محب اللہ قاسمی، نئی دلی
گونا گوں فضائل وبرکات کے حامل، اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کرنے والے تربیتی مہینہ رمضان المبارک کے روزوں کی تکمیل پر یکم شوال کو پوری دنیا کے مسلمان اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کے لیے عید مناتے ہیں۔ یہ اسلامی تہوار ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
’’ہر قوم کے لیے خوشی منانے کا دن ہے اور یہ ہمارے خوشی منانے کا دن ہے۔‘‘(مسلم)
اس وقت پورے ملک میں کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کا حکم نافذ ہے جس کے سبب مساجد بند ہیں مسلمانوں نے پوری پانچوں نمازیں اور نمازِ تراویح گھروں میں ادا کیں اور اب عید کی خریداری بھی متاثر ہے۔ اس لیے عید پر نئے کپڑے وغیرہ نہیں خریدے جا سکے کیوں کہ لوگوں کا ایک جگہ اکٹھا ہونا حکومت کی جانب سے ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اسے بیماری کے پھیلنے کا سبب اور اندیشہ بتایا گیا ہے۔ اس لیے علمائے کرام نے عید کی نماز گھر پر ہی چار یا پانچ لوگوں کے ذریعہ ادا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ساتھ ہی ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مومنوں کا معاملہ ہر حال میں خیر کا ہے۔لہٰذا حالات چاہے جیسے بھی ہوں ایک اچھا مسلمان صبر وشکر کا دامن نہیں چھوڑتا۔ تاہم ان پریشان کن حالات میں بھی ہمیں عید کے دن خوشی کے اس موقع کو بالکلیہ فراموش کرنا، رنج والم کی فضا طاری کرنا اور مایوس رہنا کسی طرح زیب نہیں دیتا، کیوں کہ خوشی کے ایام میں خوش رہنا یہ فطری عمل ہے اور اسلام دینِ فطرت ہے۔ ہم خوشی کے اس موقع کو حسب ہدایت منائیں گے۔چوں کہ عید اسلام کا ایسا تہوار ہے جو اپنے دامن میں فضل ورحمت، فرحت ومسرت اور باہمی مؤدت ومحبت کا سامان لے کر آتا ہے۔ یہ امت مسلمہ کے لیے سچی خوشی کا موقع ہے۔ اسی وجہ سے ہر سال اس دن کا خاص طور سے اہتمام کیا جاتا ہے۔ علمائے کرام کی رائے ہے کہ عید کے دن خوشیاں منانا دین کی علامات (شعائر دین) میں سے ہے۔ صبح کو غسل کرنا، نیا یا عمدہ لباس زیب تن کرنا، خوشبو لگانا، دوستوں اور پڑوسیوں سے ملنا جلنا، خوشیاں منانا، مہمان نوازی کرنا اور جائز حدودمیں رہتے ہوئے مسرت کا بھرپور اظہار کرنا اِس دن کے پسندیدہ اعمال ہیں۔ اس دن کا روزہ رکھنا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص اس دن خوشی منانے کے بجائے روزہ رکھ کر خود کو زیادہ متقی وپرہیزگار ظاہر کرنے کی کوشش کرے تو وہ شریعت کی نگاہ میں نافرمان مانا جائے گا۔ جن 5 ایام میں روزہ رکھنے کو حرام قرار دیا گیا ہے ان میں ایک دن عید الفطر یعنی یکم شوال کا بھی ہے۔
لاک ڈاون کی اس مصیبت کی گھڑی میں ہمارے خوشی منانے کا انداز یہ ہونا چاہیے جس پر برسوں سے ہمارا عمومی عمل رہا ہے کہ اس عید پر ہم اپنے آس پڑوس میں کسی یتیم، غریب بے بس اور محتاج کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑ یں گے، لاک ڈاؤن میں بہت سے لوگ دانے دانے اور کھانے پینے کے محتاج ہو گئے ہیں۔ ہم ان کے احوال دریافت کریں گے اور حتی الامکان ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔ جب ہم کسی کی ضرورت پوری کرتے ہیں تو اس سے ہمارا رب بھی بہت خوش ہوتا ہے، پھر وہ ہمارے اس عمل سے ہماری پریشانی دور کر دیتا ہے۔ زکوٰۃ اور صدقۂ فطر کا حکم بھی اسی لیے دیا گیا ہے تاکہ نادار، لاچار اور مستحقین بھی عید کی خوشی میں برابر شریک ہو سکیں اور کوئی مسلمان عید کے دن بھوکا نہ رہے۔ اسلام میں ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے قطع تعلق کی اجازت نہیں ہے، اس دن کسی مسلمان کے دل میں کسی طرح کے کینہ، بغض وعداوت کے جذبات کی موجودگی کی کوئی گنجائش نہیں۔ خوشی کے اس دن جس طرح ہم غسل کرکے بدن صاف کرتے ہیں، اچھا لباس پہنتے ہیں اسی طرح ہمیں اپنے دل کی صفائی کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔ ہم اپنے بھائی کا خیرمقدم اور استقبال کریں۔ اس معاملہ میں خود سے پہل کرنا زیادہ بہتر ہے۔ نبی کریم کا ارشادہے:
’’حقیقی صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ چکائے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کی قرابت کو منقطع کر دیا جائے تو وہ اس قرابت کو قائم رکھے۔ (بخاری)
اس لیے رشتہ داری کو نبھاتے ہوئے اعزا واقارب سے اگر ملاقات ممکن نہ ہو تو انہیں فون کریں۔ خاص طور پر والدین سے اگر دور ہوں تو ان سے بات کریں اور ان کے لیے عید کے فرحت وسرور کا ممکن سامان مہیا کریں۔ یہ صلہ رحمی نہ صرف اس شخص کی عید کو دوبالا کر دیتی ہے بلکہ اس کے لیے کشادگی رزق اور عزوشرف کا ذریعہ بھی ثابت ہوتی ہے۔ نبی کریم کا ارشاد ہے: ’’جو شخص یہ چاہتاہے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی زندگی کی مہلت دراز ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک اور ان کے ساتھ احسان کرے۔‘‘ (بخاری ومسلم)۔
عید کی خوشی:
عید کی خوشی کن لوگوں کے لیے ہے؟ کیا اُن کے لیے جنہوں نے ایک مبارک مہینہ پایا اور اسے گنوادیا اور اس سے استفادے کے لیے کوئی لمحہ نہ نکال سکے، بلکہ خواہشات کی پیروی میں محرمات کے مرتکب ہوئے؟ نہیں! بلکہ اِس دن کی خوشی کے مستحق وہ لوگ ہیں جنہوں نے رمضان کے روزے رکھے، قیام اللیل کا اہتمام کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا وخوش نودی کے لیے اعمال صالحہ کی طرف سبقت لے جانے کی سعیٔ مسلسل کرتے رہے۔جیسا کہ نبی کریم کا ارشاد ہے:
روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت (متفق علیہ)۔ جس طرح انہیں رمضان میں روزہ افطار کرتے وقت اطاعت الٰہی پر ایک قسم کی فرحت میسر ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح رمضان المبارک میں عبادات کو بحسن وخوبی انجام دینے کے بعد اس ماہ کے اختتام پر ثواب کی امید میں انہیں ایک خوشی ملتی ہے۔ یہ اس کا اجر ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے نیکو کار بندوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا بلکہ انہیں پورا پورا اجر عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا (توبہ120)
عید کو وعید نہ بنائیں:
یہ عبادت واطاعت درحقیقت اظہار تشکر ہے جس پر اظہار مسرت ہی’عید‘ ہے۔ اسی لیے عید کے دن بھی ہر وہ عمل جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے محض جشن اور خوشی کے نام پر انجام دینا شکر گزاری نہیں بلکہ ناشکری ہے جو عذاب الٰہی اور وعید کا باعث ہے نہ کہ عید کا۔ اس لیے ہم عید الفطر کے موقع پر یہ عہد کریں کہ جس طرح ہم نے ماہ رمضان کو عبادت واطاعت میں گزارا ہے اسی طرح سال کے بقیہ مہینے بھی گزاریں گے تاکہ رمضان المبارک کا تربیتی عمل جاری رہے اس لیے آنے والا ہر مہینہ ہمارے لیے امتحان کا ہوگا۔ پھر یہی جذبۂ اطاعت وشکر گزاری ہمارے لیے ہر روز عید کا سبب ہوگا۔جیسا کہ سیدنا انس بن مالک ؓ بیان فرماتے ہیں:
’’مومن پر گزرنے والا ہر دن جس میں اس سے گناہ سرزد نہ ہو وہ ’عید‘ کا دن ہے۔ وہ دن جب وہ دنیا سے ایمان کے ساتھ رخصت ہو ’عید‘ کا دن ہے۔ جس دن قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ ہو کر پل صراط سے گزر جائے وہ ’عید ‘ کا دن ہے۔ وہ دن جب وہ جنت میں داخل کیا جائے ’ عید‘ کا دن ہے اور وہ دن جب وہ اپنے پروردگار کا دیدار کرے ’عید‘ کا دن ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہماری عبادتوں کو قبول فرمائے اور ہمیں راہ راست کی توفیق بخشے۔ آمین۔
رشتہ داری کو نبھاتے ہوئے اعزا واقارب سے اگر ملاقات ممکن نہ ہو تو انہیں فون کریں۔ خاص طور پر والدین سے اگر دور ہوں تو ان سے بات کریں اور ان کے لیے عید کے فرحت وسرور کا ممکن سامان مہیا کریں۔ یہ صلہ رحمی نہ صرف اس شخص کی عید کو دوبالا کر دیتی ہے بلکہ اس کے لیے کشادگی رزق اور عزوشرف کا ذریعہ بھی ثابت ہوتی ہے۔