مذہبی آزادی کا گراف تیزی سے نیچے کی طرف
بڑھتی ہوئی منافرت ملک کے امن وامان کے لیے خطرہ
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
بھارت ستائیسویں درجے سے پھسل کر دسویں مقام پر: اوپن ڈورز یو ایس اے
ہندوستان دنیا کا دوسرا کثیر آبادی والا ملک ہے جس کی کل آبادی ایک سو تیس کروڑ سے زیادہ ہے۔ دنیا کی آبادی کا ہر چھٹا شخص ہندوستانی ہے۔ ہمارا ملک کثیر المذہبی، کثیر الثقافتی، کثیر النسلی اور جمہوری ملک ہے۔ یہاں ہندو مت، بدھ مت، سکھ مت، جین مت، اسلام اور عیسائی مذہب کے ماننے والوں کی ملی جلی کثیر آبادی بستی ہے اس کے ساتھ اسے دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ہمارے ملک کا آئین ہر ایک کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ کوئی بھی مذہب اختیار کر سکتا ہے، اس پر عمل کرسکتا ہے اور اس کی تبلیغ بھی کرسکتا ہے۔ ہر ہندوستانی شہری کو مذہب کی آزادی کے ساتھ ضمیر کی آزادی بھی حاصل ہے۔ ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق ۱۴ اعشاریہ ۲ فیصد مسلمان، ۲ فیصد عیسائی اور ۲ فیصد سکھ ہیں۔ بدھ مت، جین، بہائی، یہودی اور دیگر چھوٹے قبائلی مذاہب مجموعی طور پر ۲ فیصد ہیں۔
ملک میں اتنی تعداد میں مذاہب ہونے کے باوجود حالیہ برسوں میں ہندوستان میں مذہبی آزادی پر اس قدر کاری ضرب لگی ہے کہ شاید تقسیم ہند کے دوران بھی صورتحال اتنی خراب نہیں ہوئی ہو گی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۴ میں ہندو نواز بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مذہبی منافرت میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔ بی جے پی نے اقتدار میں آنے کے بعد مذہبی آزادی پر کوئی توجہ نہیں دی اور منافرت پھیلانے والوں پر نکیل نہیں کسی جن کا نشانہ خاص طور پر مسلمان اور عیسائی ہوتے ہیں۔ ۲۰۱۴ کے بعد سے ان دو مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ عالمی واچ نے ۲۰۱۴ میں نے عیسائیوں کے خلاف تشدد پر ہندوستان کو ستائیسویں درجے پر رکھا تھا لیکن اس کے درجے میں تیزی سے اضافہ ہوا اور اب اس کا مقام بڑھ کر دسویں نمبر پر آچکا ہے۔ اس رفتار کو دیکھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں یہ درجہ اول پر پہنچ جائے گا۔
یو ایس کانگریس ریسرچ سروس کی ایک رپورٹ میں ہندوستان میں مذہبی آزادی کے حوالے سے شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں مذہبی اقلیتوں پر ہونے والے حملوں میں حیرت انگیز اضافے پر تشویش ظاہر کی گئی ہے، تبدیلی مذہب کے نام پر عیسائی برادری کے خلاف تشدد کیا جا رہا ہے تو وہیں گائے کشی کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین مدون کیے جا رہے ہیں تاکہ کوئی اپنا مذہب تبدیل نہ کر سکے۔ یقینی طور پر یہ قوانین ملک کے باشندوں کی مذہبی آزادی کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہیں۔ ان قوانین کی آڑ میں ہندو دہشت گرد مسلمانوں اور عیسائیوں پر ظلم روا رکھے ہوئے ہیں۔ آئے دن ان کو گروہ کی شکل میں پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتا ردیا جاتا ہے۔ مسجدوں اور گرجا گھروں کو جلایا جاتا ہے۔ حال ہی میں ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں ۴۰ مسیحی ایک چرچ کے رہنما کے گھر دعا کے لیے جمع ہوئے تھے دو درجن کے قریب ہندو عسکریت پسندوں نے ان پر دھاوا بول دیا اور انہیں مارنا شروع کر دیا انہیں گالیاں دی گئیں ان پر تشدد کیا گیا جن میں سے چھ افراد شدید زخمی ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ ہندو عسکریت پسندوں نے انہیں دھمکی دی کہ اگر وہ عبادت کے لیے دوبارہ جمع ہوئے تو انہیں قتل کر دیں گے۔ مسیحی یکجہتی کے چیف ایگزیکیٹیو، میرون تھامس نے کہا کہ ’’ہم مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت، تشدد اور عدم برداشت کے ماحول کے بارے میں شدید فکر مند ہیں جو پورے ملک میں، خاص طور پر اتر پردیش میں پھیل رہا ہے۔‘‘ اعلیٰ ذات کے ہندو گائے کو مقدس جانور سمجھتے ہیں چنانچہ اسے ذبح کرنے کے خلاف قوانین بنائے جا رہے ہیں اور اس کی آڑ میں مسلمانوں اور دلتوں پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ اس قانون کی وجہ سے جہاں گوشت پر پابندی لگائی گئی ہے وہیں اس پابندی کے نتیجے میں گائے پالنے اور اس کا گوشت فرخت کرنے والے اپنے روزگار سے محروم ہو گئے یہاں تک کہ چمڑے کی صنعتیں بند ہو گئیں۔ اس طرح اس میں کام کرنے والے اپنی معاش گنوا بیٹھے۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی طرف سے جاری کی گئی تازہ ترین رپورٹ میں ہندوستان کو درجہ دوم کا ملک قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہاں مذہبی آزادی کے حوالے سے منافرت بڑھی ہے اور غیر دوستانہ حالات پیدا ہوئے ہیں۔ یو ایس سی آئی آر ایف نے امریکی حکومت سے ہندوستان پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے اور مذہبی آزادی اور گائے کشی مخالف قوانین کو منسوخ کرنے یا ان میں ترمیم کرنے کی سفارش کی ہے تاکہ یہ قوانین بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار کے مطابق ہوں۔ یو ایس سی آئی آر ایف کے چیئرمین ٹینزین ڈورجی نے کہا کہ ’’حالیہ برسوں سے ہندوستان میں مذہبی انتہا پسندوں کے ذریعہ مذہبی اقلیتوں کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے اور بعض اوقات تو ان لوگوں کو قتل تک کر دیا جا رہا ہے جنہوں نے اپنا مذہب تبدیل کیا ہو۔ اس طرح کے اقدامات ہندوستانی آئین کے سیکولر دعووں کے خلاف ہیں اور لاکھوں ہندوستانیوں کے بنیادی حقوق کے لیے براہ راست خطرہ ہیں کیوں کہ ایسی صورت میں وہ اپنے مذہب پر آزادانہ طور پر عمل نہیں کر سکتے اور ظلم و تشدد کے خوف کے بغیر اپنے عقائد کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتے‘‘
نظم ونسق کی بدترین حالت جو آج پائی جاتی ہے شاید ملک میں پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئی ہو گی۔ آئے دن کسی نہ کسی مقام پر جنونی ہندوؤں کی بھیڑ کسی معصوم مسلمان یا عیسائی یا پھر کسی دلت کو اپنی بربریت کا نشانہ بناتی ہے۔ اس طرح کی دہشت گردی روز کا معمول بن چکی ہے اور حکومت ہے کہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ کبھی کسی بے گناہ انصاری کو پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے تو کبھی کسی باریش بزرگ کو مار مار کر لہو لہان کر دیا جاتا ہے۔ کسی مسلمان پر اس لیے ظلم کیا جاتا ہے کہ وہ جے شری رام کا نعرہ لگائے۔ ہندو دہشت گرد علی الاعلان یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ’’ہندوستان میں رہنا ہے تو جے شری رام کہنا ہو گا‘‘۔ ۲۲ جون ۲۰۱۹ کو ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کرتا دکھائی دیا کہ ایک مسلم نوجوان کھمبے سے بندھا ہوا ہے، اس کے پورے جسم سے خون بہہ رہا ہے ہاتھ جوڑے ہوئے لوگوں سے منت وسماجت کر رہا ہے اور ہجوم ہے کہ اسے پیٹتا جا رہا ہے اور اسے مجبور کیا جا رہا ہے وہ ’’جے شری رام‘‘ اور ’’جئے ہنومان‘‘ کے نعرے لگائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ برسرِ اقتدار جماعت کا کوئی نمائندہ اس کے خلاف آواز تک نہیں اٹھاتا۔ یہ وہی ۲۴ سالہ تبریز انصاری ہے جسے گھنٹوں پیٹا گیا یہاں تک کہ وہ موت کے منہ میں چلا گیا۔ یہ واقعہ ریاست جھارکھنڈ کا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا گیا کہ وہ روتے ہوئے اپنی زندگی کے لیے رحم کی بھیک مانگ رہا ہے، اس واقعہ نے پورے ملک کا سر شرم سے جھکا دیا۔ تعجب تو اس بات پر ہے کہ اس کے اہل خانہ نے علاج کروانے کی التجا کی تو پولیس نے انہیں بھی اسی طرح مارنے کی دھمکی دی تھی۔ انصاری وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے دوسرے دور میں نفرت انگیز جرائم کا پہلا شکار بنا۔ اس حملے کے صرف دو دن بعد ایک دینی مدرسے کے استاد ۲۶ سالہ حفیظ محمد ہلدار کو ریاست مغربی بنگال میں ایک ٹرین سے باہر پھینک دیا گیا۔ ہندوؤں کے ایک ہجوم نے اس سے کہا کہ وہ ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگائے جب اس نے ان کی بات نہیں مانی تو انہوں نے اسے ٹرین سے باہر دھکیل دیا۔ اسی طرح ممبئی میں جسے ہندوستان کا دل بھی کہا جاتا ہے ایک ۲۵ سالہ فیصل عثمان خان جو ٹیکسی ڈرائیور تھے انہیں رات کے وقت ہندو غنڈوں کے ایک گروہ نے مارا پیٹا۔ جب فیصل نے رحم کی بھیک مانگی تو ان سے کہا گیا کہ وہ ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگائیں۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک میں مذہبی آزادی کی صورت حال کافی خراب ہے اور مذہبی آزادی کا گراف تیزی سے نیچے گرا ہے۔
دلی کا جنتر منتر وہ مقام ہے جہاں سے آواز لگائی جائے تو پارلیمنٹ تک پہنچتی ہے۔ اسی جگہ پر متشدد ہندو انتہائی قابل اعتراض واشتعال انگیز نعرے بلند کرتے ہیں لیکن نہ پولیس کو یہ نعرے سنائی دیتے ہیں اور نہ ہی وزیر داخلہ کو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں قانون صرف مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں کے لیے ہی ہے، ہندو دہشت گردوں کے لیے کوئی قانون نہیں ہے کہ ان پر لگام کسی جا سکے۔
اس نفرت انگیز ماحول میں کچھ لوگ ہیں جو ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ چنانچہ وکلاء کے ایک گروپ نے تبدیلیِ مذہب کے قانون کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے، ان کا مطالبہ ہے کہ ’تبدیلی مذہب‘ کے قوانین کو فوری ختم کر دیا جائے۔ ۲۹ ریاستوں میں سے آٹھ ریاستوں نے مذہبی تبدیلی کے خلاف قوانین بنائے ہیں۔ ہماچل پردیش کے وکلاء نے تبدیلی مذہب کے قانون کو چیلنج کیا تھا جس میں انہیں کامیابی ملی ہے۔ ہماچل پردیش ہائی کورٹ نے کہا کہ عقیدت اور تبدیلی مذہب کا معاملہ ایک فرد کی ذاتی سوچ اور اس کی انفرادی حیثیت کا ہے ریاستی حکومت کسی بھی شہری کی مذہبی آزادی اور اس کی انفرادی حیثیت کو ختم نہیں کر سکتی۔ اس وقت اتر اکھنڈ اور جھارکھنڈ کے وکلاء بھی ان قوانین کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اب وقت آچکا ہے کہ مذہبی منافرت کے خلاف ملک گیر احتجاج منظم کیا جائے، ریاستوں کی جانب سے بنائے جانے والے وہ قوانین جو فرد کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے والے ہیں اس کے خلاف آواز بلند کی جائے اور انہیں ختم کروانے کی کوششیں تیز کی جائیں۔
***
***
نظم ونسق کی بدترین حالت جو آج پائی جاتی ہے شاید ملک میں پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئی ہو گی۔ آئے دن کسی نہ کسی مقام پر جنونی ہندوؤں کی بھیڑ کسی معصوم مسلمان یا عیسائی یا پھر کسی دلت کو اپنی بربریت کا نشانہ بناتی ہے۔ اس طرح کی دہشت گردی روز کا معمول بن چکی ہے اور حکومت ہے کہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ کبھی کسی بے گناہ انصاری کو پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے تو کبھی کسی باریش بزرگ کو مار مار کر لہو لہان کر دیا جاتا ہے۔ کسی مسلمان پر اس لیے ظلم کیا جاتا ہے کہ وہ جے شری رام کا نعرہ لگائے۔ ہندو دہشت گرد علی الاعلان یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ’’ہندوستان میں رہنا ہے تو جے شری رام کہنا ہو گا‘‘
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2021