مستقبل کی تعمیر میں تعلیمی اداروں کے انتظامیہ کا رول

ویژن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اساتذہ کی تربیت اور بہتر تال میل ضروری

سیدناصرحسین،ممبئی

 

طلبا کسی بھی ادارے کی فکری متاع اور مادی لحاظ سے گیلی مٹی کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کو صحیح ساخت پر ڈھالنے اور فکر کی آبیاری کرنے کے لیے انتظامیہ، کیمپس کو مختلف اسباب وسائل سے لیس کرتی ہے تاکہ وہ حصول علم کے لیے زر خیز بن جائیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ طلبا، انتظامیہ کا نہ صرف ظاہری عکس ہوتے ہیں بلکہ ان کے جذبات، سوچ اور مطمح نظر کا آئینہ دار ہوتے ہیں۔ طالب علم کی چال ڈھال، رنگ ڈھنگ، رکھ رکھاؤ یہ سب نمایاں کرتے ہیں کہ کیمپس کے سانچے میں ڈھل کر وہ رفتار و گفتار اور کردار و اطوار میں کس سمت پہنچ گئے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انتظامیہ و اساتذہ کے تعلقات میں اختلاف کا عنصر زیادہ ہے یا خوش گوار پہلو زیادہ ہے نیز، یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ادارے کا انتظامیہ اپنے فریضے کے تئیں کتنا سنجیدہ ہے۔
ادارے کے ویژن سے انتظامی امور کو ہم آہنگ کرنا بڑی اہم ذمہ داری ہے لیکن اکثر انتظامیہ کے ذہنوں میں یہ بات پیوست ہو گئی ہے کہ اسکول میں انتظامی امور دیکھنا اور تکنیکی تعاون فراہم کرنا ہی ان کا اہم رول ہے۔ انتظامی امور کی انجام دہی کے دوران وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جن علم کے میناروں کو سنوارنے کا انہوں نے ذمہ لیا ہے اس کے لیے انہیں خود کن صلاحیتوں سے آراستہ ہونا پڑے گا۔ انتظامیہ کے کیا نئے خد وخال طے کرنے ہوں گے، کن نئی تکنیکوں کو اپنانا پڑے گا۔ اساتذہ سے سارے اختلافات بھلا کر ان سے بہتر تعلقات کس طرح استوار کرنے ہوں گے۔ ایک مشن کے تحت ان کو متحرک رکھنا کیوں ضروری ہوگا۔ نئی نسل کی مناسبت سے کس نہج پر ان کی تربیت کرنی ہوگی کہ ان کی خدمات ادارے کے ویژن کی تکمیل میں معاون و مددگار ثابت ہوں۔ کسی بھی تعلیمی ادارے کا انتظامیہ کسی دوا ساز کمپنی کے انتظامیہ جیسا نہیں ہوتا کہ دوا ساز کمپنی مہلک مرض کے خاتمے کے لیے نئی دوا (Novel Drug) کی ایجاد پر کام کر رہی ہو تو وہ اپنے پروڈکٹ کی ذمہ داری اس کے Shelf Life period تک ہی قبول کرتی ہے جیسے ہی اس پروڈکٹ کی Expiry Date ختم ہو جاتی ہے اسے کوڑے دان کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد دوا کے استعمال سے کسی کو فائدہ نہ پہنچے یا نقصان ہی پہنچ جائے تو وہ کمپنی اس پروڈکٹ کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی۔کمپنی اپنی تجارت کے پیش نظر اس پروڈکٹ کی وضع قطع طے کرنے سے لے کر مکمل علاج کی خاطر دوا بننے تک اسے ہر کسوٹی سے گزارتی ہے لیکن وہ ساری کسرت صرف اس غرض کے لیے کرتی ہے کہ گاہک سے منافع سمیت پوری قیمت وصول کر سکے۔ اس کے بر خلاف تعلیمی اداروں کا انتظامیہ صرف طالب علم کے داخلے اور طالب علمی کے مختصر وقفے کے لیے فکر مند نہیں رہتا بلکہ وہ اس بات کے لیے بھی فکر مند رہتا ہے کہ اس کا فارغ التحصیل سماج کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے یا نہیں۔ تب ہی یہ زندگیوں کا انتظامیہ کہنے کے لائق قرار پاتا ہے ورنہ وہ بے جان چیزوں کا انتظامیہ قرار پاتا ہے جو اپنی پیشہ وارانہ خدمات انجام دینے میں مصروف عمل ہوتا ہے جس کے اور پروڈکٹ کے درمیان تعلق کا وقفہ اور اس کی نوعیت سے ہم سب واقف ہیں۔
انتظامیہ اور طلبا کا تعلق بہت گہرا اور دائمی ہوتا ہے۔ لیکن انتظامیہ اس تعلق کو اکثر نظر انداز کرتا ہے اور طلبا کے بارے میں سوچنے سمجھنے کی پوری ذمہ داری اساتذہ پر ڈالتا ہے اور اکثر اس محاذ سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ہماری کوششوں کا ثمرہ ہمیں ہر سال ادارے کے صد فی صد نشانات کی صورت میں حاصل ہو رہا ہے۔ تمام ہی ادارے اس بات کو جانتے ہیں کہ اساتذہ، طلبا وانتظامیہ کے درمیان ایک پُل کا کام کرتے ہیں اور ادارے کے ذریعے طے کردہ پالیسی و منصوبے کو بروئے کار لانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں لیکن بغیر رہنمائی و تحریک کہ یہ کام مکمل ہوگا یہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے انتظامیہ کو نئی نسل کی سطح پر جا کر سوچنا ہوگا جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان کے نوخیز دماغوں کو پڑھنا، ان کے تقاضوں کو نئے انداز سے دیکھنا، ان کے سیکھنے کے انداز کو سمجھنا اور اس کو کار آمد بنانے کے لیے ہر ممکن تعاون کرنا، ان کی صلاحیتوں کے ارتقاء کے لیے کچھ ایسی پالیسی ومنصوبہ ترتیب دینا جس سے انتظامیہ کی طلبا پر ہمہ جہت، تجرباتی، مربوط و پرلطف انداز میں سیکھنے کے عمل پر توجہ مرکوز ہو اور ان ہی نکات پر مبنی وسائل فراہم کیے جائیں۔ یعنی کھیت کا مالی ہی اگر لہلہاتی فصل اور اچھی پیداور کا خواب نہ دیکھے، بیج کی وضع قطع اور صحت مندی پر اس کی نظر نہ ہو اور اسے ہموار زمین کی فکر نہ ہو تو وہ فصل اگانے کے لیے سنجیده کوشش نہیں کر سکتا اور موجودہ عملے کے ساتھ تمام محاذوں پر درکار محنت کو برداشت نہیں کر سکتا۔
روایتی انداز Maintaining سوچ اور sense of responsibility کے جذبے سے خالی انتظامیہ کاموں کو سطحی انداز سے انجام دے گی۔ امور ومعاملات میں پورا انہماک نہ ہوگا۔ اس لیے کسی ایک جانب مجبوراً نرم گوشہ ذہن Prejudice Mind بن جائے گا، معمولی سا جوکھم مول لینے کو بھی وہ مسائل کا پیش خیمہ سمجھیں گی۔ اس لیے کوششیں بھی نتیجہ خیز نہیں ہوں گی۔ راستے کے چیلنجس کو انگیز کرنے کا خاصہ اس کے اندر پیدا نہیں ہوگا۔ اس طرز کا انتظامیہ اکثر راہ فرار اختیار کرے گا۔ نتیجتاً اپنی جامع حیثیت کھو بیٹھے گا۔
[email protected]

طلبا، انتظامیہ کا نہ صرف ظاہری عکس ہوتے ہیں بلکہ ان کے جذبات، سوچ اور مطمح نظر کا آئینہ دار ہوتے ہیں۔ طالب علم کی چال ڈھال، رنگ ڈھنگ، رکھ رکھاؤ یہ سب نمایاں کرتے ہیں کہ کیمپس کے سانچے میں ڈھل کر وہ رفتار و گفتار اور کردار و اطوار میں کس سمت پہنچ گئے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انتظامیہ و اساتذہ کے تعلقات میں اختلاف کا عنصر زیادہ ہے یا خوش گوار پہلو زیادہ ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20-26 ستمبر، 2020