’محفل وعظ میں‘

وجاہت علی سندیلوی کے لطف بیان اور رنگینی خیال کا شاہکار

وجاہت علی سندیلوی

بچپن میں ہمیں زیادہ تر ایسے بزرگوں سے سابقہ پڑا جو جب بھی ڈالی کڑی نظر ڈالی، کی تفسیر بن کر ہم پر ہمارا عرصہ حیات تنگ کیے ہوئے تھے ۔ بچپن سے جوانی میں قدم رکھا تو سوچا کہ شاید اب اس دور سے باہر نکل آئے جب ہم مستقلاً کسی نہ کسی خود ساختہ واعظ کا موضوع وعظ بنے رہتے لیکن اجی توبہ کیجیے زندگی کی شاہ راہ کی ہر جھاڑی میں کوئی نہ کوئی خود ساختہ واعظ ضرور چھپا ملا۔ اس بخیل دنیا میں بہت سی چیزیں بقدر ہوس کیا بقدر ضرورت بھی نہیں مل سکیں لیکن یہ شکایت کبھی نہ ہوسکی کہ اچھے واعظ نہیں ملے۔ نصیحت اور فضیحت کرنے والے اور آدمی سے انسان بلکہ انسان سے مرغا بنانے والے ملے اور بہت ملے بلکہ اتنے ملے کہ شکوہ تنگی داماں، تو اک طرف، ان کی صورت دیکھتے ہی رسیاں تڑا کر بھاگ نکلنے کو جی چاہنے لگا۔
ایک دفعہ ہم اپنی لا علمی یا شامت اعمال سے ایک پیشہ ور واعظ کے ہمسایہ بن بیٹھے۔ وہی مثل کہ آبیل مجھے مار! ایک روز سویرے یہ مولانا قمر صاحب اپنی کتاب کے جسے کوئی نامعقول بندر اچک لے گیا تھا ورق بٹورتے ہوئے ہمارے غریب خانے پر آپہنچے اور ہمیں بستر پر دراز دیکھ کر سحر خیزی کے فضائل کچھ اس دلآویز طریقے سے بیان فرمانے لگے کہ ہم اچھے بھلے جاگ کر پھر سوگئے ۔ شام کو پھر نازل ہوئے تو ایک با تصویر رسالہ دیکھ کر عریانیت کے خلاف ایک حیا سوز مقالہ پڑھ ڈالا۔ دوسرے روز جلوہ افروز ہوئے تو ہم کو کچھ گنگناتا سن کر گنگنانے ، بھنبھانے گانے شعر پڑھنے وغیرہ پر فی البدیہہ ایک لغت نامہ اگل کر رکھ دیا۔ قصہ مختصر بہت جلد انہوں نے یہ جیتی جاگی تڑپتی اور مچلتی دنیا کو ہمارے لیے قبرستان سے بھی بدتر بنادیا اور ’ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں‘ کا مضمون ہوکر رہ گیا۔
ننگے سر رہنا بد تہذیبی، سگریٹ پینا بدعت، ناول پڑھنا ناجائز، تاش کھیلنا گناہ، سینما دیکھنا حرام! ہمارے لیے راہ فرار مسدود تھی لہٰذا زخم پر زخم کھاکر بھی خاموش اور ’’سنو سب کی اور کرو من کی‘‘ کے زریں اصول پر کاربند رہے۔ صاحب نے خصوصیات سے جہنم کے سارے طبقات کا جغرافیہ ہمیں کچھ اس تفصیل سے ازبر کرادیا تھا کہ ہمیں یقین تھا کہ اگر دھوکے سے وہاں پہنچ گئے تو کم از کم وہاں کا راستہ کسی بزرگ سے پوچھنا نہیں پڑے گا۔
غالباً آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس کے بعد ہم نے خودکشی یا قتل کی کوئی کوشش کی ہوگی۔ جی نہیں۔ اس کی ضرورت نہیں پڑی۔ تھوڑی ہی سی تحقیق اور جستجو سے ہمیں پتہ چل گیا کہ تمباکو نوشی اور سلفہ بازی قمر صاحب کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ شاعری سے انہیں فطری لگاو تھا۔ گانے کے وہ پرانے رسیا تھے۔ ناولیں وہ بڑے شوق سے پڑھتے لیکن کسی ناقابل اعتراض کتاب کے بیچ میں رکھ کر۔ سینما دیکھے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتے لیکن صرف دوسرا شو اور وہ بھی چہرے کے گرد تولیہ یا مفلر لپیٹ کر ۔ تاش وہ ہم سے کہیں بہتر کھیلتے۔ البتہ کمرہ بند کرکے۔ شطرنج ہمیں نہیں آتی تھی وہ انہوں نے بقدر ضرورت بہت جلد سکھادی۔ غرض کے زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان کر ایک جان دو قالب ہوگئے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ وہ ولی پوشیدہ کہلاتے اور میں کافر کھلا۔
ایک روز قمر صاحب بہت اصرار کرکے ہمیں اپنے ساتھ ایک محفل وعظ میں لے گئے۔ عجیب آرائش اور انتظام تھا وہاں کا! شان دار پنڈال دلہن کی طرح سجا ہوا تھا اور بجلی کے بے شمار قمقموں نے رات کو دن بنادیا تھا۔ قمر صاحب اپنے پورے یونیفارم میں بڑے کر و فر سے پہنچے تو ان کا پرجوش خیرمقدم کیا گیا اور ان کے دم چھلے کی حیثیت سے ہماری بھی غیر ضروری تواضع کی گئی۔ ابتدائی کارروائی یعنی پس منظر میں منتظمین کی حقیر پیشکش، نوٹوں کی ایک گڈی کو جیب میں اور پر تکلف ماحضر کو جس میں انہوں نے مجھے بھی شریک مغلوب کرلیاتھا، پیٹ میں محفوظ کرلینے کے بعد قمر صاحب جلسے کی طرف رجوع ہوئے۔ پنڈال اب بھر چکا تھا مجھے بڑی مشکل سے ایک کونے میں جگہ ملی۔ قمر صاحب’ نکلا ڈکارتا ہوا ضیغم کچھار سے ‘ کے انداز میں پلیٹ فارم پر نمودار ہوئے تو سارا پنڈال ایک بے ساختہ نعرہ تحسین سے گونج اٹھا۔
قمر صاحب نے وعظ شروع کیا تو کسی بپھرے ہوئے طوفان کی طرح مجمع پر ٹوٹ پڑے۔ فصاحت کی ایک آندھی بلاغت کا ایک سیلاب تھا جو امنڈتا ہی چلا آتا۔ خطابت کا ایک زلزلہ تھا جس کے جھٹکے سامعین اپنے دل کی دھڑکنوں میں سن رہے تھے۔ کوئی دریا کو کوزے میں بند کرتا ہے قمر صاحب کوزے سے دریا بہار ہے تھے۔ اور تو اور خود ہم مبہوت ہوکر رہ گئے تھے کہ ہمارا یہ بے تکلف دوست صرف ہماری گمراہیوں کا شریک غالب نہیں بلکہ زمین و آسمان کے قلابے ملا کر ساری جنت اور دوزخ کا ’الاٹمنٹ افسر‘ بھی بن سکتا ہے۔
رات کی خواب آور فضا میں قمر صاحب کی پروقار آواز کسی آبشار سے پانی گرنے کا سماں پیدا کررہی تھی۔ ہم کچھ عجیب کیف و سرور محسوس کررہے تھے لیکن بالآخر یہ نیند کا غلبہ ثابت ہوا۔ بداعمالیاں۔ عریانیاں۔ ضمیر کی آواز۔ شامت اعمال۔ قہر خدا وندی۔ شرم تم کو مگرنہیں آتی کے غیر مبہم الفاظ سنتے سنتے ہم بالکل ہی غافل ہوگئے اور ہمیں کچھ ایسا معلوم ہوا جیسے ہم موٹر سائیکل پر بیٹھے فضا میں پرواز کررہے ہوں۔ شاید ہم اپنے خراٹوں کی آواز خود سن رہے تھے۔
اچانک جن صاحب کی گردن کو ہم ملائم پروں والا تکیہ سمجھ رہے تھے انہوں نے بڑی بے دردی سے ہمیں ایک طرف دھکیل دیا اور ہم خوں خڑاپ کرکے کچھ اس بدعنوانی سے جاگے کہ ہم نے آس پاس کے سب لوگوں کو اپنے اوپر ہنستا ہوا پایا۔ قمر صاحب دانت پیس پیس کر اور ہاتھ پھیلا پھیلا کر کچھ فرمارہے تھے بلکہ بدستور فرماتے ہی چلے جارہے تھے لیکن لاوڈ اسپیکر کے دفعتاً بے جان ہوجانے کی وجہ سے کچھ سنائی نہ پڑا۔ ہمارے ہوش و حواس بجا نہ تھے لہذا اس منظر کی تاب نہ لاکر موقع و محل کی نزاکت کا اندازہ کیے بغیر ہمارے منہ سے ایک بے اختیارانہ قہقہہ گونج اٹھا۔ یہ قہقہہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا۔ اور ہر چہار جانب سے قہقہوں کی موسلا دھار بارش شروع ہوگئی اور پھر اس غیر سنجیدہ فضا کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی ناشدنی نے ایک دم سے بجلی گل کردی اور وہی پنڈال جو چند ساعت بیشتر جنت نگاہ بنا ہوا تھا اب ایک ایسا تاریک ویرانہ بن گیا کہ جس میں ہرطرف کتوں اور بلیوں کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔
دفعتاً اس اندھیرے میں یہ اندھیر ہوا کہ لاوڈ اسپیکر پر قمر صاحب کی فیصلہ کن آواز گونجی ’’یہ محلہ بدمعاشوں کا معلوم ہوتا ہے۔ غالباً قمر صاحب مائکرو فون کو بے جان سمجھ کر شوروغل کی تنہائی میں اس کے سامنے اپنے دل کی بات زبان پر لے آئے تھے لیکن اس ہلکے پیٹ نے جس میں اب جان آچکی تھی اس راز کی بات کو ڈنکے کی چوٹ پر آشکار کردیا تھا اب کیا تھا بارود میں چنگاری پڑگئی! عام شوروغل کے درمیان ’’لینا‘‘ ’’پکڑ لینا‘‘جانے نہ دنیا اس ’بد زبان کو‘ کی بھیانک آوازیں گونجنے لگیں اور پھر ایک طرف سے ایک قیامت خیز غلغلہ بلند ہوا ۔ بدمعاش آگئے تبرک کےحصوں کو بچاو! پولیس پولیس اور پھر بے پناہ ہاو ہو کے ساتھ ہی گڑبڑ۔ ہلچل ۔ لپاڈگی اور بے تحاشا بھگدڑ شروع ہوگی۔ سینکڑوں کا خلفشار اور گھپ اندھیرا بالآخر اس طوفان بے تمیزی کی شامیانہ بھی تاب نہ لاسکا اور ایک وحشت خیز کھڑ بڑ اہٹ کے ساتھ کسی دلِ عاشق کی طرح بیٹھ گیا!اس کے نیچے پچاسوں آدمی جال میں بٹیروں کی طرح پھدکنے اور بندروں کی طرح چیخنے لگے۔
قمر صاحب سے ہم مایوس ہوکر اپنی ٹوپی اور جوتے کے بغیر گھر پہنچے تو قمر صاحب کو اپنا منتظر پایا۔ وہ غالباً اس قسم کے جلسوں سے بھاگ نکلنے میں ہم سے کہیں زیادہ تجربہ کار تھے۔ ہم کو دیکھ کر انتہائی غیظ و غضب میں چیخے ’’منتظمین پر لعنت! اور ہم نے صدق دل سے ان کی تائید کی ’’منتظمین کیا بلکہ سارے حاضرین پر ایضاً ہماری سعادت مندی سے خوش ہوکر اپنی عبا میں لپٹی ہوئی ایک پوٹلی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ’’خیر میں مٹھائی کے کچھ حصے اپنے ساتھ لیتا آیا ہوں‘‘ اور ہم ’ناطقہ سربگریباں کہ اسے کیا کہیے‘ کا نقش حیرت بنتے ہوئے بے ساختہ چیخ اٹھے ’’حضور والا اجالا بھی آپ کا اور اندھیرا بھی آپ کا‘‘ ۔
اجالے کا غازی ،اندھیرے کا شاطر
ہے عقبیٰ بھی تیری،یہ دنیا بھی تیری
(دہلی سے شائع ہونے والے ’ کتاب نما ‘ کے اگست 1961 کے شمارے سے ماخوذ)
***

 

***

 ایک دفعہ ہم اپنی لا علمی یا شامت اعمال سے ایک پیشہ ور واعظ کے ہمسایہ بن بیٹھے۔ وہی مثل کہ آبیل مجھے مار! ایک روز سویرے یہ مولانا قمر صاحب اپنی کتاب کے جسے کوئی نامعقول بندر اچک لے گیا تھا ورق بٹورتے ہوئے ہمارے غریب خانے پر آپہنچے اور ہمیں بستر پر دراز دیکھ کر سحر خیزی کے فضائل کچھ اس دلآویز طریقے سے بیان فرمانے لگے کہ ہم اچھے بھلے جاگ کر پھر سوگئے ۔ شام کو پھر نازل ہوئے تو ایک با تصویر رسالہ دیکھ کر عریانیت کے خلاف ایک حیا سوز مقالہ پڑھ ڈالا


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021