لیبیا میں حفترکوشکست سے بچانے کے لیے روس حرکت میں
ترکی کے ہاتھوں پسپائی روکنے کے لیے MiG-29بمبار طیاروں سے خفیہ مدد !
مسعود ابدالی
امریکی فضائیہ نے انکشاف کیا ہے کہ روس جدید ترین MiG-29 بمبار لیبیا بھیج رہا ہے۔لیبیا ٹائمز کے مطابق امریکی فضائیہ کی افریقی کمان نے بتایا کہ مگ اور Sukhou-Su-24 طیارے لیبیا میں حفتر (LNA) کے زیر استعمال اڈے الجفرہ پہنچائے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے لیبیا کی فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ کم از کم 7 مگ طیارے روس سے براستہ شام لیبیا پہنچا دیے گئے ہیں۔ امریکی فضائیہ کا کہنا ہے کہ یہ طیارے روس سے شام پہنچائے گئے جہاں ان پر سے روسی فضائیہ کا نام اور علامتی نشان مٹا کر انہیں الجفرہ فوجی اڈے پر اترتے دیکھا گیا۔
صرف 75 لاکھ نفوس پر مشتمل شمالی افریقہ کا یہ ملک گزشتہ نو سال سے سیاسی عدم استحکام اور قبائلی جنگوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ اس بحران سے پہلے لیبیا کا شمار دنیا کے چند امیر ترین ملکوں میں ہوتا تھا۔ اسکے تپتے ہوئے صحراوں کے نیچے تیل کے چشمے ابل رہے ہیں۔ دنیا کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں یہاں تیل کے ذخائر بہت کم گہرائی پر پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے پیداواری لاگت خاصی کم ہے اور نکلنے والا خام تیل اس قدر صاف وشفاف ہے کہ اس کی صفائی پر خرچ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بد امنی سے پہلے لیبیا میں تیل کی یومیہ پیداوار بیس لاکھ بیرل تھی۔ دولت کی فراوانی کے ساتھ یہاں خواندگی کا تناسب بیاسی فیصد سے زیادہ تھا۔
دسمبر 2010 میں تیونس سے اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر المعروف ربیع العربی یا عرب اسپرنگ سے ساری عرب دنیا کی طرح لیبیا بھی متاثر ہوا اور فروری 2011 سے ملک کے طول وعرض میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ طاقت کے غیر ضروری استعمال نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور جواب میں مظاہرین بھی مسلح ہو گئے یا کر دیے گئے۔ کرنل قذافی نے مظاہرین سے نمٹنے کی ذمہ داری اپنے ایک معتمد کرنل خلیفہ ابو القاسم حفتر کو سونپ دی۔ انسانی حقوق کے حوالے سے کرنل حفتر کا ریکارڈ انتہائی داغ دار تھا۔ انہوں نے کرنل قذافی کے خلاف تحریک کو کچلنے کے لیے بھی وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کیے تاہم جیسے ہی انہیں اندازہ ہوا کہ قذافی اقتدار کی بنیادیں ہل چکی ہیں موصوف فوج سے استعفیٰ دے کر امریکہ چلے گئے۔ ادھر 20 اکتوبر 2011 کو کرنل قذافی ایک مسلح جتھے کے ہاتھوں مار دیے گئے۔
اس اچانک تبدیلی سے سارا نظام درہم برہم ہو گیا اور قبائلی سردار ایک دوسرے کے مد مقابل آگئے۔ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے کرنل حفتر نے 2011 کے اختتام پر لبیا واپس آ کر فوج کی نوکری دوبارہ شروع کر دی۔ وہ چیف آف اسٹاف بننا چاہتے تھے لیکن ان کی دال نہ گلی اور وہ واپس امریکہ چلے گئے جہاں کچھ عرصے بعد انہیں شہریت دے دی گئی۔
دوسری طرف فوج نے سیاسی عمل کی حمایت جاری رکھی۔ 7 جولائی 2012 کو پارلیمانی انتخابات ہوئے اور جرنیلوں کی عبوری کونسل نے اقتدار جنرل نیشنل کونسل (GNC) کو منتقل کر دیا۔ ابتدائی بندوبست کے مطابق GNC کا کلیدی کام نئے دستور کی تدوین اور اس کی بذریہ منتخب ریفرنڈم کی توثیق تھا۔ انتخابات کے فوراً بعد ملک میں بم دھماکے اور فرقہ وارانہ فساد شروع ہو گئے اور اسی کے ساتھ سیاسی جوڑ توڑ بلکہ خرید وفروخت کا بازار بھی گرم ہو گیا۔ نامزد وزیر اعظم مصطٖفے شکور اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام رہے جس کے بعد علی زیدان وزیر اعظم نامزد ہوئے لیکن ڈیڑھ سال بعد مارچ 2014 میں تیل اسمگلنگ کے اسکینڈل نے ان کی بساط لپیٹ دی اور عبداللہ الثانی وزیر اعظم منتخب کر لیے گئے۔
جون 2014 کو پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ اسمبلی کے پہلے اجلاس میں زبردست ہنگامہ ہوا۔ ارکان کے ایک گروپ نے اسمبلی کی عمارت پر قبضہ کر کے مخالفین کو نکال دیا۔ یہاں سے نکلے ہوئے ارکان نے مشرق میں مصر کی سرحد پر ساحلی شہر طبرق میں اسمبلی لگالی۔ متوازی اسمبلیوں نے اقتدار کے حصول کے لیے عسکریت پسندوں سے تعلقات استوار کر لیے اور یہیں سے لیبیا کی تباہی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔
سیاسی خلا اور عدم استحکام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک طرف داعش نے لیبیا میں نفوذ حاصل کرلیا تو دوسری طرف ملک کی خدمت کا جذبہ لیے خلیفہ حفتر امریکہ سے واپس آگئے۔ لیبیا واپس آتے ہی انہوں نے لیبیا نیشنل آرمی (LNA) کے نام سے اپنی ملیشیا بنالی اور آناً فاناً ملیشیا کو جدید ترین اسلحے سے لیس کر دیا گیا۔ بھاری مشاہرے پیش کرکے لیبیا کی فوج سے سینکڑوں افسران توڑ لیے گئے اور LNA کی میزائیل بردار کشتیوں نے خلیج صدرہ میں گشتیں لگانا شروع کر دیں۔ جلد ہی حفتر صاحب کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ’ترقی‘ دے دی گئی اور LNA نے ملک کے طول وعرض میں کارروائیاں شروع کر دیں۔ جنرل حفتر ملک کو درپیش اسلامی بنیاد پرستی کے مقابلے کے لیے سیکیولر نجات دہندہ بن کر آئے تھے چنانچہ طبرق اسمبلی نے حفتر ملیشیا کو گود لے لیا۔ 2015 کے آغاز میں مصری فضائیہ کے بمباروں نے طبرق اسمبلی کی حمایت میں داعش ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ قتل وغارت گری کے ساتھ بات چیت بھی جاری رہی۔
17 مارچ 2015 کو طرابلس اسمبلی، طبرق اسمبلی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے درمیان وفاق الوطنی یا GNA کے نام سے ایک وسیع البنیاد حکومت کا معاہدہ طئے پا گیا جس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر توثیق کر دی۔ بحث ومباحثے کے بعد وزیر اعظم کے لیے فائز السراج کے نام پر اتفاق ہو گیا۔ جنوری 2016 کو فائز السراج کی 17 رکنی کابینہ کا افتتاحی اجلاس تیونس میں ہوا اور اسی سال 30 مارچ کو فائز انتظامیہ نے طرابلس آکر اقتدار سبنھال لیا۔
ابتداہ میں جنرل حفتر نے فائز السراج کی حمایت کی لیکن ’فیلڈ مارشل‘کا اصرار تھا کہ انہیں فوج کا سربراہ یا وزیر دفاع بنایا جائے۔ حفتر صاحب اس وقت 74 برس کے تھے لہٰذا فوج کی سربراہی کی درخواست فوری مسترد کر دی گئی اور کابینہ میں ان کی شمولیت پر بھی سیاسی قوتوں میں اتفاق نہ ہو سکا۔ چنانچہ حفتر ملیشیا وفاق کے خلاف کھل کر میدان میں آگئی۔ حفتر ملیشیا کے لیے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے جدید ترین ڈرون اور تیز رفتار میزائل بردار کشتیاں خریدی ہیں جن کے استعمال کی تربیت جنرل السیسی فراہم کر رہے ہیں۔ وفاق الوطنی نے الزام لگایا ہے کہ سعودی عرب بھی حفتر کو مالی مدد فراہم کر رہا ہے اور بحر روم میں اسرائیل کے جہاز ڈرون کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اس سال 12 فروری کو سلامتی کونسل نے صفر کے مقابلے میں 14 ووٹوں سے ایک قرار داد منظور کرلی جس میں لیبیا کے تمام متحارب گروہوں کو فائز السراج کی اطاعت قبول کرنے اور فوری جنگ بندی کا حکم دیا گیا۔ تاہم سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے ساتھ سلامتی کونسل کے دو مستقل ارکان یعنی فرانس اور روس خود اپنے ہی فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حفتر کی دامے درمے قدمے سخنے مدد کر رہے ہیں۔
کرایے کے سپاہی فراہم کرنے والی روسی کمپنی ویگنر گروپ (Wagner Group) کے 1200 ماہر نشانچی بھی LNA کا حصہ ہیں۔ کہنے کو تو ویگنر ایک نجی سیکیورٹی کمپنی ہے جس کے مالک روسی صدر پوٹن کے قریبی دوست Yevgeny Prigozhim ہیں لیکن امریکی سی آئی آے کا خیال ہے کہ ویگنر روسی فوج کا چھاپہ مار دستہ ہے۔ یہ گروپ اس سے پہلے کریمیا، سوڈان اور موزمبیق میں دہشت گردی کرتا رہا ہے اور کئی سالوں سے شام میں سرگرم ہے۔ ویگنر کے علاوہ شامی فوج کے 200 گوریلے بھی حفتر ملیشیا کا حصہ ہیں۔ فرانسیسی بحریہ کے بحر روم میں تعینات جہاز مبینہ طور پر حفتر کی کشتیوں کو ایندھن فراہم کرنے کے علاوہ وفاق الوطنی کی نقل وحرکت کے بارے میں معلومات دے رہے ہیں۔
دوسری طرٖف ترکی حفتر ملیشیا کی آبی وفضائی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ڈرون، زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائیل اور دوسرا دفاعی سامان فراہم کر رہا ہے۔ ترکی سلامتی کونسل کی رضامندی سے GNA کو اعلانیہ مدد دے رہا ہے جبکہ روس اور فرانس اجلاسوں میں GNA کی حمایت کا وعدہ اور خفیہ طور پر LNA کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے وفاق الوطنی نے حفتر ملیشا پر اپنا دباؤ بڑھا دیا ہے۔ چند ہفتہ پہلے GNA نے حفتر ملیشیا کے خلاف کامیاب کارروائی کر کے تیونسی سرحد کے قریب ساحلی علاقے کا بڑا حصہ آزاد کر الیا۔اس کارروائی میں لیبیا کو ترک بحریہ کی حمایت حاصل تھی۔ ترکی کے جدید ترین ڈرون کی موثر کارروائی نے صبراتہ، صرمان، رقدالین، الجمیل اور زلطن سے حفتر ملیشیا کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔ ان علاقوں پر قبضے سے لیبیا کی Offshore تیل وگیس تنصیبات پر مرکزی حکومت کی گرفت مضبوط ہو گئی۔
دوسرے مرحلے میں GNA نے دارالحکومت طرابلس کے جنوب مغربی مضافاتی علاقے میں الوطیہ فوجی ہوائی اڈے پر زبردست حملہ کیا۔ الوطیہ کا ہوائی اڈہ حفتر ملیشیا کے قبضے میں تھا جہاں سے حفتر ملیشیا لیبیا کی فوج اور شہری علاقوں پر حملے کرتی تھی اور یہیں سے اسرائیل ساختہ جدید ترین ڈرون بھی اڑان بھرتے ہیں۔ الوطیہ پر حملے میں ترکی کے فراہم کردہ ہلاکت خیز میزائل بردار ڈرونز نے حفتر ملیشیا کی دفاعی لائن کو بھاری نقصان پہنچایا۔ الوطیہ پر روس کے Panstir طیارہ شکن میزائل نصب تھے۔ روس کے تعمیر کردہ بم پروف تہہ خانے میں Panstir کا کنٹرول سنٹر تھا اور یہیں پر اضافی میزائل بھی رکھے گئے تھے۔ ایشیا ٹائمز کے مطابق ترک ڈرون سے داغے جانے والے میزائلوں نے زبردست تباہی مچائی جس کے نتیجے میں تہہ خانے کی عمارت بیٹھ گئی تھی۔ وہاں ذخیرہ کیے گئے Panstir پھٹنے سے پوری عمارت دھماکے سے اُڑ گئی، اسی عمارت کی چھت پر لانچر نصب تھے۔
اس تباہی کے ساتھ حفتر ملیشیا کا سارا دفاعی نظام ملیا میٹ ہو گیا جس کے بعد لیبیا کی فوج نے تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے الوطیہ اور اس کے مضافاتی علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اس دوران بالکل درست حالت میں Panstir میزائلوں کی پوری کھیپ لیبیا کی فوج کے ہاتھ لگ گئی۔ اسی کے ساتھ ہی لیبیا کی فوج نے تیونس کی سرحد تک اپنی پوزیشن مضبوط کرلی اور پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے حفتر ملیشیا کو 150 کلو میٹر پیچھے دھکیل دیا جہاں بن ولید ایئر پورٹ کو حفتر نے اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے۔
آن لائن رسالے مڈل ایسٹ ائی (MEE) کے مطابق دارالحکومت طرابلس کے جنوب سے حفتر ملیشیا کی مدد کے لیے لڑنے والے ویگنر گروپ کے سپاہی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ پیسوں کے لیے لڑنے والے کرایے کے فوجی ہیں جو آخری سانس تک لڑنے پر یقین نہیں رکھتے۔ ویگنر سروسز کو خطرہ ہے کہ اگر ولید ایئر پورٹ پر گھرے ان کے سپاہیوں کی مدد کے لیے روسی فضائیہ میدان میں نہ اتری تو وہاں محصور ان کے 1200 سپاہیوں کی موت یقینی ہے۔
عسکری تجزیہ نگار خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ حفتر کو شکست سے بچانے کے لیے روس اب اپنی فضائیہ کو حرکت میں لا رہا ہے۔ چنانچہ حفتر فضائیہ کے سربراہ سقر الجروشی نے دھمکی دی ہے کہ جلد ہی بمباری کی ایسی مہم کا آغاز ہوگا جس کا اس سے پہلے کبھی مشاہدہ نہیں کیا گیا۔حفتر ملیشیا شام، یوکرین اور روسی کرایے کے فوجیوں پر مشتمل ہے جنہیں مگ یا میراج اڑانے کا تجربہ نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان طیاروں کو روسی فضائیہ کے پائلٹ اڑائیں گے یعنی اب روس اس جنگ میں براہ راست ملوث ہونے کا ارادہ رکھتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، روس اور فرانس لیبیا کو غیر مستحکم کرنے کے لیے اتنے پرعزم کیوں ہیں۔ اس سوال کا درست جواب کسی کو نہیں معلوم۔ ہر ملک اس معاملے کو اپنے مفادات کی عینک سے دیکھ رہا ہے۔
مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ترکی اور اخوان سے عداوت میں GNA کی مخالفت کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم فائز السراج، اخوان کے بارے میں معاندانہ رویہ نہیں رکھتے۔ لیبیا میں عوامی سطح پر اخوان کی سیاسی جماعت تعمیر وانصاف پارٹی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ گزشتہ سات آٹھ سالوں کی خانہ جنگی کی بنا پر لیبیا کے لوگ معاشی طور پر بے حد پریشان ہیں جبکہ ساری عرب دنیا کی طرح لیبیا میں بھی سماجی خدمت اخوان کا طرہ امتیاز ہے۔ اخوانیوں نے گلی محلے کی سطح پر امداد باہمی مراکز قائم کر رکھے ہیں جس کی وجہ سے عام لوگ اخوان کے بارے میں اچھے جذبات رکھتے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکال لینا قبل از وقت ہوگا کہ آئندہ انتخابات میں تعمیر وانصاف پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی لیکن عوامی پزیرائی کی بنا پر بلدیاتی وانتظامی سطح پر اخوان یقیناً ایک موثر کردار ادا کریں گے اور منتخب نمائندوں کے لیے اخوان کو نظر انداز کرنا آسان نہ ہوگا۔ تیونس اور مراقش میں اخوانی پہلے ہی شریکِ اقتدار ہیں۔ الجزائر میں بھی ان کے اثرات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ جنرل السیسی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بدترین تشدد اور قید وبند کی صعوبتوں کے باوجود خود ان کے ملک میں اخوان ایک مقبول عوامی قوت ہیں۔ دوسری طرف شمال میں ترکی موجود ہے یعنی بحر روم کے شمال اور جنوب دونوں جانب اسلامی قوتیں خاصی موثر ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران بحر روم میں ترکی بحریہ نے بھی اپنی قوت میں خاصہ اضافہ کرلیا ہے۔ جنرل السیسی، اسرائیل، سعودی عرب اور امارات کی طرح روس اور فرانس کو بھی بحرروم میں ترکی کے بڑھتے ہوئے اثرات اور شمالی افریقہ میں ‘ بنیاد پرستوں’ کی سیاسی کامیابیوں پر تشویش ہے۔ روس کو تو اسلام سے براہ راست کوئی پریشانی نہیں ہے لیکن کریملن کو اسلام پسندوں کے اثرات بڑھنے سے شام کے تنہا اور دیوار سے لگ جانے کا خوف ہے۔
فرانس اور روس کے لیے یہ سیاہ وسفید یعنی بحر اسود اور بحر ابیض (بحر روم) پر کنٹرول کا معاملہ ہے۔ جغرافیے کے ایک جائزے سے معاملے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
بحر اسود، یوکرین، جارجیا، رومانیا اور بلغاریہ کے لیے بحری حمل ونقل کا واحد ذریعہ ہے مگر مشکل یہ ہے کہ بحر اسود چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہواہے اور کھلے سمندر تک اس کی رسائی نہیں ہے۔ استنبول کے قریب آبنائے باسفورس اسے بحر مرمارا سے ملاتی ہے یہ دنیا کی تنگ ترین آبنائے ہے جس کی چوڑائی صرف سات سو میٹر ہے۔ بحر مرمارا بھی خشکیوں سے گھرا سمندر ہے جسے ترک پیار سے نہر استنبول کہتے ہیں۔ بحر مرمارا دراصل ایشیا اور یورپ کی سرحد ہے۔ آبنائے ڈرڈانیلس DardanellesStrait آبنائے بحر مرمارا کو خلیج یونان سے ملاتی ہے جو بحر روم کا حصہ ہے۔ گویا سارا مشرقی یورپ آبی حمل ونقل کے لیے ترکی کا محتاج ہے جس کی حدود میں واقع دو آبی راستے بحر اسود کو بحر روم تک رسائی دیتے ہیں۔ یہ راستے اس قدر تنگ ہیں کہ انہیں بند کر دینا بہت مشکل نہیں ہے اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ترکی آبنائے باسفورس کو بند کرنے کی دھمکی دے کر روس کو ملک پر بمباری سے باز رکھ چکا ہے۔
آب آتے ہیں بحر روم کی طرف تو یہ بھی اپنی وسعتوں کے باوجود خشکیوں سے گھرا ہوا ہے اور یہا ں سے باہر نکلنے کے دو ہی راستے ہیں ایک مراقش اور اسپین کے درمیان آبنائے جبل الطارق جو اسے بحر اوقیانوس تک رسائی دیتا ہے اور دوسرا راستہ مصر کی نہر سوئز سے گزرتا ہے جو بحر احمر میں کھلتا ہے۔ ایک سو ترانوے کیلو میٹر طویل نہر سوئز 1869میں کھودی گئی تھی اس کی چوڑائی 205 میٹر ہے۔ یہ مصنوعی نہر مصر کی ملکیت ہے اور قاھرہ کو اس پر مکمل اختیار حاصل ہے۔ اور پھر معاملہ نہر سوئز پر ہی ختم نہیں ہو جاتا کہ بحر احمر سے کھلے پانیوں تک رسائی آبنائے باب المندب سے ہوتی ہے جو یمن اور جبوتی کے درمیان واقع ہے۔
بحر روم کے علاوہ اسرائیل کے لیے دوسرا راستہ خلیج عقبہ کا ہے۔ یہاں سے اسرائیلی جہاز شرم الشیخ کے قریب انتہائی تنگ سی گزرگاہ سے ہوتے ہوئے بحر احمر کے ذریعے بحر عرب کے کھلے پانیوں میں داخل ہوتے ہیں۔ خلیج عقبہ اور اس کے بعد بحر احمر سے بحر عرب تک کا سارا راستہ مسلم ساحلوں کو چھوتا ہوا نظر آتا ہے اور بحر عرب سے پہلے انہیں باب المندب کے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے۔
شمالی افریقہ اور بحر روم کے حوالے سے اسرائیل اور یورپ ومغرب کی فکر مندی بہت واضح ہے اور اس کا تعلق صرف تیل سے نہیں بلکہ آبی شاہراہوں کے حوالے سے نیٹو، امریکہ اور اسرائیل اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہیں۔ ہمارے خیال میں تو یہ خوف غیر ضروری وخود ساختہ ہے لیکن مغربی دانشور زیب داستاں کے لیے مفروضے کی بنیاد پر تراشی گئی اس تشویش کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شمالی افریقہ میں ترکی کی ہم خیال حکومتیں بن جانے سے یورپ کا بڑا حصہ متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بحر اسود، بحر روم، بحر احمر، خلیج عقبہ اور خلیج عرب و خلیج فارس میں آزاد جہاز رانی مخدوش ہو جائے گی۔ بے بنیاد خوف اور انجانے خدشات پر پہلے الجزائر کو خون میں نہلا دیا گیا، پھر ہزاروں مصری موت کے گھاٹ اتار دیے گئے اور اب لیبیا کے لوگوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔
(آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم
masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر
Masood@MasoodAbdaliپر بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔)
حفتر ملیشیا کے لیے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے جدید ترین ڈرون اور تیز رفتار میزائل بردار کشتیاں خریدی ہیں جن کے استعمال کی تربیت جنرل السیسی فراہم کر رہے ہیں۔