مسلم اقلیت کےمسائل سیرت طیبہ کی روشنی میں
غیر مسلم ملکوں میں مسلمانوں کی شہریت اور تہذیبی شناخت کے امور کا ایک جائزہ اختر امام عادل قاسمی، بہار
اختر امام عادل قاسمی، بہار
(زیر نظر مقالہ گزشتہ ماہ ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کے زیر اہتمام منعقدہ سمینار میں پیش کیا گیا تھا جسے قارئینِ ہفت روزہ دعوت کے استفادہ کے لیے یہاں پیش کیا جارہا ہے)
اسلام ایک بین الاقوامی مذہب اور مسلمان ایک آفاقی قوم ہے جو روئے زمین کے ہر خطہ میں پائی جاتی ہے۔ اور ہر زمان ومکان کے لیے اس کے پاس مکمل ہدایات موجود ہیں، خواہ حالت اقتدار میں ہو یا حالت مغلوبی میں۔ رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ اس امت کو جو تعلیمات ملیں وہ انسانی تاریخ کے ہردور کے لیے کافی ہیں، بشرطیکہ ہمارے پاس دلِ دانا اور چشمِ بینا موجود ہو۔ فقہ الاقلیات پر اس حقیر کی ایک کتاب ’’غیرمسلم ملکوں میں مسلمانوں کے مسائل ‘‘ تقریباً آج سے سولہ سترہ سال قبل لکھی گئی تھی اس کایہ اقتباس اس موقع کےمناسب معلوم ہوتا ہےکہ :قرآن کریم کا نزول تدریج کے ساتھ ہوا، سیرت نبویہ کے قانونی اور اخلاقی نمونے رفتہ رفتہ دنیا کے سامنے آئے، یقیناً اس تدریج میں اسلام اور مسلمانوں کےحق میں دنیا کے سیاسی اور سماجی حالات کا دخل تھا، اگر پورا قرآن اور سیرت طیبہ کے تمام اعلیٰ اخلاقی نمونے بیک دفعہ پیش کر دیے جاتے تو شاید حالات میں ان کے تحمل کی گنجائش نہ ہوتی، اس لیے قانون کے تدریجی عمل میں ایک طرف حالات کی تبدیلی کی رعایت کی گئی تو دوسری طرف مسلمانوں کےحق میں مخصوص احوال وظروف کی تعمیر اور مطلوبہ معاشرہ کی تشکیل کا عمل بھی جاری رکھا گیا‘‘۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے (جس میں بڑی حد تک واقعیت بھی ہے) کہ اسلام کے ابتدائی دور کے احکام اسلام کے دورعروج کے احکام سے منسوخ ہوتے چلے گئے، لیکن یہ تصور عبادات، حکومت اسلامیہ کے داخلی مسائل اور مسلمانوں کے باہمی معاملات کی حد تک تو درست ہے لیکن مسلمانوں کے خارجی مسائل یا غیر مسلم اقوام سے ان کے سیاسی اور سماجی تعلقات کو اس عموم میں داخل کرنا مناسب نہیں ہے، اس باب میں اسلامی احکام میں جو تغیرات ہوئے ہیں یا سیرت طیبہ کے عملی نمونوں میں جو فرق نظآت ہے ان میں نسخ سے زیادہ تبدیلیٔ حالات کا دخل معلوم ہوتاہے اور حالات کی تبدیلی کی بنا پر جو احکام عائد ہوں ان کا نام نسخ نہیں بلکہ تطبیق ہے، ایک فقیہ اور ماہر قانون کے لیے ضروری ہے کہ وہ غور کرے کہ کون سا حکم کس قسم کےحالات پر منطبق ہوتا ہے۔آج خیرالقرون کےمجتہدین توپیدانہیں ہوسکتے،لیکن اس درجہ امتیازاورقوت ادراک توپیداہوسکتاہے،جس کےذریعہ انسان مدارج احکام کوپہچان لےاورہرحکم کواس کےصحیح محمل پررکھ سکے۔
مسلمانوں کی سیاسی قوت وضعف یااکثریتی واقلیتی پوزیشن کےلحاظ سے دیکھاجائےتو ہمارےسامنےعہدنبوی میں اسلامی ادوار کےتین نمونےموجودہیں :
(۱)مکی دور:مسلمانوں کی حالت مغلوبی کی علامت ہےیعنی ایسامعاشرہ جس میں مسلمانوں کی سیاسی اورسماجی پوزیشن غیرمسلموں کےمقابلےمیں کمزورہو،اور مسلمان ایک کمزوراقلیت کی صورت میں غیرمسلموں کی مضبوط اکثریت کےدرمیان رہ رہےہوں ،جس میں مسلمانوں کوپوری طرح مذہبی یاسماجی آزادی حاصل نہ ہو۔
(۲)حبشہ کادور:مسلمانوں کی حالت آزادی کی علامت ہے،یعنی ایسامعاشرہ جس میں مسلمانوں کواقلیت میں ہونےکےباوجود مذہبی اورسماجی آزادی حاصل ہو ،جہاں ان کو سیاسی اورقومی خدمات میں حصہ داری کی بھی اجازت ہو،حبشہ میں نجاشی کی حکومت تھی ،اوراس طرح کی شہنشاہتوں میں عوام کوتشکیل حکومت کااختیارتو نہیں ہوتا،لیکن ان کواپنی قومی اورسیاسی خدمات پیش کرنےکی اجازت ہوتی ہے،اوراس عموم میں مسلمان بھی شامل تھے،جیساکہ حبشہ میں ایک جنگ کےموقعہ پر مسلمانوں کےنمائندہ کی حیثیت سے حضرت زبیرکی فوجی خدمات سے اندازہ ہوتاہے ۔
(۳)مدنی دور:مسلمانوں کےحالت غلبہ کی علامت ہے،البتہ اس دورکےدوحصےہیں :
٭اس کاابتدائی حصہ مسلمانوں کی سیاسی قوت کی تشکیل وتعمیرکادورہے،جس میں مسلمان باوجوداکثریت کےغیرمسلم اقلیت کےساتھ سیاسی معاہدہ کرتے ہیں ،تاکہ ان کےاشتراک یاان کی طرف سے یک گونہ اطمینان کےبعدمسلمان اپنی پوزیشن مستحکم کرنےمیں مشغول ہوسکیں ،اوررفتہ رفتہ ایک وحدانی طاقت میں تبدیل ہوسکیں ،چنانچہ مدنی دورکےابتدائی حصہ میں جومعاشرہ یاجوامت تشکیل دی گئی ،اس میں یہودبھی ایک اہم عنصر کی حیثیت سےشامل تھے،اس میں غیرمسلم اقلیت کےساتھ بڑی مراعات رکھی گئی تھیں ،اورحتی الامکان مسلمان اپنےدفاعی اورخارجی مسائل میں غیرمسلموں کےعملی اشتراک کواہمیت دیتے تھے،اوریہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا،اورمسلمان اپنی اخلاقی قوت ،دعوتی جدوجہداوراورتنظیمی صلاحیت کےذریعہ مضبوط ہوتے چلےگئے۔
٭اورپھرمدنی دورکاوہ آخری مرحلہ شروع ہواجومسلمانوں کےخالص غلبہ واقتدارکادورہے،جس میں غیرمسلم اقلیتوں کو تمامتر مذہبی ،معاشی ،شہری اور انسانی حقوق کےباوجودسیاسی معاملات میں وہ مسلمانوں پردخیل نہیں ہوسکتی تھیں، یہ دورعہدنبوی کے آخر تک برقراررہا،اوراس میں جغرافیائی طورپرتوسیعات ہوتی رہیں ،یہاں تک کہ عرب کازیادہ ترعلاقہ عہدنبوت ہی میں اسلام کےاس دورغلبہ کے دائرہ میں داخل ہوچکاتھا،۔۔۔۔عہدنبوت کےبعدعہدخلافت راشدہ میں اسی دور غلبہ کی توسیع ہوئی اوررفتہ رفتہ مسلمان روئےزمین کی سب سے بڑی طاقت بن گئے،اورصدیوں تک مسلمانوں نےایک غالب قوت کی حیثیت سےملکوں اورقوموں پر حکمرانی کی ۔
فقہ الاقلیات کی بنیاد
امت مسلمہ کےموجودہ سیاسی زوال کےدورمیں جب کہ متعددعلاقوں میں مسلمان نہ صرف یہ کہ قوت واقتدارسےمحروم ہیں ،بلکہ ایسی اکثریت بھی نہیں رکھتے،جوحکومتوں یادیگراقوام پراثراندازہوسکے،ایسی صورت حال میں امت مسلمہ کی زیادہ تررہنمائی عہدنبوی کےمذکورہ بالاتین علامتی ادوارمیں سے کسی دورمیں مل سکتی ہے،ہمارافقہی اثاثہ اس سلسلےمیں بڑی حدتک خاموش ہے،بعض اشارات ضرورموجودہیں ،اورسلف کےاشارات بھی خلف کےلئےکافی اہمیت رکھتے ہیں ،اس لئے فقہ الاقلیات پرکام کرنےوالےعلماء کےلئے ضروری ہےکہ وہ ان اشارات کوبھی مشعل راہ کےطورپرسامنےرکھیں ۔موجودہ دور میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد غیرمسلم ملکوں میں آباد ہے، صرف ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد صحیح اعداد و شمارکے مطابق قریب ۳۰؍ کروڑ سے کم نہیں ہے، جو اس وقت دنیا کے کسی ایک ملک میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔چین میں تقریباً پندرہ کروڑ،متحدہ روس میں دو کروڑ، یورپ میں ایک کروڑ اسی لاکھ، امریکہ میں اسّی لاکھ مسلمان آباد ہیں، اسی طرح افریقی ملکوں میں مثلاً تنزانیا، اوگنڈا، کینیا اورجنوبی افریقہ اور ایشیائی ملکوں میں سنگاپور، سری لنکا، نیپال وغیرہ میں مسلمانوں کی بڑی تعداد مقیم ہے۔
ظاہرہےکہ اس مختصرسےمقالہ میں مسلم اقلیت کےتمام مسائل کااحاطہ توممکن نہیں ہے،البتہ بطورنمونہ چندمسائل میں سیرت طیبہ اورتعلیمات نبویہ سےرہنمائی کےاشارات پیش کئےجاتےہیں۔
غیرمسلم ملکوں میں بحیثیت اقلیت شہریت کاحصول
٭مسلم اقلیت کے مسائل میں سب سے اولین مسئلہ ان ملکوں میں قیام و سکونت کی شرعی حیثیت کا ہے، کہ غیراسلامی ملکوں میں مسلمانوں کےقیام وسکونت کا شرعی حکم کیاہے؟ خاص طورپرمسلم ملکوں کے ان مسلمانوں کے لیے یہ مسئلہ کافی اہمیت کاحامل ہے،جو اپنا وطن چھوڑ کر غیرمسلم ملکوں میں منتقل ہوچکے ہیں، اور واپسی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ خاص طورپروہ مسلمان جواسلامی ملکوں سےمنتقل ہوکرغیرمسلم ملکوں میں گئےہیں ،کیا اسلامی نظام حکومت چھوڑ کر غیراسلامی نظام میں جائے امان تلاش کرنا اور مسلم حکمرانوں کے دائرہ اطاعت سے نکل کر غیرمسلم حکمرانوں کی بالادستی قبول کرنا جائز ہے؟یہ سوال انتہائی قدیم ہے۔ ائمہ اربعہ کے دور میں بھی یہ مسئلہ زیر بحث رہا ہے، البتہ حالات کے فرق سے اب مسئلہ کی وہ حساسیت باقی نہیں رہی، جو پہلے سمجھی جاتی تھی۔
اس مسئلہ کامداردوچیزوں پرہے:
(۱)جس غیرمسلم ملک میں کوئی مسلمان قیام پذیر ہے یا قیام کرنا چاہتا ہے مسلمانوں کےلئےوہاں کی قانونی اور سیاسی صورتِ حال کیا ہے؟
(۲)قیام کا محرک کیاہے؟ محرکات کے فرق سے بھی حکم میں فرق پیدا ہوگا۔
علماء نے غیرمسلم ملکوں کو تین حصوں میں منقسم کیا ہے:
(۱) دارالحرب :یعنی وہ ممالک جہاں بحیثیت مسلمان شہری اپنےمذہبی اورملی تشخصات کی حفاظت مشکل ہو ، جیساکہ عہد نبوی میں ہجرت مدینہ سے قبل مکہ معظمہ کی صورت حال تھی، ایسے ملکوں کی شہریت حاصل کرناعام حالات میں کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں،بلکہ جو لوگ وہاں پہلے سے آباد ہوں اور وہ کسی پرامن ملک کی طرف ہجرت کی طاقت رکھتے ہوں تو ان پر فرض ہے کہ وہاں سے ہجرت کرجائیں ۔
البتہ اس سے ان مسلمانوں کا استثناء ہے جومختلف قومی یاملی یادعوتی مصالح کےتحت وہاں کاسفرکریں یاقیام کریں ،اوران میں مشکلات کےبرداشت کی طاقت موجودہو ۔
اس حکم کا ماخذقرآن کریم کی یہ آیت ہے:
ان الذین توفاہم الملائکۃ ظالمی انفسہم قالوا فیم کنتم قالوا کنا مستضعفین فی الارض قالوا الم تکن ارض اللّٰہ واسعۃ فتہاجروا فیہا فاولئک ماواہم جہنم وسائت مصیرا
ترجمہ: بے شک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کررکھا ہے (جب) فرشتہ قبض کرتے ہیں تو ان سے کہیں گے کہ تم کس کام میں تھے، وہ بولیں گے ہم اس ملک میں بے بس تھے، فرشتے کہیں گے کہ کیااللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم وہاں ہجرت کرجاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے،اور وہ بری جگہ ہے۔اس آیت میں ایسی سرزمین میں اقامت اختیار کرنے کو ظلم اور بدترین گناہ قرار دیاگیا ہے جہاں انسان اپنے دین و ایمان کی حفاظت نہ کرسکے، بشرطیکہ انسان وہاں سے نکلنے اورکسی مناسب مقام پر قیام کرنے کی قدرت رکھتا ہو ۔
دارالامن یادارالعہد
(۲)دارالامن یادارالعہد: دوسری قسم ان غیر اسلامی ممالک کی ہے، جہاں مسلمانوں کے لیے بحیثیت اقلیت جان ومال ،عزت وآبرو،دین وایمان کو خطرہ درپیش نہ ہو، ایسے ملکوں کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتاہے:
جمہورفقہاء (حنفیہ ،حنابلہ ،اورشافعیہ کامسلک صحیح )کی رائے یہ ہے کہ ایسے ملکوں میں رہنادرست ہے،اورمقیم مسلمانوں کے لیے وہاں سے ہجرت کرنا واجب نہیں ۔ ان حضرات کے پیش نظر بعض اہم بنیادیں ہیں:
(۱)حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن ارشاد فرمایا:لاہجرۃ ولکن جہاد ونیۃ واذا استُنفرتم فانفروا
ترجمہ:اب ہجرت کا حکم باقی نہیں البتہ جہاد اور نیت باقی ہے، جب تم کو جہاد کے لیے بلایا جائے تو جہاد کے لیے نکلو۔
مذاکرات کے لیے مشترکہ بنیادوں کی ضرورت ہوتی ہے ،اور کوئی قوم بالخصوص امت مسلمہ کسی حال میں اپنی مذہبی بنیادوں پر صلح نہیں کرسکتی ،چنانچہ عہد نبوت کے ابتدائی مکی دور میں رسول اللہﷺ کو مذہبی بنیادوں پر مصالحت کی پیش کش کی گئی تھی لیکن اللہ پاک کے حکم پر آپ ﷺنے اس کو مسترد کردیا
اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب پورے علاقۂ عرب میں امن قائم ہوگیا، اورمسلمانوں کے مذہبی معاملات میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی تو ہجرت مدینہ کا حکم منسوخ ہوگیا، حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ یہ حکم صرف مکہ مکرمہ ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ ہر وہ علاقہ جہاں مسلمانوں کو ان کے اسلامی احکام کی بجا آوری میں کوئی دشواری پیش نہ آئے اس میں داخل ہے ۔ علامہ خطابیؒ اور شوکانیؒ کابیان ہے کہ ابتداء اسلام میں چونکہ مسلمان تعداد میں کم اور منتشر تھے،اس لیے ضرورت تھی کہ ان کو کسی ایک مقام پرجمع کیا جائے،اس وقتی مصلحت کے پیش نظر ہجرت مدینہ کا حکم عبوری طور پر دیا گیا، لیکن جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی اور ان کی قوت بھی کافی حدتک مستحکم ہوگئی،جس کا علامتی مظاہرہ فتح مکہ کی صورت میں ہوا، تو ہجرت مدینہ کا یہ حکم اٹھالیاگیا ۔
(۲)رسول اللہ ﷺنے فتح مکہ سے قبل بعض صحابہ کو مکہ میں رہنے کی اجازت دی تھی جب کہ مکہ ، فتح مکہ سے قبل دارالکفر تھا، مثلاً اپنے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ کو حضور ﷺنے مکہ میں رہنے کی اجازت دی، اسلئے کہ ان کے بارے میں دینی فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہیں تھا۔ اور ذاتی وجاہت اور خاندانی اثر و رسوخ کی بنا پر کفار ان کو جانی و مالی نقصانات بھی نہیں پہنچا سکتے تھے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دارالکفر میں اگر دین و ایمان اورجان و مال کے تحفظ کا یقین ہو تو قیام کرنے کی اجازت ہے ۔ البتہ حضرت عباسؓ کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہجرت کی قدرت نہیں رکھتے تھے،اس بناپر حکم ہجرت سے ان کو مستثنیٰ کردیاگیا تھا،جو عام مستضعفین کا حکم ہے۔
(۳)بعض صحابہ نے مکہ میں کفار کی اذیتوں سے مجبورہوکر حبشہ کی عیسائی سلطنت کا رخ کیا اور وہیں مقیم ہوگئے، اورجب تک اللہ نے ہجرت مدینہ کی سبیل نہیں پیدا کی وہیں مقیم رہے، یہاں تک کہ بعض صحابہ رسول اللہ ﷺ کے مدینہ ہجرت فرماجانے کے بعد بھی حبشہ ہی میں مقیم رہے،اور یہ سب کچھ رسول اللہ ﷺ کی مرضی کے مطابق ہوا۔خود نجاشی مسلمان ہونے کے بعداپنی غیراسلامی سلطنت میں مقیم رہا، جب کہ وہ اپنے وسائل کی بدولت مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کی طرف ہجرت کرنے کی قدرت رکھتا تھا، لیکن رسول اللہﷺ کی اجازت سے وہ حبشہ میں مقیم رہا،اور جب اس کاانتقال ہوا تو حضور ﷺ نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی اور فرمایا:مات الیوم رجل صالح ۔
ترجمہ: آج ایک صالح شخص کا انتقال ہوگیاہے۔
(۴)مشہو تابعی حضرت عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ میں نے عبید بن عمیر کے ساتھ حضرت عائشہؓ سے ملاقات کی، اوران سے ہجرت کے بارے میں سوال کیا، تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا:’’اب ہجرت کاحکم نہیں ہے، اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی طرف ہجرت کا حکم اس وقت تھا جب مسلمانوں کے لیے دینی اعتبار سے فتنہ کا اندیشہ تھا، اس لئےمسلمان مختلف علاقوں سے سمٹ کر رسول اللہ ﷺ کے زیر سایہ مجتمع ہوگئے، لیکن اب اللہ نے اسلام کو فروغ دے دیا ہے اس لیے اب جو شخص جہاں چاہے رہ کر اپنے پروردگار کی عبادت کرے، البتہ جہاد اور نیت کاحکم اب بھی باقی ہے۔حافظ ابن حجرؒ اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کا اشارہ اس جانب ہے کہ ہجرت کاحکم مطلق نہیں ہے، بلکہ فتنہ کی علت کے ساتھ مربوط ہے، علت موجود ہوگی تو حکم پایا جائے گا، علت نہیں رہے گی توحکم بھی باقی نہ رہے گا، اس طرح وہ ممالک جہاں دینی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے فتنہ نہ ہو وہاں اقامت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اور وہاں مقیم مسلمانوں کے لیے ہجر ت واجب نہیں ہے ۔ علامہ ماوردیؒ فرماتے ہیں: اگر کسی غیراسلامی ملک میں آزادانہ طور پر دین پر عمل کرنے کی قدرت ہو تو وہ دارالاسلام کے حکم میں ہے، اور دارالاسلام کے مقابلے میں مسلمانوں کا وہاں قیام کرنا زیادہ باعث فضیلت ہے، اس لیے کہ اس میں اسلام کی دعوت واشاعت کے امکانات زیادہ ہیں ۔
بعض سماجی اورسیاسی مسائل
٭مختلف قومیں جب ایک مقام پر رہتی ہیں توکئی سیاسی یا سماجی مسائل کے لئے باہم ایک دوسرے سے مذاکرات اور
گفت وشنید کی ضرورت بھی پڑتی ہے ، جن کی بنیاد ایک دوسرے کے جذبات اور تقاضوں کے احترام اوررعایت پرہوتی ہے ،قیام امن ،بقائے باہم اور فتنہ وفساد سے بچنے کے لیے شریعت مطہرہ میں اس کی گنجائش ہے ،اور اس کی عملی مثالیں بھی عہد نبوت میں موجود ہیں ،ایک مقام پر رہنے والے شہریوں کے درمیان بھی ،اوردیگر علاقوں اور قبائل کے مابین بھی ۔
مذہبی بنیادوں پر مصالحت ممکن نہیں
لیکن عموماً یہ معاہدات سماجی یا سیاسی نوعیت کے ہوتے تھے،ان میں کبھی مذہبی بنیادوں کو شامل نہیں کیا گیا ،اس لیے کہ مذاکرات کے لیے مشترکہ بنیادوں کی ضرورت ہوتی ہے ،اور کوئی قوم بالخصوص امت مسلمہ کسی حال میں اپنی مذہبی بنیادوں پر صلح نہیں کرسکتی ،چنانچہ عہد نبوت کے ابتدائی مکی دور میں رسول اللہ ﷺکو مذہبی بنیادوں پر مصالحت کی پیش کش کی گئی تھی ، لیکن اللہ پاک کے حکم پر آپ ﷺ نے اس کو مسترد کردیا ،روایات میں آتا ہے کہ کافر اکثریت جب مسلمانوں کے عزم واستقلال میں جنبش پیدا نہ کرسکی تو انہوں نے بعض مصالحانہ پیش کشیں کی تھیں ،ان میں ایک یہ تھی کہ ایک سال آپ ہمارے خداؤں کی پرستش کریں اور ایک سال ہم آپ کے خدا کی عبادت کریں ،حضرت عبداللہ بن عباس ؓراوی ہیں کہ قریش مکہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ :فإنا نفرض عليك خصلة واحدة ولك فيها صلاح قال وما هي قال تعبد إلهنا سنة اللات والعزى ونعبد إلهك سنة قال حتى أنظر ما يأتيني من ربي فجاء الوحي من عند الله عز و جل من اللوح المحفوظ ۔ترجمہ :ہم آپ کے پاس ایک تجویز پیش کرتے ہیں ،جس میں آپ کے لیے بھلائی ہے آپ نے دریافت فرمایا ،کیا ہے؟انہوں نے کہا :ایک سال آپ ہمارے معبودوں لات وعزیٰ وغیرہ کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے خدا کی عبادت کریں ،(یعنی بقائے باہم کے اصول پرہم ایک دوسرے کو تسلیم کریں اور ایک دوسرےکے جذبات کا احترام کریں ،)رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں حکم الٰہی کا انتظار کروں گا ،پھر جواب دوں گا ،آخر لوح محفوظ سے اللہ پاک کی طرف سے وحی نازل ہوئی ،سورۂ کافرون،اور قرآن کریم نے اس نظریہ کو بالکل ناقابل قبول قراردیا ۔(جاری)