مرتدوں (Ex-Muslims)کا فتنہ

اسلام پر کیے جانے جانے والے عام اعتراضات پر ایک نظر

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

کچھ مرتد ان دنوں سوشل میڈیا پر Ex-Muslims کے نام سے اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں میں شامل ہو کر اسلام دشمن طاقتوں کا حصہ بن چکے ہیں۔جب یہ ماضی میں مسلمان تھے اور اب انہوں نے اسلام کو ترک کر دیا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اب کیا ہیں؟ کیا یہ ہندو، عیسائی یا ملحد بن چکے ہیں؟ اس بات کو وہ ظاہر نہیں کرتے۔ اگر یہ ملحد بن چکے ہیں تو پھر ان کو دیگر مذاہب پر بھی تنقید کرنی چاہیے تھی جبکہ یہ اسلام دشمن ہندؤوں کے ساتھ نیشنل ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں بیٹھ کر صرف اور صرف اسلام کی برائی کرنے لگتے ہیں جن میں نام نہاد مولوی بھی شامل ہو جاتے ہیں اور اسلام کی بھونڈی نمائندگی کر کے اسلام کو بد نام کرنے میں اپنا مذموم رول ادا کرتے ہیں۔ یہ یوٹیوبرس بن کر صرف اسلام کی مخالفت کرتے ہیں تو اسلام دشمن ہندو ان کی مالی امداد بھی کرتے ہیں۔ اگر یہ واقعی ملحد ہوتے تو ہندو مذہب پر بھی تنقید کرتے لیکن ایسی صورت میں ان کو مالی امداد اور شاباشی نہیں ملتی، اور یہ اپنے آپ کو ملحد کے طور پر بھی متعارف نہیں کرانا چاہتے اس لیے کہ اس صورت میں ان کے الحاد پر بھی دلائل سے ضرب لگائی جا سکتی ہے۔ اسلام چھوڑنے کے بعد وہ جو بھی اپنی نئی شناخت اختیار کرتے، ان پر جواباً تنقید کی جاتی۔ یہ اس صورتحال سے بچنا چاہتے ہیں۔ اپنے آپ کوسابق مسلمان بتلا کر وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام اتنا کمزور مذہب ہے کہ یہ بس چھوڑ دینے کے ہی لائق ہے تاکہ نئی نسل کے مسلم نوجوان اسلام سے نا واقفیت کی وجہ سے ان کی باتوں سے متاثر ہو کر اسلام سے بدظن ہو جائیں۔ ان کا اصل ہدف دین اسلام کی بنیادی تعلیمات سے نابلد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں اور یہ اس دورِ فتن کا نیا فتنہ ہے۔
یہاں پر ایسے شر پسند مرتدوں Ex-Muslims کا نام لینا مناسب نہیں ہے جس سے ان کو مفت کی شہرت حاصل ہو گی۔ یوٹیوب پر یہ اپنے چیانلز چلاتے ہیں۔ الحمدللہ مسلمانوں میں سے کچھ نوجوانوں نے ان کی مذموم کوششوں کا سدباب کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اسلام پر ان کے بے ہودہ اعتراضات کا مدلّل جواب دینے والوں سے جب یہ لاجواب ہو جاتے ہیں تو پھر ان مسلم جیالوں سے مناظرہ کرنے سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ اس محاذ پر کام کرنے والوں میں چند نام یہ ہیں: مفتی یاسر ندیم واجدی (امریکہ) قیصر احمد راجہ (پاکستان) سام اسٹالون (حیدراباد) شاداب احمد، فضل ہمدرد، بصالت آدم اور علینا علی وغیرہ۔
ان سابق نام نہاد مسلموں میں قادیانی بھی شامل ہیں اور یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں جیسے وہ بھی اسلام سے بد دل اور بیزار ہو کر اسلام چھوڑ چکے ہیں۔ یہ لوگ یوٹیوب پر اسٹریم چلانے سے قبل یہ disclaimer پیش کرتے ہیں کہ ان کے پیش نظر کسی کی دل آزاری مقصود نہیں ہے جبکہ ان کا عین مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی دل آزاری ہو، اسلام کی بد نامی ہو اور مسلم نوجوان اسلام سے بدظن ہوں۔ یہ اپنے اصلی ناموں کے بجائے فرضی ناموں سے اپنے چینلز چلاتے ہیں۔ اپنا ماضی ایسا پیش کرتے ہیں جیسے یہ بہت عبادت گزار تھے، دعوت الی اللہ میں وقت بھی لگایا تھا اور کافی دینی علم رکھتے تھے اور اچانک ان کو اسلام میں ایسی خلافِ انسانیت چیز نظر آگئی کہ جس کی بنا پر ان کو اسلام ترک کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم پہلے اسلام کو اچھا مذہب سمجھتے تھے اور مسلمانوں کو برا سمجھتے تھے جو اپنے کردار سے اسلام کو بد نام کر رہے ہیں لیکن آج ان کی رائے بدل گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اصلاً اسلام میں ہی برائی ہے (نعوذ باللہ) جس کی وجہ سے مسلمان اس پر عمل کر کے بدنام ہو رہے ہیں۔ یہ نیشنل ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اس طرح کی بے ہودہ باتیں بڑی بے شرمی سے کرتے ہیں۔
ان کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے انسانیت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ایک مسلم اور دوسرے کافر۔ یہ ایسا اعتراض ہے جو مکہ میں کفار و مشرکین کرتے تھے کہ اسلام نے آ کر معاشرے میں تفریق کر دی ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ اعتراض تو ہر مذہب پر لاگو ہو گا، اس لیے کہ ہندؤوں کے نزدیک کچھ ہندو ہیں اور دوسرے غیر ہندو ہیں جو ادھرمی ہیں جن کی مکتی نہیں ہو سکتی۔عیسائیوں کے نزدیک کچھ عیسائی ہیں اور باقی غیر عیسائی ہیں جو ان کے مطابق نجات سے محروم ہیں۔
ایک اور مرتد کا کہنا ہے کہ اس نے اسلام کو اس لیے چھوڑا کہ سورۃ البینہ کی آیت نمبر ۶ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ جتنے بھی لوگ ہیں وہ بدترین خلائق ہیں۔ ایسی بات کہنا انسانیت کے خلاف ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُوْلَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ ۔
اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کُفر کیا ہے وہ یقیناً جہنّم کی آگ میں جائیں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے، یہ لوگ بدترینِ خلائق ہیں ۔سورۃ البینہ۶۔ اس آیت
میں خالقِ کائنات کی طرف سے یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ جو اللہ کی نعمتوں سے ہر آن مستفید ہو کر اس کے وجود ہی کا انکار کریں یا اس کی نافرمانی کرتے ہوئے کفران نعمت کریں اور اس کی نعمتوں کا شکریہ کسی اور کو ادا کریں جس کا اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کے دینے میں کوئی حصہ نہیں ہے تو ایسے لوگ ہی دراصل بدترین خلائق ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اپنے والدین کی شفقت، تربیت اور پرورش سے برسوں فائدہ اٹھائے اور آخر میں ان کی کبر سنی میں ان کو فٹ پاتھ پر لا کر چھوڑ دے تو ہم اس کو برا انسان ہی کہیں گے۔ اس طرح کا دعویٰ تو ہر مذہبی کتاب کرتی ہے جیسے شریمد بھگوت پرانم میں 3.3.6 اشلوک میں ملحد کو شیطان کہا گیا ہے۔
ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اسلام کی طرف دعوت دینے والے اپنے دین کی برتری ثابت کرتے ہوئے دوسرے مذاہب پر عمل کرنے والوں کو نیچا ثابت کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ داعیانِ اسلام حق کو پیش کر کے دوسروں کو اونچا اٹھانا چاہتے ہیں۔ ان کا اسلوب دعوت یہ ہے کہ وہ کلمۃ سوآء پیش کر کے ایک رب کی بندگی کی طرف دعوت دیتے ہیں جس کا حکم ہندؤوں اور عیسائیوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔اسی طرح ان کا ایک اور اعتراض یہ ہے کہ قرآن میں سورۃ التوبہ میں آیت ۲۸ میں مشرکین کو نجس کہا گیا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـذَا ۔
اے ایمان لانے والو، مشرکین ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجدِ حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔ (سورۃ التوبہ ۲۸)
اللہ کی نظر میں شرک سب سے بڑا گناہ ہے اور یہ فکرو عقیدہ کی ناپاکی ہے جس کے ساتھ کوئی مسجد حرام میں داخل نہیں ہو سکتا۔ مسجدِ حرام کا ایک اعلیٰ تقدّس ہے جس میں صرف موحدین کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ اس میں داخل ہوں جبکہ ہندو مذہب میں خود ہندو قوم کی نچلی ذاتوں کو مندروں میں آنے سے منع کیا گیا ہے اور وہ ذات و نسل کی بنیاد پر ہے نہ کہ عقیدہ کی بنیاد پر ایک بہت بڑے طبقہ کو نجس قرار دیا گیا ہے؟
ایک اور اعتراض ایک مرتد کی طرف سے یہ کیا جاتا ہے کہ قرآن میں عورتوں کو کم عقل باور کیا گیا ہے۔ سورۃ البقرۃ آیت ۲۸۲ میں ایک خاص سیاق میں یہ بات کہی گئی ہے کہ عورتیں عموماً تجارتی معاملات کا تجربہ نہیں رکھتیں اس لیے ان امور میں محض کم تجربہ کی بنیاد پر دو عورتوں کی یادداشت ایک مرد کی یادداشت کے برابر قرار دی گئی جس کا تعلق صرف معاشی امور سے ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتیں مردوں کے مقابلے میں کم عقل ہوتی ہیں۔ قرآن میں کئی مقامات پر مومنانہ صفات کے ساتھ مرد و خواتین کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے۔
یہ مرتدین جیسے خود دولتِ اسلام سے محروم ہو چکے ہیں وہ مسلمان نوجوانوں میں اسلام سے متعلق ان کی خود اعتمادی کو متزلزل کرنے کے لیے جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں کہ دنیا میں مسلمان کثرت سے اسلام چھوڑ رہے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بر خلاف ہے کہ آج دین اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد دوسرے ادیان کو قبول کرنے والوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ہاں بعض پیدائشی غریب مسلمان جو اسلامی تعلیمات سے نابلد ہیں وہ روپیوں کے لالچ میں عیسائیت اختیار کر لیتے ہیں اور مغربی ممالک میں مسلم نوجوان جو اسلامی ماحول سے دور ہیں نفسانی خواہشات کے سبب عملاً اسلامی احکام پر عمل کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ مگر ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ مسلمان جو صحیح اسلامی شعور رکھتا ہو اس نے اسلام کو چھوڑ دیا ہو۔ اسلام کو صرف وہی بدبخت چھوڑ سکتے ہیں جن کے دل میں حقیقی ایمان داخل ہی نہیں ہوا ہو۔ایک اور مرتد صحیح بخاری کی حدیث نمبر ۳۲۳۷ پر اعتراض کرتا ہے کہ فرشتے اس عورت پر ملامت کرتے ہیں جو شوہر کے بستر پر بلانے پر نہ آئے۔ جبکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک بیوی اپنے شوہر کی خواہش کی تسکین کے لیے بلانے پر بلا وجہ انکار کرے اس صورت میں اس پر فرشتوں کی ملامت ہوتی ہے۔ اسلام نے عورتوں اور مردوں کے حقوق واضح طور پر واضح کر دیے ہیں۔ ان حقوق کے ادراک و شعور کے ساتھ ہی مرد و عورت نکاح کے لیے تیار ہوتے ہیں حتی کہ آج کے سیکولر قانون میں بھی شوہر کو یہ حق ہے کہ وہ بیوی کو ہم بستری کے لیے دباؤ ڈالے۔ شوہر کے اپنی بیوی کو زبردستی مباشرت پر مجبور کرنے کو آجکل marital rape کہا جانے لگا ہے۔ انڈین پینل کوڈ سکشن ۳۷۵ کے تحت شوہر کی بیوی کے ساتھ بالجبر مباشرت جرم نہیں ہے الا یہ کہ بیوی کی عمر ۱۵ سال سے کم ہو اور یہ زنا بالجبر کی تعریف میں نہیں آتا۔
یہ نالائق سورۃ یونس کی آیت ۹۹ پر بھی اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انسانوں کی ہدایت و گمراہی کا ذمہ دار اللہ ہی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا۔ یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی انسان گمراہ ہے تو اللہ ہی اس کی گمراہی کا ذمہ دار ہے۔
وَلَوْ شَاءرَبُّكَ لآمَنَ مَن فِي الأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ۔۔
اگر تیرے ربّ کی مشیّت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔(سورۃ یونس ۹۹)
یہ کم عقل لوگ اس بات کو نہیں جانتے کہ یہ بات اللہ کی مشیت کے خلاف ہے کہ انسانوں کو زبردستی ہدایت دے۔ اس نے انسانوں کو امتحان کی غرض سے پیدا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہی بندوں کو ہدایت دیتا ہے جو ہدایت کے طالب ہوں۔ اس لیے فرمایا گیا: يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَيَهْدِي بِهِ كَثِيراً وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَ۔۔اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے۔ اور گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کر تا ہے، جو فاسق ہیں۔ (سورۃ البقرۃ ۲۶)
یہ مرتد لوگ اسلام دشمن لوگوں کی طرح حضرت عائشہ کی کم عمر کی شادی پر تمسخر کے ساتھ اعتراض کرتے ہیں جبکہ ۶ سال کی عمر میں نکاح اور ۹ سال کی عمر میں رخصتی کا معاملہ متنازعہ ہے اور قرآن سے اور دوسری صحیح احادیث سے متصادم ہے۔ سورۃ النساء آیت ۶ میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کی عمر کا اس طرح تعین فرمایا ہے:وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّىَ إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۔۔اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں۔
پھر اگر تم اُن کے اندر رُشد ) اہلیت( پاو تو ان کے مال ان کے حوالے کردو۔ (سورۃ النساء۶) اس آیت میں سن نکاح کے لیے جسمانی بلوغت کے ساتھ عقلی بلوغت رشد کے ہونے کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ یعنی ایسی عمر جس میں ایک لڑکی جسمانی طور پر بالغ ہو، عقلی طور پر نکاح کا مطلب جانتی ہو، نکاح کے لیے رضا مندی دینے کے قابل ہو اور ساتھ میں رقم مہر کا ادراک رکھ کر مہر کی رقم کا مطالبہ کرے اور اس رقم کی حفاظت و مصرف کے قابل ہو۔ چونکہ رسول اللہ قرآن کا چلتا پھرتا نمونہ تھے لہذا اس آیت کے مطابق آپ کا نکاح حضرت عائشہ کا نکاح سن رشد یعنی ۱۵ یا ۱۶ سال کی عمر میں ہوا ہو گا۔ واللہ اعلم۔ اس طرح کا جواب رسول اللہ کے اسوہ کے شایان شان بھی ہے اور قرآن کی تعلیمات کے بھی عین مطابق ہے جس سے آپ پر اہانت کا دروازہ مخالفین کے لیے بند ہو گا۔ اگر ۶ سال کی کم عمری میں نکاح قابل تقلید عمل ہوتا تو اس سنّت پر عمل بھی ہوتا لیکن اس کی کوئی نظیر ہمیں نہیں ملتی۔ جہاں تک تعدد ازواج کا معاملہ ہے اس کی رعایت رسول اللہ کے لیے خاص ہے جس کا قرآن میں ذکر موجود ہے اور تعدد ازواج کی حکمتیں واضح ہیں۔
ان ایمان فروشوں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ چونکہ قرآن کا اکثر بیان صیغہ متکلم کے بجائے صیغہ غائب میں ہے اس لیے یہ اللہ کا کلام نہیں ہو سکتا بلکہ یہ کسی اور کا کلام ہے جیسے: اللّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ کے بجائے اللهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ اناَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ہونا چاہیے تھا۔ (نعوذ باللہ) جبکہ ادب کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ متکلم خود صیغہ غائب میں کلام کرتا ہے جس کی نظیر ہمیں انسانی لٹریچر میں بھی ملتی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام گویا جبرئیل علیہ السلام پیش کر رہے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کا بیان متکلم کے بجائے صیغہ غائب میں آیا ہے۔ (واللہ اعلم) اسی لیے قرآن کے بارے میں فرمایا گیا کہ : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ (یہ فی الواقع ایک بزرگ پیغام بر کا قول ہے جو بڑی توانائی رکھتا ہے، عرش والے کے ہاں بلند مرتبہ ہے) سورۃ التکویر (۱۹-۲۰) یہاں اللہ کے کلام کو جبرئیل علیہ السلام کا قول کہا گیا ہے جنہوں نے قرآن کی ترسیل رسول اللہ کے قلب پر کی۔
ایک کم بخت سابق مسلم نے قرآن کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ایک آدھ سورت پیش کرنے کی ناپاک جسارت بھی کی ہے جبکہ وہ عربی زبان سے اتنا نا بلد ہے کہ بغیر اعراب کے وہ عربی تحریر پڑھنے سے بھی قاصر ہے۔
ان بدنصیب لوگوں کی طرف سے یہ اور اس طرح کے اعتراضات کی فہرست طویل ہے جو مسلم قوم میں پیدا ہو کر دولت ایمان سے محروم ہو چکے ہیں اور تھوڑے سے روپیوں کی خاطر جنہوں نے ایمان کا سودا کیا ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ اشْتَرُوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے، مگر یہ سودا ان کے لیے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہرگز صحیح راستے پر نہیں ہیں۔ (سورۃ البقرۃ ۱۶)
چند مالی فائدوں کی خاطر وہ ہندو مسلم منافرت کو بڑھانے کے لیے ہندو قوم پرستوں کے ساتھ بیٹھ کر نیشنل ٹی وی چینلز پر اور اپنے یو ٹیوب چینلز پر اس طرح کے اعتراضات کا انہوں نے ایک کاروبار چلا رکھا ہے۔ ان شیاطین کے فتنوں سے ہماری نوجوان نسل کی حفاظت کرنا ضروری ہے جو سوشل میڈیا کے استعمال کے دوران ان کے فتنوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔
***

 

***

 یہ مرتدین جیسے خود دولتِ اسلام سے محروم ہو چکے ہیں وہ مسلمان نوجوانوں میں اسلام سے متعلق ان کی خود اعتمادی کو متزلزل کرنے کے لیے جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں کہ دنیا میں مسلمان کثرت سے اسلام چھوڑ رہے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بر خلاف ہے کہ آج دین اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد دوسرے ادیان کو قبول کرنے والوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 جولائی تا 07 اگست 2022