محدود پیمانے پر معاشی سرگرمیوں کے اجزائے ترکیبی

راحت پیکیج اور روزگار کی فراہمی سے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

زندگی کا ہر شعبہ لاک ڈاون کی وجہ سے تھم سا گیا ہے مگر ملک کا صنعتی شعبہ اس ملک گیر تالہ بندی کی وجہ سے بالکل ہی رک گیا ہے۔ اس کی تمام سرگرمیاں رک گئی ہیں۔ مجبوراً بہت سارے یونٹس کو بند کرنا پڑا ہے۔ پیداواریت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ صنعتی پیداوار بازاروں تک نہیں پہونچ پا رہی ہے۔ ترسیل اور سپلائی کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ ملک میں کام کرنے والے چالیس کروڑ مزدور روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔ بعض شہر سے اپنے گھروں کو سماجی دوری اور لاک ڈاؤن کی پرواہ کیے بغیر پہونچ گئے ہیں اور زیادہ تر شہر میں حکومتوں کے رحم وکرم پر بڑی کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لوگوں کے جیب میں پیسہ نہیں ہے۔ بازاروں میں خرید وفروخت بھی بند ہے۔ تارکین وطن مزدور اس وقت سب سے زیادہ پریشان ہیں۔ باہر نکلنے پر کورنا وائرس کا ڈر اور گھر میں رہیں تو بھکمری سے مرنے کا خوف۔ ان میں زیادہ تر مزدور تعمیراتی کاموں سے منسلک ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ وبا سے نمٹنے کے لیے حکومت نے لاک ڈاؤن کا جو فیصلہ کیا ہے وہ درست ہے مگر اس عمل میں خواہ مخواہ کی تاخیر کی گئی ہے جس کی وجہ سے حالت میں ابتری آئی ہے۔ چار گھنٹے کی نوٹس میں اکیس روزہ ملک گیر تالہ بندی میں صحیح منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے جس کی وجہ سے ملک کی بدحال معیشت کے لیے صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے۔ اب وزیر اعظم نے اس تالہ بندی کو وسعت دے کر 3 مئی کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 20 اپریل تک لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جو علاقے کورونا وائرس سے پاک رہے اور ان کے ہاٹ اسپاٹ ہونے کا خدشہ نہیں ہے تو وہاں 20 اپریل سے بعض معاشی سرگرمیوں کی اجازت دی جائے گی۔ اس طرح جان بھی بچے اور جہان کا سلسلہ بھی جاری رہے کیونکہ پہلے 21 روزہ تالہ بندی میں ہر طرح کی معاشی سرگرمیوں کو درکنار کر کے سماجی فاصلے کی عوامی برقراری پر زیادہ زور دیا گیا۔ یہاں تک کے کھیتوں میں تیار فصل کو بھی گھروں تک لانا مشکل تھا۔ اس لیے اب اسی محدود رعایت کی وجہ سے بعض ریاستی حکومتوں نے فصل کاٹنے اور کسانوں کو پیداوار حاصل کرنے کے انتظامات کا اعلان کیا ہے اگر فصل کا نقصان ہوتا ہے تو معیشت اور بھی تباہ ہوگی۔ بازار میں غلے ودیگر غذائی اجناس کی سپلائی کم ہونے پر قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور مہنگائی بڑھے گی۔ اس سے صورتحال مزید سنگین اور دھماکہ خیز ہوسکتی ہے۔ اس لیے لاک ڈاؤن-2 کے پہلے دن ہریانہ کے 4500 کسانوں کو ریاست کے 163 خریدی مراکز پر سرسوں بیچنے کی اجازت دی گئی۔
حالیہ ملک گیر تالہ بندی سے کارخانے کاروبار ودیگر کام کاج ٹھپ پڑے ہیں، پروازیں معطل ہیں ٹرینوں کی آمد ورفت بند ہے۔ تقریباً 90 لاکھ ٹرک سڑکوں سے دور یا سڑک پر کھڑے ہیں۔ اس اکیس روزہ لاک ڈاؤن سے 70 فیصد اقتصادی سرگرمیاں رک گئی ہیں۔ سرمایہ کاری، برآمدات اور اشیائے ضروریہ کو چھوڑ کر دیگر پیداوار کی کھپت تھم گئی ہے۔ پہلے مرحلے میں صرف زراعت، کانکنی، مالی آئی ٹی خدمات، ضروری خدمات اور عوامی خدمات کو محدود طریقے سے کام کا موقع ملے گا۔ 3 مئی تک جاری رہنے والے لاک ڈاؤن میں جہاں سختیاں ہوں گی وہیں کچھ شعبوں میں معاشی تگ و دو کی اجازت بھی ہوگی کیونکہ محض جان بچانے کی خاطر معیشت کو تباہ نہیں کیا جاسکتا۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ تین ہفتے کے لاک ڈاؤن سے معیشت کو 7.5 لاکھ کروڑ روپے کے نقصان کا اندیشہ ہے۔ اس ماہ کے شروع ہفتہ میں ایکیوٹ ریٹنگس اور ریسرچ لمٹیڈ نے اندازہ لگایا تھا کہ تالہ بندی سے ملکی معیشت کو روزانہ 14.46 ارب ڈالر (۳۵۰۰ کروڑ روپیوں) سے زائد کا گھاٹا ہورہا ہے۔ اس طرح اس وائرس کو پھیلاؤ سے روکنے کے دوران مجموعی گھریلو پیداوار یعنی جی ڈی پی کا ۹۸ ارب ڈالر (یعنی 7.5 لاکھ کروڑ روپیوں) کا نقصان ہوا۔ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے مطابق ملک میں محدود طریقے کی چھوٹ کا امکان ہے۔ اس لیے اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے ٹرانسپورٹ، ہوٹل، ریستوراں رئیل اسٹیٹ جیسے سیکٹرس کو ترجیحات میں رکھنا ہوگا۔ عالمی بینک نے اتوار کو کہا ہے کہ ملک کی مجموعی شرح نمو ۲۰۲۰۔۲۱ میں 1.5تا2.8 فیصد رہ سکتی ہے۔ ۹۰ کی دہائی کے اقتصادی اصلاحات کے بعد یہ سب سے سست شرح نمو ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھارتی جی ڈی پی کو چار فیصد بتایا ہے۔ دیگر عالمی ایجنسیوں میں آئی ایم ایف، گولڈ مین نے بھی حالیہ دنوں میں شرح نمو کو 1.5 سے 2 فیصد کے درمیان رکھا ہے۔ ایس بی آئی نے اس مالی سال میں شرح نمو کو 1.1 فیصد رکھا ہے۔ بارک لیج کا تو کہنا ہے کہ اس سال دسمبر تک بھارت کی شرح نمو صفر رہے گی۔ ابھی تک جس طرح کے اندازے لگائے جا رہے ہیں وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں جب تک یہ وبا ختم نہیں ہوگی تب تک صحیح حساب نہیں لگایا جاسکتا کہ اس سے کتنا نقصان ہوا ہے اور کتنا ہوگا؟ نجی ایجنسی سی ام آئی ای کے مارچ میں بے روزگاری کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں شہری بیروزگاری ۳۰ فیصد اور دیہی بیروزگاری 20.2 فیصد ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد یہ حالت مزید بگڑ سکتی ہے۔ مارچ کے دوسرے ہفتے تک ماہرین کہہ رہے تھے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ بعض لوگوں کو ڈر ہے کہ دنیا میں جیسی کساد بازاری آنے والی ہے وہ ۱۹۳۰ کے بھیانک کساد بازاری کے بعد کا سب سے خطرناک بحران ہے۔ آئی ایم ایف نے بھارت کو کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے ایک بلین ڈالر مدد کے طور پر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔کورونا وائرس وبا کے قہر سے نمٹنے کے لیے پورے ملک میں لاک ڈاؤن کو وسعت دے دی گئی ہے جس سے معیشت کو شدید جھٹکا لگ رہا ہے۔ وہ ناقابل برداشت بھی ہوسکتا ہے۔ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی صنعتی شعبہ بھی تالا بندی کی وجہ سے رک سا گیا ہے پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ اب ملکی صورتحال کو دیکھتے ہوئے صنعتی دنیا نے ایک روڈ میپ اور لائحہ عمل ترتیب دے کر حکومت اور انتظامیہ سے مل کر معیشت کو اس قہر سے بچانے کا انتظام کیا ہے۔ صنعتوں کی تنظیم سی آئی آئی نے حکومت کو موجودہ تالہ بندی سے صنعتی شعبوں کے لیے ایک لائحہ عمل دیا ہے اس میں سخت اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے تین مرحلوں میں ساری صنعتوں کو کھولنے کی درخواست کی ہے۔ سی آئی آئی نے کہا ہے کہ موجودہ چیلنج اور مشکل حالت میں صنعتی تگ ودو کو مرکزی حکومت ریاستی حکومت، مقامی انتظامیہ اور صنعت کاروں کے درمیان تال میل سے شروع کیا جاسکتا ہے۔ سی آئی آئی نے تمام صنعتوں کو تین شعبوں میں تقسیم کیا ہے اور انہیں ترجیحی بنیاد پر کھولنے کا مشورہ دیا ہے تاکہ تکلیف دہ معاشی سستی آنے سے قبل کُل کارخانوں کو احتیاط کے ساتھ شروع کیا جائے اور بیروزگاروں کو روزگار فراہم ہو سکے۔ صنعتوں کے ساتھ ساتھ سارے ملک کو ۳ خطوں میں تقسیم کیا ہے۔ اسے کورونا وائرس کے پھیلاو کی بنیاد پر ریڈ ، اینبر (پیلا) اور گرین خطوں میں تقسیم کرتے ہوئے ان میں واقع صنعتوں کو الگ الگ طور پر مرحلہ وار کھولنے کا مشورہ دیا گیا ہے ریڈ خطے میں ایسی صنعتوں کو چالو کیا جا سکتا ہے جن کا بیرونی دنیا سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اس روڈ میپ میں کہا گیا ہے کہ گرین خطہ میں موجود صنعتوں کو کھولنا زیادہ آسان ہے۔ احتیاط کے مد نظر دیکھنا ہوگا کہ اس خطہ کے سبھی صنعتوں کو کھولنا ہے یا نہیں۔ اینبر خطہ میں کیسے صنعتوں کو کھولا جائے گا اس کا فیصلہ الگ سے ہوگا؟ لیکن یہ یقینی بنانا ہوگا کہ صنعت کے تمام شعبوں کو بے حد سخت اصولوں کی پابندی کرنی ہوگی۔ جو صنعت ان اصولوں کی پابندی نہیں کرے گی اس پر سخت جرمانے بھی لگائے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ صنعتوں کو پھر سے چالو کرنے کے لیے قرض ودیگر سہولتوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔ بینکوں کو قرض کی فراہمی اور کارخانوں کو مزدوروں کی فراہمی کے لیے ریاستی حکومتوں کو مستعدی دکھانی ہوگی۔ ساتھ ہی کام کی جگہ پر محنت کشوں کی سلامتی وراحت کچے مال کی فراوانی اور تیار شدہ مال کو مناسب جگہ پر پہنچانے کا انتظام کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ریاستوں کے درمیان مناسب نیٹ ورک بنانے کی ضرورت ہوگی۔
واضح رہے کہ آر بی آئی کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کی میٹنگ کے مطابق ریزرو بینک کے گورنر شکتی کانت داس نے کہا کہ موجودہ حالت میں گھریلو معیشت کو کورونا وائرس سے بچانے کے لیے سبھی طرح کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ملک کی معیشت کی بنیاد مستحکم ہے۔ اس سے وابستہ سبھی شعبوں میں نقدی کی کمی نہ ہو اس کو یقینی بنایا جائے گا۔ صنعت کاروں کا مطالبہ ہے کہ قرض صفر سود پر فراہم کیا جائے۔ آر بی آئی کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کی میٹنگ پچھلے مہینے ہوئی تھی۔ گورنر کے مطابق اس وقت غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے اس کو حل کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ عالمی ملی بحران کے مقابلے میں اس وقت ملکی معیشت کی بنیاد بہتر ہے مگر ملک کی ۲۵ بڑی کمپنیوں کے سی ای او کے درمیان کرائے گئے ایک سروے میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھارت کا صنعتی کاروبار ہر طرف سے مشکلوں میں گھر گیا ہے۔ ایسے میں حکومت کے ذریعے دیا گیا راحتی پیاکیج اور آر بی آئی کے ذریعے دیا گیا بینکنگ پیاکیج آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کل ہی آر بی آئی کے گورنر نے ملک کے فینانشیل سسٹم میں دوسری بار آکسیجن دینے کا کام کیا تاکہ معیشت پر ہونے والے اثرات بد سے بچا جا سکے۔ وزیر اعظم اور وزیر مالیات کی طویل میٹنگ میں غریبوں اور ضرورتمندوں کی مشکلوں کو کم کرنے کے لیے سیتا رمن نے پچھلے راحت پیکیج کی طرح ایک اور بڑے راحت پیاکیج کا اشارہ دیا ہے۔ کتنا اچھا ہوتا اگر حکومت ۷۱ لاکھ میٹرک ٹن راشن (چاول اور گیہوں) کا اسٹاک جو ملک کے سرکاری گوداموں میں پڑا ہے اس کا نصف بھی لاک ڈاؤن میں پھنسے مزدوروں اور ان کے اہل خانہ کو مفت مہیا کرادے تاکہ ان کو متوقع بھکمری سے نجات دلائی جا سکے۔ ادھر کنواں ادھر کھائی۔ جان بچائیں یا پیٹ کی آگ بجھائیں یہ سوال بے کس غریب مزدوروں کے ساتھ متوسط طبقہ کے سامنے بھی آ کھڑا ہے۔ پھر اسے اونچے طبقے تک پہونچنے میں بھی دیر نہیں لگے گی۔ اس لیے لاک ڈاؤن کے ساتھ مخصوص رعایت دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے تاکہ یومیہ مزدوروں کو کام مل سکے۔ اس زمرے میں کھیتوں، منڈیوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے افراد، پلمبرس، میکانکس اور کارپنٹرس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ہائی ویز پر چلنے والے دھابے اور دوا کمپنیوں، ڈیری فارموں، سبزی ترکاری کی دکانوں، مچھلی گوشت کے سپلائرس کو بھی چھوٹ دی جائے گی۔ وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے محفوظ دیہی علاقوں میں منریگا کا بھی احیا ہوگا۔ اس طرح دیہی مزدوروں کو سال میں سو دن کام مل سکے گا۔
کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی تالہ بندی نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مگر ماہرین کے مطابق صرف وہی ممالک اس معاشی توازن کو برقرار رکھ سکیں گے جو زراعت کے اعتبار سے کافی بہتر حالت میں ہوں گے۔ اس ضمن میں بھارت کی پوزیشن بہتر نظر آرہی ہے۔ حکومت کو بھی زراعتی انقلاب کے سلسلے میں نئے نئے تجربات پر توجہ دینی ہوگی۔ صحیح لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا اور منصوبہ بندی کے ذریعہ دیہی معیشت کو بہتری کی طرف لانا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو آئندہ بڑی صنعتوں کو چلانے، غریب ومتوسط طبقے کو روزگار فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ ہماری معیشت پر جب بھی بحران آیا تو زرعی پیداوار نے ہی اسے بھنور سے نکالا۔
***

سی آئی آئی نے کہا ہے کہ موجودہ چیلنجنگ اور مشکل حالت میں صنعتی تگ و دو کو مرکزی حکومت ریاستی حکومت، مقامی انتظامیہ اور صنعت کاروں کے درمیان تال میل بناکر شروع کیا جاسکتا ہے۔ سی آئی آئی نے تمام صنعتوں کو تین شعبوں میں تقسیم کیا ہے اور انہیں ترجیحی بنیاد پرکھولنے کا مشورہ دیا ہے تاکہ تکلیف دہ معاشی سستی آنے سے قبل کل کارخانوں کو احتیاط کے ساتھ شروع کیا جائے اور بیروزگاروں کو روزگار فراہم ہوسکے۔