلیغی جماعت) تاریکی اور جہالت پھیلا رہے ہیں‘‘۔
کچھ ایسی ہی بات آر ایس ایس سے جڑے رام بہادر رائے نے اپنے ایک مضمون میں کہی ہے۔ انہوں نے بھی الزام لگایا کہ مسلم سماج جمود میں مبتلا ہے ’’ان میں جو علماء ہیں وہ آج کے وقت میں بھی ٹھیرے ہوئے ہیں۔ جبکہ دنیا کے پورے مذاہب وقت کے ساتھ بدلے ہیں‘‘۔ (پانچ جنیہ، ۱۲ اپریل، ۲۰۲۰، ص۔ ۱۰)۔
یہ ممکن ہے کہ اسلامو فوبیا کی شکلیں مختلف سیاق میں الگ ہو سکتی ہیں۔ اس مضمون میں یہ دلیل پیش نہیں کی جا رہی ہے کہ ہندو فرقہ پرست ہر بات مستشرقین کی تحریروں سے نقل کرتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ سیاق کے اعتبار سے ان کے طریقے کار میں کچھ فرق ہو سکتا ہے۔ اس مضمون میں صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ اسلامو فوبیا کا نظریہ ایک binary میں کام کرتا ہے۔ضروری نہیں ہے کہ جو لوگ اسلامو فوبیا سے متاثر ہیں ان کا تعلق مستشرقین یا ہندو فرقہ پرستوں سے ہو۔ بہت سارے اسکالرز جن کا تعلق لیفٹ یا دیگر سیکولر اور ترقی پسند تحریکوں سے رہا ہے وہ بھی جانے انجانے میں مسلمانوں کے تئیں بہت ساری ایسی رائیں رکھتے ہیں جن کو مستشرقین نے پھیلایا ہے۔
ایسا اس لیے ممکن ہوا کیونکہ جب کوئی پروپیگنڈا بہت دنوں تک گشت کرتا ہے تو اس کی زد میں بہت سارے ایسے لوگ بھی آ جاتے ہیں جن کا تعلق فرقہ پرست جماعتوں سے کبھی نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ا س سے مقابلہ کرنا ایک مشکل کام ہے۔مسلم مخالف تعصب حالیہ دنوں میں بہت بڑھ گیا ہے۔ تبلیغی جماعت کو کورونا وائرس پھیلانے کے لیے ذمہ دار بتلا کر اسلامو فوبیا کے لیے میدان تیار کر دیا گیا ہے۔ اس پروپیگنڈے کی رفتار ۳۰ مارچ کے بعد اچانک تیز ہوئی اس دن دہلی میں واقع تبلیغی جماعت کے دفتر پر پولیس کا ریڈ پڑا تھا پھر ایک نیا بیانیہ دیا گیا کہ کورونا کو پھیلانے اور حالات کو خراب کرنے میں مسلمان، بالخصوص تبلیغی مسلمان کا ہاتھ ہے۔ پھر پوری ڈیبیٹ صحت عامہ کی بے توجہی، مزدوروں کی ہجرت اور حکومت کی راحت رسانی کے کاموں کو انجام دینے میں ناکامی کے اشوز سے دور ہو گئی۔توجہ غریب اور تارکین وطن مزدوروں کی فاقہ کشی سے ہٹ کر ’تبلیغی وائرس‘ پر چلی گئی۔ پھر نئے اصطلاحات گڑھے گئے: ’تبلیغی جہالت‘، ’تبلیغی جہاد‘، ’انسانی بم‘ وغیرہ۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کو’ملک مخالف سرگرمیوں‘ میں ملوث ہونے اور ’دہشت گردوں‘ سے جڑے ہونے کے بہانے گالیاں دی گئیں۔ ایک مشہور ہندی نیوز چینل کے اینکر نے تبلیغی جماعت کو جان بوجھ کر ’طالبانی‘جماعت کہہ دیا۔ پھر علماء اور مذہبی لیڈروں کو نشانہ بنایا گیا ان پر سائنس سے دور اور جہالت میں مبتلا ہونے کا بے بنیاد الزام لگایا گیا۔ تبلیغی جماعت کے صدر کے خلاف کیس بھی درج ہوا پھر تبلیغی جماعت کے بد عنوانی میں ملوث ہونے کی خبر بھی گشت کرنے لگی۔مگر سوال یہ ہے کہ اسلامو فوبیا کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ دوسرے الفاظ میں مسلم معاشرے اور اسلام کا مطالعہ کس طرح کیا جائے کہ مستشرقین کی خامیوں کو دور کیا جائے۔ اس موضوع پر امریکہ کے دی سنٹر آف سٹی یونیورسیٹی آف نیو یارک میں ثقافتی علم البشریات کے ماہر طلال اسد نے بہت اہم بات کہی ہے۔ وہ اسلام پر تحقیق کرنے والے نامور مصنف محمد اسد کے بیٹے ہیں۔ طلال اسد نے اپنے ایک اہم مقالہ ’’اسلام میں علم البشریات کا تصور‘‘ (٢٠١٢) میں اسلام کا مطالعہ کیسے کیا جائے اس پر روشنی ڈالی ہے جو کہ کافی اہم ہے اور جو اسلامو فوبیا سے مقابلہ کرنے میں کافی اہم ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسلام کا مطالعہ اس کے تاریخی سیاق میں ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے معاشی تناظر (political economy) کے پہلووں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے یہ درست کہا ہے کہ محقق کو ’’تبدیلی اور اختلاف اور تاریخی بتبدیلیوں سماجی تشکیلات (social formations) کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور ان کو پہلے سے طے شدہ خلاصہ (essence) کو اپنانے سے گریز کرنا چاہیے (ص۔ ۱۰۰۔۱۰۱)۔ ’’ طلال اسد یہ کہنا چاہتے کہ اسلام کو اس کے بدلتے ہوئے سیاق اور مستند تاریخ کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر کسی قوم یا تہذیب کو اچھے اور برے کی تقسیم میں محدود کرنے سے بچا جا سکتا ہے۔
(ابھے کمار جے این یو سے پی ایچ ڈی ہیں۔)
ای میل: [email protected]
***

سیکولرازم اور اقلیتی حقوق جیسے آئینی اقدار پر گہری چوٹ کی جا رہی ہے مسلمانوں کو مزید حاشیہ پر دھکیلا جا رہا ہے وہ آج خود کو پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں کیونکہ مسلم مخالف جذبات ملک کے بڑے حصے میں پھیل چکے ہیں دہلی انتخابات اور پھر مسلم مخالف فسادات کے بعد ابھی حالات نارمل ہوئے بھی نہ تھے کہ تبلیغی جماعت کا تنازعہ پیدا کر دیا گیا اسی لیے کشیدگی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہی ہے اور اب تو مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کرنے کی خبریں
بھی آ رہی ہیں۔