قانون ساز یا قانون شکن!
پارلیمنٹ واسمبلی کے ارکان کےخلاف تین ہزارسےزائد مقدمات زیر التوا
ارشد شیخ ،دلی
جرائم زدہ سیاست سے سماج کے گمبھیر اخلاقی انحطاط کی عکاسی
تفتیشی ایجنسیوں کو سیاسی دباو سے باہر نکلنے اور عدلیہ کو موثر رول ادا کرنے کی ضرورت
بی جے پی لیڈر اور اس کے سابق ترجمان اشونی اپادھیائے کی جنتر منتر کے قریب فرقہ وارانہ نعرہ بازی کے سلسلہ میں پچاس ہزار روپے کے شخصی مچلکہ پر دلی ہائیکورٹ نے ضمانت منظور کی ہے۔ انہوں نے عدالتی تحویل میں دو دن گزارے۔ یہ وہی ایڈووکیٹ اشونی اپادھیائے ہیں جنہوں نے ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کے خلاف مقدمات کی فی الفور یکسوئی کی اپیل کرتے ہوئے مفاد عامہ کی ایک درخواست داخل کی ہے جس کی چیف جسٹس این وی رمنا، جسٹس ڈی وائی چندر چوڈ اور جسٹس سوریہ کانت کی ایک بنچ بہت جلد سماعت کرے گی۔
نومبر 2017 میں سپریم کورٹ نے ہمارے سیاست دانوں کے خلاف زیر التوا فوجداری ودیگر مقدمات چلانے کے لیے ہر ریاست میں خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا حکم دیا تھا جس کے مطابق ملک بھر میں گیارہ خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں تاکہ قانون سازوں کے خلاف زیر التوا مقدمات میں تیزی لائی جاسکے۔ تاہم یکسوئی کی کم تر شرح کی وجہ سے زیر التوا مقدمات بدستور زیادہ رہنے پر سپریم کورٹ پیشرفت پر نظر رکھے ہوئے ہے اور وقتاً فوقتاً ضروری رہنما ہدایات جاری کر رہا ہے۔
ہائیکورٹ کے چیف جسٹسوں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ پیشرفت پر نظر رکھنے کے لیے ایک خصوصی بنچ تشکیل دیں۔ ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے اس معاملے میں ایڈووکیٹ وجئے ہنساریہ کو عدالت کا مددگار مقرر کیا ہے جنہوں نے حال ہی میں اس مسئلہ پر اپنی چودھویں رپورٹ داخل کی ہے۔
یہ رپورٹ فوری سرخیوں میں آگئی کیونکہ اس میں انکشاف کیا گیا کہ انیس ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں میں ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کے خلاف تین ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ اس قدر بڑی تعداد میں مقدمات کی وجوہات کیا ہیں اور اس قدر طویل عرصے سے یہ زیر التوا کیوں ہیں۔ اس کے مضمرات کیا ہیں اور انصاف وشفافیت کے تناظر میں اس مسئلہ کی کیا اہمیت ہے۔
جرم اور سیاست
فلم ساز اکثر کہا کرتے ہیں کہ ’’ریل لائف جسے وہ پیش کرتے ہیں، رئیل لائف کا محض ایک عکس ہوتا ہے‘‘۔ سیاست دان کا ایک مجرم کی حیثیت سے اور اصل ویلن کے طور پر ایک ایسا کردار ہوتا ہے جو معمول کی بات اور مکمل طور پر نارمل ہی لگتا ہے۔ یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ کئی سیاست دانوں کی عوامی زندگی کا ریکارڈ داغ دار ہے اور جب وہ چھوٹا جرم، کرپشن، تشدد یا جبری وصولی سے متعلق مسائل میں گھرتے ہیں تو قانون سے کھلواڑ کرتے ہیں۔
انڈین اکسپریس مورخہ 15؍جولائی 2021 میں اسوسی ایشن فار ڈیمو کریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) کی رپورٹ کے حوالے سے ایک نیوز اسٹوری شائع کی گئی جس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ موجودہ این ڈی اے حکومت کی مجلس وزرا میں 78 میں سے 33 وزرا (42فیصد) کے خلاف فوجداری مقدمات ہیں۔ ان میں سے 24 مقدمات کی نوعیت سنگین ہے جیسے قتل، اقدام قتل اور لوٹ۔
اب عدالت کے مددگار کی رپورٹ نے ایک گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا ہے۔ اس سے ہماری جمہوریت کی بالغ النظری پر بہت ہی چبھتے ہوئے سوالات کھڑے ہوتے ہیں کہ کیسے ہم ایک قوم کی حیثیت سے برداشت کرسکتے ہیں اور کیسے جرم و اقربا پروری میں غوطہ زن ایک سیاسی طبقہ کے انتخاب کو جاری رکھ سکتے ہیں۔
عدالت کے مددگار ہنساریہ کی رپورٹ سے کچھ تفصیلات کا انکشاف ہوا ہے جو اس طرح ہیں: قانون ساز اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے موجودہ اور سابق ارکان کے خلاف 3211 مقدمات زیر التوا ہیں جن میں سے زیادہ تر کیسس کا تعلق سنگین جرائم سے ہے۔ 45 معاملات میں ابھی الزامات وضع کیے جانے ہیں۔ ان 121 کیسس میں 51 ارکان پارلیمنٹ اور 112 ارکان اسمبلی ملوث ہیں، 9 مر چکے ہیں، 78 نے اپنی معیادیں پوری کیں اور 34 موجودہ ارکان اسمبلی ہیں۔ سی بی آئی کی مختلف عدالتوں میں 37 مقدمات زیر التوا ہیں۔ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کے تحت مقدمات سے متعلق معلومات کے مطابق 71 ارکان اسمبلی کے ساتھ ساتھ 51 ارکان پارلیمنٹ جن میں موجودہ وسابق دونوں شامل ہیں، انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2002 (PMLA) کے تحت ملزم ہیں۔ ہنساریہ کی رپورٹ میں قومی تفتیشی ادارہ (این آئی اے) کے تحت زیر التوا مقدمات کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی ہے۔
مقدمات سے دستبرداری کا مسئلہ
مسئلہ کا ایک ناگوار پہلو جس کی طرف رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے، قانون سازوں کے خلاف مقدمات سے دستبرداری اختیار کرنا ہے۔ اگرچہ فوجداری ضابطہ تعزیرات ہند (سی آر پی سی ) کی دفعہ 321 کے مطابق یہ قانوناً قابل اجازت ہے۔ ’’سرکاری استغاثہ یا مقدمہ کا نگران معاون سرکاری استغاثہ، کسی بھی شخص کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے عمومی طور پر یا پھر کسی ایک یا ایک سے زئد جرائم کی بابت جن کے لیے اس پر مقدمہ چلایا جا رہا ہو، عدالت کی رضا مندی سے فیصلہ سنائے جانے سے پہلے کسی بھی وقت دستبرداری اختیار کر سکتا ہے‘‘۔
یو پی حکومت نے عدالت کے مدد گار کو مطلع کیا ہے کہ اس نے 2013 میں مظفر نگر کے فرقہ وارانہ تشدد سے متعلق 510 مقدمات میں سے 77 سے دستبرداری اختیار کی ہے۔ ہنساریہ نے اپنی رپورٹ میں تاسف ظاہر کیا: ’’حکومت (اتر پردیش) کے احکام میں فوجداری ضابطہ تعزیرات ہند کی دفعہ 321 کے تحت مقدمہ سے دستبرداری کی کوئی وجوہات نہیں بتائی گئی ہیں، اس میں صرف اتنا کہا گیا کہ انتظامیہ نے مکمل غور وخوض کے بعد مخصوص مقدمہ سے دستبرداری اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح کے مقدمات میں بیشتر آئی پی سی کی دفعہ 397 کے تحت ڈکیتی کے جرائم سے متعلق ہیں جو اگر ثابت ہو جائیں تو سزائے عمر قید ہو سکتی ہے‘‘۔ ہمیں اس بات کو لازماً سمجھنا ہو گا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ یہ دراصل شیطانی ارادوں کے ساتھ انتہائی گھناونے طریقے سے انسانیت کے خلاف کیے گئے مبینہ جرائم کی ہول سیل میں قانونی آہک پاشی ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسی چیز کی توسیع ہے جس کی شروعات اتر پردیش میں ایک نئے چیف منسٹر کو بٹھانے سے ہوئی تھی جیسا کہ اس کے بعد کی ایک نیوز اسٹوری میں اسے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ ’’یوگی حکومت نے جاری کیا یوگی ادتیہ ناتھ کے خلاف کیسس کو برخاست کرنے کا حکم‘‘ ۔ (انڈین ایکسپریس، منش ساہو، مورخہ 27 دسمبر 2017)۔ اس خفیہ چال پر چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے بجا طور پر کہا کہ: ’’ہم دستبرداری کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس کی عدالتی عہدیدار کے ذریعہ لازماً چھان بین ہونی چاہیے، ہائی کورٹ کے ذریعہ اس کی جانچ پڑتال ہو اور اگر وہ متفق ہو تو دستبرداری اختیار کی جا سکتی ہے‘‘۔
مسئلہ کا ایک مثلث
سیاست کی جرائم زدگی اور قانون سازوں کے خلاف زیر التوا مقدمات کا ایک تین جہتی کردار ہے۔ اس کی ایک انتہا عدلیہ کی جانب سے مقدمات کی سست یکسوئی ہے۔ یہ دراصل عدلیہ کی کار گزاری کا سوال ہے اور اس کا تعلق ملک کے عدالتی نظامِ بازگشت اور کام کاج سے ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مختلف ضلعی اور تحت کی عدالتوں میں 3.9 کروڑ مقدمات زیر التوا ہیں، مختلف ہائی کورٹس میں 58.5 لاکھ اور سپریم کورٹ آف انڈیا میں 69.000 سے زائد مقدمات زیر دوراں ہیں۔ ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ ہمیں ملک میں کم از کم ساٹھ تا ستر ہزار ججس کی ضرورت ہے جبکہ موجودہ تعداد صرف سولہ ہزار کے آس پاس ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ سیاسی طبقہ کے اخلاقی انحطاط اور اخلاق سے محرومی کا بھی ہے۔ اس مسئلہ کا تعلق اخلاقیات سے ہے اور یہ ہمارے سماج کے ناقص اخلاقی معیارات کا ہی ایک عکس ہے کیونکہ سیاستداں کوئی اور نہیں ہیں بلکہ عوام ہی کے منتخب نمائندے ہیں۔ اس مثلث کی تیسری اور اہم کڑی تفتیشی ایجنسیاں ہیں جنہوں نے ’’پنجرہ میں بند طوطوں‘‘ کا رسوا کن لقب پایا ہے اور اپنے سیاسی آقاؤں کی ایما پر کام کرتے ہیں۔ یہ تکنیکی طور پر بات کرنے کا معاملہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ انہیں ’’خود مختار‘‘ ادارے سمجھا جائے۔ وہ بیورو کریسی کے اثر اور سیاسی کنٹرول سے بالا تر ہوں۔ یہ خبریں بہت ہی عام سی ہو گئی ہیں کہ جو افراد سیاسی بے چینی کا سبب بنتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ان کے خلاف آئی ٹی، این آئی اے اور ای ڈی کے ذریعہ دھاوے ہوتے ہیں اور سی بی آئی ان سے پوچھ تاچھ کرتی ہے جنہیں پرانا حساب برابر کرنے کے لیے ’’سیاسی انتقام‘‘ کا نشانہ بننا ہوتا ہے۔
اس پیچیدہ اور کثیر جہتی مسئلہ پر قابو پانے کا حل زبردست بصیرت، مثالی قیادت اور دو قطبی سیاست کا تقاضا کرتا ہے۔ ہماری موجودہ صورتحال اس حالت سے مماثلت رکھتی ہے جسے سوزی کاسم نے یوں بیان کیا ہے ’’جب لوگ جرم کر کے محض اس لیے چھوٹ جاتے ہیں کہ وہ دولت مند ہیں اور مناسب رابطے رکھتے ہیں تو شفافیت اور برابری کے محاذی انصاف کا توازن ڈانوا ڈول ہو جاتا ہے۔ پھر بد عنوانی کا وزن اس قدر بھاری ہو جاتا ہے کہ وہ ایک شگاف پیدا کر دیتا ہے جس سے دنیا کی طاقتیں ٹیڑھی ہو جاتی ہیں اور اس قدر ٹیڑھی کہ انصاف ان کے اوپر سے پھسل جاتا ہے‘‘۔
(مضمون نگارریڈیئنس ویوز ویکلی کے کالم نگار ہیں)
***
’’جب لوگ جرم کر کے محض اس لیے چھوٹ جاتے ہیں کہ وہ دولت مند ہیں اور مناسب رابطے رکھتے ہیں تو شفافیت اور برابری کے محاذی انصاف کا توازن ڈانوا ڈول ہو جاتا ہے۔ پھر بد عنوانی کا وزن اس قدر بھاری ہو جاتا ہے کہ وہ ایک شگاف پیدا کر دیتا ہے جس سے دنیا کی طاقتیں ٹیڑھی ہو جاتی ہیں اور اس قدر ٹیڑھی کہ انصاف ان کے اوپر سے پھسل جاتا ہے‘‘۔(سوزی کاسم)
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2021