لوگوں کو فیملی پلاننگ کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا: حکومتِ ہند

نئی دہلی، دسمبر 12: مرکز نے آج سپریم کورٹ کو بتایا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لیے شادی شدہ جوڑوں کو ’’مخصوص تعداد میں بچے‘‘ پیدا کرنے پر مجبور کرنا ممکن نہیں ہے۔

حکومت نے اعلیٰ عدالت کو بتایا کہ 2001 -2011 میں ہندوستان میں گذشتہ 100 سالوں میں بچوں کی پیدائش کی شرح میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

مرکزی محکمہ صحت عامہ و فلاح و بہبود نے کہا کہ ’’ہندوستان میں فیملی ویلفیئر پروگرام بنیادی طور پر رضاکارانہ ہے، جو جوڑے کو اپنے بچوں کی تعداد کا فیصلہ کرنے اور خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کو بغیر کسی مجبوری کے اپنی پسند کے مطابق اپنانے کی آزادی دیتا ہے، جو ان کے لیے موزوں ہے۔‘‘

محکمۂ صحت نے کہا کہ ہندوستان آبادی اور ترقی سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس 1994 کے پروگرام آف ایکشن (پی او اے) کا دستخط کنندہ ہے، جو خاندانی منصوبہ بندی میں جبر کے خلاف ہے۔

وزارت نے وضاحت کی کہ ’’دراصل بین الاقوامی تجربے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کی ایک خاص تعداد پیدا کرنے کے لیے جبر کا نتیجہ مقابلہ ہوتا ہے اور اس سے آبادیاتی انتشار پیدا ہوتا ہے۔‘‘

حکومت نے یہ باتیں آبادی پر قابو پانے کے قانون کو متعارف کروانے کے لیے ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے کی طرف سے دائر درخواست پر عدالت کی ہدایت کا جواب دیتے ہوئے یہ باتیں کہی ہیں۔ مسٹر اپادھیائے نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی ملک کو درپیش سب سے بڑا خطرہ ہے۔

انھوں نے کہا ’’آبادی کا دھماکہ بم دھماکے سے کہیں زیادہ خطرناک ہے اور آبادی پر قابو پانے کے موثر اقدامات کو نافذ کیے بغیر صحت مند ہندوستان، خواندہ ہندوستان، خوش حال ہندوستان، وسائل مند ہندوستان، مضبوط ہندوستان، محفوظ ہندوستان، حساس ہندوستان، صاف ہندوستان اور بدعنوانی اور جرائم سے پاک ہندوستان کی مہم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔‘‘

لیکن حکومت نے کہا کہ ہندوستان میں ٹی ایف آر کی شرح میں ’’مستقل کمی‘‘ دیکھنے میں آرہی ہے۔

وزارت نے کہا کہ قومی پاپولیشن پالیسی 2000 کو اپنائے جانے کے وقت میں ٹی ایف آر 3.2 تھا جب کہ 2018 کے رپورٹ کے مطابق یہ کافی حد تک کم ہو کر 2.2 رہ گیا ہے۔