محبت زندگی کی بنیاد ہے

اللہ کی مخلوق سے محبت رب کی رحمت کو متوجہ کرنے کا باعث

محمداسجد قاسمی

اللہ کی محبت اور اللہ کی خاطر، اس کی رضا جوئی کے لیے اس کے بندوں سے محبت ایمان کا اہم ترین حصہ ہے۔ نوع انسان سے مواسات وہمدردی کا معاملہ، عدل و احسان اور اس کی خاطر ایثار و قربانی اور اپنوں و بیگانوں سب کے ساتھ رحمت کا معاملہ ایمان کا اہم ترین مطالبہ ہے۔ حضور اکرمﷺ کو رحمۃ للعالمین قرار دیا گیا ہے اس لیے کہ آپ ﷺ کی ذات والا صفات اس پوری کائنات کے لیے سراسر رحمت تھی۔
تقویٰ اور خوف خدا فی الواقع محبت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اللہ سے محبت کی خاطر اور اس کی خوشنودی کے حصول کی غرض سے انسان راہِ تقویٰ پر گامزن ہوتا ہے، دوسری طرف اپنی ذات، اپنے اہل و عیال اور خلق خدا سے سچی محبت کی بنیاد پر انسان خود بھی عذاب جہنم سے بچنا اور دوسروں کو بچانا چاہتا ہے، اسی لیے وہ خود تقویٰ اختیار کرتا ہے اور دوسروں کو تلقین کرتا ہے اور قرآن کی اس آیت پر عمل کرتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے:
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کواس آگ سے بچاو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘۔ (التحریم ۶) مختلف احادیث میں یہ مضمون آیا ہے کہ ایمان کی حلاوت و لذت اور چاشنی و شیرینی اسی صورت میں میسر آئے گی جب اللہ و رسول کی محبت ہر ماسوا سے کہیں زیادہ دلوں میں جاگزیں ہوگی اور ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا کہ
’’تم میں سے کوئی مومن ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کی نگاہ میں اس کے والدین، اولاد، اعزہ و اقارب اور پوری کائنات سے زیادہ محبوب و عزیز نہ ہوجاوں ۔‘‘ (صحیح بخاری)
قرآن کریم میں ان لوگوں کو سخت وعید سنائی گئی ہے جو اللہ و رسول کی محبت پر دوسروں کی محبتوں کو برتر قرار دیتے ہوں، فرمایا گیا:
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۤؤُكُمْ وَاَبْنَاۤؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ِ قْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِىْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَ بَّصُوْا حَتّٰى يَأْتِىَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ(التوبہ:۲۴)
’’اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما ئے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے‘‘
مولانا آزادؒ اس آیت کے ذیل میں رقم طراز ہیں: ’’یہ آیت مہمات مواعظ میں سے ہے اور اس باب میں قطعی ہے کہ اگرحب ایمانی و غیر ایمانی میں مقابلہ ہوجائے تو مومن وہ ہے جس کی حب ایمانی پر دنیا کی کوئی اور محبت و علاقہ بھی غالب نہ آسکے۔ محبت ایمانی کی اس آزمائش میں صحابہ کرام جس طرح پورے اترے اس کی شہادت تاریخ نے محفوظ کرلی ہے اور محتاج بیان نہیں، بلا شائبہ مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کے گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہوگا جیسا صحابہؓ نے اللہ کے رسول سے راہ حق میں کیا۔ انہوں نے اس محبت کی راہ میں سب کچھ قربان کردیا جو انسان کرسکتا ہے اور پھر اسی کی راہ سب سے کچھ پایا جو انسانوں کی کوئی جماعت پاسکتی ہے لیکن آج ہمارا حال کیا ہے، کیا ہم میں سے کسی کو جرات ہوسکتی ہے کہ یہ آیت اپنے سامنے رکھ کر اپنے اایمان کا احتاسب کرے؟ (ترجمان القرآن 254-253/3ملحظاً)
اللہ و رسول کی محبت کی سب سے بڑی علامت شرط؎ اور نتیجہ اطاعت و پیروی ہے، قرآن کہتا ہے:
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَـكُمْ ذُنُوْبَكُمْۗ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ(آل عمران:۳۱)
’’آپ فرمادیجیے کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘
اس آیت میں دعوائے محبت کی جانچ کے لیے سب سے اچھا معیار ایمان و اتباع بیان کیا گیا ہے، وہ اسی محبت کو سند اعتبار بخشتا ہے جو اطاعت و انقیاد کی شکل میں رونما ہو۔
اللہ و رسول کی محبت کے سوا خلق خدا کی محبت بھی ایک مومن کا طرہ امتیاز ہوتی ہے، باہمی محبت کرنے والے بندوں سے اللہ بھی محبت کرتے ہیں اور انہیں قیامت کے روز عرش الٰہی کے سائے میں نور کے منبروں پر جگہ ملے گی، باہمی محبت کو پروان چڑھانے کا اہم نسخہ آپ ﷺ نے ’’سلام کی ترویج و اشاعت‘‘ بتایا ہے۔
حدیث میں فرمایا گیا:
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم جنت میں بلا ایمان داخل نہ ہوسکو گے اور بغیر باہمی محبت کے تم مومن نہ ہوسکو گے، کیا میں تم کو وہ عمل نہ بتادوں جس کی بنیاد پر تم میں باہمی محبت پیدا ہوجائے، وہ یہ کہ تم آپس میں سلام کو رواج دو‘‘ (صحیح مسلم)
ایک دوسری حدیث میں اللہ ہی کے لیے محبت کرنے اور محبت و نفرت کے تمام جذبات مرضی مولیٰ کے تابع کردینے کو کمال ایمان کی دلیل قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح اللہ کی مخلوق کے ساتھ محبت اور حسن سلوک کا معاملہ اللہ کی توجہ اور رحمت و محبت کے انجذاب کا اہم ترین باعث ہوتا ہے
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر
خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر
نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021