لاک ڈاؤن کو کار آمد بنائیے

ہوم اسکولنگ کا طریقہ بچوں کی شخصی ارتقاء کا‌ ضامن

خالد پرواز گلبرگہ

 

ایک دن ایک دس سال کا لڑکا گھر آتا ہے اور ایک کاغذ ماں کے حوالے کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ میرے اسکول کے ٹیچر نے دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ صرف اپنی ماں کو دینا۔ اس چٹھی کو پڑھتے ہی ماں کی آنکھیں بھر آئیں اور خط کو بآواز بلند پڑھنے لگی، "تمہارا لڑکا غیر معمولی ذہین ہے ہم اسکو سکھانے سے قاصر ہیں۔ ہمارا اسکول اس کے لیے بہت چھوٹا ہے اور ہمارے پاس قابل اساتذہ بھی نہیں ہیں جو اس کی تربیت کر سکیں اس لیے مہربانی فرما کر اس کو گھر پر ہی پڑھائیں۔
اس کے بعد وہ لڑکا گھر میں ہی اپنی پڑھائی کا آغاز کرتا ہے۔ ماں اس کی مدد اور رہنمائی کرتی ہے۔ وہ اپنی محنت اور مشقت سے صدی کا بہت بڑا موجد بن جاتا ہے جسے دنیا تھامس ایڈیسن کے نام سے جانتی ہے۔
کئی سالوں بعد اس کی ماں انتقال کر جاتی ہے۔ایک دفعہ وہ اپنے گھر کی قدیم چیزوں کو دیکھ رہا ہوتا ہے تب اچانک اس کے ہاتھ ایک کاغذ لگتا ہے، یہ وہی کاغذ تھا جو ایڈیسن کی ٹیچر نے اس کی ماں کو لکھا تھا۔ جب وہ اس کو پڑھتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کیونکہ اس میں لکھا تھا تمہارا لڑکا پڑھائی میں بہت کمزور ہے اس لیے ہم اس کو اسکول میں آنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
اس خط کو پڑھنے کے بعد ایڈیسن کئی گھنٹے روتا رہا اور اپنی ماں کو یاد کرتا رہا۔ پھر اس نے اپنی ڈائری میں لکھا ایڈیسن ایک کند ذہن لڑکا تھا اس کی ہیرو ماں نے اس کو اس صدی کا موجد بنا دیا۔ایڈیسن کی مثال یہ بتاتی ہے کہ سیکھنے کا عمل صرف اسکول تک ہی محدود نہیں ہے اگر عزم کیا جائے تو عام ذہن کے بچوں کو بھی گھروں میں ہی سیکھنے کے مواقع فراہم کر کے غیر معمولی انسان بناسکتے ہیں۔ اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ کئی عظیم شخصیتوں نے اسکول کی تعلیم کی بجائے گھر پر ہی تعلیم حاصل کی اور بڑے بڑے کارنامے دیے۔
آج کورونا وبا کی وجہ سے ایک طویل عرصے سے اسکولی تعلیم معطل ہے اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اس سلسلے میں والدین بڑے فکر مند ہیں کہ کس طرح بچوں کی تعلیم کو آگے بڑھایا جائے۔
لیکن اوپر کی مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے تعلیم کا عمل صرف اسکول تک محدود نہیں بلکہ اگر والدین اور طلبا کوشش کریں تو تعلیمی عمل گھر پر بھی پورا ہو سکتا ہے۔ آئیے غور کریں وہ کون کونسے طریقے ہو سکتے ہیں جن کے ذریعے بچے گھر پر ہی تعلیم حاصل کر سکیں۔
دنیا بھر میں طریقہ تعلیم کا ایک تصور چل رہا ہے جس کو ہوم اسکولینگ کہتے ہیں۔ یہ تصور نیا تو نہیں ہے اسکول کی ایجاد سے پہلے لوگ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کا نظم گھروں میں ہی کرتے تھے۔ آج کچھ تعلیمی ماہرین اسکولی تعلیم اور اس۔کے نتائج پر سخت تنقید کرتے ہیں اور ہوم اسکولینگ کو اسکے متبادل کے طور پیش کرتے ہیں۔ امریکہ اور یوروپ کے کئی ممالک اس کو قانونی درجہ دے چکے ہیں۔ اگر کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا اور گھر پر ہی تعلیم حاصل کرتا ہے تو اس کو اعلی تعلیم یا نوکری کے لیے کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ ہندوستان میں بڑے شہروں جیسے بنگلورو، پونے، ممبئی اور دہلی میں اس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہوم اسکولینگ کے حمایتی روایتی اسکول پر تنقید کے ساتھ ساتھ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ بچوں کی خوبیاں اور خامیوں کو والدین، اساتذہ سے بہتر جانتے ہیں اور بچے اسکول سے زیادہ گھروں میں اطمینان سے پڑھ سکتے ہیں۔ چونکہ سیکھنے کا عمل ہر جگہ ممکن ہے اور اسکول کے باہر کی دنیا سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے اس لیے کچھ خاندان اپنے بچوں کی ایسی ہی اسکولینگ کرر ہے ہیں۔
وہ چاہتے ہیں کہ بچوں کو عمومی طور پر سب کو ایک ہی نصاب سے گزارنے کی بجائے گھر پر ہی ان کے دلچسپی کے مضامین میں ماہر بنایا جائے۔ موجودہ حالات کی مناسبت سے ہم ہوم اسکولینگ کے طریقہ کار کو چند ماہ کے لیے اپنے بچوں پر لاگو کر سکتے ہیں۔
اسکول بند ہونے کے باوجود ان کو جماعت کے لحاظ سے کتابیں فراہم کی جائیں اور ایک نظام الاوقات کے مطابق ان کے کام کی نگرانی کریں۔ضرورتاً اساتذہ اور دوسرے تعلیم یافتہ افراد سے فون پر ربط رکھیں۔
اگر فون اور انٹرنیٹ کی سہولت ہو تو یوٹیوب پر ہر جماعت اور ہر مضمون کے اسباق موجود ہیں۔مشقوں، تجربات، بحثوں، کوئز، سرگرمیوں اور معلومات کی ایک دنیا آباد ہے۔ گوگل، ویکی پیڈیا کے ذریعے کسی بھی لفظ، اصطلاح کے معنی اور تشریح حاصل کر سکتے ہیں۔ کئی تعلیمی ویب سائٹس موجود ہیں جن کے ذریعہ تعلیمی سرگرمیاں انجام دی جا سکتی ہیں۔ خان اکیڈمی اور اس طرح کی بے شمار ویب سائٹس اسانی سے دستیاب ہیں۔ موبائل فون میں کئی طرح کے ایپس موجود ہیں جو بچوں کی تعلیمی رہنمائی اور مدد کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کو موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہے تو اپنی درسی کتابوں کے ساتھ ساتھ ٹی وی کے مخصوص پروگراموں سے مدد لے سکتے ہیں۔ دور درشن کے ذریعے 24 گھنٹے ایم ایچ آر ڈی کے 33 تعلیمی چینلس چلتے ہیں جن میں 10 چینلس اول تا دہم جماعت کے لیے ے علاوہ ڈی ڈی سویم کے 17 چینلس بھی تعلیمی پروگرام نشر کرتے ہیں۔ علاقائی زبانوں میں بھی اس طرح کے تعلیمی چینلس موجود ہیں۔اردو میڈیم کے اسباق کو ڈی ڈی چندنا سے نشر کیا جا رہا ہے۔ اس کا یوٹیوب چینل بھی ہے جس کے ذریعے کسی بھی وقت اس سے استفادہ کر سکتے ہیں اس کے لیے آپ کو انگریزی میں سمویدا کلاس 10 یا جس جماعت کے اسباق کی ضرورت ہے۔ ٹائپ کریں آپ کو تفصیلات مل جائیں گی۔ ٹی وی کے علاوہ ریڈیو پر بھی تعلیمی مواد نشر ہو رہا ہے۔ اس ذریعے کو بھی آپ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
اور ٹائم ٹیبل پر علاقائی زبان میں آپ گوگل سے حاصل کر سکتے ہیں۔
ایسے حالات میں جبکہ اسکولی تعلیم معطل ہو، تعلیم حاصل کرنے کے وسائل بھی نہ ہوں اور والدین بھی اس مقام پر نہ ہوں کہ اپنے بچے کی تعلیمی رہنائی کر سکیں تو تعلیم کے بنیادی مقاصد کے حصول کو ہی اپنا مقصد بنانا چاہیے مثلاً بچوں کی چار مہارتوں LSRW(LISTENING,SPEAKING,READING.WRITING) کو پروان چڑھائیں۔ کہانیوں کے ذریعہ سننے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے۔ بچوں کو بولنے کا موقع دے کر مختلف واقعات کو بیان کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ بولنے کی صلاحیت کی نشو ونما کی جائے۔ اچھی کتابوں، اخبارات، ناول کا مطالعہ کے ذریعہ پڑھنے کی قابلیت اور ہر دن کچھ نہ کچھ لکھ کر لکھنے کی صلاحیت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر یہ چار مہارتیں کسی بچے میں آجائیں تو وہ آسانی سے کسی بھی مضمون اور مواد کو پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔ لاک ڈاون کے دور میں گھر پر اپنے ذریعہ تعلیم کی زبان میں مہارت کے ساتھ ساتھ اسکول میں پڑھائی جانے والی دوسری اور تیسری زبان میں مہارت حاصل پیدا کی جائے تاکہ بچے اس زبان میں سمجھنے، بولنے، پڑھنے اور لکھنےکے قابل بن سکیں۔ اسکول جب بھی شروع ہوں گے آپ کے لیے یہ کام قیمتی اثاثہ ثابت ہوگا۔ اسی طرح خود سکھائی کے ذریعہ ریاضی کے رکاوٹوں کو بھی دور کر سکتے ہیں۔ گنتی، پہاڑے، ضابطے، اشکال اور ریاضی کے چار بنیادی اعمال جمع، نفی، تفریق، ضرب کے لیے کوئی استاد کی ضرورت نہیں ہے۔ کتابوں میں حسابی مسائل کےحل کی مثالیں موجود ہوتی ہیں۔ ان کو دیکھ کر ریاضی کی مشقیں کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے گائیڈ بک کی بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ عام دنوں میں گائیڈ بک کا مشورہ نہیں دیتے لیکن ایسے غیر متوقع حالات میں اس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اپنے اطراف کی دنیا پر غور وفکر کرنا سائنس کی بنیاد ہے۔ بچوں کو اس میں مشغول کر کے سائنسی علوم سے وابستگی برقرار رکھی جا سکتی ہے۔روزمرہ استعمال ہونے والی غذائیں، گھر میں استعمال ہونے والے آلات، موسم میں ہونے والی تبدیلیاں، اطراف میں نظر آنے والے جانور کیڑے مکوڑے، درختوں پر پائے جانے والے پرندے اور ان کے گھونسلے، گھر اور اس کے اطراف اگنے والے نباتات اور ان کی خصوصیات ہر طرف نظر آنے والے آنے والے پتھر، مٹی اور دھات سے بنے سامان، آسمان میں نظر آنے والے سورج چاند تارے، اس طرح کی چیزوں پر تحقیقی نظر اور اس کی تفصیلات لکھ کر بچے اپنی سائنسی سوچ کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔
خود سکھائی کا عمل بہت اہم ہے اور آسان بھی لیکن اس کے لیے خود ضابطگی اور دلچسپی کی ضرورت ہے والدین کی ہمت افزائی، رہنمائی اور سہولت کی فراہمی بھی اہم رول ادا کرتی ہے۔
تعلیم کے معنی معلومات کا تبادلہ نہیں ہے جو اکثر اسکول میں کیا جاتا ہے بلکہ بچے اپنے تجربات، سرگرمیاں، مشاہدے اور عملی کاموں کے ذریعے ذہن میں علم کی تعمیر کرتے ہیں اس کو کنسٹرکشن آف نالج کہتے ہیں۔
یہ عمل خود سکھائی کے دوران بہت اچھے طریقے سے انجام پاتا ہے۔ اگر بچوں کو گھر میں سیکھنے کا ماحول فراہم کیا جائے تو وہ روایتی اسکول کے فارغین سے زیادہ قابل اور ہنر مند ہوں گے۔
انسان کو ایک کامیاب زندگی گزارنے کے قابل بنانا ہی تعلیم کا اصل مقصد ہے۔ کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ان میں کچھ زندگی کی مہارتیں لائف اسکلس کا ہونا ضروری ہے۔ اسکول کی معطلی کے دور میں ان مہارتوں کا اکتساب بھی کیا جا سکتا ہے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 29 مئی تا 05 جون 2021