قحط1896 : ’’کیسری ‘‘کے مضامین کی پاداش میں تلک پرغداری کا مقدمہ اورسزا

جسٹس بدرالدین طیب جی کے ہاتھوں قید سے ملی تھی رہائی

افروز عالم ساحل

بات 1896 کی ہے۔ مہاراشٹرا میں قحط پڑا ہوا تھا۔ اناج کی دکانیں لوٹی جارہی تھیں۔ اس پورے معاملے میں بال گنگا دھر تلک نے 17 نومبر 1896 کے ’کیسری‘ کے مضمون کے ذریعے برطانوی حکومت کو یاد دلایا کہ لوگوں کی جان کی حفاظت کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ مضمون میں قحط سے متاثرہ دیہاتیوں کی پریشان حالی کا حوالہ دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر حکومت نے جلد ہی کچھ نہیں کیا تو کسان بغاوت کر دیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ ’خصوصی ریلیف فنڈ’ جو خزانے میں پڑا ہے اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔

ان کے رسالہ کے کالموں میں کئی مہینوں تک اس ’اکال‘ کی بحث ہوتی رہی۔ دراصل اس ’کیسری‘ میگزین کی تدوین، اشاعت اور طباعت کی ذمہ داری بال گنگا دھر تلک پر تھی۔ تلک نے یہاں تک لکھا کہ کسی بھی ضلع اور گاؤں کے کسان کم سے کم اس سال ’لینڈ ٹیکس‘ ادا نہ کریں۔

انگلینڈ کی ملکہ نے تقریر میں کہا تھا کہ وہ قحط زدگان کو بچانے کے لیے بے چین ہیں۔ اس کا حوالے دیتے ہوئے تلک نے اپنے قارئین سے پوچھا کہ ’ملکہ چاہتی ہیں کہ کوئی نہ مرے، گورنر اعلان کرتا ہے کہ سب زندہ رہیں اور سکریٹری آف اسٹیٹ اگر ضروری ہوا تو خرچ کرنے پر راضی ہیں، تب آپ بزدلی کے ساتھ بھوکوں مریں گے؟ اگر آپ کے پاس حکومت کی فیس ادا کرنے کے لیے پیسہ ہے تو ضرور دیجیے، لیکن اگر نہیں ہے تو کیا آپ ماتحت سرکاری افسران کے نام نہاد غصے سے بچنے کے لیے سب کچھ بیچ دیں گے؟ موت کے چنگل میں بھی آپ دلیر نہیں ہو سکتے؟ اگر انگلینڈ میں اس طرح کا قحط پڑتا اور وہاں کا وزیر اعظم اتنا بے حس ہوتا تو حکومت اسکیٹلس کی طرح لڑھک جاتی۔ بازار کیوں لوٹتے ہو؟ کلکٹر کے پاس جاؤ اور کام اور اناج دینے کو کہو یہ اس کا وجوب ہے۔ ‘

1897 کے شروع میں ملک ’بیوبونک پلیگ’ وبا کا شکار ہو گیا۔ اسے عام زبان میں گلٹی والا پلیگ کہا گیا۔ چار ہفتوں کے اندر ہی بمبئی میں چار سو افراد اس پلیگ کا شکار ہوگئے۔ وائسرائے نے صورتحال کی سنگینی کے تحت 4 فروری 1897 کو ’اپیڈیمک ڈیزیز ایکٹ‘ نافذ کر دیا۔ گورنرز کو خصوصی حقوق مل گئے۔

بال گنگا دھر تلک نے حکومت کی حمایت کی۔ مریضوں کو باقی آبادی سے الگ رکھنے میں حکام کی مدد کی۔ انہیں اسپتالوں تک پہنچایا۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اپنے مکانوں میں رہ کر خود کو اوپر والے کی رحمت پر انحصار کرنے حق میں تھے۔

اس بیماری کی روک تھام کے لیے حکومت نے پونا میں رینڈ نامی ایک افسر مقرر کیا، جو ساتارا میں اسسٹنٹ کلکٹر رہ چکا تھا اور وہ اپنی طاقت آزمانے کے لیے مشہور تھا۔ اسے ’پلیگ کمشنر‘ بنا دیا گیا اور ’اپیڈیمک ڈیزیز ایکٹ‘ کے تحت خصوصی حقوق دے دیے گئے۔ رینڈ نے برطانوی فوج کو گھروں کے معائنے کے لیے بھیجا۔ معائنے کے بعد اس نے کئی گھروں میں موجود سامان کو تباہ کر دیا جن پر پلیگ کا شبہ تھا۔ یہی نہیں، یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی اور بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی کی۔ بہت سارے صحتمند افراد کو بھی وبائی اسپتال میں پہونچا دیا۔ یہ بالکل ویسا تھا، جیسا موجودہ دور میں کچھ جگہوں پر ہماری پولیس کر رہی ہے۔ بلکہ یہاں تو لوگوں کو جیل بھیج دیا جا رہا ہے، جہاں پہلے سے ہی کوویڈ-19 کے مریضوں کے پائے جانے کی خبر ہے۔

تلک نے ’کیسری‘ کے مضمون میں اس غیر انسانی سلوک کو ’اے واسٹ ایزین آف آپریشن‘ قرار دیا۔ ساتھ ہی وہ کچھ لوگوں کے ساتھ رینڈ سے ملنے گئے اور سمجھایا کہ اتنا سخت سلوک نہ کریں لیکن رینڈ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔

22 جون کو ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کا دن تھا۔ رات کے ڈنر کے بعد جب ’گورنمنٹ ہاؤس’ کے مہمان اپنی اپنی بگھیوں میں واپس جا رہے تھے تبھی رینڈ اور ایئرسٹ کا قتل کردیا گیا۔

اس واقعہ کے بعد پونا میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ قاتل کی شناخت کرنے والے کو بیس ہزار روپے انعام کا اعلان ہوا۔ حکومت کو اندازہ تھا کہ رینڈ اور ایئرسٹ کا قتل تلک کی ایک سازش ہے۔ تلک نے سخت زبان میں دو مضامین لکھے اور پولیس کی طرف سے ہراساں کیے جانے اور سرکاری افسر کے ذریعے پونا کی عوام پر ہونے والے ظلم وستم پر کڑی تنقید کی۔

تلک کے اس مضمون کے بعد ان کے چند مخلص دوستوں نے معافی مانگ کر اپنی جان چھڑانے کا مشورہ دیا تھا لیکن اس کے جواب میں ان کا صاف طور پر کہنا تھا، ’میں ایسا نہیں کر سکتا میں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں، اگر مجھے سزا ہوگی تو میرے ہموطنوں کی ہمدردی تکلیف کے موقع پر میری ڈھارس بندھائے گی۔‘

کہا جاتا ہے کہ تلک کے اس مضمون کے بعد اینگلو انڈین اخبارات نے بھی اپنی سازش کا آغاز کیا۔ تلک نے ’کیسری‘ کے مضامین کے ذریعہ ان اینگلو انڈین اخبارات پر حملہ کیا۔

ابھی چار ہفتے بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان مضامین کی بنا پر تلک پر غداری کا الزام لگا۔ گورنر لارڈ سینڈھرسٹ نے تلک کو قید کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ 27 جولائی 1897 کی رات کو تلک کو بمبئی کے گیر گاؤں سے حراست میں لیا گیا۔ یہ سب کچھ بالکل ٹھیک ویسا ہی ہے جیسا کہ ان دنوں ملک کے کئی صحافیوں کے ساتھ ہو رہا ہے یا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اگلے دن صبح تلک کے وکیل ڈی ڈی داور نے چیف پریزیڈنسی مجسٹریٹ کی عدالت میں کہا کہ تلک کی رہائی کے لیے ضمانت دینی چاہیے۔ لیکن مجسٹریٹ نے ان کی اس درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ آپ کے پیٹیشن میں جن برطانوی ماہرین کا حوالہ دیا گیا ہے وہ ہندوستان میں قابل اطلاق نہیں ہے۔ اس کے بعد جسٹس پارسن اور جسٹس ران ڈے کے سامنے ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دی گئی۔ انہوں نے بھی یہ کہہ کر ٹال دیا کہ پولیس کا کیس ہے، اس لیے جلدی ہی ختم ہو جائے گا۔ پولیس کارروائی ختم ہونے پر جب مقدمہ شروع نہیں ہوا تو تلک کے وکیل داور نے ایک اور درخواست دی جو بدقسمتی سے پارسن اور متھمین کے رانڈے کی عدالت میں ہی آیا۔ انہوں نے مجسٹریٹ کے فیصلے میں دخل دینا نہیں چاہا لیکن ڈیفنس کو ’درخواست دوبارہ دینے کی منظوری دے دی۔‘

اس بار سیٹنگ جج جسٹس طیب جی کے چیمبر میں درخواست پیش ہوئی۔ جسٹس طیب جی نے یہ کہتے ہوئے تلک کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا کہ اگر ضمانت منظور نہیں ہوئی تو تلک ایک ماہ تک جیل میں رہیں گے۔ اگر اس معاملے کے اختتام پر وہ بے قصور ثابت ہوئے تو یہ بڑی نا انصافی ہوگی۔ اس لیے ضمانت منظور کرلی گئی۔

121 سال پہلے ہندی میں جاسوسی تحریر کے ’جنک‘ گوپال رام گھمری لوکمانیہ تلک پر درج اس مقدمے پر سنوائی کی رپورٹ کچھ اس طرح لکھتے ہیں، ’جیسے ہی یہ خبر عدالت کے باہر پہنچی، وہاں موجود پچاس ہزار سے زیادہ افراد کی خوشی کو اب بھی کوئی بھول نہیں سکتا۔ جب جسٹس بدر الدین طیب جی عدالت سے نکل کر اپنی گھوڑا گاڑی میں سوار ہوئے تب ان پر پھولوں کی اتنی بارش ہوئی کہ بمبئی کے ایلیفنسٹن روڈ پر مقیم اپنے گھر پہنچتے ہی ان کی گاڑی مکمل طور پر پھولوں سے ڈھک گئی تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق اس وقت اپنے تاج کے ساتھ طیب جی کا صرف سر ہی لوگوں کو نظر آرہا تھا۔ اس دن پورے ممبئی میں اس چرچہ کا زور رہا کہ جہاں تلک مہاراج کو ان کے ذاتی بھائی نے انہیں ضمانت پر رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا، وہیں ایک مسلمان جسٹس کے ہاتھوں انہیں نجات مل گئی۔ یہی نہیں ایڈووکیٹ جنرل کی اڑنگے بازی پر بھی انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔

حالانکہ اس کے بعد 8 ستمبر کو بمبئی ہائی کورٹ میں جسٹس اسٹراچے کے سامنے تلک کا مقدمہ چلنا شروع ہوا۔ اور ایک طویل بحث ومباحثے کے بعد انہیں 6 سال کی سخت قید کے تحت بمبئی پریزینڈنسی جیل میں بند کر دیا گیا لیکن کچھ ہی دنوں بعد بڑودہ جیل بھیج دیا گیا۔

کون تھے جسٹس بدر الدین طیب جی؟

بدر الدین طیب جی بمبئی ہائی کورٹ میں وکالت کرنے والے پہلے ہندوستانی بیرسٹر اور پھر چیف جسٹس بننے والے پہلے ہندوستانی تھے۔ انہوں نے 1867 میں بمبئی ہائی کورٹ میں وکالت بطور بیرسٹر شروعات کی اور 1902 میں بمبئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔

10 اکتوبر 1844 میں پیدا ہونے والے بدر الدین طیب جی بمبئی کے مشہور تاجر طیب علی بھائی میاں کے بیٹے تھے۔ وہ پہلے مسلمان تھے جن کو انڈین نیشنل کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا۔ 1887 میں کانگریس کے تیسرے صدر بنے۔ 1873 میں ان کی قیادت میں اس وقت کے مسلمانوں کا بمبئی میں نمائندہ ادارہ انجمن اسلام بنا تھا جس کا مقصد مسلم تعلیم، معیشت ومعاشرت کو بہتر بنانا تھا۔

ان کے پوتے بدر الدین فیض طیب جی نے آزادی کے وقت قومی ترنگے جھنڈے کی ڈیزائن کو بنایا تھا اور اس میں شہنشاہ اشوک کے دھرم چکر کو بیچ میں رکھا تھا۔ بعد ازاں ان کی بیگم ثریا طیب جی نے اس کی پہلی کاپی تیار کی جسے ہندوستان کی آزادی کی تاریخی رات کو اولین وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی کار پر لہرایا گیا۔

انڈین نیشنل کانگریس کی تاسیس میں اے او ہیوم، ڈبلیو سی بنرجی اور دادا بھائی نوروجی کے ساتھ پیش پیش رہے۔ گاندھی جی انہیں کانگریس کی تاسیس میں محرک مانتے تھے۔ لیکن کانگریس کے لوگ شاید ہی اس عظیم رہنما کو یاد رکھ پائے ہیں۔

***

اس بار سیٹنگ جج جسٹس طیب جی کے چیمبر میں درخواست پیش ہوا۔ جسٹس طیب جی نے یہ کہتے ہوئے تلک کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا کہ اگر ضمانت منظور نہیں ہوئی تو تلک ایک ماہ تک جیل میں رہیں گے۔ اگر اس معاملے کے اختتام پر وہ بے قصور ثابت ہوئے تو یہ بڑی نا انصافی ہوگی۔ اس لیے، ضمانت منظور کرلی ہے۔