قربانی،بندگی رب کے عہد کی تجدید

اللہ کو محبوب عمل ۔خدا سے بندے کے اٹوٹ تعلق کا اظہار

ریاض فردوسی،پٹنہ

 

کائنات کا ذرہ ذرہ محو حیرت ہے، ملائکہ ششدر ہیں،روئے زمین کی تمام مخلوق، کائنات عالم کے نباتات،جمادات، حیوانات نے دیکھا کہ بیٹا منہ کے بل زمین پر ہے اور باپ چھری لے کر تیار ہے۔جبرائیل ؑ ،اسرافیل، میکائیل ؑ،عزرائیل اور ان کے ساتھی حیران ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ ماہِ کامل کی بلندیوں سے بالاتر ہو کر بنا کسی کرب والم کے اپنے رب کی خوشی کے لیے اپنے جگر گوشے کا خون بہانے کو تیار ہو گیا ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
خلیل اللہ کہ چہرہ انور پر گھبراہٹ کا ہلکا سا بھی سایہ نمودار نہیں۔عبد اللہ اپنی عبدیت کا حق ادا کرنے میں سر تسلیم خم ہے،عاشق صادق عشق حقیقی کی لا متناہی میں گم ہے،معشوق کی خاموشی فضا کی بے تابی کو اور ہوا دے رہی ہے۔اب ذبح ہونے کی باری ہے۔مقدس فرزند عاشق صادق والد سے خوب با خبر ہے۔معلوم ہو کہ عاشق معظم نے ذبح کرنے کے لیے بیٹے کو چِت لٹایا بلکہ اوندھے منہ لٹایا تاکہ ذبح کرتے وقت بیٹے کا چہرہ دیکھ کر کہیں محبت و شفقت ہاتھ میں لرزش پیدا نہ کر دے۔ اس لیے وہ معظم ہستی کی منشا یہ ہے کہ نیچے کی طرف سے ہاتھ ڈال کر چھری چلائیں۔ اس سے قبل کہ چھری کام دکھائے معشوق ابد و ازل نے دیکھا کہ بوڑھا باپ اپنے ارمانوں سے مانگے ہوئے بیٹے کو محض ہماری محبت ہماری چاہت ہماری خوشنودی پر قربان کر دینے کے لیے تیار ہے اور بیٹا بھی گلے پر چھری چلوانے کے لیے راضی بہ رضا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر دریائے رحمت نے جوش مارا۔ دربار ربانی سے ندا آتی ہے، ائے میرے پیارے ابراہیم تم نے خواب کو سچ کردکھایا۔تمہاری بندگی و ایثار و قربانی کو ہم نے قیامت تک کے لیے اپنے صاحب مال بندوں پر فرض کر دیا ہے۔میرے ابراہیمؑ تمہارا ذکر جمیل،تمہاری بیوی کا ذکر خیر،ولد صالح ؑ کی جانثاری کا چرچا چہار دانگ عالم میں گونجے گا۔
پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا کہا ائے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کرتا ہوں۔اب تو بتا تیری کیا رائے ہے۔کہا ائے میرے باپ کیجیے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے، اللہ نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔(سورہ صافات۔آیت۔102)
یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں یہ نہیں دیکھا تھا کہ انہوں نے بیٹے کو ذبح کر دیا ہے، بلکہ یہ دیکھا تھا کہ وہ اسے ذبح کر رہے ہیں۔ اگرچہ اس وقت وہ خواب کا مطلب یہی سمجھے تھے کہ وہ صاحبزادے کو ذبح کر دیں۔ اسی بنا پر وہ ٹھنڈے دل سے بیٹا قربان کر دینے کے لیے بالکل تیار ہو گئے تھے۔ مگر خواب دکھانے میں جو باریک نکتہ اللہ تعالیٰ نے ملحوظ رکھا۔ صاحبزادے سے یہ بات پوچھنے کا مدعا یہ نہ تھا کہ تو راضی ہو تو خدا کے فرمان کی تعمیل کروں۔ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام دراصل یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ جس صالح اولاد کی انہوں نے دعا مانگی تھی، وہ فی الواقع کس قدر صالح ہے۔ اگر وہ خود بھی اللہ کی خوشنودی پر جان قربان کر دینے کے لیے تیار ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دعا مکمل طور پر قبول ہوئی ہے اور بیٹا محض جسمانی حیثیت ہی سے ان کی اولاد نہیں ہے بلکہ اخلاقی و روحانی حیثیت سے بھی ان کا سپوت ہے۔ یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ پیغمبر باپ کے خواب کو بیٹے نے محض خواب نہیں بلکہ خدا کا حکم سمجھا تھا۔ اب اگر یہ فی الواقع حکم نہ ہوتا تو ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ صراحۃً یا اشارۃً اس امر کی تصریح فرما دیتا کہ فرزند ابراہیم نے غلط فہمی سے اس کو حکم سمجھ لیا۔ لیکن پورا سیاق و سباق ایسے کسی اشارے سے خالی ہے۔ اسی بنا پرشریعت اسلام کا قاعدہ کلیہ عقیدہ ہے کہ انبیاء کا خواب محض خواب نہیں ہوتا بلکہ وہ بھی وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔مینڈھا فرزند ابراہیم علیہ السلام جیسے صابر و جاں نثار لڑکے کا فدیہ تھا، اور اسے اللہ تعالیٰ نے ایک بے نظیر قربانی کی نیت پوری کرنے کا وسیلہ بنایا۔ اس کے علاوہ اسے بڑی قربانی قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قیامت تک کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ سنت جاری کر دی کہ اسی تاریخ کو تمام اہل ایمان دنیا بھر میں جانور قربان کریں اور وفاداری و جاں نثاری کے اس عظیم الشان واقعہ کی یاد تازہ کرتے رہیں۔(تفسیر ابن کثیر)
نبی دوعالم ﷺ کا فرمان ہے:
ترجمہ: جس کوقربانی دینے کی گنجائش ہو اوروہ قربانی نہ دے تو وہ ہمارے عید گاہ میں نہ آئے۔
ذو الحجہ کے دس دن اللہ کے حضور پسندیدہ ہیں، ان دنوں میں انجام دیا جانے والاہرصالح عمل اللہ کو محبوب ہے، ان میں ایک بہترین ومحبوب عمل قربانی ہے۔ ہادی دوعالم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے۔
ترجمہ:اللہ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر(قربانی کا دن) اور یوم القر(منی میں حاجیوں کے ٹھہرنے کادن) ہے۔
دوسرے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں ارشاد فرماتے ہیں۔
دنیا کے افضل دنوں میں ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن افضل دن ہیں۔
قربانی کے اہم مسائل
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: نہ ان کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے نہ خون، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے اس نے ان کو تمہارے لیے اس طر ح مسخر کیا ہے، تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو اے (نبیﷺ) بشارت دے دو، نیکوکار لوگوں کو ۔(سورہ الحج آیت ۳۷) جاہلیت کے زمانے میں اہلِ عرب جس طرح بتوں کا گوشت بتوں پر چڑھاتے تھے،اسی طرح اللہ کے نام کی قربانی کا گوشت کعبہ کے سامنے لا کر رکھتے تھے اور خون اس دیواروں پر لتھیڑتے تھے۔ اسی جاہلیت کو ختم کر نے کے لیے اللہ نے اس آیت کو نازل فرمایا ۔۔اگر تم شکرِ نعمت کے جذبہ کی بنا پر خالص نیت کے ساتھ صرف اللہ کے لیے قربانی کر و گے، تو اِس جذبے اور نیت اور خلوص کا نذرانہ اس کے حضور پہنچ جائے گا۔ورنہ خون اور گوشت یہیں دھرا رہ جائے گا ، اصل چیز جو اللہ کے حضور پیش ہوتی ہے جانور کا خون اور گوشت نہیں بلکہ تمہارا تقویٰ ہے۔قربانی صرف اس لیے واجب نہیں کی گئی ہے کہ یہ تسخیر حیوانات کی نعمت پر اللہ کا شکریہ ہے،بلکہ اس لیے واجب کی گئی ہے کہ جس کے یہ جانور ہیں اور جس نے انہیں ہمارے لیے مسخر کیا ہے اس کے حقوقِ مالکانہ کا اور اس کے حکم پر عمل کر کے اعترافِ بندگی کریں،تاکہ ہمیں کبھی یہ بھول لا حق نہ ہو جا ئے کہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا مال ہے۔اسی مضمون کو وہ فقرہ ادا کرتا ہے جو قربانی کے وقت کہا جاتا ہے ’اللھم مِنک ولَک َ‘ ائے اللہ تیرا ہی مال ہے اور تیرے لیے حاضر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کتنا عظیم احسان ہے کہ اس نے مویشیوں کو ہمارے لیے مسخر کر کے لا زوال نعمت بخشی ہے۔اللہ کی بڑائی بیان کرو اس نے تمہیں اپنے دین اور سنت کی توفیق عطا فرمائی۔ قول و فعل سے نیکی کر نے والوں کو جنت کی خوشخبری سنا دیجیے صبر وشکرکے ساتھ قربانی کر نے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ رسول پر اور قرآن کر یم پر ایمان رکھنے والوں سے قربانی طلب کرتا ہے جان و مال کی قربانی اسلام کے لیے طلب کرتا ہے سو ہمارا معبود ایک ہی ہے جو اللہ وحدہ لا شریک ہے، سو موحد خالص بن کر اسی کی عبادت کرو۔ قربانی کا ہر لمحہ پاکیزگی مانگتا ہے۔تقسیم کے عمل کی پاکیزگی،دل ودماغ اور قربان گاہ کی پاکیزگی۔جانور حلال کمائی سے خریدا گیاہو،قربانی اللہ کے لیے ہو شہرت کے لیے نہ ہو،تقسیم کے وقت گوشت مستحقین کے گھر پہنچایا جائے۔قربانی کی جگہ صاف ستھری ہو،ذبح کا عمل صاف جگہ پر ہو۔ذبح کے بعد جگہ صاف ستھری کر دی جائے۔ گوشت کی تقسیم کے وقت دل میں غرور کا جذبہ نہ ہو۔جانور صحت مند اور بے عیب ہو۔جانور کو محبت سے پالا جائے۔ :
قربانی کے لیے اونٹ،گائے،بکری،دنبہ،اور دیگر حلال جانور، چاہے نر ہو یا مادہ ،خصی ہو یا غیر خصی سب حکم میں یکساں ہیں، یعنی سب کی قربانی ہو سکتی ہے۔بھینس گائے میں شمار ہے اس کی بھی قربانی ہو سکتی ہے بھیڑ اور دنبہ بکری میں داخل ہیں ان کی بھی قربانی ہو سکتی ہے(عالمگیری/297)
قربانی کے جانور کی عمر یہ ہونی چاہیے اونٹ پانچ سال،گائے دوسال،بکری ایک سال۔ اگر اس سے کم عمر ہو تو قربانی جائز نہیں،زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے،ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہ کا بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے (در مختار/297)۔
(1)قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہیے،لہٰذا خرید تے وقت اس کا خاص خیال رکھیں تھوڑا سا عیب ہو تو قربانی ہو جائے گی مگر مکروہ ہوگی اور زیادہ ہو تو ہوگی ہی نہیں (2) اندھے اور کانے کی(3)جس جانور کی ناک کٹی ہو(4)اتنا کمزور ہو کہ ہڈیوں میں مغز نہ ہو(5)جس کے پیدائشی دونوں کان نہ ہوں (6)جانور اتنا لنگڑا ہو کہ قربان گاہ تک اپنے پاؤں سے نہ جاسکے(7)جس جانور میں اتنا جنون ہوکہ چرتا بھی نہ ہو (8)جس جانور کے دانت نہ ہوں (9)جس کا تھن کٹا ہو یاتھن سوکھا (چاروں میں سے اگر صرف ایک سوکھا ہوتو حرج نہیں) (10) خنثیٰ جانور (یعنی جس کے نر اور مادہ دونوں طرح کی علامتیں ہوں)(11) وہ جانور جو صرف غلاظت کھاتا ہو،ان میں سے کسی کی قربانی جائز نہیں (در مختار/535)
ذبح سے پہلے قربانی کے جانور کے بال اپنے کسی کام کے لیے کاٹ لینا یا اس کا دودھ دوہنامکروہ و ممنوع ہے۔قربانی کے جانور پر سوار ہونا یا اس پر کوئی چیز لادنا یا اس کو اجرت پر دینا ممنوع ہے، غرض اس سے منافع حاصل کرنا منع ہے،اگر اس نے اون کاٹ لی یا دودھ دوہ لیا تو اسے صدقہ کرے اور اجرت پر جانور کو دیا ہے تو اجرت کو صدقہ کرے اور اگر خود سوار ہوا یا اس پر کوئی چیز لادی تو اس کی وجہ سے جانور میں جو کچھ کمی آئی اتنی مقدار میں صدقہ کرے۔(درمختار/544)
ذبح کے وقت کے مکروہ کام:
۱۔جانو ر کے سامنے چھری تیز کرنا،
(عالمگیری: ۲۸۷۔۵)
۲:جانور کا گھسیٹ کر مذبح لے جانا،
(شامی:۲۹)
۳: لٹادینے کے بعد ذبح میں تاخیر کر نا ، (شامی: ۲۹)
۴:چُھری کا کند ہونا (شا می:۲۹)
۵: جانور کو قبلہ رخ نہ کرنا(شامی:۲۹)
۶: کسی عیسائی وغیرہ سے ذبح کر وانا،(البنایہ:۱۲۔۵۸)
۷:گدی کی طرف سے ذبح کر نا (عالمگیر:۲۵۷۔۵)
ٌٌ۸:ذبح میں بیجاسختی کر نا (عالمگیر:۲۵۷۔۵)
۹:چار میں سے بعض رگوں کو نہ کاٹنا(عالمگیر ی:۲۵۷۔۵)
۱۰:ٹھنڈا ہونے سے قبل کھال یا سر جدا کر نا (شامی:۲۹)
نوٹ:بائیں ہاتھ سے ذبح کر نا جا ئز تو ہے لیکن خلاف سنت ہے،لہذا بغیر کسی عذر کے ایسا نہیں کر نا چاہیے۔
کوئی بھی مسلمان یا کتابی جبکہ وہ اچھی طرح ذبح کر نا جانتا ہو، البتہ کسی کتابی سے ذبح کروانا مکروہ ہے۔(البنایہ:۱۲۔۵۸)
بہتر یہ ہے خود اپنے ہا تھ سے ذبح کرے،خود نہ جا نتا ہو تو کسی اور سے ذبح کروالے، البتہ قربانی کے وقت جانور کے پاس موجود ہونا بہتر ہے، عورت اگر پردہ کی وجہ سے سامنے کھڑی نہ تو حرج نہیں ہے۔
ذبح کا وقت: دس ذی الحجہ سے لے کر بارہ ذی الحجہ کی شام یعنی غروب آفتاب سے پہلے قربانی کی جا سکتی ہے۔۔(بعض کے نزدیک ۱۳ ذی الحجہ تک ہے) بعض کے نزدیک مغرب کے بعد بھی کر سکتے ہیں، البتہ پہلے دن کر نا افضل ہے، لیکن عید کی نمازسے پہلے نہیں کی جا سکتی، اور ان ایام میں رات کو بھی کر نا جا ئز ہے۔
ذبح میں تین بنیادی شرائط
۱۔ذابح کا مسلمان یا حقیقی کتابی ہونا ،چنانچہ کسی کا فر،مشرک،مرتد،یا قادیانی وغیرہ کا ذبیحہ حلال نہیں۔
۲۔بوقت ذبح اللہ کا نام لینا ،بھولے سے اگر نہ لیا جا ئے تو حلال ہے، لیکن جان بوجھ کر چھوڑنے سے جا نور حرام ہو جا تا ہے نیت کا بہت ہی زیادہ دخل ہے:(عمل کا دارو مدار نیت پر ہے:الحدیث)
۳۔شرعی طریقے سے حلقوم، سانس کی نلی اور خون کی دو رگیں کا ٹنا ، رگیں کل چار ہو تی ہیں، جن میں سے صرف تین کا کاٹنا بھی کا فی ہے(جوابر افقہ)
ذبح کا طریقہ: ذبح کا طریقہ یہ ہے کہ جانور کا رُخ قبلہ کی طرف کر کے لِٹائے ،اُس کے بعد دعاء پڑھے ۔اللہ اکبر کہتے ہوئے:ذبح کرے۔(بے ادبی کے وجہ سے دعا نہیں دی جا رہی ہے۔دعا خود تلاش کرے)
واضح رہے کہ گلے کو اتنا کاٹا جا ئے کہ چاروں رگیں کٹ جائیں۔
۱۔نرخرہ، جس سے سانس لیتا ہے۔
۲۔دوسری اُس سے چپکی ہوئی وہ نا لی ہے، جس سے دانہ پانی جا تا ہے۔
۳۔دو موٹی شہ رگیں کٹ جا ئیں تب بھی ذبح درست ہے اس کا کھانا حلال ہے،لیکن اگر صرف دو رگیں کٹیں تو وہ جا نور مردار ہو گیا ،اُس کا کھانا حرام ہے۔
جانور کی سات چیزیں کھانا حرام ہے
۱۔بہتا خون،۲۔نر کی پیشاب گاہ،۳۔مادّہ کی پیشاب گاہ،۴۔کپورے،۵۔غدود،۶۔مثانہ،۷۔پِتّا۔
نوٹ: اوجھڑی جس سے بٹ بنایا جاتا ہے جائز ہے کیونکہ اس میں ممانعت کسی وجہ سے نہیں ہے۔
گوشت کے مسائل:
۱۔ خود بھی کھا یا جا سکتا ہے اور غربا ء، اغنیاء اور غیر مسلمان سب کو کھلایا جاسکتا ہے(عالمگیری:۵۔۳۰۰)
۲۔ سارا گوشت خود استعمال کرنا یا سارا گوشت صدقہ کر دینا دونوں طرح درست ہے(شامی:۳۲۸۔ء)
۳۔ بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کیے جا ئیں:ایک حصہ خود کھائیں،دوسرا فقراء کو ، اور تیسرا عزیز و اقارب، دوست وا حباب کو کھلائیں۔(شامی ۳۲۷ ء)
۴۔چرم قصائی کو اُجرت کے طور پر دینا یا بیچنا درست نہیں،اگر ایسا کیا تو قیمت کا صدقہ کر نا ضروری ہے (عالمگیری:۵۔۳۰)
۵۔ شادی وغیرہ کی تقریب میں مہمانوں کو بھی کھلایا جا سکتا ہے۔
۶۔اپنے نوکر اور ملازم کو کھلایا جا سکتا ہے، تاہم اگر اُن کا کھانا اُجرت اور مزدوری میں طے ہوتو کھلانا درست نہیں،کیونکہ یہ بھی بیچنے کی ہی ایک شکل ہے،البتہ یہ کر سکتے ہیں کہ اُ ن کو اتنے دِنوں تک قربانی کے علاوہ کوئی دوسرا گوشت یا سبزی با زار سے لا کر کھلائے، یا پھر اتنے دونوں تک(مزدوری کے دِنوں میں )کھانا نہ کھلائے بلکہ کھانے کی قیمت د ے دی جا ئے۔
۷۔نذر اور منت کی قربانی کا گوشت نہ خود کھا سکتے ہیں، اور نہ ہی دوسروں کھلا سکتے ہیں۔
۸۔ میت کی وصیت کر دہ قربانی کا گوشت نہیں کھایا جا سکتا ، فقراء پر ہی صدقہ کرنا لا زم ہے۔(شامی:۔۳۲۷)
واللہ اعلم بالصواب۔

قربانی کا ہر لمحہ پاکیزگی مانگتا ہے۔تقسیم کے عمل کی پاکیزگی،دل ودماغ اور قربان گاہ کی پاکیزگی۔جانور حلال کمائی سے خریدا گیاہو،قربانی اللہ کے لیے ہو شہرت کے لیے نہ ہو،تقسیم کے وقت گوشت مستحقین کے گھر پہنچایا جائے۔قربانی کی جگہ صاف ستھری ہو،ذبح کا عمل صاف جگہ پر ہو۔ذبح کے بعد جگہ صاف ستھری کر دی جائے۔