متفرقات

چراغ یا حفاظتی سازو سامان؟؟
درجنوںنرسیس اور ڈاکٹرز کورونا وائرس کے شکار ہیں ان کے لیے ماسک اور ضروری اشیاء کا معقول انتظام نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ نرس ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور حفاظت کا سامان مہیا کرنے کا مطالبہ کیا لیکن ہمارے وزیر اعظم تالی اور تھالی بجوا کر اور دیے روشن کروا کر کام چلا رہے ہیں۔ڈاکٹر آستھا ساشن نے ٹوئٹر پرایک تصویر پوسٹ کرتے ہوئے اس کرب کو بخوبی اجاگر کیا ہے جس سے ان دنوں ملک بھر میں طبی عملہ دوچار ہے۔اس تصویر میں پی ایم کی اپیل پر ایک خاتون بڑے ہی فخر سے اپنے ہاتھ میں موجود دیا دکھارہی ہے تو دوسری جانب کورونا وائرس سے بچنے کے لیے حفاظتی لباس پہنی ہوئی ایک نرس ہےاور اس کے ساتھ یہ عبارت دی گئی ہے ’’حکومت سے میری توقعات بہ مقابل مجھ سے حکومت کی توقعات‘‘۔

اب اور کتنا ہاتھ دھوئیں!!
کورونا وائرس کی وجہ سے کئی ممالک لاک ڈاون کا شکار ہیں، ان پر بندشیں عائد ہیں، وہاں کے لوگوں نے خود کو گھروں میں قید کر لیا ہے اور ہمارے ملک میں بھی لوگ اپنی رہائش گاہوں میں محصور ہیں ایسے میں وادی کشمیر سے آہ وزاری فطری بات ہے جہاں کے باشندوں نے بندشوں کی صعوبتیں کئی بار جھیلی ہیں اور اب بھی جھیل رہے ہیں۔ سوشیل میڈیا پر ہلال نامی شخص کا تجزیہ خوب گردش کر رہا ہے جس میں انہوں نے پوچھا ہے کہ آخر اب ہم اور کتنا ہاتھ دھوئیں؟
*جاب سے ہاتھ دھوئے
*370 سے ہاتھ دھوئے
*35 اے سے ہاتھ دھوئے
*اسٹیٹ سے ہاتھ دھوئے
*فور جی سے ہاتھ دھوئے
*زباں کھولنے سے ہاتھ ہوئے
*حقوق مانگنے سے ہاتھ دھوئے
*صابن سے ہاتھ دھوئے
*سنیٹائیزر سے ہاتھ دھوئے
*کیا اب زندگی سے ہاتھ دھونا باقی رہ گیا ہے؟

جب’’کورونا جہاد‘‘ہو سکتا ہے تو
’’کورونا بھوج‘‘ کیوں نہیں؟
20 مارچ کو مدھیہ پردیش کے مرینا میں بھوج (ہندو مذہب میں کسی کی موت کے بعد کھانے پینے کی دعوت) تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ پروگرام میں تقریباً پندرہ سو افراد شامل ہوتے ہیں، جن میں دس افراد کورونا پوزیٹو پائے جاتے ہیں لیکن اس کیس میں میڈیا خاموش ہے کیوں؟ کوئی بحث ومباحثہ نہیں، لن ترانی کا کوئی دور نہیں چلا اور نہ ہی کسی نے "کورونا جہاد” کی طرح "کورونا بھوج” کہہ کر لعن طعن کی۔اس طرح کے سوالات سوشیل میڈیا پر اٹھ رہے ہیں۔
جمہوریت کا چوتھا ستون جھوٹی خبریں
پھیلانے میں مصروف!
اس دور میں جھوٹی خبریں پَر لگا کر اُڑ رہی ہیں اور بے چارہ سچ لنگڑاتا ہوا کسی کونے سے نمودار ہوتا کبھی کبھی نظر آ جاتا ہے۔ اسی ہنگامہ خیزی میں لوگ ‘جھوٹی خبر، سچی خبر اور آراء پر مبنی خبر’ کے مابین فرق تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود میڈیا بھی بعض اوقات اس فرق سے بے نیاز ہوجاتا ہے، حال ہی میں ایک ایسی نیوز ایجنسی جس پر ہندوستان کا مین اسٹریم میڈیا تکیہ کرتا ہے جھوٹی خبر کوڈ کرتے ہوئے پکڑی گئی، ایک ایجنسی جو وسیع پیمانے پر Visuals اور خبریں تمام چینل کو سپلائی کرتا ہے جعلی انفارمیشن دیتے ہوئے بے نقاب ہوا، ظاہر ہے تبلیغی جماعت کے تعلق سے یہ خبر تھی تو بڑے بڑے متنازع اینکروں نے بھی نہ صرف نیوز اخذ کیا بلکہ تبصرے کے ساتھ سوشیل میڈیا پر شیئر بھی کیا ۔در اصل خبر یہ تھی کہ نوئیڈا کے ہر ولا سیکٹر 5 میں تبلیغی جماعت کے افراد کو کورنٹین کیا گیا ہے، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ کورونا کے مریضوں کو علیٰحدہ وارڈ میں رکھا گیا تھا اور اس خبر کی تصدیق خود گوتم بدھ نگر کے ڈی سی پی نے کی جبکہ انہوں نے ایک ایجنسی کو فیک نیوز پھیلانے کا قصور وار بھی ٹھہرایا۔
***
ائیر انڈیا کا خیر مقدم ہے، یہ ہے پاکستان کنٹرول روم!!
دشمن سے اچھے سلوک کی امید کہاں رہتی ہے، اکثر اس کی سنگدلی کے چرچے ہی ہوا کرتے ہیں اور اس کے دیار میں جانے سے ڈر لگتا ہے وہ کہتے ہیں نا!
ان سے امید وفا رکھنا بھی نیرؔ ہے فضول
بے مروت سب کے سب ہیں اور نگر پتھر کا ہے
لیکن کورونا وائرس کی وبا کے کچھ مثبت پہلو بھی سامنے آئے ہیں، اے این آئی کی رپورٹ کے مطابق ائیر انڈیا کے سینئر کیپٹن کا کہنا ہے کہ ائیر ٹریفک کنٹرول آف پاکستان کی جانب سے غیر متوقع رد عمل سامنے آیا ہے جیسے ہی وہ فلائٹ انفارمیشن ریجن (FIR) میں داخل ہوتے ہیں ویسے ہی (ATC) پاکستان کی جانب سے السلام علیکم کی آواز آتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ائیر انڈیا امدادی فلائٹ کا خیر مقدم ہے اور ہمیں آپ پر فخر ہے، سینئر کیپٹن مزید کہتے ہیں کہ یہ ساری باتیں سن کر ہمیں بھی فخر کا احساس ہونے لگا اور ہم نے بھی ان کا شکریہ ادا کیا۔دراصل ائیر انڈیا ہندوستان سے جرمنی کے شہر فرانکفرٹ کے لیے خصوصی امدادی طیارے چلا رہا تھا تاکہ ہندوستان میں پھنسے یورپی ممالک کے شہریوں کی مدد کی جا سکے۔
’’دشت میں دیوار کا سایا نظر آیا‘‘!
جھارکھنڈ میں 20 دنوںکے لیے سو خاندانوں کی کفالت
لاک ڈاون نے غریبوں کا جینا محال کر دیا ہے، یومیہ اجرت پانے والے کی حالت تو ایسی ہوگئی ہے کہ کاٹو تو خون کا قطرہ نہ گرے۔ ایسے میں کچھ شریف النفس انسان بھی ہیں جن سے بے یار ومددگار اور پریشان حالوں کی حالتِ زار دیکھی نہیں جاتی اور وہ ان کی خدمت کے لیے کمر کس لیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک خوش آئند خبر ہزاری باغ سے آئی ہے جہاں انڈین آئل ڈیلر معصوم پرویز اور مہ جبیں خان نے بڑکا کانہ گاوں کے ایک سو خاندانوں کو 20 دنوں کے لیے گود لیا ہے۔ ان خاندانوں میں چاول، دال، آٹا، تیل اور ترکاری وغیرہ تقسیم کیا جا رہا ہے، ان بے لوث خدمت گاروں کا کہنا ہے کہ ہمیں کورونا وائرس کو ہرانا ہے اور اس کے لیے ہمیں لاک ڈاون کو کامیاب بنانا ہوگا۔اگر عام حالات میں بھی ہمارے اہلِ ثروت فیملیز اسی طرح غریب خاندانوں کو گود لیتے رہیں تو ہمارا ملک بہت جلد خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
تمنا دردِ دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی!!
کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں حکومت 5 ہفتے پیچھے!
کیا کورونا وائرس سے جنگی پیمانے پر تیاریوں میں حکومت سے تاخیر ہوئی؟ مرکزی حکومت تقریبا پانچ ہفتے دیر سے جاگی جہاں ایک طرف بغیر کسی حکمت عملی کے 21 دنوں کے لاک ڈاون کے اعلان پر سوال اٹھ رہے ہیں تو وہیں کورونا وائرس کے تعلق سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں تاخیر پر بھی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ دی کوئنٹ کے مطابق (PWMAI) کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ "21 مارچ تک ہم نے کوئی میل رسیو نہیں کیا، اگر حکومت 21 فروری تک PPE کٹس کی وضاحتیں فراہم کردیتی تو خاطر خواہ personal protective equipment کے انتظامات میں کمی نہیں ہوتی۔ اسی تعلق سے سپریم کورٹ کے مشہور وکیل پرشانت بھوشن بھی اظہارخیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ PPE کی کمی کیوں نہ ہو جبکہ فروری میں مرکزی حکومت کا پورا عملہ نمستے ٹرمپ میں لگا ہوا تھا۔آواز تو یہ بھی اٹھ رہی ہے کہ حکومت صرف تالی اور تھالی اور شمعیں روشن کرنے میں لگی ہے۔
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے!
تبلیغی جماعت اور جعلی خبریں!
بی جے پی کی خاتون ایم پی بھی کسی سے پیچھے نہیں
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں کسی شخص یا ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے جوہری ہتھیار یا عسکری قوت کی ضرورت نہیں بلکہ اب تو محض سوشیل میڈیا پر ’جعلی خبریں‘ ہی کافی ہیں اور فرضی خبریں پھیلانے میں عام وخاص سب شامل ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر جب تبلیغی جماعت کی بات ہوتی ہے تو مسلمانوں کے تئیں نفرت رکھنے والے دل مزید حسد کی آگ میں جلنے لگتے ہیں۔ بی جے پی رکن پارلیمان شوبھا کرندلاجے نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر تبلیغی جماعت کے تعلق سے ایک ویڈیو شیئر کیا، جس میں انہوں نے تبلیغی جماعت کے افراد پر ڈاکٹروں کے ساتھ بد سلوکی اور اور ہسپتال میں قابل اعتراض عمل کرنے کا الزام لگایا، شوبھا نے اس ویڈیو کو کرناٹک کے بیلگاوی کا بتایا لیکن Belagavi Institute of Medical Sciences کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ونے نے اس خبر کو یکسر مسترد کردیا، یہ وہی شوبھا کرندلاجے ہیں جنہوں نے پہلے بھی تبلیغی جماعت کے افراد کو کورونا جہاد سے تعبیر کیا تھا، دی نیوز منٹ کے مطابق شوبھا کرندلاجے قابل اعتراض بیانات اور جھوٹی خبریں پھیلاتے ہوئے کئی بار پکڑی جا چکی ہیں۔
’’جھوٹے لوگ جھوٹی باتیں‘‘
حیدرآباد: ونستھلی پورم میں نسل پرستی کے شکار 2 افراد!
پوری دنیا کورونا وائرس کے خلاف متحد ہوکر جنگ میں شامل ہے، پورا عالم ایک خاندان کی طرح یکجا ہوگیا ہے، ایک ملک دوسرے ملک کی مدد کے لیے تیار ہے لیکن ہمارے ملک میں ماجرا کچھ اور ہی ہے، یہاں بھی جنگ جاری ہے لیکن کورونا وائرس سے کم محبت والفت سے زیادہ۔ ہر جگہ تعصب کا سامان فراہم کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں حیدرآباد کے ونستھلی پورم علاقے میں واقع اسٹار نامی سپر مارکیٹ میں دو افراد کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی، ایسا اس وجہ سے ہوا کہ دونوں شکل و شباہت میں غیر ملکی لگ رہے تھے، ان دونوں نے لاکھ منت وسماجت کی، اپنے آدھار کارڈ بھی دکھائے مگر لاحاصل اور سب سے بڑی حیرت کی بات تو یہ تھی کہ قطار میں لگے لوگ بھی خاموش رہے، ان دونوں کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں تعصب وتنگ نظری نے گھر کر لیا ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم دو طرح کی بیماریوں سے لڑ رہے ہیں، ایک کورونا وائرس کی وبا سے اور دوسری نسل پرستی کے وائرس سے۔
نسل پرستی کے وائرس کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک!