قابل اجمیری :اردو کا آخری رومانی شاعر

جدید غزل کے جواں مرگ فنکار کی داستان حیات

ابو الحسن علی ، بھٹکلی

عبد الرحیم عرف قابل اجمیری نے اگرچہ بہت کم عمر پائی لیکن اس کم عمری ہی میں انہوں نے جدید اردو غزل پر اپنی قابلیت کی دھاک بٹھا دی تھی۔ قابل ستائیس اگست 1931ء کو اجمیر میں پیدا ہوئے تھے اور تین اکتوبر 1962ء کو وہ اس دنیا سے چل بسے تھے۔قابل اجمیری کی زندگی انتہائی نامساعد حالات میں گزری ۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ سات سال کے تھے تو ان کے والد تپ دق یعنی ٹی۔ بی کے مرض میں مبتلا ہو کر اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ قابل کا کچھ وقت یتیم خانے میں بھی بسر ہوا۔ کچھ ہی دنوں بعد ان کی والدہ بھی دنیا سدھار گئیں پھر ان کی چھوٹی ہمشیرہ فاطمہ بھی دنیا سے چلی گئی۔ گھر میں پے در پے ہونے والی اموات سے قابل بہت دکھی رہنے لگے ۔1948 میں اپنے بھائی شریف کے ساتھ پاکستان آگئے اور حیدرآباد (سندھ) میں رہائش پذیر ھوئے۔ قابل نے چودہ سال کی عمر میں شاعری کی ابتدا کی۔ ان کی شاعری کو نکھارنے اور سنوارنے میں مولانا مانی اجمیری کا بڑا ہاتھ ہے۔ ان کو حیدرآباد میں دوستوں کا ایک بڑا حلقہ ملا۔ وہ ادبی جریدے ‘نئی قدریں‘ کے مدیر ومالک اختر انصاری اکبر آبادی (استاد) کے خاصے قریب رہے۔ قابل، حیدرآباد (سندھ) کے روزنامے، ‘جاوید‘ میں قطعہ نگاری کرتے رہے۔ پھر حیدرآبادہی کے ایک ہفت روزہ جریدے ‘ آفتاب ‘ میں قطعات لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، ساتھ ہی غزلیات پر بھی توجہ رہی اور نظمیں بھی لکھتے رہے۔ قابل اجمیری نے اردو غزل کو منطقی مزاج کا افق عطا کیا۔ لگتا ہے ان کی افسردگی اور اضطراب کے عمل میں نئے قسم کا رومانی کہانی پن جنم لیتا ہے جو ان کے ذہن اور ان کی روح کو برہم کردیتا ہے لیکن اس سے ان کا تخیلاتی احساس درہم برہم نہیں ہوتا۔ قابل اجمیری کا شعوری فکر جذبہ اور فکرکا باہمی توازن ان کے شاعرانہ آفاق میں تخیل کی انفردیت ہے لہٰذا ان کو اردو کا آخری رومانی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔1960ء کے آتے آتے ان کی صحت خراب رہنے لگی تو وہ کوئٹہ (بلوچستان) کے سینی ٹوریم میں داخل علاج ہوئے۔ وہاں ان کی ملاقات ایک عیسائی نرس نرگس سوزن سے ہوئی جو قابل اجمیری کی شاعری کی دلدادہ تھی۔ کچھ ہی دنوں بعد نرگس سوزن نے اسلام قبول کرکے قابل صاحب سے شادی کی جن سے انکے صاحبزادے ظفر اجمیری نے جنم لیا۔
ان کی زندگی کا 31 برس کا عرصہ نہایت ہی ہنگامہ خیز اور پر شور تھا۔ ’
’کلیات قابل اجمیری‘‘ میں شہزاد احمد نے لکھا ہے:
’قابل اجمیری کی ذاتی زندگی ایک طویل المیہ تھی لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جب ڈاکٹر نے انہیں سیب کھانے کے لیے مشورہ دیا تھا تو ان کے پاس سیب خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ مگر اس کے باوجود اس ظالم دنیا میں ایک خاتون ایسی ضرور موجود تھیں جس نے کوئٹہ کے سینی ٹوریم میں قابل کی شریک حیات بننے کا فیصلہ اس وقت کیا تھا جب اسے معلوم تھا کہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ پھر اس خاتون نے قابل اجمیری کے لیے ترک مذہب کر کے اسلام بھی قبول کیا تھا۔‘
اس خاتون کے سبب ہی قابل اجمیری کے دو شعری مجموعے ’’رگ جاں‘‘ اور’’ دیدہ بیدار‘‘ شائع ہو سکے۔ ورنہ شاید قابل کا نام کہیں اوراق میں گم ہو چکا ہوتا کیونکہ وہ اپنے مجموعہ کلام شائع کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ بعد میں سلیم جعفری نے سنہ 1992میں کلیات قابل ‘‘شائع کی۔
ایک صحافی توصیف چغتائی نے بیگم قابل اجمیری کا انٹرویو لیا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا:
’’میں نے جگہ جگہ انہیں تلاش کیا اور آخر کار میں نے انہیں ملٹری ہسپتال میں پا ہی لیا۔ اس لمحہ میرا جی چاہا کہ میں ان سے کہوں میڈم آپ بہت عظیم ہیں آپ نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنے ہاتھ لہو میں بھر لیے ایک شاعر اور وہ بھی اردو ادب کا پھر ٹی بی کا مریض اور اس کے لیے اتنی عظیم قربانی! سب کچھ جانتے ہوئے بھی آپ نے اسے کیوں اپنا لیا۔ لیکن میں ان سے کچھ نہ کہہ سکا دراصل وہ قابل کے ذکر میں ایسی کھوئی ہوئی تھیں کہ میں سنتا رہا اور وہ کہتی رہیں۔‘
قابل صاحب سے ان کی ملاقات ریلوے کے سینی ٹوریم میں سنہ 1960 میں ہوئی تھی جب انہوں نے محسوس کیا کہ شاعر یاس و آس کا شکار ہے اور اس کے حالات نازک ترین ہیں تب انہوں نے شاعر کو موت کے منہ سے بچانے کا پورا عزم کیا اور دن رات اس کی صحت یابی کی کوشش کرتی رہیں یہاں تک کہ شاعر نے کروٹ لی اور محسوس کیا کہ اس کا کھویا ہوا اعتماد پھر واپس آگیا ہے اور یہ کہ زندگی بہت حسین ہے اور اسے جینا چاہیے۔
جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ
زندگی کو مری ضرورت ہے
اور اس کے آگے نرگس بیگم قابل اجمیری کہتی ہیں:
’میں نے محسوس کیا کہ قابل بے حد دکھی انسان ہیں۔ ایسے دکھی جن کے پاس غم اور فکر دوراں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اسی لیے میں نے سوچا کہ شاید میرا سہارا ان کی معذور زندگی میں نیا خواب بکھیر دے چنانچہ میں نے ان سے شادی کر لی۔۔۔ہم لوگ کوئٹہ سے حیدرآباد چلے آئے قابل صاحب کو میں نے گھر ہی پر رکھا اور علاج برابر جاری رہا۔‘
ایک ایسا شاعر جس کی پوری زندگی المیہ رہی ہو اس سے درد وکرب کے علاوہ اور کسی چیز کی کیا توقع کی جا سکتی ہے لیکن ان سب کے باوجود قابل زمانہ میں رونما ہونے والے تغیرات سے بے خبر نہیں تھے جن کی باز گشت ان کے اشعار میں سنائی دیتی ہے۔ قابل نے درد وکرب کی کہانیاں تو بیان کی ہی ہیں مگراس کے ساتھ ساتھ دنیا کے تغیرات کو بھی اپنی گرفت میں لیا ہے۔ اسی لیے قابل کی شاعری آج بھی زندہ ہے اور شاید وقت گزرنے کے ساتھ اس کی معنویت میں اضافہ ہوتا جائے گا:
قابل کو دوسروں کو تو کیا اپنوں کو بھی پرکھنے کی فرصت نہیں ملی۔ اس کے باوجود انہیں اپنی انفرادیت کا احساس تھا۔ جس کا اظہار انہوں نے اپنے مختلف اشعار میں کیا ہے۔
کچھ غم زیست کا شکار ہوئے
کچھ مسیحا نے مار ڈالے ہیں
رہ گزار حیات میں ہم نے
خود نئے راستے نکالے ہیں

ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے

ابھی مشکل سے سمجھے گا زمانہ
نیا نغمہ نئی آواز ہوں میں
مجھی پہ ختم ہیں سارے ترانے
شکستہ ساز کی آواز ہوں میں

کوئے قاتل میں ہمی بڑھ کے صدا دیتے ہیں
زندگی، آج ترا قرض چکا دیتے ہیں
درد وکرب کا یہ سراپا قابل اجمیری بھی شاعروں اور تخلیقی فن کاروں کے’ پسندیدہ‘ مرض یعنی تپ دق میں مبتلا ہوئے اور تین اکتوبر 1962ء کو عین جوانی میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ اس طرح انہیں دنیا میں رہنے کا صرف اکتیس برس کا عرصہ ملا اوراس میں بھی شاعری کے لیے بمشکل دس بارہ برس، لیکن انہیں جو وقت ملا اس میں انہوں نے جدید غزل کو بہت کچھ دیا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021