’لوگ حقیقى سید قطب سے ناواقف ہیں‘
قرآن کی عصری تفہیم اہم کارنامہ۔ وہ مفکر ہی نہیں میدان ادب کے شہسواربھی تھے
رضوان احمد فلاحى
فی ظلال القرآن کے انگریزی مترجم ڈاکٹر عادل صلاحی کے تاثرات
ڈاكٹر عادل صلاحى شامى نژاد مصنف اور مترجم ہىں اور عرصہ دراز سے برطانىہ مىں مقىم ہىں۔ آپ نے مصرى اور برطانوى یونیورسٹیوں سے انگرىزى ادبىات اور ترجمہ نگارى كى اعلىٰ تعلىم حاصل كى ہے۔ آپ كا عظىم الشان كارنامہ سىد قطب شہىد كى شہرہ آفاق تفسىر قرآن ’فى ظلال القرآن‘ كا انگلش مىں ترجمہ ہے جسے اسلامك فاؤنڈىشن، لىسٹر نے 18 جلدوں مىں شائع كىا ہے۔آپ كى 850 صفحات پر مشتمل معروف تصنىف Muhammad: Man and Prophet ہے جس كے اب تك نو اىڈىشن شائع ہوچكے ہىں۔ اور بعض دىگر زبانوں مىں اس كا ترجمہ بھى ہوا ہے۔ اس كے علاوہ ان اىك اور تصنىف Pioneers of Islamic Scholarship ہے جو اىك درجن مشہور فقہاء وعلماء كے تذكرے پر مشتمل ہے۔
www.islam21c.com كے جناب سلمان بٹ نے 29/ اگست 2020 كو موصوف سے سىد قطب (ش: 29 /اگست 1966) كے بارے مىں اىك انٹروىو لىا جو اسى دن نشر ہوا تھا۔ ڈاكٹر صلاحى كى اجازت سےاس كا اردو ترجمہ پىش کیا جا رہا ہے ۔ (رضوان فلاحی)
اىك بہت اہم شخصىت ہمارے ساتھ ہے۔ آپ ہىں ڈاكٹر عادل صلاحى۔ موصوف اىك ممتاز مصنف اور مترجم ہىں۔ ان كى اىك معروف كتاب ہے Muhammad (pbuh): Man and Prophet ۔ آپ سىد قطب رحمۃ اللہ علىہ كى مشہور زمانہ تفسىر "فى ظلال القرآن” كے انگلش مترجم ہىں۔ ىہ ترجمہ 18 جلدوں مىں شائع ہوا ہے۔
السلام علىكم۔ ہم آپ كے شكرگزار ہىں كہ آپ نے اپنى مصروفىات مىں سے وقت نكا ل كر ملاقات اور گفتگو كا موقع عناىت فرماىا۔ آپ نے بتاىا تھا كہ ان دنوں آپ ترجمے كے كام مىں بہت مصروف ہىں۔
مىں اس وقت ترجمہ نہىں بلكہ تصنىفى كام مىں مصروف ہوں۔ وقت بہت كم ہے اور كام بہت زىادہ ہے۔ كسى كو نہىں معلوم كہ كس كے پاس كتنا وقت ہے۔
آج كے دن آپ سے گفتگو كى اىك خاص وجہ ىہ ہے كہ آج 29 /اگست (2020) ہے اور ىہ تارىخ سىد قطب كى شہادت كا دن ہے۔ ان كى شہادت پر آج 54سال پورے ہوجائىں گے۔سىد قطب اىك بہت بااثر مفكر ہىں۔ بىسوىں صدى كے اىك نہاىت اہم اسلامى مفكر۔ مىں شہىد كى شخصىت پر آج آپ سے گفتگو كروں گا كىونكہ ان پر گفتگو كرنے كے لىے آپ سے بہتر كوئى شخصىت نہىں جن كى شہىد سے نہ صرف ملاقاتىں رہىں بلكہ ان كى تحرىروں كے توسط سے گہرے تعلقات بھى رہے ، بالخصوص فى ظلال القرآن كا انگلش ترجمہ آپ كا اىك بڑا كارنامہ ہے۔مىں آپ سے ان كے بارے مىں كچھ سوالات كرنا چاہوں گا۔ شہىد كى تحرىك اور ان كى شخصىت كو لوگ مختلف زاوىوں سے دىكھتے ہىں۔ كچھ وہ ہىں جو ان سے محبت كرتے ہىں اور كچھ وہ جو ناپسند كرتے ہىں۔ مىرا سوال ہے كہ حقىقى سىد قطب كون تھے؟
آپ نے جو کہا ہے، سوال كا جواب دىنے سے پہلے، مىں اس پر اىك تبصرہ كرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے كہا كہ كچھ وہ ہىں جو انہىں ناپسند كرتے ہىں۔ اس پر مىں ىہ كہنا چاہوں گا كہ
جس شخص نے بھى واقعى سىد قطب كى اسلامى تحرىرىں پڑھى ہوں، فى ظلال القرآن ىا قرآنىات پر ان كى دىگر تحرىرىں، وہ سىد قطب كو ان كى تحرىروں كے توسط سے جان سكتا ہے۔ کچھ لوگوں كا خیال ہے كہ ان کی آخری تصنیف "معالم فی الطریق” انتہا پسندی کی بنىاد بنى ہے۔ اگر ہم ان کی وہ کتاب پڑھىں اور ان کی دیگر تحریریں بھی پڑھیں، اگر ہم "معالم” کا تجزیہ کریں تو پتہ چلتا ہے كہ سىد كا قلم بے حد توانا تھا۔انہىں لفظوں كے برتنے كا بہترىن سلىقہ آتا تھا۔ اگر آپ ان کی اسلام پر لکھی گئی شروع کی کتابیں پڑھىں تو آپ کى ملاقات حقىقى سىد قطب سے ہوگى۔ سید کا علمى سفر حیات بڑا طوىل تھا، گو انہىں عمرفانى كے صرف ساٹھ سال ہى ملے۔ وہ ادبیات سے قرآن اور اسلام كى طرف آئے تھے۔ وہ اىك ادبى شخصىت تھے، ادیب تھے، شاعر تھے، ناول نگار تھے، مضامین نگار (essayist)تھے۔
میں نے كہیں پڑھا ہے كہ ان كے تحرىر كردہ مضامىن كى تعداد 380 سے كچھ زائدہے۔
نہىں، ىہ تعداد صرف اتنى ہى نہىں ہے۔ صرف "فى ظلال القرآن” كا انگلش ترجمہ سات ہزار صفحات پر مشتمل ہے، جب كہ اصل عربى متن جو بڑے سائز پر ہے، اس كے صفحات كى تعداد چار ہزار ہے۔ وہ بہترىن شاعر تھے، انہوں نے چند ناول بھى تحرىر كىے، دىگر چىزىں بھى لكھىں۔ ان كى تحرىروں مىں ان كے قلم كى توانائى بھرپور انداز سےنماىاں ہے۔
وہ ہر ہفتے تین مضامین لکھتے تھے جو تین مختلف جرائد مىں شائع ہوتے تھے۔ ىہ دور ملوكىت كى بات ہے فوجى انقلاب سے پہلے كى۔ ہر مضمون كى اشاعت كے بعد انہىں انٹلىجنس والے طلب كرتے، مضمون كے بارے مىں پوچھ گچھ كرتے۔ اس زمانے مىں بہرحال قانون كى پاسدارى كى جاتى تھى۔ پوچھ گچھ كے بعد انہىں گھر جانے كى اجازت دے دى جاتى تھى، كىونكہ تفتىشى افسران اس حىص بىص مىں رہتے كہ مضمون مىں كوئى قانونى سقم نہ ہونے كى وجہ سے بھلا وہ كس جرم كى پاداش مىں انہىں گرفتار كرىں۔لہذا حكومت نے ان سے جان چھڑانے كے لىے انہىں بغرض تعلىم امرىكہ بھىج دىا اس امىد پر كہ وہ وہاں جاكر مصرى سىاست وغىرہ كو بھول جائىں گے۔ دراصل ان کے مضامین ایک عام آدمی کے خیالات و احساسات کی بازگشت ہوا کرتے تھے ، اس وجہ سے لوگوں کا خیال تھا كہ وہ سوشلسٹ یا كمىونسٹ تھے۔ لىكن حقىقتاً اىسا نہىں تھا۔ وہ ایک حساس ادبی شخصیت تھے جو اپنے لوگوں کے دکھ درد کو سمجھتے تھے، اس كے ترجمان تھے اور اس كا اظہار وہ اپنے توانا قلم سے كرتے تھے۔ یہ ہىں شروع کے زمانے کے سید قطب اسلامی فكر کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے كے سید قطب۔
ان كے ناقدىن كا كہنا ہے كہ جب وہ امریکا گئے اور امرىكى معاشرے كو قرىب سے دىكھنے كے بعد انہیں اس سے گھن آنے لگی تو ان کے خیالات میں انقلابی تبدیلی پیدا ہوئی اور وہ radicalised ہوگئے پھر اس كے بعد ہى ان كى تحرىروں مىں انتہاپسندى اور جنگجوئىت آگئى اور ان كى توجہ سىاسى نظرىہ اسلامى (Islamist ideology) كى طرف ہوگئى۔ اور وہ Islamism اور Islamists(اسلامىىن) كے سرپرست قرار پائے۔Philosopher of Terrorism قراردىے گئے۔ دہشت گردى كو فروغ دىا، اسامہ بن لادن ان سے متاثر ہوئے وغىرہ وغىرہ۔
موجودہ نام نہاد دہشت گردى كے خلاف جنگ كے تناظر مىں سىد قطب مىں دلچسپى اىك بار پھر بڑھ گئى ہے۔ انہىں terrorism اور counter-terrorism كى عىنك سے دىكھا جارہا ہے۔اس پر آپ كا كىا تبصرہ ہے؟
دہشت گردى كے خلاف جو جنگ ہے وہ سوائے جھوٹ كے اور كچھ نہىں۔ سوال ىہ ہے كہ آخر دہشت گردى كى كوئى متعىن اور متفق علىہ تعرىف كىوں نہىں ہے۔ ىہ امرىكہ ہے جو دہشت گردى كى اىك متعىن اور قابل قبول تعرىف كا، جو اقوام متحدہ اور سلامتى كونسل كے نزدىك تسلىم شدہ ہو، مخالف ہے۔ وہ دہشت گردى كى متعىن تعرىف چاہتا ہى نہىں ہے۔
ہاں كىونكہ اگر وہ كوئى متعىن تعرىف قبول كرلىتا ہے تو اسے اپنے آپ ہى كو متہم كرنا پڑے گا۔
ظاہر ہے، اگر وہ متعىن كردہ تعرىف قبول كرلے تو اسے اس كا پابند ہونا پڑے گا اور پھر جو كچھ وہ كررہا ہے نہىں كرسكے گا۔ واقعہ ىہ ہے كہ سىد قطب نے اىك جملہ بھى اىسا نہىں لكھا ہے جسے دہشت گردى كے دفاع سے تعبىر كىا جاسكے۔اىك جملہ بھى اىسا نہىں ہے۔ مىں چىلنج كرتا ہوں۔ مىں نے "فى ظلال القرآن” كا انگلش مىں ترجمہ كىا ہے۔ اور اىك مترجم اصل متن كو جتنى بارىك بىنى سے پڑھتا ہے كوئى دوسرا نہىں پڑھتا كىونكہ اسےدوسرے كے خىالات كى من وعن ترجمانى كرنى ہوتى ہے۔ جو كچھ مىں كہہ رہا ہوں ىہ محض مىرى رائے نہىں ہے۔ مىرى سىد سے رو در رو دو ملاقاتىں ہوئى ہىں۔ ہر ملاقات ڈھائى گھنٹے كى تھى ۔اس مىں مىں نے ان كے فلسفے اور اسلام اور اسلامى تحرىكات كے مستقبل كے بارے مىں ان كے خىالات جاننا چاہے۔اس ملاقات مىں انہوں نے مجھ سے جو باتىں كہىں انہىں جان كر اىك شخص كو تعجب ہوگا كہ آخر كس بنىاد پرانہىں جنگجوئىت كا حامل اور دہشت گردى كا حامى قرار دىا جارہا ہے۔
انہوں نے تعلىم، اسلامى تعلىم كى ضرورت پر بے حد زور دىا۔جس كى بنىاد اسلام كے مكمل فہم پر ہو۔انہوں نے كہا كہ اس كے لىے ہمارے پاس اىك پروگرام ہے جسے ہم نے جىل مىں اور جىل كے باہر نافذ كىا ہے۔ ىہ دوسالہ پروگرام اسلا م كے جامع مطالعہ پر مبنى ہے۔ انہوں نے "معالم فى الطرىق” مىں لكھا ہے كہ محض اىك آمر كو بدل دىنے سے كىا ہوگا۔ اىك جائے گا دوسرا آجائے گا۔ اور بعىنہ ىہى ہورہا ہے۔ انہوں نے كہا كہ بازنطىنى ىا اىرانى آمرىت كو اسلام كے نظام عدل سے بدلا گىا۔ صحابہ كا ىہى مشن تھا۔ ربعى بن عامر سے رستم نے سوال كىا كہ تم لوگ ىہاں كىوں آئے ہوں؟ انہوں نے اسے انسانىت كى آزادى كا پىغام دىا، نہ كہ زمین كى آزادى كا اور كہا كہ ہم انسانوں کو جھوٹے خداؤں کی عبادت سے نکال کر ان كے گلے مىں صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کا قلادہ ڈالنے آئے ہیں ، انہىں ادىان كے مظالم سے نكال كر اسلام كے نظام عدل كے سائے مىں لانا چاہتے ہىں، اس دنىا كى تنگنائىوں سے نكال كر آخرت كى وسعتوں كى جانب لے جانا چاہتے ہىں۔ سىد قطب نے ىہى بات لكھى ہے ۔ شاہراہ اسلام پر ان كا سفر امرىكہ جانے سے پہلے ہى سے شروع ہوگىا تھا۔ انہوں نے قرآن پر ادبى نقطہ نظر سے لكھا اور اىك نظرىہ پىش كىا جس كى طرف اس سے پہلے توجہ نہىں دى گئى تھى۔ ان کی کتاب التصویر الفنی فی القرآن میں ىہ موجودہے۔ اسے انہوں نے امرىكہ جانے سے قبل 1940 مىں لكھا تھا۔ میں سمجھتا ہوں كہ قرآن اور قرآنى اسلوب پر اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں لكھى گئى ۔ ماضى مىں لوگوں نے قرآن كے اعجاز (inimitability) پر لكھا ہے۔ خود عبدالقادر جرجانی کی کتاب ہے دلائل الاعجاز۔ اعجاز كے مختلف پہلو اس میں بىان كىے گئے ہىں۔ اىك اور مصنف ہىں مصطفی صادق الرافعی۔ ىہ بىسوىں صدى كے آغاز مىں اسلامى نظرىہ كے نقىب تھے۔ ان كا انتقال 1937 میں ہوا۔ وہ تىس سال كى عمر مىں بہرے ہوگئے تھے۔ انہوں نے قرآن كا اعجاز اس كى موسىقىت مىں تلاش كىا ہے۔ دلچسپ بات ہے كہ اىك سننے كى صلاحىت سے محروم مصنف قرآن كى موسىقىت كى بابت لكھ رہا ہے كہ وہ اس كے اعجاز كا پہلو ہے۔
سىد قطب نے مختلف بات کہی ہے۔ انہوں نے كہا کہ قرآن اپنے حروف والفاظ سے تصوىر كشى اور منظر کشی کرتا ہے۔ جب ہم اسے پڑھتے ہىں تو ہمارے سامنے پورا منظر ہوتا ہے۔ اتنا ہى نہىں بلكہ ہر منظر كا رنگ اور حركت بھى ہمارے سامنے ہوتى ہىں۔ اس وجہ سے ىہ شاعرى نہىں ہے بلكہ اس سے كہىں عظىم تر چىز ہے۔ ىہ عظىم ترىن ادبى شاہ كار ہے۔ جب آپ قرآن پڑھتےہىں تو وہ آپ كو اس سے كہىں زىادہ دىتا ہے جو آپ كے سامنے ہے ۔ ىہ بات مىں التصوىر الفنى فى القرآن كے بارے مىں كہہ رہا ہوں۔پھر چند سال كے بعد انہوں نے وہ كتاب لكھى جس مىں ان اصولوں كو برتا گىا، وہ كتاب ہے مشاہدالقىامۃ فى القرآن۔ مىں نے التصوىر الفنى كے انگلش ترجمہ كا ارادہ كىا۔ لىكن واقعہ ىہ ہے كہ اس كا ترجمہ ممكن نہىں، حالاں كہ مىں اىك بہت سىنئر اور منجھا ہوا مترجم ہوں ۔لىكن كتاب كا ترجمہ كرنا ممكن نہىں۔
مىرے خىال مىں اس كے لىے ہر شخص كو عربى پڑھنى چاہىے۔
اس موضوع پر عربى مىں اىك اور كتاب ہے، النبأ العظىم، مصنف ہىں محمد عبد اللہ دراز۔ اس كا مىں نے انگلش مىں ترجمہ كىا ہے ، The Qur’an and its Eternal Challenge۔ بہت عمدہ كتاب ہے، مختصر لىكن زبردست۔
آپ نے كس وجہ سے متعدد جلدوں پر مشتمل "فى ظلال القرآن” كے انگلش ترجمے كا بىڑا اٹھاىا اور اسے مكمل كردىا۔
كسى كتاب سے لگاؤ اور اس كے متن سے دلچسپى كى مختلف سطحىں ہوتى ہىں۔ تاہم ترجمہ كرنا اىك بالكل مختلف فن ہے جس كے اثرات لازمى پڑتے ہىں۔
مىں بتا چكا ہوں كہ سىد قطب سے مىرى دو ملاقاتىں ہوئى تھىں۔ ىہ 1964 كى بات ہے جب مىں بغرض تعلىم برطانىہ آنے والا تھا۔ ىہ دونوں ملاقاتىں مىرے لىے اىك خاص قسم كا تجربہ تھىں۔ مىں مصرى نہىں شامى ہوں۔ تاہم مىرى تعلىم مصر مىں ،مصرى ىونىورسٹى مىں ہوئى ہے ۔ 1962 مىں اپنى تعلىم مكمل كركے مىں شام واپس چلا كىا۔ پھر پوسٹ گرىجوىشن كے لىے مىں نے برطانىہ آنے كا قصد كىا۔ مىرا مضمون انگلش ادبىات اور ترجمہ نگارى تھا۔ مصر مىں مىں نے اسى كى تعلىم حاصل كى تھى۔ مىرا سفر بحرى جہاز سے ہوا۔ مجھے پہلے مصر جانا تھا جہاں مىرى مادر علمى تھى، دوست واحباب سے ملاقات بھى كرنى تھى۔ سىد قطب تك پہنچانے كے لىے مجھے اىك زبانى پىغام بھى دىا گىا تھا۔ مصر پہنچ كر مىں نے ان سے ملاقات كرنى چاہى تو پتہ چلا كہ ملاقات تو ہوجائے گى، لىكن ان دنوں سىد قطب قاہرہ مىں نہىں بلكہ ساحلى شہر راس البر مىں ہىں جہاں كوچ كے ذرىعہ دو گھنٹوں مىں پہنچا جاسكتا ہے۔ كوچ دس بجے اور پھر بارہ بجے جاتى تھى۔ اگر مىں دس والى سے جاؤں تو ملاقات بہ آسانى ہوجائے گى۔ مىں كوچ اسٹىشن گىا تو پتہ چلا كہ دس والى كوچ كىنسل ہوگئى ہے اور اب بارہ والى ملے گى۔چونكہ وہ پہلى كوچ سے مىرى آمد كے منتظر تھے اور مىں پہنچ نہىں سكا تھا، وہ جائے ملاقات سے چلے گئے۔ خىر مىں ان كے گھر پہنچا، دستك دى، اىك بار، دوسرى بار اور پھر تىسرى بار۔ تىسرى دستك پر گھر كے پچھواڑے سے اىك ادھىڑ عمر كى خاتون برآمد ہوئى،چالىس پچاس سال كى اىك گھرىلو ملازمہ، اس نے پوچھا كىا بات ہے؟
آگے بڑھنے سے قبل مىں ىہ بتادوں كہ مىں مصرى معاشرتى آداب و رسوم سے زىادہ واقف نہىں تھا۔ اور نہ ىہ معلوم تھا كہ ملازمىن لوگوں كا كس طرح سے نام لىتے ہىں۔عام طور سے "پاشا” ىا "بىہ” ناموں كے ساتھ استعمال ہوتا تھا جس مىں ادب واحترام تھا۔ مىں نے كہا مجھے استاد سىد سے ملنا ہے۔اس نے كہا معاف كىجىے، وہ ىہاں نہىں ہىں۔ وہ ساحل كى طرف گئے ہىں، وہاں آپ كى ملاقات ان سے ضرور ہوجائے گى كىونكہ وہ اپنى بہنوں كے ساتھ ہىں جو پورى طرح ملبوس ہىں۔ وہاں آپ كو برادر سىد ضرور مل جائىں گے۔ ملازمہ بجائے اس كے كہ "سىد پاشا” ىا "سىد بىہ” ىا "سرسىد” كہتى، اس نے برادر سىد كہا، اس سے پتہ چلتا ہے كہ جس چىز كى تلقىن سىد قطب كرتے رہے اس پر وہ خود بھى عمل پىرا رہے۔
خىر، مىں ساحل پر پہنچا۔وہاں اور لوگ بھى تھے، اور اسلامى لباس مىں ملبوس چندخواتىن بھى تھىں۔ آپ جانتے ہىں كہ ساحلوں پر لوگ بالعموم تىراكى كے لباس مىں ہوتے ہىں۔ ان دنوں مصر مىں حجاب كا رواج نہىں تھا۔ ىونىورسٹى كے چار سالہ دور طالب علمى مىں مىں نے كہىں حجاب نہىں دىكھا۔ اس مدت مىں مىں نے صرف چھ خواتىن كو باحجاب دىكھا۔خىر مىں سىد قطب كى طرف بڑھا، وہ لپك كر مىرى طرف بڑھے اور تاخىر كى وجہ معلوم كى۔ پھر ہم گھر واپس آئے اور ہمارى ملاقات ڈھائى گھنٹے تك جارى رہى۔واپسى پر انہوں نے كہا كہ اگر تمہارا واپسى كا سفر مؤخر ہوجائےتو پھر آنا۔ لہذا مىں نے اىك اور ملاقات كى غرض سے اپنا واپسى كا سفر مؤخر كردىا۔واقعہ ىہ ہے كہ ان دو ملاقاتوں كا مجھ پر بہت اثر پڑا۔ اس سے پہلے مىں نے ان كى صرف چند كتابىں ہى پڑھى تھىں۔
29 /اگست 1966 كو انہىں تختہ دار پر چڑھا دىا گىا اور اس طرح انہىں جام شہادت نوش كرنے كى سعادت حاصل ہوئى۔ اللہ ان پر رحمتوں كى بارش فرمائے۔ اس دن صبح كے وقت مىں بىروت مىں تھا۔ مىں نے اىك ناصر حامى اخبار مىں ان كى اىك شائع شدہ تصوىر دىكھى جو پھانسى كى سزا سنانے كے بعد عدالت سے انہىں واپس قىدخانے لے جاتے ہوئے لى گئى تھى۔ سبحان اللہ! كىا مسكراتا ہوا چہرہ تھا، خوشى سے دمكتا ہوا! اخبار مىں لكھا تھا كہ كسى نے شہىد سے سوال كىا كہ عدالت نے كىا فىصلہ دىا، انہوں نے جواب دىا: شہادت۔ اللہ اكبر۔ اسى دن مىں بىروت سے دمشق كے لىے روانہ ہوا۔ سفر ٹىكسى سے ہوا جس مىں اور بھى مسافر تھے۔ ٹىكسى كے رىڈىو سے رىڈىو اسرائىل كى نشرىات جارى تھىں۔ رىڈىو اسرائىل سىد قطب كى پھانسى دىے جانے كى خبر دے رہا تھا۔ وہ كہہ رہا تھا كہ سىد قطب وہ مصنف ہىں جن كى كتابوں كا دنىا كى كئى زبانوں مىں ترجمہ ہوچكا ہے۔ واقعہ ىہ ہے كہ اسے سن كر مجھے بہت تكلىف ہوئى، بہت ہى تكلىف۔ گوىا اسرائىل ہم سے ىہ كہہ رہا تھا كہ تم عرب اپنے سوچنے والے مفكرىن كو جو تمہىں ذہنى غذا بہم پہنچا رہے ہىں، موت كے گھاٹ اتار رہے ہو ۔ تو اے عربو! سىد قطب جىسى شخصىات كو موت كے گھاٹ اتار كر تم ہمارى بڑى خدمت كررہے ہو۔ ىہ تھے مىرے احساسات۔وہ جمعرات كا دن تھا۔ اس سے اگلى جمعرات كو مىں عصر كى نماز پڑھ كر آىا تو ذرا دىر كے لىے مىرى آنكھ لگ گئى۔ مىں نے خواب مىں دىكھا كہ سىد قطب مجھ سے كہہ رہے ہىں كہ عادل!پاكستانىوں كو "فى ظلال القرآن” كى ضرورت ہے۔ سبحان اللہ۔ پاكستانىوں سے ان كى مراد برطانىہ مىں مقىم پاك وہند كے مسلمان تھے۔ كىونكہ اس زمانے مىں بالعموم مسلمان برصغىر ہى سے آئے تھے، دوسرى جگہوں سے بعد مىں آئے تھے۔ پاكستانى مسلمان سے ان كى مراد انگلش بولنے والے مسلمان تھے۔خىر ان كے قول كى تعبىر مىرے نزدىك ىہ تھى كہ برصغىر سے آئے ہوئے اور مقىم مسلمانوں كو "فى ظلال القرآن” كے انگلش ترجمہ كى ضرورت ہے۔ نىند كا ىہ دورانىہ صرف بىس منٹ كا رہا ہوگا۔ مىں نے كہا ان شاء اللہ مىں ىہ كام كروں گا۔ الحمد للہ مىں نے اپنا وعدہ پورا كردىا۔
ترجمہ كا كام كتنے عرصے مىں مكمل ہوا؟
ىہ بہت مشكل سوال ہے۔ كىونكہ اىسا نہىں تھا كہ مىں باقاعدہ پروگرام كے تحت ترجمہ كرنے بىٹھا اور وقت مقررہ مىں پورا كرلىا۔ فى الواقع ىہ اىك طوىل علمى سفر تھا۔
آپ كو جو پىغام سىد قطب تك پہنچانے كو دىا گىا تھا، بتاسكتے ہىں وہ كىا تھا؟ كىا آج كے دور مىں اس كوئى معنوىت ہے؟
نہىں۔
آپ نے بتاىا كہ سىد قطب سے ملاقات مىں اسلام اور اسلامى تحرىكات كے مستقبل پر بات ہوئى تھى، اور اس مىں تعلىم وتربىت كو مركزى حىثىت حاصل تھى۔ اس باب مىں ان كا وژن كىا تھا؟
ان كا كہنا تھا كہ ہم كسى ہارى ہوئى جنگ كے بقاىا (remnants) نہىں ہىں۔ بلكہ ہم احىاء اسلام كى اىك نئى تحرىك كے محافظ (vanguard) ہىں۔ انہىں اس كا پورا احساس تھا۔ ان كا كہنا تھا كہ ہمىں اس احىائى تحرىك كو سمجھنا چاہىے جسے جمال الدىن افغانى نے شروع كىا تھا۔ ان كى دعوت تھى كہ مسلمانان عالم متحد ہوں۔ بہرحال ىہ اىك عوامى دعوت تھى جس كى پشت پر كوئى عملى پروگرام نہىں تھا۔ ان كے شاگرد اور دوست محمد عبدہ كو اس كا ادراك تھا۔ ان كا خىال تھا كہ معاشرہ كا اشرافىہ اسلام اور احىاء اسلام كى تحرىك سے وابستہ ہو۔ انہوں نے اس پہلو پر كام كىا اور ان كے اردگرد معاشرے كے اونچى حىثىت كے حامل افراد نے ان كے اس وژن كو قبول كىا جن مىں سعد زغلول بھى شامل ہىں۔ لىكن اس مىں اىك خامى بھى تھى۔ وہ ىہ كہ اشرافىہ بذات خود تو اسلام كا احىا ء كرنہىں سكتى تھى جب تك اس كى اسلام كے تئىں وفادار عوامى بنىاد نہ ہو ۔ اس حقىقت كى درىافت كا سہرا امام حسن البنا كے سر ہے۔ وہ حسن البنا كو احىاء اسلام كى تىسرى نسل قرار دىتے تھے۔ حسن البنا عوامى تائىد كى تشكىل كے اہل تھے۔ لىكن ہم سمجھتے ہىں اىك عنصر درمىان سے غائب ہے۔ اور وہ ہے تعلىم و تربىت كا عنصر۔اس عوامى بنىاد كو محض جذبات كى بنىاد پر آگے نہىں بڑھاىا جاسكتا ہے۔ جذبات كى بنىاد اسلام كے درست فہم پر ہونى چاہىے اور اس فہم پر كہ احىاء اسلام كے لىے كس چىز كى ضرورت ہے اور ىہ كہ تربىت سے ہمارا كىا مقصد ہے اور اس پروگرام كے توسط سے ہم كىا حاصل كرنا چاہتے ہىں؟
آپ كے خىال مىں اس چىز نے حكومت كو خوفزدہ كردىا؟
بالكل ىہى ہوا۔فوجى ٹربىونل جس نے موت كى سزا سنائى تھى، اس نے دىگر چالىس افراد كے خلاف بھى مقدمہ كى سماعت كى تھى۔ ٹربىونل نے ان سےپوچھا: كىا تم نے معالم فى الطرىق پڑھى ہے۔ جس نے بھى ہاں مىں جواب دىا اسےكتاب پڑھنے كے جرم مىں پانچ سال قىد كى سزا سنا دى گئى۔ محض كتاب پڑھنے كے جرم مىں سزا۔
ىہ گوىا آج كى war on terror policy كے مماثل ہے جو مشرق وسطىٰ اور بعض دىگر ممالك مىں رائج ہے، مثلاً مشرقى تركستان مىں اىغور مسلمان بدترىن كرىك ڈاؤن كا شكار ہىں۔ الحمد للہ برطانىہ مىں ىہ كم ہے، تاہم اس مىں بھى countering violence and extremism كى پالىسى پر عمل درآمد ہورہا ہے۔ ان كے نزدىك خطرناك مفكرىن اور ممنوعہ كتابوں كى چھان بىن جارى ہے۔ آپ كے خىال مىں اس قسم كى پالىسىوں سے ہم كچھ سىكھ سكتے ہىں؟ اس وقت كے اور آج كے حالات مىں كوئى مشابہت ہے؟
سپر پاورز ىا استعمارى طاقتىں، آپ انہىں جو بھى نام دىں، اپنے مقاصد كے حصول كے لىے تمام وسائل وذرائع استعمال كرىں گى۔ اور جب بھى انہىں محسوس ہوگا كہ ان كے حلىف اب ان كے لىے خطرہ بن گئے ہىں تو وہ ان سے فى الفور منھ موڑ لىں گے۔ڈان كوىل(Dan Quayle)، امرىكى صدر جارج بش سىنئر كا نائب صدر تھا۔ اس نے كہا تھا كہ بىسوىں صدى مىں مغربى تہذىب كے تىن دشمن تھے: نازى ازم بشكل نىشنلزم، كمىونزم اور فنڈامنٹلزم۔ پہلے دو كا مقابلہ كىا جاچكا ہے بالخصوص سووىت ىونىن كے انہدام كے بعد۔ اب ہمىں فنڈامنٹلزم سے نمٹنا ہے جس سے اس كى مراد ىقىناً اسلامى فنڈامنٹلزم سے تھى۔وہ اپنے مقاصد كى تكمىل كے لىے ہمىں استعمال كرنے سے گرىز نہىں كرىں گے۔ ہمىں اپنى اسٹرىٹجى اور سىاسى فكر خود تشكىل دىنى ہوگى۔ اگر ہم اىسا نہ كرسكے تو ہم ختم ہوجائىں گے۔ آج ہم بدقسمتى سے عرب بہارىہ مىں الجھے ہوئے ہىں، اور اس بات پر كہ ىہاں كىا ہورہا ہے وہاں كىا ہورہا ہے۔ ہم صحىح انداز سے نہىں سوچ رہے ہىں۔ صحىح انداز صرف اسلامى راستہ ہے۔ہم صحىح اسلامى راستے پر نہىں ہىں۔ كون سوچ رہا ہے اور كون واقعى صحىح اسلامى راستے پر ہے، بہت كم لوگ سوچتے ہىں۔ہم صرف خودكلامى كے خوگر ہىں۔
مزىد كچھ باتىں اور سنىے كہ پھانسى سے اىك دن پہلے كىا ہوا؟ ىہ بات خود مجھے سىد قطب كى ہمشىرہ، حمىدہ، نے بتائى، مىں نے كہىں ادھر ادھر سے نہىں سنا ہے، ان كى ىہ ہمشىرہ سب سے چھوٹى تھىں، ان سے 31 سال چھوٹى ۔انہوں نے بتاىا كہ اىك بار جب وہ ان سے ملنے گئىں تو جىل كے حكام سمجھے وہ ان كى بىٹى ہىں۔ اىك ساتھ صرف دو افراد كو ملاقات كى اجازت ہوتى تھى۔ لىكن انہوں نے از راہ ترحم انہىں بھى ملاقات كى اجازت دے دى۔ہر تىن ہفتوں پر اىك ملاقات كى اجازت ہوتى تھى۔
جب انہوں نے سىد قطب كو 1965 مىں گرفتار كىا تو حمىدہ كو بھى گرفتار كرلىا اور انہىں بھى اس كىس مىں ماخوذ كركے 15 سال كى سزا سنادى گئى۔ انہىں فوجى جىل مىں ركھا گىا جہاں خواتىن كے لىے كوئى سہولت نہىں تھى كىونكہ وہ صرف (مرد) سپاہىوں كے لىے تھى۔ ىہ بات انہوں نے مجھے خود بتائى اور اپنى كتاب مىں اسے تحرىر بھى كىا ہے۔ انہوں نے بتاىا كہ انہىں ان كے سىل سے نكال كر جىلر كے پاس لے جاىا گىا۔ اس نے ان سے كہا كہ مىں تمہىں اىك اىسى چىز دكھانا چاہتا ہوں جو مىں دكھانے كا مجاز نہىں ہوں اور اىسا كرنے پر مىں خود پرىشانى كا شكار ہوسكتا ہوں۔ تاہم مىں تمہىں دكھاؤں گا كىونكہ مىں تمہارى عزت كرتا ہوں۔اس نے مصرى صدر ناصر كے دستخط دكھائے جو اس نے سىد كے موت كے پروانہ پر كرركھے تھے۔ اس نے كہا كہ اس دستخط كے بعد ہم اس حكمنامہ پر عمل كرنے كے سوا اور كچھ نہىں كرسكتے۔ البتہ ان كو موت كے منھ مىں جانے سے صرف تم انہىں بچاسكتى ہو ورنہ كل انہىں پھانسى دے دى جائے گى۔
انہوں نے كہا: كىا مىں ان كى جان بچاسكتى ہوں؟ جىلر نے كہا: ہاں تمہارے سوا اور كوئى نہىں بچاسكتا ہے۔ اگر تم اىسا كرسكو تو آج رات تم بجائے جىل كے اپنے گھر پر گزاروگى اور اور دو ہفتوں كے بعد وہ بھى رہا ہوجائىں گے۔
وہ كىسے؟ حمىدہ قطب نے پوچھا۔
اس نے كہا: وہ دو سطرىں لكھ كر دے دىں كہ مجھے افسوس ہے اور ىہ كہ سعودى شاہ فىصل نے ان كى تنظىم كو مالى امداد دى تھى۔
خاتون نے كہا: وہ اىسا كبھى نہىں كرىں گے۔
جىلر نے كہا: تم انہىں آمادہ كرنے كى كوشش تو كرو۔ مىں ضمانت دىتا ہوں كہ اس كے نتىجہ مىں تم آج رات گھر پر ہوگى اور دو ہفتوں مىں وہ بھى گھر پر ہوں گے۔ ملك كو تمہارى ضرورت ہے۔ تم لوگ اگر كمىونسٹوں كو نہىں روك سكے تو وہ ملك پر قبضہ كرلىں گے۔
حمىدہ نے مجھے بتاىا كہ انہوں نے سوچا كہ اگر مىں كہہ دوں كہ اچھا مىں كوشش كروں گى تو مجھے اىك ملاقات كا موقع مل جائے گا اور مىں ان كى شہادت سے پہلے انہىں دىكھ لوں گى۔ چناں چہ انہوں نے كہا: اچھا مىں كوشش كروں گى۔ اس پر اس نے اىك آفىسر كى معىت مىں مجھے سىد قطب كے سىل مىں بھىج دىا۔ آفىسر نے راستے مىں مجھ سے كہا:تمہارے پاس صرف 30 منٹ ہىں۔ ان كے پاس پہنچ كر حمىدہ نے سىد قطب سے كہا: بھائى، ىہ لوگ آپ سے ىہ دو جملے چاہتے ہىں كہ آپ انہىں لكھ كر دے دىں۔ مىرى بات مكمل ہونے سے پہلے ہى انہوں نے اپنا رخ آفىسر كى طرف كىا اور بولے: تم جانتے ہو ىہ بالكل جھوٹ ہے۔ اور چوں كہ ىہ سچ نہىں ہے، دنىا كى كوئى بھى طاقت مجھے اسے سچ كہنے پر مجبور نہىں كرسكتى۔ اور اگر ىہ سچ ہوتا تو دنىا كى كوئى بھى طاقت مجھے اسے سچ نہ كہنے پر مجبور نہىں كرسكتى۔ آفىسر نے كہا: بات ختم۔ انہوں نے كہا: كىا مطلب؟ شہادت؟ اگر اللہ تعالى نے مجھے تمغہ شہادت سے نوازنے كا فىصلہ كرلىا ہے تو كوئى روك نہىں سكتا، اور اگر مىرى زندگى باقى ہے تو تم مجھے موت كے منھ مىں نہىں بھىج سكتے۔ ىہ سن كر آفىسر جھنجھلا گىا اور ا س نے ان كى بہن سے كہا: تمہارے پاس اب صرف پندرہ منٹ ہىں۔ ىہ سارى معلومات خاتون كى دى ہوئى ہىں۔ سبحان اللہ
وہ عىسائى كمانڈر اپنے بل بوتے پر كچھ بھى نہىں كررہا تھا۔ وہ تو صدر كے احكام كى تعمىل كررہا تھا۔ صدر اس كے توسط سے ان سے ىہ تحرىر لكھوانا چاہتا تھا۔ اور بالفرض اگر وہ لكھ كر دے بھى دىتے تو كىا وہ اپنا كہا پورا كرتا، ہرگز نہىں۔آپ جانتے ہىں كہ اس سے پہلے وہ ناصر كے دوست تھے۔
ہاں مىں نے بھى سنا ہے۔
ہاں انقلاب سے پہلے دونوں دوست تھے۔ وہ لوگ فوجى نقل و حركت پر باتىں كىا كرتے تھے۔ لىكن فوجى انقلاب كے بعد جو كچھ ہوا اس سے وہ بہت ماىوس ہوگئے بالخصوص حقوق كى پامالى دىكھ كر ۔ ان كا commitment اسلام كے ساتھ تھا۔مجھے معلوم ہے كہ انہىں وزارت كى پىشكش كى گئى تھى جو ىقىناً ان كو ملتى۔ وہ دوبارہ جىل جانے سے بھى بچ جاتے۔ جاننا چاہتے ہىں كىسے؟ ىہ بات مىں نے خود اس شخص سے سنى جو ان كى مدد كے لىے كوشاں تھا۔ وہ شخص مصرمىں لىبىائى سفارتخانے كا اىك ڈپلومىٹ تھا۔ اس نے مجھے بتاىا كہ جب وابستگانِ الاخوان المسلمون گرفتار كىے جارہے تھے تو مىں نے ان سے كہا كہ آپ اپنے خاندان كے سبھى افراد كے ساتھ مىرے ساتھ ڈپلومىٹك كار مىں لىبىا چلىے، راستے مىں كوئى نہىں روكے گا۔ اس پر سىد نے اس سے كہا كہ مىں تم كو وہى جواب دوں گا جو مىں نے گزشتہ ہفتہ عراقى فوجى افسروں كے اىك گروپ كو دىا تھا جو عراقى صدر عبد السلام عارف كا پىغام مىرے پاس لے كر آئے تھے۔ آپ جانتے ہىں كہ اىك سال قبل صدر عارف كى مداخلت پر جناب سىد كو جىل سے رہائى ملى تھى۔ پىغام ىہ تھا كہ جناب صدر نے آپ كو سلام كہا ہے اور كہا ہے كہ اخوان كے خلاف سازش كى جارہى ہے اور خاص نشانہ آپ (ىعنى سىد قطب) ہىں۔ ہمىں آپ سے محبت ہے۔ ہم چاہتے ہىں كہ آپ ہمارے ساتھ جہاز سے عراق تشرىف لے چلىں۔ لىبىائى ڈپلومىٹ سے انہوں نے كہا كہ جو جواب مىں نے انہىں دىا تھا وہى تمہارے لىے بھى ہے۔ مصر مىں تىن ہزار نوجوان مىرے تئىں بہت مخلص ہىں اور مجھے اپنا استاد وراہنما تسلىم كرتے ہىں۔ مىں انہىں چھوڑ نہىں جاسكتا۔ انہىں چھوڑ جانا گوىا مىدان جنگ سے بھاگ جانا ہے۔ اور مىں اىسا كرنہىں سكتا۔ مىں كہىں نہىں جاؤں گا۔
سبحان اللہ، كىا ہى اخلاص ووفا كے پىكر تھے شہىد۔
ىقىناً۔ وہ جانتے تھے كہ اصل نشانہ وہى ہىں۔ لىكن وہ اپنى فوج كو چھوڑنے كو ہرگز نہىں آمادہ تھے۔ ان كى فوج كىا تھى؟ وہ لوگ جو اسلام سمجھنا چاہتے تھے، اسلام كا احىاء چاہتے تھے،اور معاشرے كو اسلامى معاشرہ بنانے كا عزم ركھتے تھے اور اس كے لىے مؤثر كردار ادا كرنا چاہتے تھے۔ كوئى دہشت گردى نہىں، بزور طاقت قبضہ كرنے كى كوئى بات نہىں۔ انہوں نے خود مجھ سے كہا تھا جبرى طاقت كا كوئى اچھا نتىجہ برآمد نہىں ہوتا ہے۔
آپ نے اپنى گفتگو مىں چند اصطلاحات كا ذكر كىا ہے، Core, Vanguard, Elite۔ نىز آپ نے چند شخصىات كا بھى تذكرہ كىا ہے، سىد قطب، جمال الدىن افغانى اور محمد عبدہ كا۔ بعض ناقدىن ىا تحقىق كاروں كا خىال ہے كہ ماركسزم/لىننزم سے متاثر ہوكر ىہ اصطلاحىں استعمال كى گئى ہىں۔
نہىں، بلكہ ماركسسٹ خود اسلامى اصطلاحوں سے متاثر ہىں۔ بات بالكل الٹى ہے۔ اسلام تو دنىا مىں ماركسزم سے بہت پہلے آىا ہے، 1400 سال پہلے۔ ماركسزم كى عمر ہى كىا ہے، زىادہ سے زىادہ 150 سال۔
واقعى،مىرا ذہن اس طرف كبھى نہىں گىا، بات ىہى صحىح ہے۔مىں جب تارىخى شخصىات اور مفكرىن كے بارے مىں سوچتا ہوں اور انہىں آج كے حالات كے تناظر مىں ركھنے كى كوشش كرتا ہوں اور ان كى تحرىروں اور فلسفے كى قدروقىمت كا اندازہ لگاتا ہوں ان كے سىاق اور اس سىاسى عہد كو دىكھتا ہوں جس مىں وہ رہ رہے تھے تو ذہن مىں سوال آتا ہے كہ آج اگر سىد قطب ہمارے درمىان ہوتے تو وہ كس طرح سے سوچتے۔ نىز ىہ كہ بحىثىت اقلىت كے مسلمانوں كو ان كا كىا مشورہ ہوتا، مثلاً برطانىہ مىں رہنے والے مسلمانوں كو؟ كىا ان كا نقطہ نظر مختلف ہوتا؟ ان كا روڈمىپ كىا ہوتا؟
بنىادى خىالات تو وہى رہتے۔ ہاں نفاذ كى تفصىلات اور طرىقہ كار مختلف ہوتا۔اىك غىرمسلم معاشرہ مىں بحىثىت اقلىت رہنا مسلم معاشرہ مىں رہنے سے مختلف ہے۔ خواہى نخواہى آپ اسلامسٹ كى اصطلاح استعمال كرىں تو ہم تو مسلم ممالك مىں بھى اقلىت مىں ہىں۔ لہذا ہمىں vanguard كى اصطلاح كے استعمال مىں كوئى تامل نہىں ہونا چاہىے۔
لا مشاحۃ فى الاصطلاح (اصطلاحوں كے استعمال كے باب مىں كوئى كھىنچاتانى نہىں ہوتى)
بالكل، لا مشاحۃ فى الاصطلاح۔خود صحابہ كرام vanguardتھے۔ ہمىں اس كا ادراك كرنا ہے كہ وہ بہرحال اس وژن پر زور دىتے تھے جو نبى ﷺ نے صحابہ كو دىا تھا۔ مثال كے طور پر، غزوہ خندق كے واقعہ كو لىجىے۔ مشركىن كو شہر مدىنہ مىں داخلے سے روكنے كے لىے خندق كھودى جارہى تھى۔ اىك جگہ سخت چٹان آگئى توڑے نہىں ٹوٹ رہى تھى۔ صحابہ كرام كو اندىشہ اور خوف تھا كہ دشمن ان كو تباہ كرنے آرہا ہے۔ نبى ﷺ نے كدال اپنے ہاتھ مىں لى اور چٹان پر مارى۔ پہلى ضرب پر فرماىا كہ مىں فارس كے محلات دىكھ رہا ہوں۔ دوسرى ضرب پر فرماىا كہ مىں بازنطىنىوں كے محلات دىكھ رہا ہوں۔ تىسرى ضرب پر فرماىا كہ مىں ىمن مىں صنعاء كے محلات دىكھ رہا ہوں۔ منافقىن كہتے تھے كہ ىہ محلات كى باتىں كررہے ہىں اور حال ىہ ہے كہ ہم خوف كى وجہ سے رفع حاجت كے لىے نہىں جاسكتے ۔ لىكن نبى ﷺ نے صحابہ كو وژن دىا كہ تم پورى دنىا مىں اسلام كى روشنى پھىلا دوگے۔ ہمىں اسى نكتہ پر زور دىنے كى ضرورت ہے۔ ہمارے پاس انسانىت كو تارىكى سے نكالنے كے ذرائع موجود ہىں۔سرماىہ دارى اور اشتراكىت كے اندھىروں سے نكالنے كے ذرائع۔ ہرجگہ ظلم كا راج ہے۔ ہم سنتے ہىں كہ دنىا مىں اسلحہ مافىا اور ڈرگ (طبى ادوىات) مافىا دنىا پر حكمراں ہے۔ہمارے ممالك نے مغربى تہذىب كے مظالم كا مزہ چكھا ہے جو بظاہر آزادى، محبت اور مساوات كےنعرے لگاتى ہے۔ انہوں نے ہمارے ساتھ كىا كىا كىا ہے۔ كروڑوں كى تعداد مىں انہوں نے رىڈانڈىنز اور ابورجنىز كا خاتمہ كردىا، انہىں بالكل ختم كركے ركھ دىا۔ محض بقائے اصلح كے غرور مىں۔ اصلح ہم ہىں اسلام كے نور كى بدولت كىونكہ اسلام انسانىت كو آزاد كرانے كى تحرىك ہے۔ ىہ بہت اہم ہے۔ حضرت عمر نے مصر كے گورنر جناب عمرو بن العاص سے فرماىا تھا كہ تم نے كب سے انہىں غلام بنا لىا جب كہ اللہ نے انہىں آزاد پىدا كىا ہے۔
مسلم اكثرىتى ممالك كى جو صورت حال ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ كىا آپ كے خىال مىں كوئى مثبت سمت سفر دكھائى دے رہى ہے۔
ىقىناً، اس وقت جن مظالم كا دور دورہ ہے وہ ختم ہوں گے۔ جلدہى ختم ہوجائىں گے ان شاء اللہ۔ كب؟ ىہ صرف اللہ كو معلوم ہے۔
واقعہ ہے كہ ىہ حكومتىں (regimes) دىوالىہ ہىں، مكمل طور سے دىوالىہ۔ ان كا سقوط جلد ہى ہوگا۔ كىسے، اس كا فىصلہ اللہ كرے گا۔ اس وقت دنىا covid 19 كا شكار ہے۔ ىہ دراصل انسانىت كو جگانے كى پكار ہے۔ اس وقت دنىا مىں بےپناہ ظلم و ناانصافى ہے۔بہت زىادہ اور ہر جگہ۔كہىں كہىں روشنى كى جھلك دكھائى دىتى ہے۔تاہم ظلم كے گھنگھور اندھىرے چھائے ہوئے ہىں۔ ان شاء اللہ تبدىلى آئے گى اور جلد ہى آئے گى۔ مىں بھى دىكھوں گا اور آپ بھى دىكھىں گے۔ مىرا وجدان كہتا ہے كہ آپ اور آپ كى نسل ضرور دىكھے گى۔
ان شاء اللہ، اللہ آپ كو عمر طوىل عطا فرمائے۔كىا آپ مسلم ممالك مىں متعىن طور پر كچھ اىسا دىكھ رہے ہىں جىساكہ بعض لوگ ملىشىا، تركى اور وغیرہ كے بارے مىں خىال ركھتےہىں كہ ىہ سب مل كر اىك اتحاد كى تشكىل كرىں گے جس طرف سنى اسلام منتقل ہوگا ماضى كے على الرغم۔ آپ كى توقعات كىا ہىں؟
مىں ىقىناً پرامىد ہوں۔ كىسے اور كہاں ہوگا، نہىں معلوم، تاہم مىں پرامىد ہوں۔ اہم بات ىہ ہے كہ ہمىں آزادى كا احساس ہو۔ مىں اسے تركى مىں دىكھ رہا ہوں، الحمد للہ۔ ہمىں اسے تقوىت پہچانى چاہىے۔ اور اسے زىادہ سے زىادہ مستحكم كرنا چاہىے۔ ہوسكتا ہے ملىشىا بھى اسى سمت مىں ہو۔ تاہم مجھے اس كا زىادہ علم نہىں۔ بہت ممكن ہے كہ ىہ دونوں ممالك مل كر كام كرىں۔ اگر بر صغیر کےکوئی ملکبھى اس مىں شامل ہونا چاہتا ہے تو اسے شامل ہوجانا چاہىے۔ ىہ عظىم اتحاد ہوگا۔
ان شاء اللہ۔ اىك شخص جو سىد قطب سے بالكل ناواقف ہےآپ اسے ان كى كن كتابوں كے مطالعہ كا مشورہ دىں گے جو ان كے فكروفلسفہ سے روشناس كرادے؟
دو كتابوں كے مطالعہ كا، جن كا انگلش مىں بھى ترجمہ ہوگىا ہے۔ اىك "ھذا الدىن”، دوسرى "المستقبل لھذا الدىن”۔ (ان كا اردو مىں بھى ترجمہ موجودہے-رضوان) ۔ ىہ بہترىن تعارفى كتب ہىں۔ مىں شروع مىں "معالم فى الطرىق” پڑھنے كا مشورہ نہىں دوں گا۔ اور اگر وہ "فى ظلال القرآن” كا مطالعہ كرسكتا ہو تو سب سے عمدہ۔ اس مىں اىسے flashes ہىں جن سے سىد قطب پر روشنى پڑتى ہے۔ مشورہ دوں گا كہ وہ سورہ فاطر كى دوسرى آىت، سورہ انعام كى57 وىں آىت كى تشرىح جو انہوں نے گىارہ صفحات مىں كى ہے ، اور سورہ النجم كى تشرىح پڑھے۔
اس وقت آپ نے كس كتاب كا ترجمہ كىا ہے
پروفىسر عثمان زرزور كى كتاب كا جس كا انگلش ٹائٹل ہے Quran ant its study۔ بہت عمدہ كتاب ہے۔
[email protected]
***
***
جب انہوں نے سىد قطب كو 1965 مىں گرفتار كىا تو حمىدہ كو بھى گرفتار كرلىا اور انہىں بھى اس كىس مىں ماخوذ كركے 15 سال كى سزا سنادى گئى۔ انہىں فوجى جىل مىں ركھا گىا جہاں خواتىن كے لىے كوئى سہولت نہىں تھى كىونكہ وہ صرف (مرد) سپاہىوں كے لىے تھى۔ ىہ بات انہوں نے مجھے خود بتائى اور اپنى كتاب مىں اسے تحرىر بھى كىا ہے۔ انہوں نے بتاىا كہ انہىں ان كے سىل سے نكال كر جىلر كے پاس لے جاىا گىا۔ اس نے ان سے كہا كہ مىں تمہىں اىك اىسى چىز دكھانا چاہتا ہوں جو مىں دكھانے كا مجاز نہىں ہوں اور اىسا كرنے پر مىں خود پرىشانى كا شكار ہوسكتا ہوں۔ تاہم مىں تمہىں دكھاؤں گا كىونكہ مىں تمہارى عزت كرتا ہوں۔اس نے مصرى صدر ناصر كے دستخط دكھائے جو اس نے سىد كے موت كے پروانہ پر كرركھے تھے۔ اس نے كہا كہ اس دستخط كے بعد ہم اس حكمنامہ پر عمل كرنے كے سوا اور كچھ نہىں كرسكتے۔ البتہ ان كو موت كے منھ مىں جانے سے صرف تم انہىں بچاسكتى ہو ورنہ كل انہىں پھانسى دے دى جائے گى۔
انہوں نے كہا: كىا مىں ان كى جان بچاسكتى ہوں؟ جىلر نے كہا: ہاں تمہارے سوا اور كوئى نہىں بچاسكتا ہے۔ اگر تم اىسا كرسكو تو آج رات تم بجائے جىل كے اپنے گھر پر گزاروگى اور اور دو ہفتوں كے بعد وہ بھى رہا ہوجائىں گے۔
وہ كىسے؟ حمىدہ قطب نے پوچھا۔
اس نے كہا: وہ دو سطرىں لكھ كر دے دىں كہ مجھے افسوس ہے اور ىہ كہ سعودى شاہ فىصل نے ان كى تنظىم كو مالى امداد دى تھى۔
خاتون نے كہا: وہ اىسا كبھى نہىں كرىں گے۔
جىلر نے كہا: تم انہىں آمادہ كرنے كى كوشش تو كرو۔ مىں ضمانت دىتا ہوں كہ اس كے نتىجہ مىں تم آج رات گھر پر ہوگى اور دو ہفتوں مىں وہ بھى گھر پر ہوں گے۔ ملك كو تمہارى ضرورت ہے۔ تم لوگ اگر كمىونسٹوں كو نہىں روك سكے تو وہ ملك پر قبضہ كرلىں گے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 5 ستمبر تا 11 ستمبر 2021