ماہنامہ زندگی نو: فکری تحریک کا ذریعہ رپورٹ مذاکرہ ادارہ تحقیق وتصنیف علی گڑھ
محمد اشہد فلاحی
(ماہنامہ زندگی نو کے پیش نظر ملت اسلامیہ میں ایک فکری تحریک برپا کرنا بھی ہے۔ اس کے لیے توقع کی جاتی ہے کہ جہاں جہاں زندگی نو پہنچے وہاں اس کے چھیڑے ہوئے مباحث پر مباحثات ومطالعات کا سلسلہ شروع ہوجائے۔ الحمدللہ یہ سلسلہ بعض مقامات پر شروع ہوچکا ہے۔ ادارہ تحقیق وتصنیف علی گڑھ میں ہر ماہ زندگی نو کے منتخب مضامین پرعلمی مذاکرے کی نشست ہوتی ہے، ماہ اکتوبر کی نشست کی رپورٹ بطور نمونہ ذیل میں ذکر کی گئی ہے۔ بعض ریاستوں اور مقامات پرجماعت اسلامی ہند کے تربیتی اجتماعات میں زندگی نو کے مضامین پر حاصل مطالعہ کے پروگرام رکھے جاتے ہیں ۔ بارہمولہ کشمیر میں ادارہ فلاح دارین نے بھی زندگی نو کے مباحث پر گفتگو کو اپنی تربیتی کلاسوں کا مستقل حصہ بنایا ہے۔ہمیں قوی امید ہے کہ علمی وفکری گفتگو کا یہ سلسلہ دراز ہوتا جائے گا۔ ادارہ)
موجودہ زمانے میں مختلف اداروں، تنظیموں اور مدرسوں کی طرف سے وافر تعداد میں رسائل و مجلات شائع ہورہے ہیں، جن کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن ان سب کے درمیان ماہنامہ زندگی نو کو اس پہلو سے امتیازی مقام حاصل ہے کہ یہ رسالہ معاصر دنیا کے ابھرتے ہوئے جدید مسائل کو فکری و نظریاتی سطح پر ایڈریس کرنے کے ساتھ بدلتے ہوئے حالات میں فکر اسلامی کے احیا کا فریضہ بھی بخوبی انجام دے رہا ہے۔
ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی جس کے پیشِ نظر روزِ اول سے ہی زمانے کے جدید تقاضوں کے مطابق اسلامی لٹریچر کی تیاری کا عظیم پروجیکٹ ہے، اس نے رسالے کی اس خصوصیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور ادارہ کے موجودہ سکریٹری مولانا اشہد جمال ندوی صاحب نے یہ فیصلہ لیا کہ ادارہ میں رسالے کے مباحث کو رفقاء و اسکالرس کے مذاکرے کا موضوع بنایا جائے، جس سے جہاں ایک طرف ادارے سے وابستہ محققین کے لیے بحث و تحقیق کے نئے موضوعات سامنے آئیں گے وہیں یہ رسالہ ادارے میں زیر تربیت اسکالرس کے فکری افق کی توسیع اور مطلوبہ ذہن سازی میں بنیادی کردار بھی ادا کرے۔
چناں چہ گذشتہ مہینوں کی طرح اس ماہ بھی زندگی نو پر مذاکراتی نشست کا انعقاد کیا گیا۔ ماہ اکتوبر کا شمارہ گذشتہ مہینوں کے شماروں سے اس لحاظ سے مختلف اور زیاد غور و فکر کا مستحق رہا کہ اس میں تیونس کے ممتاز دانش ور ڈاکٹر منصف مرزوقی کے ذریعہ ہیومنزم، ترقی پسندی، جمہوریت، حقوقِ انسانی، نیشنلزم اور لبرلزم جیسے عالمی نظریات کا کووڈ کے مخصوص تناظر میں بہترین جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
نشست کی ابتدا میں سکریٹری ادارہ مولانا اشہد جمال ندوی نے رسالے پر مذاکرے کی اہمیت و افادیت پر مختلف پہلووں سے روشنی ڈالی بعد ازاں مذاکرے کا آغاز کرتے ہوئےڈاکٹر محی الدین غازی کے مضمون “اللہ کی مشیت ایمان کی زبرست طاقت عمل کی طاقت ور محرک ”پر برادر محمد طارق بدایونی نے، محترم ایس امین الحسن کے مضمون”یہ بھی شح نفس ہے“پر مولانا محمد انس مدنی نے، پروفیسر سید مسعود کے مضمون “قرآن کریم سے استفادہ: اکیس نکاتی چارٹر ” پر مولانا کمال اختر قاسمی نے اپنا تبصرہ پیش کیا۔
اس کے بعد عالمی نظریات کے خصوصی گوشے کا جائزہ لیا گیا جس میں ”ہیومنزم“ پر برادر شارق شہیدی نے، ”ترقی پسندی“ پر برادر انصار نے ”جمہوریت“ پر مولانا کمال اختر قاسمی صاحب نے اور ”لبرلزم“و ”حقوقِ انسانی“پر راقم (محمداشہد فلاحی)نے اپنے تبصرے پیش کیے۔
اس کے بعد محترم سید سعادت اللہ حسینی کے ایک اہم مضمون ” مابعد کووڈ منظر نامہ اور انسانی نظریات“(ڈاکٹر منصف مروزوقی کے اٹھائے ہوئے مباحث کی روشنی میں ) کا جائزہ لیا گیا جس پر شرکا میں سے ہر ایک نے یکے بعد دیگرے اظہارِ خیال کیا۔
آخر میں مذاکرے کی صدارت فرما رہے ادارہ کے سینیر رفیق مولانا محمدجرجیس کریمی صاحب نے اپنی صدارتی گفتگو میںزور دیا کہ موجودہ زمانے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اقدامی طور پر اسلام کو ایک نجات دہندہ نظریہ حیات کے طور پر پیش کرنے کے لیے تیار ہوں اور نہایت مضبوط، مدلل اور محکم دلائل کی بنیاد پر عالم انسانیت کو اسلامی نظریۂ حیات کی اہمیت، ضرورت اور ناگزیریت کا قائل کریں۔ظاہر ہے کہ یہ کام کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لیے ہم سب کو بہت زیادہ محنت اور تیاری کی ضرورت ہے۔■