محمد رضی الاسلام ندوی،دلی
یوں تو ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم وقفے وقفے سے اٹھتی رہتی ہے، لیکن گزشتہ ایک ہفتے سے اس میں بہت زیادہ تیزی آگئی ہے۔ اِس وقت دہلی کے علاقے بستی نظام الدین میں واقع تبلیغی جماعت کا مرکز نشانے پر ہے۔ تبلیغی جماعت کے وابستگان سے آگے بڑھ کر اب تمام مسلمانوں کو مطعون کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ انہی کی وجہ سے ملک میں کورونا وائرس پھیل رہا ہے۔ کورونا کی دہشت نے ملک کے باشندوں کے دلوں میں مسلمانوں سے بغض ونفرت میں اضافہ کردیا ہے اور تمام طبقات ان پر لعنت وملامت کر رہے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اہل ایمان کو مخاطب کرکے فرمایا:’’ ایک زمانہ آئے گا جب قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔‘‘(ابو داؤد:۴۲۹۷) ملک کا موجودہ منظرنامہ یہی تصویر پیش کر رہا ہے۔کورونا وائرس کا انکشاف چین کے شہر ووہان میں دسمبر ۲۰۱۹ء میں ہوا۔ وہاں سے یہ مختلف ممالک میں پھیلا۔ تمام ممالک کے حکم رانوں نے ابتدا میں لاپروائی برتی اور تساہل سے کام لیا۔ وہ اس وقت جاگے جب اموات سیکڑوں سے تجاوز کرکے ہزاروں میں پہنچ گئیں۔ اس غفلت کا مظاہرہ ہمارے ملک کے حکم رانوں کی جانب سے بھی کیا گیا۔ چنانچہ ۱۳؍ مارچ۲۰۲۰ء تک وہ یہ یقین دہانی کراتے رہے کہ یہاں کسی ہیلتھ ایمرجنسی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی دیگر ممالک سے آنے والوں کی اسکریننگ کا کوئی نظم نہیں کیا گیا ۔ جب کورونا متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا تو اچانک بغیر کسی منصوبہ بندی کے ۲۵؍ مارچ سے ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا گیا اور جناب وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ تمام لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوجائیں۔ جو جہاں ہے وہیں ٹھہرا رہے۔ اس پر عمل کیا گیا ۔ چنانچہ مزدوروں کی بڑی تعداد ملک کے مختلف حصوں میں پھنس کر رہ گئی ۔ مندروں کے زائرین ، سیّاح اور دیگر افراد جہاں تھے ، وہیں رکے رہیں۔ اس وقت تبلیغی جماعت کے مرکز میں بھی دو ہزار سے زائد لوگ موجود تھے۔ انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے کے لیے انتظامیہ اور پولیس سے برابر رابطہ کیا گیا ، لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ اچانک ۳۱؍ مارچ کو پولیس فورس کے ذریعے مرکز خالی کرالیا گیا۔ وہاں موجود لوگوں کو مختلف اسپتالوں اور قرنطینہ مراکز میں منتقل کیا گیا۔ اسی وقت سے مرکز نظام الدین کے خلاف بھونچال آیا ہوا ہے۔ محکمۂ پولیس ،مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت، سب وہاں کے ذمے داروں پر الزامات کی بارش کر رہے ہیں اور وابستگانِ جماعت کو مطعون کر رہے ہیں۔ مختلف ریاستوں میں تبلیغی جماعت کے وابستگان کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی ہے اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا رہی ہے۔ اس معاملے میں میڈیا کی شر انگیزی سب سے بڑھ کر ہے کہ وہ تبلیغی جماعت سے آگے بڑھ کر ملک کے تمام مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرارہا ہے۔مختلف چینلوں پر اینکرس انتہائی زہریلی زبان استعمال کر رہے ہیں۔ کورونا جہاد اور کورونا بم جیسی اصطلاحات انھوں نے ایجاد کر لی ہیں۔ وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ مسلمانوں نے اپنی حماقت سے پورے ملک میں کورونا وائرس پھیلا دیا ہے۔ وہ ملک کے لیے خطرہ ہیں۔ میڈیا کی اس شر انگیزی کا اثر غیر مسلم عوام پر پڑ رہا ہے اور وہ ان کو الگ تھلگ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔
یہ صورت حال مسلمانوں کے صبر کا امتحان ہے۔ انہیں پوری پامردی، حکمت اور فراست کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ بات صحیح ہے اور ہمیں کھلے دل کے ساتھ اس کا اعتراف کرنا چاہیے کہ تبلیغی بھائیوں سے اس موقع پر کچھ چوک ہوئی ہے۔ جب گزشتہ سال دسمبر ہی سے کورونا وائرس کے پھیلنے کی خبریں آنے لگی تھیں اور رواں سال فروری کے اواخر میں ملیشیا کے تبلیغی اجتماع کے بعض شرکا اس سے متاثر پائے گئے تھے تو انہیں فوراً اپنے یہاں کے تمام پروگرام خود سے کینسل کردینے چاہیے تھے۔ لیکن اس معاملے میں مرکزی حکومت کے مختلف محکمے ، بالخصوص وزارت داخلہ بھی کم قصوروار نہیں ہے کہ اس نے اپنی ذمے داری ادا نہیں کی اور معاملات کو صحیح طریقے سے منظّم نہیں کیا۔ اس موقع پر مسلمانوں کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ان کی جانب سے کسی طرح کی اشتعال انگیزی کا مظاہرہ نہ ہو۔ اللہ کے رسول ﷺ کی حیات طیبہ سے ہمیں اس معاملے میں بھر پور رہ نمائی ملتی ہے۔ مکی دور میں
آپ ﷺ پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے ، آپ ﷺ کو شاعر، کاہن اور ساحر جیسے القاب سے نوازا گیا، لیکن آپ ﷺ نے پلٹ کر کوئی جواب نہ دیا، بلکہ خاموشی کے ساتھ اپنے مشن میں لگے رہے۔ قرآن مجید میں یہ تو کہا گیا ہے کہ آپ ﷺ کے بارے میں کہی جانے والی یہ تمام باتیں درست نہیں ہیں ، لیکن آپ کی طرف سے اور آپ ﷺ کے اصحاب کی طرف سے اس پر کسی سخت ردّ عمل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ مدنی دور میں منافقوں کی سازشیں عروج پر تھیں۔ ایک موقع پر تو رسول اللہ ﷺ کی زوجۂ مطہّرہ امّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی الزام تراشی سے نہیں بخشا گیا، مسلمان سخت ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوگئے، لیکن اس موقع پر بھی انھوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
کورونا ایک مہلک اور خطرناک مرض ہے۔ جو لوگ اس میں مبتلا ہو گئے ہیں وہ نفرت کے نہیں ،بلکہ ہم دردی کے مستحق ہیں۔ یہ الزام تراشی کا موقع نہیں کہ کس نے اس مرض کو پھیلایا اور کون قصور وار ہے بلکہ سب کو مل کر اسے قابو میں کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جن لوگوں کے بارے میں اندیشہ ہو کہ کسی پروگرام میں شرکت کے نتیجے میں ان میں یہ وائرس پایا جا سکتا ہے انہیں خود آگے بڑھ کر اپنا چیک اپ کروانا چاہیے اور ضرورت ہو تو متعینہ مدت تک قرنطینہ میں رہنا چاہیے۔ اسے چھپانا دینی اعتبار سے بھی درست نہیں ہے اور ملکی قانون کے اعتبار سے بھی جرم ہے۔کورونا سے تحفّظ کے لیے جس بے تدبیری کے ساتھ لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے اس سے ہزاروں خاندان بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ جو لوگ مختلف مقامات پر پھنس گئے تھے وہ دانے دانے کو محتاج ہیں۔ جن مزدوری پیشہ لوگوں کے گھروں کا چولہا روزانہ کمانے سے جلتا تھا ان کا ایک ایک دن سخت پریشانی کے عالم میں گزر رہا ہے۔ ان میں مسلمان بھی ہیں اور غیر مسلم بھی۔ اس موقع پر اگر مسلمانوں کی دینی جماعتیں اور تنظیمیں بڑے پیمانے پر منظّم انداز میں رفاہی کام کریں، حسب سہولت راشن اور پکا ہوا کھانا بلا تفریق مذہب و ملّت ضرورت مندوں بستیوں میں اور افراد کے درمیان تقسیم کریں تو وہ دینی فریضہ سے بھی سبکدوش ہوں گے اور اس سے بڑھی ہوئی منافرت کو بھی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ خدمتِ خلق وہ مؤثر ذریعہ ہے جس سے دلوں کو رام کیا جا سکتا ہے اور ان میں محبت وعقیدت پیدا کی جاسکتی ہے۔ یہ دیکھ کر اطمینان اور مسرّت ہوتی ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں اور خاص طور پر مسلم نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔
کورونا وائرس کو قابو میں کرنے کا کارگر طریقہ ’سماجی فاصلہ‘ (Social distancing) ہے۔ اسی وجہ سے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے کہ تمام لوگ اپنے اپنے گھروں میں محدود رہیں اور دوسرے لوگوں سے میل جول نہ رکھیں۔ یہاں تک کہ مذہبی عبادت گاہیں بھی بند کر دی گئی ہیں۔ مسلمانوں نے اس حکومتی فیصلے کو دل پر پتھر رکھ کر قبول کیا ہے۔ مسجدوں سے انہیں غیر معمولی عقیدت ہے۔ ان کے نزدیک روزانہ پانچ مرتبہ جماعت سے نماز ادا کرنے کے لیے مسجدوں کی حاضری ضروری ہے۔ جمعہ کی نماز اور بھی اہمیت رکھتی ہے، اس لیے اس میں وہ بڑی تعداد میں مسجدوں میں حاضر ہوتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں جماعت اور جمعہ سے محرومی مسلمانوں پر بہت شاق گزر رہی ہے اور وہ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان اوقات کو انہیں اپنے ذاتی تزکیہ، روحانی ارتقا، قرب ِ الٰہی، توبہ و استغفار اور دعا ومناجات میں زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں بنی اسرائیل مصر میں سخت ترین حالات سے گزر رہے تھے۔ فرعون اور اس کے کارندوں کی جانب سے سخت مظالم کا شکار تھے۔ اجتماعی زندگی میں دین پر چلنا ان کے لیے ناممکن ہو گیا تھا۔ ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا :’’ اپنے گھروں کو قبلہ رو کرلو اور نماز قائم کرو۔‘‘(یونس:۸۷) اس ارشاد الٰہی میں ہر زمانے کے مسلمانوں کے لیے رہ نمائی ہے ۔اللہ تعالی سے ان کا تعلق کسی بھی صورت میں کم زور اور مضمحل نہیں ہونا چاہیے۔ کسی وجہ سے اگر مسجدوں میں ان کی حاضری نہ ہو پائے تو ہر گھر کو مسجد بن جانا چاہیے۔آج کل زندگی اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ انسان کو اپنے قریب ترین عزیزوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع نہیں مل پاتا۔ بچے بڑوں کی شفقتوں سے محروم رہتے ہیں، جس کی بنا پر صحیح طریقے سے ان کی دینی و اخلاقی تربیت نہیں ہو پاتی۔ لاک ڈاؤن نے اس کا زرّیں موقع فراہم کیا ہے کہ مسلمان اپنے اہل خانہ پر توجہ دیں، ان کی دینی نشو ونما کی فکر کریں، ان کی دینی معلومات میں اضافہ کی تدبیر کریں، انھیں کچھ پڑھ کر سنائیں، انہیں قرآن کی سورتیں اور روز مرّہ کام آنے والی دعائیں یاد کرائیں، انہیں سچّا پکّا مسلمان بنانے کی کوشش کریں۔
ملک کے موجودہ حالات عام انسانوں کے لیے سخت ہیں اور مسلمانوں کے لیے خاص طور پر مزید سخت بنا دیے گئے ہیں۔ ان کا مقابلہ انہیں ہمّت اور حوصلہ کے ساتھ کرنا ہے۔ ایک حدیث میں مومن کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:’’اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے، چنانچہ اس میں اس کے لیے خیر ہوتا ہے۔‘‘( مسلم:۲۹۹۹) اہل ایمان کو مایوسی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں ۔(الزمر:۵۳) اس لیے کہ اس کی رحمت سے مایوس ہونے والے گم کردہ راہ ہوتے ہیں ۔(الحجر:۵۶) جن کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو مایوس ہونے لگتے ہیں۔(الروم:۳۶) جب کہ اہل ایمان اللہ پر توکل کرتے ہیں ۔ چنانچہ وہ اپنے تمام معاملات اس کے حوالے کرکے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ قرآن نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہر تنگی کے بعد کشادگی ضرور آتی ہے۔(الانشراح:۵،۶) انہیں اطمینان رکھنا چاہیے کہ ان شاء اللہ پریشانیوں کے یہ بادل ضرور چھٹیں گے اور راحت ورحمت کی ٹھنڈی ہوائیں چلیں گی۔
(مضمون نگار جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری برائےشعبۂ اسلامی معاشرہ ہیں)
کورونا ایک مہلک اور خطرناک مرض ہے۔ جو لوگ اس میں مبتلا ہو گئے ہیں وہ نفرت کے نہیں ،بلکہ ہم دردی کے مستحق ہیں۔ یہ الزام تراشی کا موقع نہیں کہ کس نے اس مرض کو پھیلایا ؟اور کون قصور وار ہے؟بلکہ سب کو مل کر اسے قابو میں کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جن لوگوں کے بارے میں اندیشہ ہو کہ کسی پروگرام میں شرکت کے نتیجے میں ان میں یہ وائرس پایا جا سکتا ہے انہیں خود آگے بڑھ کر اپنا چیک اپ کروانا چاہیے اور ضرورت ہو تو متعینہ مدت تک قرنطینہ میں رہنا چاہیے۔ اسے چھپانا دینی اعتبار سے بھی درست نہیں ہے اور ملکی قانون کے اعتبار سے بھی جرم ہے۔