قاضی وقت نے حاکمِ وقت کے سامنے یہ کیا کہہ دیا ؟
فیصلوں پر عمل نہ کرنے سے عدلیہ پر توہین عدالت کے مقدمات کا بوجھ
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
ججوں کی تعداد میں بدستور کمی۔ مقدمات کی تعداد میں 16 سال میں 54.64 فیصد کا اضافہ
ٹرائل کورٹس میں چار کروڑ، دیوانی عدالتوں میں 42 لاکھ اور ہائی کورٹس میں 16لاکھ فوجداری مقدمات زیرالتواء
سب کے لیے آسان اور فوری انصاف کے لیے چیف جسٹس آف انڈیا کی تشویش کا ازالہ ضروری
عدل و انصاف انسانی معاشرے کی شہ رگ ہے، اس کے بغیر معاشرے کی حیات ناممکن ہے۔ اس بات سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ معلوم تاریخ سے آج تک جتنے بھی انسانی معاشرے اور تہذیبیں زوال سے دو چار ہوئے اس کی وجہ عدل و انصاف سے ان کی لاپروائی اور ظلم کی اندھی حمایت رہی ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں چاہے وہ آسمانی ہونے کے دعویدار ہوں یا انسانی شخصیتوں سے منسوب ہوں،عدل و انصاف کو اول درجہ میں رکھا گیا ہے اور اسی طرح روز آفرینش سے موجودہ دور تک جتنے بھی فلاسفر اور دانشور گزرے ہیں انہوں نے بھی انسانی معاشرے اور تہذیب کی ترقی کو عدل و انصاف سے جوڑا ہے۔ عظیم چینی فلسفی کنفیوشس سے کسی نے پوچھا کہ’’اگر ایک قوم کے پاس تین چیزیں ہوں۔ انصاف، معیشت اور دفاع اور بہ وجہ مجبوری کسی چیز کو ترک کرنا مقصود ہو تو کس چیز کو ترک کیاجائے؟‘‘ کنفیوشس نے جواب دیا’’دفاع کو ترک کردو‘‘سوال کرنے والے نے پھر پوچھا ’’اگر باقی ماندہ دو چیزوں، انصاف اور معیشت میں سے ایک کو ترک کرنا لازمی ہو تو کیا کیا جائے؟‘‘کنفیوشس نے جواب دیا ’’معیشت کو چھوڑدو‘‘ اس پر سوال کرنے والے نے حیرت سے پوچھا ’’معیشت اور دفاع کو ترک کیا تو قوم بھوکوں مر جائے گی اور دشمن حملہ کردیں گے؟‘‘ تب کنفیوشس نے جواب دیا’’نہیں! ایسا نہیں ہوگا۔ بلکہ ایسا ہوگا کہ انصاف کی وجہ سے اس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہوگا اور لوگ معیشت اور دفاع کا حل اِس طرح کریں گے کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن کا راستہ روک لیں گے‘‘۔
جب ہندوستان آزاد ہوا تو اس کے لائق اور قابل رہنماؤں نے دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے اس نو مولود ملک کے لیے جو آئین تجویز کیا اس کی بنیاد عدل و انصاف کے آزمائے ہوئے عظیم اصولوں پر رکھی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت ساری مشکلوں سے جوجھنے اور بہت سارے مسائل میں گرفتار ہونے کے باوجود ہندوستان دنیا میں سب سے بڑی عوامی جمہوریت کے طور پر اپنی ایک منفرد پہچان بنانے میں کامیاب ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں تک ہندوستان اور ہندوستانی رہنماؤں کو دنیا بھر کے سیکولر اور جمہوریت نواز حلقوں میں عزت کی نظر دیکھا گیا بالخصوص مہاتما گاندھی اور ان کے عدم تشدد کے فلسفے کی شاندار پذیرائی ہوئی اور آج بھی عالمی سیاست کے طالب علموں میں یہ ایک دلچسپ موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن ادھر کچھ سات آٹھ سالوں سے ہندوستان کی سیاست میں جو اتھل پتھل مچی ہے اور جمہوریت کا سہارا لے کر جو طاقتیں اقتدار پر قابض ہوگئیں ہیں ان کی وجہ سے ایسا لگنے لگا ہے کہ جس عدل و انصاف کے حوالے سے ساری دنیا میں ہندوستان کی ایک الگ پہچان ہے وہ بہت جلد ایک قصہ پارینہ بننے جارہی ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو شاید یہ اس صدی کا سب سے بڑاسانحہ ہوگا۔
بالخصوص ملک کی عدلیہ پر جس دیدہ دلیری سے سیاسی دخل اندازی ہورہی ہے اسے جمہوری حلقوں میں بہت تشویش کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے ۔ وطن عزیزکا دانشور طبقہ جو اپنی دور اندیشی کی وجہ سے یہ جان چکا ہے اگر حالات اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو ملک کی جمہوری ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کئی مرتبہ اس بڑھتی ہوئی طوفان بدتمیزی کے خلاف وہ اپنی آواز بلند کر چکا ہے اور ایوان حکومت کے در وازے بھی کھٹکھٹا چکا ہے ، لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح اس کی کوئی نہیں سن رہا ہے۔ میڈیا جسے جمہوریت کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے وہ بھی حالات کے بہاؤ میں بہنے اورحکومت کی ہاں میں ہاں ملانے میں ہی اپنی عافیت سمجھنے لگا ہے، بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر اس کی ہر غلطی کی توجیہ بھی کرنے لگا ہے، جس کی وجہ سے عوام میں اس کی حیثیت بری طرح مجروح ہورہی ہے۔ کئی ایسے واقعات جن میں عدل و انصاف کی دھجیاں اڑائی گئیں ، ان پر مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے میڈیا ظلم کی تائید میں بولتا ہوا دکھائی دیا۔ سرکار کے ہر فیصلہ پر آمنا و صدقنا کہنے کی اس کی روش کی وجہ سے عوام کا ایک بڑا طبقہ اسے گودی میڈیا کہہ کر اس کی ہجو اُڑانے لگا ہے۔
رہی حزب اختلاف، ایسا لگتا ہے کہ اسے سانپ سونگھ گیا ہے ۔ ایک تو پہلے ہی سے وہ سخت انتشار کا شکار ہے ، دوسرا اس کے پاس ایسے دوراندیش رہنماؤں کی کمی ہے جو بروقت عوامی نبض کو سمجھ کر اپنی بات رکھ سکیں ، اسی لیے یہ عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ جس کی وجہ سے حکومت بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی من مانی کرنے پر اتر آئی ہے ۔ اپنے آپ کو سیاسی طور پر مضبوط کرنے کے لیے ہر اچھی بری چال چلنے کے علاوہ بیوروکریسی کو اپنی مٹھی میں کرنے کی کوشش میں شب وروز مصروف سرکار کھل کر عدلیہ پر اثر انداز ہونے کے لیے اُتاؤلی ہورہی ہے۔
ایسے غیر یقینی ماحول میں 30 اپریل2022کے دن نئی دہلی کے وگیان بھون میں ہندوستان کی آزادی کے 75 سال یعنی ’’آزادی کا امرت مہوتسو‘‘ کے تحت ایک کانفرنس منعقد ہوئی،جس میں ملک کے وزیر اعظم، وزیر قانون،مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلی، تمام ہائی کورٹ،سپریم کورٹ کے ججس اورچیف جسٹس موجود رہے۔وطن عزیز میں اس طرح کی کانفرنس منعقد کرنے کی ایک تاریخ رہی ہے ۔ اس قسم کی پہلی کانفرنس آزادی کے بعد نومبر 1953 کو منعقد ہوئی تھی ۔30اپریل 2022 کو منعقد ہونے والی کانفرنس بھی اسی سلسلے کی 39 ویں کڑی تھی ۔ اس سے پہلے جو کانفرنسس منعقد ہوئیں اس سے خطاب کرتے ہوئے بھی اپنے اپنے وقت کے چیف جسٹس صاحبان نے عدلیہ اور حکومت کے ساتھ اس کے روابط پر بہت سے سوال اُٹھائے تھے لیکن اس مرتبہ اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا نے عدالت، عدل وانصاف کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا اس کی نوعیت اس لیے بھی الگ ہے کہ جو حالات آج ہیں اس وقت ان کا تصور بھی محال تھا۔اس لیے بھی آج کی اس گھمبیر ہوتی ہوئی صورتحال میں چیف جسٹس این وی رمنا نے اپنی تقریر میں جو نکات اٹھائے ان پر فوری غور و فکر اور جو سجھاؤ پیش کئے ان پر مضبوطی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی شدیدضرورت ہے۔
چیف جسٹس رمنا جن کی پیدائش اور تعلق جنوبی ہندوستان کے ریاست آندھرا پردیش سے ہے، ہندوستان کے 48 ویں چیف جسٹس ہیں۔ کچھ عرصہ بحیثیت صحافی کام کرنے والے عزت مآب این وی رمنا اپنے کرئیر کے شروعاتی دور سے ہی ایک سلجھے ہوئے ذہن کی معقول شخصیت مانے جاتے ہیں۔ جون 2000سے جب انہوں نے آندھرا پردیش ہائی کورٹ میں مستقل جج کی حیثیت سے حلف لیا تھا ، آج تک جب وہ چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدے پرفائز ہیں ان سے ایسا کوئی فیصلہ یا تبصرہ منسوب نہیں ہے جس سے وہ کسی مخصوص فکر کے دائرے میں نظرآتے ہوں۔ اپنے تقاریر میں وہ ہمیشہ پولیس ریفارم کی بات اٹھاتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں اور ساتھ ہی ایک ایسے خود مختار ادارے کی وکالت بھی کرتے ہیں جس کے تحت تمام تفتیشی ایجنسیاں جیسے سی بی آئی اور ای ڈی وغیرہ جوڑ دئے جائیں اور یہ سیاسی دباؤسے مکمل آزاد ہو کر کام کرسکیں۔
اس کانفرنس سے چیف جسٹس کے علاوہ مرکزی وزیر قانون اور وزیر اعظم نے بھی خطاب کیا۔ مرکزی وزیر قانون اور انصاف جناب کرن رجیجو نے ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس، سپریم کورٹ کے چیف جسٹسوں کی اس مشترکہ کانفرنس کا مقصد اس ملک کے شہریوں کو بر وقت، سستی اور معیاری انصاف کی فراہمی اور اس کے طور طریقوں پر غور و خوص بتایا۔ وزیر موصوف نے یہ بھی کہا کہ یہ کانفرنس در حقیقت ان کی حکومت کے رہنما اصولوں، سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس کے تئیں اجتماعی وابستگی کی عکاس ہے۔ انہوں نے کئی اعداد و شمار پیش کر کے عوام کو عدل و انصاف کی فراہمی میں ان کی حکومت کی سنجیدگی نمایاں کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ای کورٹس پروجیکٹ، ورچوئل کورٹس، ای فائلنگ، ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سماعت، ڈیڈیکیٹڈ کمر شیل کورٹس کے تعلق سے اپنی حکومت کے کارنامے گنوائے۔ اسی طرح وزیر اعظم شری نریندر مودی جی نے بھی کچھ ایسی باتیں رکھیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں عدلیہ کا کردار آئین کے محافظ کا ہے اور لیجسلیچرس شہریوں کی امنگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے ان دونوں کا سنگم اور توازن ملک میں ایک موثر اور وقت کی پابند عدالتی نظام قائم کرنے کے لیے ایک روڈ میپ تیار کرے گا ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2047 میں جب ملک اپنی آزادی کے100سال مکمل کر لے گا تو پھر ہم ملک میں کیسا عدالتی نظام دیکھنا چاہیں گے؟ ہم اپنے عدالتی نظام کو اس قابل کیسے بنا سکتے ہیں کہ وہ 2047کے ہندوستان کی خواہشات کو پورا کر سکے، یہ سوالات ہماری ترجیح ہونی چاہئے، امرت کال میں ہمارا وژن ایک ایسے عدالتی نظام کا ہونا چاہئے جس میں آسان انصاف، فوری انصاف اور سب کے لیے انصاف ہو۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہند عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کے امکانات کو ڈیجیٹل انڈیا مشن کا ایک لازمی حصہ سمجھتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالتوں میں مقامی زبانوں کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ ملک کے لوگ عدالتی عمل سے خود کو جڑا ہوا محسوس کریں اور اس پر ان کا اعتماد بڑھے۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ آج ملک میں تقریبا 3.5 لاکھ ایسے قیدی ہیں جو زیر سماعت ہیں اور جیلوں میں بند ہیں ۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ غریب یا عام گھرانوں سے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں تمام وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس سے اپیل کروں گا کہ وہ انسانی ہمدردی اور قانون کی بنیاد پر ان معاملات کو ترجیح دیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ثالثی بھی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات با لخصوص مقامی سطحوں پر نمٹانے کا ایک اہم ذریعہ ہے، انہوں نے کہا کہ اپنی بھر پور قانونی مہارت کے ساتھ ہم ثالثی کے ذریعہ مقدمات کے حل کے میدان میں عالمی رہنما بن سکتے ہیں۔ ہم پوری دنیا کے سامنے ایک ماڈل پیش کرسکتے ہیں۔
وزیر اعظم اور وزیر قانون نے موقع محل کے مطابق جس کمال سیاست سے اپنی بات رکھی اُسے دیکھ کر کہیں سے بھی یہ نہیں لگا کہ ان کی سرکار اور عدلیہ کے درمیان کوئی الجھن ہے یا عدلیہ ان کے طرز حکومت سے ناخوش ہے ۔ ان دونوں قابل رہنماؤں کی باتوں سے با لخصوص وزیر اعظم کے اٹھائے ہوئے نکات پر خود ان کی سرکار سنجیدگی سے عمل پیرا ہوجائے تو ملک کے موجودہ حالات میں عدل وانصاف کے حوالے سے جو بگاڑ دیکھا جارہا ہے اُس پر بڑی حد تک روک لگائی جاسکتی ہے۔ کاش ایسا ہوجائے!!!
ان سب بیانات سے ہٹ کر چیف جسٹس این وی رمنا نے جو زمینی باتیں کہیں وہ بڑی حد تک قابل تشویش ہیں۔ انہوں نے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے عدالتی نظام میں پائے جانے والے اسقام کی طرف واضح اشارہ دیا کہ کس طرح عملہ کی کمی کی وجہ سے عدل و انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کے ججوں کے منظور شدہ 1104عہدوں میں سے388 عہدے خالی ہیں۔ پہلے دن سے میری کوشش رہی کہ عدالتی ویکنسیس کو پُر کیا جائے، اس کے لیے گزشتہ سال مختلف ہائی کورٹس میں تقرریوں کے لیے180سفارشات پیش کیں، ان میں سے 126تقرریاں کی گئیں ہیں۔50تجاویز اب بھی حکومت ہند کی منظوری کی منتظر ہیں۔ ہائی کورٹس نے 100نام حکومت ہند کو بھیجے ہیں جو ہم تک ابھی نہیں پہنچے۔انہوں نے کہا کہ جب ہم آخری بار 2016میں ایسی ہی ایک کانفرنس میں ملے تھے تو ملک میں عدالتی افسران کی منظور شدہ تعداد20,811تھی اب یہ24,112ہے، گویا چھ سالوں میں 16فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف اسی عرصے میں زیر التواء ضلعی عدالتوں میں مقدموں کی تعداد2کروڑ 65لاکھ سے بڑ ھ کر 4کروڑ11لاکھ ہوگئی ہے۔ جو کہ 54.64 فیصد کا اضافہ ہے۔ یہ اعداد شمار خود بتاتے ہیں کہ منظور شدہ عہدوں میں اضافہ کتنی ناکافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ براہ کرم مزید پوسٹیں بنانے اور انہیں بھرنے میں فراخدلی کا مظاہرہ کریں۔ تاکہ ہمارے جج اور آبادی کا تناسب ترقی یافتہ جمہوریتوں کے مقابلے میں یکساں ہو۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ40 ملین مقدمات ٹرائل کورٹس میں زیر التوا ہیں اور 4.2ملین دیوانی عدالت میں 1.6 ملین فوجداری مقدمات ہائی کورٹس میں زیر التواء ہیں۔
چیف جسٹس این وی رمنا نے اس بات پر خاص زور دے کر کہا کہ مقدمات میں التوا کے لیے ججس کو ذمہ دار ٹہرانا غلط ہے۔ حکومت اپنی ذمہ داری دیانت داری کے ساتھ پوری کرے تا کہ شہری ہرمسئلہ کے لیے عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور نہ ہوں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالتی انفراسٹرکچر، عملے اور جسمانی ڈھانچے دونوں لحاظ سے فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ موجودہ بنیادی ڈھانچہ اور لوگوں کی متوقع انصاف کی ضروریات کے درمیان بڑا فرق ہے۔ کچھ ضلعی عدالتوں کا ماحول ایسا ہے کہ خواتین وکلاء بھی عدالت کے کمروں میں داخل ہونے سے ڈرتی ہیں،خواتین موکلوں کو تو چھوڑ ہی دیں۔
انہوں نے اس بات پر سخت تشویش ظاہر کی کہ عدالت کے فیصلوں پر حکومتیں برسوں عمل درآمد نہیں کرتیں جس کے نتیجے میں توہین عدالت کی درخواستیں عدالتوں پر بوجھ کا ایک نیا زمرہ ہیں جو حکومت کی طرف سے خلاف ورزی کا براہ راست نتیجہ ہے۔ عدالتی فیصلوں کے باوجود حکومت کی جانب سے جان بوجھ کر بے عملی جمہوریت کی صحت کے لیے اچھی علامت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین نے ریاست کے تینوں اعضا ء (پارلیمنٹ، بیوروکریسی،کورٹس) کے درمیان الگ الگ اختیارت بانٹے ہیں۔ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ہم سب کو اپنی ’’لکشمن ریکھا‘‘ کا خیال رکھنا چاہئے، یعنی ریاست کا کوئی بھی ادارہ ریاست کے کسی دوسرے ادارے کے اختیارت کا نہ استعمال کرے گا نہ اس میں دخل دے گا۔ یہ ریاست کے تینوں اعضا ء (پارلیمنٹ، بیوروکریسی ، کورٹس) کے درمیان ہم آہنگی اور مربوط کام کا نتیجہ ہے کہ جس نے گزشتہ سات دہائیوں سے اس عظیم ملک کی جمہوری بنیاد کو محفوظ رکھا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدلیہ کبھی بھی حکمرانی کے راستے میں نہیں آئے گی اگر وہ قانون کے مطابق ہو۔
انہوں نے کہا کہ اگر تحصیل دار زمین کے سروے یا راشن کارڈ کے حوالے سے کسان کی شکایت پر کاروائی کرتا ہے تو کسان عدالت سے رجوع کرنے کا نہیں سوچے گا۔ اگر میونسپل اتھارٹی یا گرام پنچایتیں اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے ادا کرتی ہیں تو شہری عدالت کی طرف نہیں دیکھیں گے۔ اگر ریوینو حکام قانون کے مناسب عمل کے ساتھ زمین حاصل کرتے ہیں تو عدالتوں پر زمینی تنازعات کا بوجھ نہیں پڑے گا۔ یہ مقدمات عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کا 66فیصد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر پولیس صحیح اور منصفانہ تفتیش کرتی ہے، اگر غیر قانونی گرفتاریاں اور حراست میں تشدد کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے تو کسی بھی متاثرہ کو عدالت سے رجوع نہیں کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر سروس قوانین، سینیارٹی، پنشن وغیرہ کے معاملات میں منصفانہ طور لاگو ہوتے ہیں تو کوئی بھی ملازم عدالت جانے پر مجبور نہیں ہوگا۔ یہ ایک معروف اور تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ حکومت ہند خود عدلیہ کے آگے درج پچاس فیصد مقدمات میں مدعی ہوتی ہے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قانون اور آئین کی پاسداری اچھی حکمرانی کی کلید ہے، تاہم اس کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، ایگزیکیٹیو کے فیصلوں پر عمل در آمد کی جلدی میں محکمہ قانون کی رائے نہیں لی جاتی۔
قانون سازوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ بعض اوقات مبہم قانون سازی بھی قانونی چارہ جوئی کی مزید گنجائش فراہم کرتی ہے، مقننہ کو چاہیئے کہ سوچ کی وضاحت، دور اندیشی اور عوام کی فلاح وبہبودی کو ذہن میں رکھتے ہوئے قانون سازی کرے۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ تھی کہ مرکزی حکومت نے کسانوں کو تین فارم قوانین کے خلاف احتجاج کی دعوت دی اور بالآخر انہیں واپس لینا پڑا۔ کسی قانون کو منظور کرنے سے پہلے قانون سازوں کو چاہئے کہ وہ اس پر عوام کی آراء حاصل کریں اور بل کی ایک ایک شق پر کھل کر بحث کر یں۔
انہوں نے کہا کہ مفاد عامہ کی عرضی (پی آئی ایل) بعض اوقات ذاتی مفاد کی قانونی چارہ جوئی میں بدل جاتی ہے۔ اس کا استعمال بعض اوقات پروجیکٹوں کو روکنے یا عوامی حکام پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ان دنوں پی آئی ایل ان لوگوں کے لیے ایک آلہ بن گیا ہے جو ذاتی یا کاروباری دشمنی طے کرنا چاہتے ہیں۔آخر میں انہوں نے عدالتوں میں مقامی زبانوں کو متعارف کرانے کی بات کہتے ہوئے اپنی تقریر کا اختتام کیا۔
چیف جسٹس این وی رمنا نے ہندوستان میں عدل و انصاف کو لے کر جن باتوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے ان میں تین باتیں بہت ہی اہم ہیں۔ پہلی بات عدالتوں کو عملہ فراہم کرنے میں حکومت کا تساہل عارفانہ، دوسری بات عدالتی فیصلوں کے نفاذ میں حکومتوں کی لاپروائی اور تیسری بات ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت یعنی لکشمن ریکھا پار کرنا۔ ان تین الزمات کے ساتھ چیف جسٹس نے لگتا ہے موجودہ ارباب اقتدار کو کٹہرے میں ڈھکیلنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ جب وہ یہ بات کہتے ہیں کہ عدلیہ حکمرانی کے راستے میں نہیں آئے گی تو اس کا یہ مطلب بھی نکلتا ہے حکمران بھی عدلیہ کے راستے میں نہ آئیں اور ساتھ ہی وہ لکشمن ریکھا کی حفاظت کو جمہوریت کی بنیاد باور کراتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح جب وہ عدالتی فیصلوں کے نفاذ میں حکومت کی لاپرواہی اور بے عملی کو جمہوریت کے صحت کے لیے غلط کہتے ہیں بین السطور اور بھی بہت سی باتیں کہہ جاتے ہیں۔
وطن عزیزکے حالات روز بروز پریشان کن ہوتے جارہے ہیں ۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گذرتا ہے جب بیک وقت ملک کے کئی کونوں سے مظلوموں کی آہیں اور کراہیں نہ گونجتی ہوں۔ کبھی لو جہادکے نام پر تو کبھی گؤ رکھشا کے نام پر ، کبھی حجاب کے نام پر تو کبھی اذان کے نام پرایک ٹولا شر اور فساد پھیلانے کی مسلسل کوشش میں لگاہوا ہے۔ کبھی لینچنگ تو کبھی قتل عام کی دھمکی ، کبھی زندہ جلانے کی واردات تو کبھی فساد اور دنگے اور ان پر جمہوریت کے علمبردار اور اس کے رکھوالے ہونے کے دعوے دار لیجسلیچرس اور انتظامیہ یاتو خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں یا ظالموں کی حمایت میں کھڑے نظر آتے ہیں، میڈیا الٹا مظلوموں پر ہی قانونی شکنجہ کسنے کی وکالت کرتا ہے۔آجکل تو قانون کے نام پر ہی قانون کا ایسا مذاق اڑایا جارہا ہے کہ اس پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے بھی خوف آنے لگا ہے۔ بلڈوزر کے نام پر فوری انصاف کہہ کر جو مہم چلائی جارہی ہے وہ کہاں جاکر تھمے گی یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ جب ملک کی ایک بڑی اکثریت مہنگائی ،بے روزگاری،غربت اور بھوک جیسے سخت مسائل سے دوچار ہے ایسے میں مذہب اور ذات پات کے حوالے سے عوام میں انتشار پھیلانے کی کوشش وطن پرستی کی کونسی شکل ہے اس کی وضاحت شاید ہی کوئی پیش کر سکے۔ اسّی فیصد اکثریت کو بارہ یا چودہ فیصد اقلیت کے خلاف کھڑا کرنے کی کامیاب کوشش کی وجہ سے ملک کا نظام ایک ایسے راستے پر چل نکلا ہے جس میں مستقبل غیر یقینی ہوتا چلا گیا ہے۔ ایسے میں امید کی واحد کرن عدلیہ ہی باقی رہ جاتی ہے ۔ اگر عدلیہ پر بھی سیاسی دباؤ بڑھتا گیا اور وہ عدل و انصاف کے راستے سے بھٹکنے لگے تو ایسے میں جو انتشار پیدا ہوگا اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتاہے۔
چیف جسٹس این وی رمنا اپنی فکر و تشوش میں کتنے حق بجانب ہیں اس کا اندازہ ملک کے ہر ذمہ دار شہری کو حالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے اور تھوڑی سی غور و فکرسے آسانی کے ساتھ ہو سکتا ہے ۔ توہین عدالت کے بڑھتے ہوئے مقدمے اور پچاس فیصد سے زیادہ مقدموں میں حکومت کا مدعی ہونا بذات خود اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کہیں نہ کہیں نظام میں بہت بڑی گڑ بڑی شروع ہوچکی ہے۔ اور اب تو اس بات کے بھی واضح اشارے ملنے شروع ہوچکے ہیں کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے اور جو ہونے والا ہے وہ ایک منصوبہ بندی کے ساتھ ہورہا ہے اور اس کے پیچھے کوئی ایسا مقصد ہے جو ملک کے موجودہ جمہوری نظام سے بالکل میل نہیں کھاتا۔ دنیا بھر میں ہندوستانی جمہوریت اپنی لاکھ کمزوریوں کے باوجود ایک مثالی جمہوریت مانی جاتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو ملک کے عوام اپنے تمام اختلافات کو بھلا کر اپنی اس پہچان کی حفاظت کے لیے کمر بستہ ہوجائیں۔
چیف جسٹس این وہ رمنا کی وزیر اعظم کی موجودگی میں یہ بے باک تقریر حکومت پر کس حد تک اثر انداز ہوتی ہے، ہوتی بھی ہے یا نہیں، اس کااندازہ تو آنے والا وقت کرے گا لیکن ایک بات تو طے ہے کہ جس انداز سے حکومت دوسرے اداروں میں مداخلت کر کے عوام کی نگاہ میں ان کے وقار کو داؤ پر لگا رہی ہے یہ وطن عزیز کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
***
***
’’اگر تحصیلدار زمین کے سروے یا راشن کارڈ کے حوالے سے کسان کی شکایت پر کارروائی کرتا ہے تو کسان عدالت سے رجوع کرنے کا نہیں سوچے گا۔ اگر میونسپل اتھارٹی یا گرام پنچایتیں اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے ادا کرتی ہیں تو شہری عدالت کی طرف رجوع نہیں ہوں گے۔ اگر ریوینو حکام قانون کے مناسب عمل کے ساتھ زمین حاصل کرتے ہیں تو عدالتوں پر زمین سے متعلق تنازعات کا بوجھ نہیں پڑے گا۔ یہ مقدمات عدالتوں میں زیر التواءمقدمات کا 66فیصد ہیں۔‘‘(چیف جسٹس آف انڈیا )
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 15 تا 21 مئی 2022