مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

خدائے سخن میر تقی میرؔ کے 20؍ ستمبر یوم وفات کے موقع پرخصوصی پیشکش

احتشام الحق آفاقی، رامپور

 

مرزا غالب جس کے فن کے ثنا خواں ہوئے اور جسے ریختہ کا استاد تک کہہ دیا:
ریختے کے تمہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ شعرائے اردو نے سب سے زیادہ جس استاد شاعر کی پیروی کی اور اس کے انداز میں کلام کہنے کی سعادت حاصل کی وہ ہیں ’خدائے سخن میر تقی میر‘۔ ان کی پیدائش 28؍ مئی 1723ء کو اکبر آباد آگرہ میں ہوئی۔ میر کے والد کا نام محمد علی تھا اور وہ علی متقی کے نام سے مشہور تھے۔ میر کی تاریخ پیدائش اور ان کے والد کے نام کے تعلق سے تذکرہ نگاروں کے یہاں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے۔ سات سال کی عمر میں میر نے پڑھنا لکھنا شروع کیا۔ ان کی تعلیم و تربیت کا آغاز قرآن پاک کے درس سے ہوا۔ وہ ایام طفولیت ہی میں والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے تھے۔ جب کہ اس سے قبل ان کے استاد سید امان اللہ جو ان کے والد کے مرید اور عقیدت مند تھے اور ان کی تربیت کی ذمہ داری انہیں کے سپرد تھی، وہ بھی دارِ فانی سے کوچ کر چکے تھے۔ ان کے والد علی متقی اپنے وقت کے بہت بڑے بزرگ تھے۔ میرؔ کے اجداد حجاز سے ترک سکونت کر کے ہندوستان میں آبسے تھے۔ میر کو ایک ساتھ دو صدمے لاحق ہوئے اس کے بعد وہ آگرہ میں تن تنہا ہو گئے۔ سید امان اللہ اور ان کے والد کے انتقال کے بعد میرؔ کے بڑے بھائی حافظ حسن نے میر پر سے دست شفقت اٹھا لیا۔
میر چودہ سال کی عمر میں آگرہ سے دہلی آگئے۔ امیر الامراء صمصام الدولہ جو ان کے والد کے عقیدت مندوں میں سے تھے انہوں نے میر کے لیے ایک روپیہ روزینہ مقرر کر دیا جو نادر شاہ کے حملے تک ملتا رہا۔ نادر شاہ کی قتل و غارت گری میں صمصام الدولہ مارے گئے اور دہلی میں بھی ان کی زندگی عذاب بن کر رہ گئی۔ گویا میرؔ بھری جوانی میں در در کی خاک چھاننے پر مجبور ہوئے۔ وہ دیگر امرا اور صاحبانِ اقتدار کے دربار میں کاسہ لیس بن کر رہے لیکن سلطنتوں کے عروج و زوال کے سبب دہلی ان کے لیے روز بروز تنگ ہونے لگی چنانچہ وہ دہلی چھوڑ کر لکھنؤ جانے پر مجبور ہوئے۔ محمد حسین آزاد نے’ آب حیات‘ میں داستانی رنگ میں میر کے دہلی سے لکھنؤ جانے کا جو واقعہ لکھا ہے وہ بہت ہی دلچسپ ہے :
’’میر تقی میر ؔجب لکھنؤ چلے تو گاڑی کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہو گئے اور دلی کو خدا حافظ کہا۔ تھوڑی دور آگے چل کر اس شخص نے کچھ بات کی۔ یہ اس کی طرف سے منہ پھیر کر ہو بیٹھے۔ کچھ دیر کے بعد پھر اس نے بات کی میر صاحب چیں بجبیں ہوکر بولے کہ صاحب قبلہ! آپ نے کرایہ دیا ہے بے شک گاڑی میں بیٹھیے مگر باتوں سے کیا تعلق! اس نے کہا حضرت! کیا مضائقہ ہے راہ کا شغل ہے باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔ میر بگڑ کر بولے خیر آپ کا شغل ہے۔ میری زبان خراب ہوتی ہے۔ لکھنؤ میں پہنچ کر جیسا کہ مسافروں کا دستور ہے ایک سرائے میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں مشاعرہ ہے، رہ نہ سکے۔ اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرے میں جا کر شامل ہوئے۔ ان کی وضع قدیمانہ تھی۔ کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، اک پورا تھان پستولیے کا کمر سے بندھا، ایک رومال پٹری دار تہہ کیا ہوا اس میں آویزاں، مشروع پاجامہ، جس کے عرض کے پائینچے، ناگ پھنی کی انی دار جوتی جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب، غرض جب داخل محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنؤ، نئے انداز، نئی تراشیں، بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے، میر صاحب بیچارے غریب الوطن، زمانے کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے، شمع ان کے سامنے آئی، تو پھر سب کی نظر پڑی۔ بعض اشخاص نے پوچھا! حضور کا وطن کہاں ہے؟ میر صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا:
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
مالک رام نے ’میر کی آپ بیتی‘ کے مقدمہ میں اس واقعہ کے متعلق لکھا ہے ’’آزاد نے میر کے سفر لکھنؤ کے جو حالات لکھے ہیں ان میں داستان کا لطف ہے لیکن ’ذکر میر‘ دیکھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل بے اصل ہیں‘‘ میر نے اپنی آپ بیتی ’ذکر میر‘ میں لکھا ہے کہ وہ نواب آصف الدولہ کی دعوت پر لکھنؤ گئے تھے۔ میر کی زندگی دہلی میں بہت پر پیچ تھی۔ راحت جاں کہیں میسر نہیں تھی، بادشاہوں اور امرا اور باہری طاقتوں کی جھڑپ سے قدرے رنجیدہ اور کبیدہ خاطر تھے۔ ان واقعات کا تذکرہ میرؔ نے ’ذکر میر‘ میں بہت باریک بینی کے ساتھ کیا ہے۔ ذکر میر کے متعلق مالک رام مقدمہ میر کی آب بیتی میں رقم طراز ہیں: ’’میر کے ذاتی حالات کے علاوہ یہ کتاب (ذکر میر) ہندوستان کی اُس دور کی تاریخ کا بہت اچھا ماخذ ہے۔ افسوس کہ ہمارے مؤرخوں کا دھیان اس طرف نہیں گیا‘‘
محمد حسین آزاد نے میرؔ کی ذاتی زندگی کے واقعات کو چٹخارے لے لے کر کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ ان میں حقیقت کی کچھ شبیہ نہیں ابھرتی۔ انہوں نے دو واقعات کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے ’’ایک دن نواب مرحوم نے غزل کی فرمائش کی۔ دوسرے، تیسرے دن جو پھر گئے تو پوچھا کہ میر صاحب! ہماری غزل لائے؟ میر صاحب نے تیوری بدل کر کہا :جناب عالی! مضمون غلام کی جیب میں تو بھرے ہی نہیں کہ کل آپ نے فرمائش کی آج غزل حاضر کر دے۔ اس فرشتہ خصال نے کہا: خیر میر صاحب! جب طبیعت حاضر ہوگی کہہ دیجیے گا‘‘
ایک دن نواب نے بلا بھیجا۔ جب پہنچے تو دیکھا کہ نواب حوض کے کنارے کھڑے ہیں۔ ہاتھ میں چھڑی ہے۔ پانی میں لال سبز مچھلیاں تیرتی ہیں۔ آپ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ میر صاحب کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہا ’’میر صاحب کچھ فرمائیے!‘‘ میر صاحب نے غزل سنانی شروع کی۔ نواب صاحب سنتے جاتے تھے اور چھڑی کے ساتھ مچھلیوں سے بھی کھیلتے جاتے تھے۔ میر صاحب چیں بجبیں ہوتے اور ہر شعر پر ٹھہر جاتے تھے۔ نواب صاحب کہتے جاتے تھے کہ ہاں پڑھیے۔ آخر چار شعر پڑھ کر میر صاحب ٹھہر گئے اور بولے ’’کیا پڑھوں، آپ مچھلیوں سے کھیلتے ہیں۔ متوجہ ہوں تو پڑھوں‘‘ نواب صاحب نے کہا ’’جو شعر ہوگا آپ متوجہ کرلے گا‘‘ میر صاحب کو یہ بات بہت ناگوار گزری اور غزل جیب میں ڈال کر گھر چلے آئے‘‘ ( آب حیات، صفحہ۱۹۴) خواجہ احمد فاروقی نے اپنی کتاب میر کی حیات اور شاعری میں ان واقعات کے متعلق لکھا ہے ’’یہ ضروری نہیں کہ آزاد نے یہ واقعات غلط لکھے ہوں۔ ممکن ہے ایسا ہوا بھی ہو‘‘
میر کی زندگی حزن و ملال سے پُر ہے اور اسی حزنیت کو میر نے اپنی شاعری میں برتا ہے۔ ’خدائے سخن‘ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ قنوطیت کی صفت سے بھی متصف ہیں۔ ان کی شاعری میں غم زندگی، غم ذات، غم محبت گویا کہ غم کی جتنی بھی قسمیں ہو سکتی ہیں وہ سب اپنے عروج پر ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں: ’’میر کا زیادہ تر کلام کیفیت اور معنی آفرینی کا ایک دلکش گلدستہ ہے جس کی مثال کسی دوسرے شاعر کے یہاں تلاش کرنا مشکل ہے، یہاں تک کہ غالب کا کلام بھی اس صنعت سے مجرد ہے‘‘ انہیں صفات سے پُر میرؔ کی شاعری کے چند نمونے نذر قارئین ہیں:
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
میر کے معاصرین اور ان کے متاخرین اردو شعرا نے میر ؔ کی نہج پر شاعری کرنے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھا ہے۔ بہت سوں نے جہاں میرؔ کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے اپنے فن میں طبع آزمائی کی وہیں میر ؔ کے فن کے معترف بھی ہوئے۔ ذیل میں اس کی چند مثال ملاحظہ ہوں:
مصحفی تو اور کہاں شعر کا دعویٰ
پھبتا ہے یہ اندازِ سخن میر کے اوپر
مصحفی
سودا تو اس زمین میں غزل در غزل لکھ
ہونا ہے تم کو میر سے استاد کی طرح
سودا
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
غالب
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
ذوق
شعر میرے بھی ہیں پردرد، و لیکن حسرت
میر کا شیوہ گفتار کہاں سے لاؤں
حسرت
اللہ کرے میر کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی
ابنِ انشا
معتقد ہیں اگرچہ غالب کے
میر کو بھی سلام کرتے ہیں
حزیں جی
میرؔ اپنے آخری دنوں میں چھ مہینے تک سخت بیماری کی حالت میں رہے۔ خواجہ احمد فاروقی نے میر ؔ کی تاریخ وفات 20؍ شعبان المعظم 1225ھ مطابق 20؍ ستمبر 1810 ء لکھی ہے۔ خدائے سخن میر تقی میرؔ سلطنت اودھ لکھنؤ میں ہی مدفون ہیں لیکن اب ان کے مزار کا کوئی نام و نشان بھی نہیں۔ رفاہِ عام کلب اور سٹی اسٹیشن کے چو راہے پر بنا ’نشانِ میر‘ عدم توجہی کا شکار ہے۔

میر کے معاصرین اور ان کے متاخرین اردو شعرا نے میر ؔ کی نہج پر شاعری کرنے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھا ہے۔ بہت سوں نے جہاں میرؔ کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے اپنے فن میں طبع آزمائی کی وہیں میر ؔ کے فن کے معترف بھی ہوئے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20-26 ستمبر، 2020