ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی
معجزہ کے معنیٰ انوکھی یا حیرت میں ڈالنے والی بات اور خرق عادت یعنی عاجز کر دینے والا واقعہ کے ہیں۔ انبیائے کرام کے ذریعہ رونما ہونے والے معجزات چونکہ بہت مشہور ہیں اس لیے انہیں نبیوں کی ذات تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ظاہر ہونے والی نشانیوں میں کئی ایسی ہوتی ہیں کہ جس کے کرنے پر انسان قادر نہیں ہوتا کیونکہ وہ انسانی قبضۂ قوت سے پرے ہوتی ہیں۔ افغانستان کے واقعات کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اس موقع جالوت اور طالوت کے معرکہ کی یاد د تازہ ہوجاتی ہے کہ جس کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے ’’جب طالوت اور اس کے ساتھی مسلمان دریا پار کر کے آگے بڑھے، تو اُنہوں نے طالوت سے کہہ دیا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے‘‘۔ یہی کیفیت طالبان کے ساتھی پرویز مشرف کی تھی جس نے بیچ منجدھار میں کہہ دیا اب ہم ان امریکہ نواز لشکروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس کے برعکس طالبان ’’جو یہ سمجھتے تھے کہ انہیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے، انہوں نے کہا: ’’بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا، اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘ حالیہ پُروقار امن معاہدہ اس آیت کی زندہ تفسیر بن گیا ہے۔
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت گنوانے بلکہ اپنی ناک کٹانے کے بعد امریکہ کے صدر نے دنیا کے سامنے صرف دو متبادل رکھے تھے ’’ہمارے ساتھ یا ان کے ساتھ‘‘۔ اس کے معنیٰ یہ تھے جو کوئی ہمارے ساتھ آنے کے بجائے طالبان کی حمایت کرے گا تو اس کو بھی دشمنوں میں شمار کرکے نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ جارج ڈبلیو بش کی اس دہاڑ سےخوفزدہ ہو کر ایک ننھی سی نوازئیدہ ریاست کے خلاف ساری دنیا کی عظیم طاقتیں ایک ساتھ میدانِ جنگ میں آگئیں۔ یہ ایک شرمناک واقعہ تھا کہ ایک ننھے سے بے سروسامان بچے کے خلاف دنیا بھر کے دبنگ کیل کانٹوں سے لیس ہوکر صف آراء ہو گئے تھے۔ غزوۂ احزاب کی سی صورتحال رونما ہوگئی تھی کہ جس میں مدینہ کی چھوٹی سے ریاست کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے سارے قبائل متحد ہوکر آئے تھے۔ ناٹو کے پرچم تلے دنیا بھر کی فوجوں کے افغانستان پر حملہ آور ہونے کے منظر کی ہلکی سی جھلک کتاب الٰہی میں ملاحظہ فرمائیں ’’جب وہ اُوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آگئے، اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ اُس وقت ایمان لانے والے خوب آزمائے گئے اور بُری طرح ہلا مارے گئے‘‘۔ اس نازک صورتحال میں ایٹمی بم پر اختیار رکھنے والے پاکستانی صدر پرویز مشرف ’’پتھر کے دور‘‘ میں پہنچا دیے جانے کی دھمکی سے خوفزدہ ہو کر امریکہ بہادر کے باجگزار بن گئے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ارشادِ حق ہے جب ان کا ایک فریق یہ کہہ کر نبی ﷺسے رخصت طلب کر رہا تھا کہ ’’ہمارے گھر خطرے میں ہیں، حالانکہ وہ خطرے میں نہ تھے، دراصل وہ (محاذ جنگ سے) بھاگنا چاہتے تھے‘‘ ۔ ۲۰ سال قبل جس حکمراں نے اپنے اقتدار کو بچانے کی خاطر دشمنانِ اسلام کو گلے لگالیا تھا آج اس کی حالت قابلِ رحم ہے۔ اس لیے کہ اس نے قرآن حکیم کے اس حکم سے روگردانی کی کہ جس میں فرمایا گیا ’’ائے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنہی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں کہتے ہیں ’’ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں‘‘ مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمہیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اِس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے‘‘۔
پرویز مشرف کی رسوائی کا یہ عالم ہے کہ اقتدار سے محروم وہ فرعونِ وقت در در کی ٹھوکر کھا رہا ہے۔ اس کے اپنے ملک میں اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی نیز ان سارے لوگوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا جن کے بھروسے اس نے اسلام پسندوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ پسندیدہ بندوں کے بارے میں ان نافرمان لوگوں سے فرماتا ہے’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ اُن کو محبوب ہوگا، جو مؤمنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے‘‘۔
دشمنانِ حق پر تکیہ کرنے والے مسلم حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ’’تمہارے رفیق تو حقیقت میں صرف اللہ اور اللہ کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنا لے اُسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے‘‘۔ حالاتِ زمانہ ان آیات کے ایک ایک حرف کی پھر سے تصدیق کر رہے ہیں۔ کسے خبر تھی کہ ایک دن امریکہ بہادر ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر امن کے سمجھوتے پر دستخط کرے گا جن کا ساتھ دینے والوں کو تک ڈرایا دھمکایا گیا تھا۔ بیس سال قبل یکہ و تنہا طالبان کے پاس صرف رب کائنات کی یہ ڈھارس تھی کہ ’’ دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مؤمن ہو ‘‘۔ یہ بشارت ویسے تو عام ہے لیکن اس پر ہر کسی کو ایسا پختہ یقین نہیں ہوتا کہ ’’اللہ نے لکھ دیا ہے، میں اور میرے رسول ہی غالب ہو کر رہیں گے۔ فی الواقع اللہ زبردست اور زور آور ہے‘‘۔ اس لیے ہر کوئی اس میں بیان کردہ خوشخبری کا حقدار نہیں ہوتا کہ ’’ جو اللہ اور اُس کے رسول ﷺاور اہلِ ایمان کو اپنا رفیق بنا لے اُسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے‘‘۔ آج طالبان اس بشارت سے نواز دیے گئے ہیں۔ ان پر وہ وقت بھی آیا تھا کہ جس کا بیان ارشادِ الٰہی میں یوں ہے ’’آخر کار منکرین نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ ’’یا تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے‘‘ ۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستادہ پیغمبروں کے ساتھ جو معاملہ کیا وہی ان کی اتباع کرنے والے مخلصین کے ساتھ کیا گیا کہ ’’تب اُن کے رب نے اُن پر وحی بھیجی کہ ’’ہم اِن ظالموں کو ہلا ک کر دیں گے اور اُن کے بعد تمہیں زمین میں آباد کریں گے یہ انعام ہے اُس کا جو میرے حضور جواب دہی کا خوف رکھتا ہو اور میری وعید سے ڈرتا ہو‘‘ اُنہوں نے فیصلہ چاہا تھا (تو یوں اُن کا فیصلہ ہوا) اور ہر جبار دشمن حق نے منہ کی کھائی‘‘۔ مشیت ایزدی کا یہ فیصلہ اقوامِ عالم کے لیے تازیانۂ عبرت بن کر سامنے آیا ہے۔