مرنے پہ ہمارے عام ہوئی، گو جیتے جی ہم کہہ نہ سکے
جارج فلائیڈ کے قتل پر پھوٹنے والا ہنگامہ پولیس کو لگام دینے کی قومی تحریک میں تبدیل!
مسعود ابدالی
امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام کے بہیمانہ قتل سے پھوٹنے والا ہنگامہ اب پولیس کو لگام دینے کی منظم قومی تحریک میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس وقت امریکہ کو ایک ہی وقت میں تین بڑی آزمائشوں کا سامنا ہے۔ یعنی کورونا کی وبا جس کی وجہ سے ملکی معیشت دباؤ میں ہے تو دوسری جانب ملگ گیر مظاہروں سے لاک ڈاؤن کے بعد کھلنے والے بازار دوبارہ ٹھپ ہوگئے ہیں اور پھر 5 ماہ بعد ملک میں انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔
مزید گفتگو سے پہلے گزشتہ نشست میں پیش کی جانے والی گزارشات کے حوالے ایک وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔
مضمون میں کہا گیا تھاکہ جارج فلائڈ کے قتل پر ملک گیر مظاہرے کے باوجود اس مسئلے کے حل کی کوئی امید نظر نہیں آتی، کہ اب تک اس واقعے کے تمام ملزمان گرفتار نہیں ہوئے اور بڑے ملزم پر جو مقدمہ بنایا گیا وہ تیسرے درجے کا قتل ہے، یعنی غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی بنا پر موت یا قتلِ خطا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق (لاش کے معائنے سے) ایسے شواہد نہیں ملے جس سے اندازہ ہوتا ہو کہ جارج فلائڈ کی موت سانس رکنے یا گلا گھوٹنے سے ہوئی ہے۔ مقتول کی پہلے سے خراب صحت (فشارِ خون) اور ممکنہ خمار کی حالت میں مضبوط گرفت اس کی موت کا سبب معلوم ہوتی ہے۔
کالم تحریر کرتے وقت معاملہ ایسا ہی تھا لیکن بعد میں ریاست کے مسلمان اٹارنی جنرل کیتھ ایلیسن نے معاملے کو کاونٹی سے ریاست منتقل کرتے ہوئے بڑے ملزم کی فرد جرم میں اسے تیسرے درجے کے بجائے دوسرے درجے کا قتل یا Second Degree Murder درج کردایا جو جان بوجھ کر بلا اشتعال قتل یا قتلِ عمد ہے۔ اسی کے ساتھ جائے واقع پر موجود باقی تین افسروں کے خلاف اعانت قتل کا مقدمہ درج کر کے تینوں کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ پسماندگان کی درخواست پر لاش کا ایک نجی اسپتال سے پوسٹ مارٹم کروایا گیا جس کے مطابق جارج کی موت دم گھٹنے کے باعث ہوئی ہے۔
جارج فلائڈ کی ہلاکت کے خلاف تحریک تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے۔ پہلے دس بارہ دنوں میں جلسے جلوس امریکی دارالحکومت واشنگٹن اور چند بڑے شہروں تک محدود تھے جو صدر ٹرمپ کی مخالف ڈیموکریٹک پارٹی کے گڑھ ہیں۔ مظاہرین کی غالب اکثریت بھی سیاہ فاموں، مسلمانوں، ہسپانیویوں او رنگدار ایشائیوں پر مشتمل تھی۔ اس دوران جلاو گھیراؤ اور لوٹ مار کے واقعات بھی ہوئے جسے بنیاد بنا کر سفید فام انتہا پسندوں کے ساتھ خود صدر ٹرمپ نے ان مظاہروں پر ’ٹھگوں کے اجتماع‘ کی پھبتی کسی۔ امریکی صدر نے الزام لگایا کہ بائیں بازو کا فاشسٹ گروپ Antifa لوٹ مار کو تحفط دینے کے لیے ان مظاہرو ں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ لیکن 30 مئی کو ریاست نیواڈا (Nevada) کے شہر لاس ویگاس میں 3 سفید فام دہشت گردوں کو لوٹ مار کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے FBI نے ان سابق امریکی فوجیوں کے خلاف وفاقی عدالت میں جو فرد جرم پیش کی ہے اس کے مطابق تینوں کا تعلق انتہا پسند Boogaloo گروپ سے ہے جو امریکی دستور کو تسلیم نہیں کرتے اور وفاقی وریاستی حکومت کو طاقت کے بل پر تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ بو گلو گروپ نے کورونا لاک ڈاون ختم کرانے کے لیے بھی احتجاجی تحریک شروع کرنے کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔ بوگلو گروپ کے تربیت یافتہ شرپسند وں نے Black Lives Matter کے جلوسوں میں منیاپولس، نیویارک، لاس اینجلس اور دوسرے مقامات پر دوکانوں کو تاک تاک کر نشانہ بنایا۔ آگ لکانے کے لیے یہ دہشت گرد جلد بھڑک اٹھنے والا خاص قسم کا آتش گیر مادہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ بوگلو گروپ کے سرغنوں کی گرفتاری کے بعد مظاہروں کے دوران پولیس سے تصادم کے واقعات تو پیش آرہے پیں لیکن لوٹ مار یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔
6؍ جون کو ہونے والے ملک گیر مظاہروں میں سفید فام کھل کر سامنے آئے اور بڑے شہروں کے ساتھ دیہی امریکہ میں بھی زبردست مظاہرے ہوئے۔ گورے مظاہرین نے پولیس اصلاحات اور سماجی انصاف کے حق میں نعرے لگائے۔ کئی مقامات پر ریپبلکن پارٹی کے قدامت پسند رہنماؤں نے سیاہ فاموں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے جلوسوں میں شرکت کر کے Black Lives Matter کے نعرے لگائے۔ 2012 میں صدر اوباما کے خلاف ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار مٹ رامنی وہائٹ ہاوس کی طرف مارچ میں شریک ہوئے۔ انہوں نے مظاہرے کے دوران لی گئی اپنی تصاویر ٹویٹر پر Black Lives Matter پیغام کے ساتھ جاری کیں ۔
فلم سازی کے عالمی مرکز ہالی ووڈ میں بھی زبردست مظاہرہ ہوا اور عالمی شہرت یافتہ فنکاروں نے پولیس اصلاح کے لیے قانون سازی پر زور دیا۔ اب شہروں کے ساتھ دیہی امریکہ اور سفید فام آبادیوں میں بھی سماجی انصاف اور پولیس گردی کے خلاف تحریک زور وشور سے جاری ہے۔امریکہ کے ساتھ نیوزی لینڈ، برطانیہ، برازیل، لبنان، کینیڈا، آسٹریلیا، اٹلی، فرانس، ڈنمارک اور یوروپ کے بڑے شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے اور Black Live Matters کے ساتھ ’’انصاف نہیں تو امن نہیں‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔ اس تحریک کی عالمی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ 6 جون کو اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں زبردست مظاہرہ ہوا جس کا اہتمام ماحولیاتی آلودگی کے خلاف سرگرم Meretz یا گرین پارٹی نے کیا تھا۔ میریٹز پارلیمانی حجم کے اعتبار سے بہت ہی چھوٹی جماعت ہے جس کے پاس 120رکنی کنیسہ (پارلیمان) میں صرف 3 نشستیں ہیں لیکن اس کے مظاہرے میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں سے یکجہتی کے اظہار کے لیے Palestinians Lives Matter کے کتبے اٹھا رکھے تھے۔ اس دوران مقبوضہ عرب علاقوں کے اسرائیل سے مجوزہ الحاق کے خلاف بھی نعرے لگائے گئے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے سربراہ نشان ہاروٹز نے کہا کہ علاقے میں امن اور خوشحالی کے لیے اسرائیل و فلسطین کے نام سے دو آزاد و خود مختار ریاستیں ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امریکہ کے حالات سے سبق سیکھنا چاہیے جہاں پولیس کے امتیازی روپے اور ظلم وتشدد نے سیاہ فاموں کو عدالتی نظام سے مایوس کر دیا ہے۔ اس موقعہ پر امریکہ کے مخالفین کو بھی چٹکیاں لینے کا موقع مل گیا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی نے امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی اور وزیر خارجہ پومپیوکو باور کرایا کہ چین بھی امریکہ میں ہونے والے مظاہروں کی اسی طرح حمایت کرسکتا ہے جیسے امریکہ نے ہانگ کانگ میں ہونے والے مظاہروں کی تحسین کی تھی۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکی پولیس کو اپنی نسلی اقلیتوں پر تشدد بند کر دینا چاہیے۔اس معاملے میں صدر ٹرمپ اپنے رویے سے بہت ہی غیر حساس نظر آئے اور اس بہیمانہ واردات کی کھل کر مذمت کرنے بجائے وہ پہلے دن سے مظاہروں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ گورنروں سے گفتگو میں انہوں نے دھمکی دی کہ اگر مظاہروں پر قابو نہ پایا گیا تو وہ تحریک کو کچلنے کے لیے فوج طلب کرلیں گے۔ مظاہرین کے خلاف دھمکی کو خود امریکی فوج نے بھی پسند نہیں کیا اور اس معاملے میں ٹرمپ انتظامیہ اور امریکی فوج کے درمیان غیر محسوس سی خلیج صاف نظر آرہی ہے۔ ہنگاموں سے متاثر شہروں میں فوج تعیناتی کی وزیر دفاع مارک ایسپر نے کھل کر مخالفت کی۔ جب وہائٹ ہاوس کے سامنے موجود پرامن مظاہرین کو پولیس تشدد سے منتشر کرانے کے بعد صدر ٹرمپ فاتحانہ انداز میں پیدل چلتے ہوئے گرجا گھر کے مرکزی دروازے پر انجیل کے ساتھ تصویر کھچوانے آئے تو وزیر دفاع اور فوج کے اعلی افسران صدر کے ساتھ چبوترے پر جانے کے بجائے سیڑھیوں کے نیچے کھڑے رہے۔ اس دوران فوجی افسران وردی کے بجائے سویلین لباس میں تھے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے سابق وزیر دفاع جنرل جیمز میٹس نے الزام لگایا کہ صدر اپنے مخصوص سیاسی نظریات کے لیے ملک کے اتحاد کو داو پر لگا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مظاہرین اپنے اس حق کا استعمال کر رہے ہیں جو انہیں امریکی آئین نے دیا ہے جسے کچلنے کے لیے فوج کے استعمال سے جوانوں کے حوصلے متاثر ہوں گے۔ عوام امریکی فوج کے پشتیبان ہیں اور مقبول عوامی تحریک کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال خود فوج کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ امریکی ٹیلی ویژن CNN سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی فوج کے سابق جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کولن پاول نے کہا کہ صدر ٹرمپ جھوٹے ہیں اور فوج کو عوام کے سامنے لاکر ماورائے آئین قدم اٹھانا چاہتے ہیں۔ ایک اور سابق جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مارٹن ڈیمپسی نے بھی مظاہرین کے خلاف فوج کے استعمال کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نصف صدی قبل ویت نام جنگ کے خلاف مظاہرے کے دوران تعیناتی سے فوج پر عوام کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچی جسے بحال کرنے میں کئی دہائیاں صرف ہوئی تھیں۔ سب سے سخت رد عمل سابق وزیرِ خارجہ ٖڈاکٹر کونڈلیزا رائس کا تھا کہ یہ ہمارا ملک ہے جنگ کا میدان نہیں جہاں فوج اتار دی جائے۔
امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کی موت ایک عام سی بات ہے اور ہر قتل کے بعد غم وغصے کا اظہار بھی ہوتا ہے لیکن جارج فلائڈ کے قتل پر ہونے والا ردعمل ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے اور پولیس کو لگام ڈالنے کے لیے موثر قانون سازی کا مطالبہ زوروں پر ہے۔ مظاہروں میں پولیس کے بجٹ میں بھاری کٹوتی کے ساتھ نسلی امتیاز اور سماجی انصاف کے باب میں پولیس افسران کی خصوصی تربیت پر زور دیا جا رہا ہے۔ منیا پولس کی مقامی اسمبلی (بلدیہ) میں پولیس کے شعبے کو تحلیل کرکے قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے مقامی پنچایتوں کا نظام ترتیب دینے کی تجویز پیش کردی گئی ہے۔ تفصیلات بتاتے ہوئے شہری کونسل کی صدر لیسا بینڈر نے زور دے کر کہا کہ محکمۂ پولیس کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور اب ایسا متبادل ترتیب دیا جا رہا ہے جس کے ذریعے کمیونٹی کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ منیا پولس کے رئیس شہر (میئر) جیکب فرے محکمۂ پولیس کو ختم کرنے کے مخالف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نسل پرستی پر مبنی نظام میں اصلاح ضروری ہے لیکن پولیس کے پورے محکمے کو ختم کر دینا مناسب نہیں۔ امریکہ کے سب سے بڑے شہر نیویارک کے رئیس شہر بل دی بلاسیو نے کہا کہ پولیس کے بجٹ میں کٹوتی کر کے بچت کو سماجی خدمات کے لیے استعمال کیا جائے گا۔حکومت وسیاسی طبقات کے ساتھ امریکہ کے بڑے تجارتی ادارے بھی ان مظاہروں سے متاثر نظر آرہے ہیں۔ نیٹ فلکس، گوگل، مائیکرو سافٹ، سٹی بینک، ویلزفارگو بینک اور سپر اسٹورٹارگٹ کی انتظامیہ نے بھرتیوں میں یکساں مواقع کو یقینی بنانے کے ساتھ سماجی انصاف کی تحریکوں کی مالی مدد کے لیے بھاری رقوم مختص کرنے کاوعدہ کیا ہے۔اس تحریک کو عوام میں جو پزیرائی نصیب ہوئی ہے اس کی امریکہ کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سابق صدر بارک اوباما کا کہنا ہے کہ 60 کی دہائی میں شہری حقوق کے لیے جو عظیم الشان تحریک برپا ہوئی تھی اس وقت ایسی یکجہتی نظر نہیں آئی حالانکہ حالیہ تحریک کے مقابلے میں اس وقت تشدد آمیز واقعات بہت کم تھے لیکن انہیں بہت زیادہ اچھالا گیا اور سفید فام امریکیوں کی اکثریت اس تحریک سے الگ تھلگ رہی۔ سیاسیات وعمرانیات کے علما کے خیال میں اس غیر معمولی عوامی ردعمل کی بنیادی وجہ وہ ویڈیو ہے جس نے ساری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔اس سلسلے میں جہاں پولیس اصلاح، امتیازی سلوک کے خاتمے اور سماجی انصاف کے فروغ کے لیے دور رس اقدامات پر غور وفکر کیا جا رہا ہے وہیں گرفتاری کے وقت پولیس کے مخصوص ہتھکنڈوں کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ جس میں سرفہرست ’گلا گھونٹ گرفت‘ یا Chokehold ہے۔ زیر حراست سر پھرے ملزمان کو تابعدار بنانے کے لیے انہیں زمین پر لٹا کر محدود دورانیے کے لیے گلا زور سے دبا دیا جاتا ہے جس سے پھیپھڑے کو آکسیجن اور دماغ کو خون کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔ اس بناپر سر چکرانے لگتا ہے اور خوف و گھبراہٹ کے علاوہ عضلات بھی کمزور پڑ جاتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر بغاوت کا سودا کافور ہو جاتا ہے۔ Chokehold کا آغاز اسرائیل سے ہوا تھا اور امریکہ ویورپ میں یہ طریقہ عام ہے۔ گلا گھونٹ گرفت کوبغیر قانونی قرار دینے پر اب اتفاق رائے ہوتا نظر آ رہا ہے۔ منیاپولس کے بعد نیویارک اور کیلی فورنیا میں گلا گھونٹ گرفت کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ 8 جون کو فرانس کے وزیر داخلہ کرسٹوفر کارسٹنر نے سارے فرانس میں زیر حراست ملزموں پر گلا گھونٹ ہتھکنڈے کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے، ہمارے خیال میں Chokehold پر اقوام متحدہ کے ذریعے ساری دنیا میں پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔8؍ جون کو کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاہ فام گروپ یا Caucus نے Justice in Policing act of 2020 پیش کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت lگلاکھونٹ گرفت غیر قانونی ہوگا پولیس کی بدسلوکی پر مقدمہ قائم کرنے کا طریقہ آسان کر دیا جائے گا منشیات سے متعلق پروانہ گرفتاری کی تعمیل کے لیے دروازے پر دستک دیے بغیر گھر میں داخلہ ممنوع ہوگا۔ اس طریق گرفتاری کو no-knock warrant کہتے ہیں۔بد سلوکی کے مرتکب پولیس افسران کا ایک قومی رجسٹر بنایا جائے گا تاکہ ایک شہر سے برطرف یا معطل کیا جانے والا افسر دوسرے شہر میں پولیس کی نوکری حاصل نہ کر سکے۔
ایوان نمائندگان کے ساتھ سینٹر کوری بوکر اور سینیٹر کملا ہیرس نے بھی اس بل پر دستخط کیے ہیں۔ اس مسودہ قانون کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے کہ اب تک کسی ایک ریپبلکن نے اس کی حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ قانون سازی کے لیے بل کی دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد صدر کی توثیق ضروری ہے۔ اپنی اکثریت کی بنا پر ڈیموکریٹس اس بل کو ایوان زیریں سے تو آسانی سے منظور کروالیں گے لیکن سینیٹ میں 53 ریپبلکن کے مقابلے میں ڈیموکریٹس کی تعداد صرف 47 ہے لہذا کم از کم 4 ریپبلکن سینیٹرز کو ساتھ ملائے بغیر بل کی منظوری ممکن نہیں۔ بل کی منظوری کے بعد بھی صدر ٹرمپ کے لیے اسے ویٹو کرنے کا اختیار موجود ہے جسے غیر موثر کرنے کے لیے 67 سینٹرز کی حمایت درکار ہے۔ صدر ٹرمپ کے بیانات اور بدن بولی سے تو لگتا ہے کہ انہیں یہ بل پسند نہیں۔
صدر ٹرمپ پولیس کے بجٹ میں کمی کے سخت مخالف ہیں اور وہ خود کو فخر سے صدر برائے لا اینڈ آرڈر کہتے ہیں۔ پیر کو انھوں نے پولیس کے معاملات پر غور کے لیے ملک بھر سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ داروں کا اجلاس طلب کیا۔ جس میں حالیہ مظاہروں اور ان سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر تفصیلی مشاورت کی گئی۔اس بیٹھک میں نائب صدر، اٹارنی جنرل، داماد اول جیررڈ کشنر اور اعلیٰ حکام بھی شریک ہوئے۔ میٹنگ کے خاتمے پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل، غیر مشروط وپرجوش حمایت کا اعادہ کیا۔ اس موقع پر پولیس حکام نے صدر ٹرمپ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ عملی اعتبار سے اس اجلاس کی حیثیت غیر رسمی مشاورت سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ امریکہ میں پولیس شہری انتظامیہ کو جوابدہ ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ پولیس بجٹ میں کٹوتی اور منیاپولس بلدیہ کی جانب سے شعبہ پولیس کو تحلیل کیے جانے کی قرارداد سے قدامت پسند طبقے کو ڈرا رہے ہیں۔ ایوان صدارت کی پریس سکریٹری کیلی مک اینےنی Kayleigh McEnany نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹک پارٹی پولیس کے بجٹ میں کٹوتی اور شعبہ ختم کر کے امریکیوں کی جان خطرے میں ڈالنا چاہتی ہے۔ قدامت پسند میڈیا کی جانب سے یہ بات اس شد ومد سے دہرائی گئی کہ صدارت کے لیے صدر ٹرمپ کے ڈیموکریٹ حریف جو بائیڈن بھی دباؤ میں آگئے اور انہوں نے فوری وضاحت کی کہ وہ پولیس میں اصلاح چاہتے ہیں تاہم جناب بائیڈن پولیس بجٹ میں کٹوتی کی حمائت نہیں کریں گے۔ نومبر میں صدر ٹرمپ کے ساتھ امریکہ کے قانون ساز بھی اپنی نشستیں برقرار رکھنے کے لیے ووٹروں کی منت سماجت کر رہے ہیں۔ پولیس اصلاح کے حامیوں نے دھمکی دی ہے کہ بل کی مخالفت کرنے والے ارکان کانگریس کو انتخاب والے دن پچھتانا پڑے گا۔ امریکی محکمہ صحت اور سائنس دانوں کو ہزاروں افراد کے اجتماعات پر سخت تشویش ہے۔ انہیں کورونا وائرس کی صورت حال دوبارہ بے قابو ہونے کا خدشہ بے چین کیے ہوئے ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق آنجہانی جارج فلائڈ بھی کورونا وائرس میں مبتلا تھے۔ قومی مرکز برائے انسداد امراض مظاہروں کے درمیان ماسک لگانے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی تلقین کر رہا ہے لیکن جذباتی مظاہرین سائنس دانوں کی ہدایات کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ اس قسم کے جذباتی مکالمے سنائی دے رہے ہیں کہ ہماری جان خطرے میں پڑتی ہے تو کوئی حرج نہیں، ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ہمیں کورونا وائرس کے مقابلے میں پولیس سے زیادہ خطرہ ہے۔ میرے کسی عزیز کو کورونا نہیں ہوا لیکن میرے کئی دوست پولیس بربریت کا نشانہ بنےکل جارج کو ہیوسٹن کے قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے گا۔ Black Lives Matter کی قیادت احتجاجی تحریک کو اس کے منطقی انجام یعنی سیاہ فاموں کے ماوراے عدالت قتل کے خاتمے تک جاری رکھنے کے لیے پر عزم نظر آرہی ہے۔
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم
masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر
Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ [email protected]
اس تحریک کو عوام میں جو پزیرائی نصیب ہوئی ہے اس کی امریکہ کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ 60ء کی دہائی میں شہری حقوق کے لیے جو عظیم الشان تحریک برپا ہوئی تھی اس وقت ایسی یکجہتی نظر نہیں آئی حالانکہ حالیہ تحریک کے مقابلے میں اس وقت تشدد آمیز واقعات بہت کم تھے لیکن انہیں بہت زیادہ اچھالا گیا اور سفید فام امریکیوں کی اکثریت اس تحریک سے الگ تھلگ رہی۔ سیاسیات وعمرانیات کے علما کے خیال میں اس غیر معمولی عوامی ردعمل کی بنیادی وجہ وہ ویڈیو ہے جس نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔