لسانی عصبیت ملک کی سالمیت کے لیے خطرناک
بھارت جیسے تکثیری سماج میں ایک تہذیب، ایک زبان، ایک رنگ اور ایک نسل کی اجارہ داری ممکن نہیں
از : زعیم الدین احمد، حیدرآباد
ہندی زبان کو سارے ملک میں جبراً نافذ کرنے کا منصوبہ ملک کی سالمیت کو پارہ پارہ کر دے گا۔ ملک میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کے ساتھ حکومت کا سوتیلا سلوک اور ان کو نیچا دکھانے کی کوئی بھی کوشش یقینی طور پر ملک بھر میں لسانی عصبیت کو جنم دے گی جس کے خطرناک نتائج بھی بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ پہلے تو وزیر داخلہ نے ہندی کو ترقی کے لیے ضروری قرار دیا اور اسے لازم کرنے کی بات کہی جب کہ وہ خود اچھی ہندی بول نہیں سکتے۔ پھر اتر پردیش کے ایک بد دماغ وزیر نے ہندی نہ بولنے والوں کو ملک بدر کرنے کی بات کہی۔ ان کی نظر میں جو ہندی نہیں بولتا اسے ملک میں رہنے کا حق نہیں ہے۔ وہ ایک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں :’’ جو ہندی سے محبت نہیں کرتا وہ (ویدیشی) غیر ملکی ہے، جو ہندی سے محبت نہیں کرتے وہ ملک کے دشمنوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، ملک کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ملک ہندی بولنے والوں کا ہے‘‘۔ اس عقل مند وزیر نے یہ تاویل نکالی ہے کہ ہندوستان کا مطلب ایسا ملک جہاں ہندی بولنے والے رہتے ہیں، ہندوستان یا ہندی ستان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔
کیا ان کی نظر میں تلگو بولنے والے، تمل کنڑا اور ملیالم بولنے والے ہندوستانی نہیں ہیں؟ ان باتوں سے کیا اخذ کیا جا سکتا ہے؟ بات ملک کی مسلم اقلیتوں کے غیر ملکی ہونے سے شروع ہوئی اور اب لسانی اقلیتوں تک آپہنچی ہے۔ جب ملک کی مسلم اقلیتوں کو کہا جا رہا تھا کہ یہ غیر ملکی ہیں تب انہوں نے سمجھا کہ یہ ہمیں تو نہیں کہہ رہے ہیں، لیکن اب ان گھروں تک یہ عصبیت کی آگ پہنچ گئی ہے، اب ان لسانی اقلیتوں کو کہا جا رہا ہے کہ وہ غیر ملکی ہیں۔ جب ہندی ہندو ہندوستان کا نعرہ لگایا جاتا تھا تو اس وقت دوسری زبان بولنے والوں، خاص طور پر جنوبی ہند کے لوگوں کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں رہی ہوگی کہ ایک دن یہ نعرہ انہیں بھی غیر ملکی قرار دے گا۔ نفرتوں کی کوئی حد نہیں ہوتی، تلگو، تمل، کنڑا، ملیالم، اڑیہ، بنگالی، پنجابی وغیرہ یہ سب زبانوں کو ہندی کے زیر تسلط جینا ہو گا۔ ہندی راجہ اور باقی سب غلام، اس طرح کی ذہنیت کا مطلب یہ ہے کہ ہندی کے علاوہ جتنی زبانیں ہیں وہ دوسرے درجہ کی ہیں۔
میں ہندی کی مخالفت نہیں کر رہا ہوں، ہندی ملک کی 22 سرکاری زبانوں میں سے ایک زبان ہے، بہتوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہندی ہماری قومی زبان ہے، ہندی قومی زبان نہیں ہے، ہندی ہماری سرکاری زبان ہے جیسے تلگو، تمل، کنڑا اور ملیالم ہیں۔ دستور میں 22 زبانوں کو سرکاری درجہ دیا گیا ہے، ان میں سے ایک ہندی بھی ہے، جس طرح ہندی زبان سے محبت کرنی چاہیے اسی طرح تلگو، تمل، کنڑا، ملیالم، اُردو، اڑیہ، بنگالی، پنجابی، مراٹھی سے بھی محبت کرنی چاہیے، نفرت نہیں۔ ایک اور نفرت کے پرچارک سنجے نشاد کہتے ہیں کہ دیگر زبانوں کی عزت بھی کرنی چاہیے لیکن ملکی مفادات ہندی ہی میں مضمر ہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا دیگر زبانیں ملکی مفادات کے مغائر ہیں؟ وزیر داخلہ کے خیالات اور سنجے نشاد کے خیالات میں رتی برابر بھی فرق نہیں ہے۔ امیت شاہ کہتے ہیں کہ ہندی بھارت کی روح ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دیگر زبانیں ملک کی روح نہیں ہیں۔ پھر اسی طرح بی جے پی کے ایک اور رکن پارلیمنٹ ترون وجے نے کچھ عرصہ پہلے کہا تھا کہ ’’جنوبی ہند کے تلگو، تمل، کنڑا، ملیالم بولنے والے کالی نسل کے لوگوں کے ساتھ کیا نہیں جی رہے ہیں؟ ہم میں قوت برداشت زیادہ ہے‘‘ آپ یہ بیان گوگل پر دیکھ سکتے ہیں۔ اصل میں یہ بیانات اس کی نفرتی اور پراگندہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد اس نفرتی ٹولے کی طرف سے یہ بیانات بھی آنے لگیں گے کہ گوشت کھانے والے بھارتی نہیں ہیں۔ بلکہ اس کی تیاری شروع ہو چکی ہیں، ابھی سے یہ مطالبہ کیا جانے لگا ہے کہ جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی لگائی جائے اور کچھ دنوں بعد یہ بھی ہو گا کہ کسی بھی جانور یا پرندے کے گوشت کھانے پر پابندی لگا دی جائے گی اور کہا جائے کہ یہ ملک پہلے سے ہی سبزی خور (شاکھا ہاری) ہے، گوشت خور بھارتی نہیں ہوتا اور جو گوشت خور ہیں وہ یہاں کے باشندے نہیں ہیں وہ غیر ملکی ہیں، جو گوشت خور ہیں وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔
جب سے ملک میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے سنگھیوں کے حوصلے بلند ہو چکے ہیں، وہ گاہے بہ گاہے اس قسم کے مطالبات کرتے ہیں کبھی لوگوں کے لباس پر انہیں اعتراض ہوتا ہے تو کبھی انہیں لوگوں کے کھانے پینے پر، کبھی انہیں لوگوں کی عبادات پر اعتراض ہوتا ہے تو کبھی زبانوں پر، الغرض یہ ملک میں یک رنگی لانا چاہتے ہیں اور وہ یک رنگی کچھ اور نہیں بلکہ برہمنی رنگ ہے۔ وہ ملک میں سناتنی کے نام پر برہمنیت کو لانا چاہتے ہیں جس میں ایک تہذیب، ایک زبان، ایک رنگ، ایک نسل کی اجارہ داری ہو اور باقی سب غلام۔ حالاں کہ دوسری زبانیں بولنے والی یہی ریاستیں ملک کے خزانے میں سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرتی ہیں۔ شمالی ہند کے باشندے یہاں جنوبی ہند میں پر امن طریقے سے اپنی تجارت کرتے ہیں، اور کئی بار یہ محسوس کیا گیا ہے کہ وہ ریاستی زبان جاننے کے باوجود اسے استعمال نہیں کرتے، وہ ہندی ہی کو ترجیح دیتے ہیں اور اسے ہی فروغ دیتے ہیں، یہی وہ چیزیں ہیں جو دلوں میں نفرت پیدا کرتی ہیں۔
اگر کوئی ہندی بولنے والی ریاست کسی غیر ہندی بولنے والی ریاست پر اپنی برتری جتانے کی کوشش کرے گی تو وہاں کی عوام کیسے خاموش رہے گی، کوئی کسی کی اجارہ داری قبول نہیں کرے گا۔ ہر شخص اپنی مادری زبان سے محبت کرتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ دیگر زبانوں کی بھی عزت کرتا ہے لیکن وہ اپنی مادری زبان پر کسی اور زبان کی برتری کو برداشت نہیں کر سکتا۔
امیت شاہ کا یہ بیان کہ ہندی کو اگر ملک میں نافذ کر دیا جائے تو ملک کی سالمیت میں کیسے مضبوطی آئے گی، اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایک زبان کو کسی دوسری زبان پر مسلط کر دیا جائے تو کیا ہو گا دیگر ممالک کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ جس ملک بھی مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں وہاں ایک زبان کو نافذ کرنے سے اس کی ملک سالمیت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ امیت شاہ کا بیان حقائق پر مبنی نہیں ہے، ایک زبان کو زبردستی نافذ کرنے سے وہ ملک یا تو لسانی بنیادوں پر الگ ہو جاتا ہے یا وہ خانہ جنگی کا شکار ہو جاتا ہے، جس کی مثال ہمارے پڑوسی ممالک پاکستان و سری لنکا ہیں، جہاں ایک زبان کی اجارہ داری کو قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان میں 1948 یہ قانون بنایا گیا کہ اُردو ہی اس ملک کی سرکاری زبان ہو گی، دوسری کسی بھی زبان کی سرکاری حیثیت نہیں ہوگی، اس وقت محمد علی جناح کا بھی یہی خیال تھا کہ کوئی ایک زبان ہو گی تبھی ملک تیز رفتار ترقی کرے گا اور اس کی سالمیت بھی مستحکم ہو گی، لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا، مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش ہے وہاں زبردست لسانی آزادی کی تحریک شروع ہوگئی، احتجاج منظم ہوئے اور یہی تحریک بالآخر آزاد بنگلہ کی تحریک میں تبدیل ہو گئی، بالآخر یہ ملک دو حصّوں میں تقسیم ہو گیا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ سری لنکا میں بھی تمل زبان پر سنہالی زبان کی اجارہ داری قائم کی گئی۔ 1956 میں قانون سازی کی گئی کہ اس ملک میں صرف سنہالی زبان ہی چلے گی دوسری کوئی زبان نہیں چلے گی، اس ایکٹ کا نام ہی "سنہلا ونلی” رکھا گیا۔ اس ایکٹ کے پاس ہونے کے بعد وہاں کے تمل باشندوں میں بڑے پیمانے پر بے چینی شروع ہوئی اسی بے چینی نے عوامی احتجاج کی شکل اختیار کرلی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں ایک لمبے عرصے تک خانہ جنگی سے تباہی ہوتی رہی، علیحدہ تمل کی تحریک شروع ہوئی۔ جبکہ سنہالی زبان بولنے والوں کی تعداد تقریباً 70 فیصد ہے اور 29 فیصد لوگ ہی تمل زبان بولتے ہیں۔ وہاں بھی اکثریتی طبقے نے اقلیتوں پر زبان کی بنیاد پر ظلم کرنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک سماجی و معاشی غرض ہر لحاظ سے تباہ ہو گیا۔ بالآخر اس ملک کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ایک زبان کو دوسری زبان پر زبردستی مسلط کرنے کے نتیجے بہت خوفناک ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس وہ ممالک جہاں مختلف زبانوں کو سرکاری حیثیت دی گئی اور ان کی قدر کی گئی وہ ترقی اور یکجہتی کی راہ پر گامزن ہیں، جس کی مثال سنگاپور اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک ہیں۔ سنگاپور میں تین قسم کے نسلیں پائی جاتی ہیں، ایک چینی نژاد، دوسرے ملیشیائی نژاد اور تیسرے بھارتی نژاد۔ یہاں چینی نژاد لوگ دوسروں کی بہ نسبت زیادہ ہیں جب سنگاپور آزاد ہوا تو اس وقت چینی نژاد لوگوں نے بڑے پیمانے پر مہم چلائی کہ چینی اس ملک کی سرکاری زبان ہونی چاہیے، لیکن موجودہ ترقی یافتہ سنگاپور کے بانی لی کوان یو نے اس مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا، اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ سنگاپور آج ترقی کی بلندیوں پر ہے۔ اسی طرح جنوبی افریقہ میں بھی مختلف زبانیں بولنے والے لوگ بستے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ملک کا قومی ترانہ میں پانچ زبانوں ہیں۔ اس وقت یہ ملک نہ صرف پورے براعظم افریقہ کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ آج یہ ترقی پذیر ممالک میں بھی سرفہرست ہے۔
ان مثالوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایک زبان کو زبردستی دوسری زبانوں پر مسلط کرنا تباہی کا باعث بنتا ہے، لسانی عصبیتوں سے دل پھٹتے ہیں اور جب دل پھٹتے ہیں تو ملک سالم نہیں رہ سکتے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 15 تا 21 مئی 2022