مرکز نے جموں وکشمیر میں ایک نیا بلدیاتی ادارہ تشکیل دیا، ریاستی رہنماؤں نے عوام کو اس ’’تخریب کاری‘‘ سے ہوشیار رہنے کے لیے کہا

سرینگر، اکتوبر 18: مرکز نے ہفتہ کے روز جموں و کشمیر میں ضلعی ترقیاتی کونسلوں کے نام سے انتظامی اداروں کا نیا نظام تشکیل دیا۔

نئے انتظامات کے تحت مرکزی خطے کے ہر ضلع کو 14 علاقائی انتخابی حلقوں میں تقسیم کیا جائے گا اور کونسل کے ممبروں کا انتخاب براہ راست رائے دہندگان کریں گے۔ پھر نمائندے آپس میں سے ایک چیئرپرسن اور نائب چیئرپرسن کا انتخاب کریں گے۔

دی انڈین ایکسپریس کے مطابق یہ کونسلیں ان ضلعی ترقیاتی بورڈز کی جگہ لیں گی، جو جموں و کشمیر کے ریاست ہونے کے دوران کابینہ کے وزیر یا وزیر مملکت کی زیر صدارت ہوتی تھیں اور ان میں ایم ایل اے، ایم ایل سی اور ممبران پارلیمنٹ بھی شامل ہوتے تھے۔

یہ تبدیلیاں جموں و کشمیر پنچایت راج ایکٹ 1989 میں وزارت داخلہ کی ایک ترمیم کے بعد کی گئی ہیں۔

جموں و کشمیر جون 2018 سے مرکز کی حکمرانی میں ہے۔ آرٹیکل 370 کے تحت سابقہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو پارلیمنٹ نے اگست 2019 میں منسوخ کردیا تھا اور اسے جموں و کشمیر اور لداخ کے دو مرکزی خطوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔

حکومت کے اس عمل کو حزب اختلاف کی تنقید کا سامنا ہے۔ پی ڈی پی کے رہنما نعیم اختر نے کہا کہ اس اقدام سے علاقے کو دبایا جائے گا اور اس کا مقصد مکمل طور پر کشمیری عوام کی آواز کو دبانا ہے اور اسے توڑنا ہے تا کہ ان کی کوئی اجتماعی مرکزی آواز سر نہ اٹھا سکے۔

پی ڈی پی کے ایک اور رہنما وحید الرحمن نے دی ہندو کو بتایا کہ یہ قدم سیاسی اختیارات کے خلاف ہے۔ انھوں نے کہا یہ ترقی کے نام پر سیاست کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی سمت ایک قدم ہے۔

انھوں نے پوچھا کہ ’’اگر مرکز مخلص ہے تو اس نے قانون سازی کا حق کیوں چھین لیا؟‘‘

جموں وکشمیر پنچایت کانفرنس کے چیئرمین شفیق میر نے ہندو کو بتایا کہ اس اقدام سے ایک اسمبلی ممبر ’’محض تماشائی‘‘ بن کر رہ جائے گا۔

وہیں حکام کا کہنا ہے کہ اس ترمیم کا مقصد ’’سہ درجاتی گورننس کو بااختیار بنانا ہے۔‘‘

ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے دی انڈین ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام کا مقصد ’’مقامی سطح پر سیاسی عمل کو گہرا کرنا‘‘ ہے۔

کونسلوں کی تشکیل کا عمل 14 حلقوں کی حد بندی سے شروع ہوگا، جس کے بعد انتخابات کے بارے میں نوٹیفکیشن 10 دن میں جاری ہونے کی امید ہے۔