فہم قرآن – (پانچویں قسط )

غیبت ،گناہ کبیرہ ۔کسی کی عزت کو مجروح نہ کرنے کی تعلیم ( اسلامی معاشرہ کے خد و خال سورہ الحجرات کی روشنی میں)

عبدالعزیز

سورہ الحجرات کی آیات 11 اور 12 میں چھ باتوں سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے۔ اگر ان چھ برائیوں سے معاشرے کو پاک کرنے کی کوشش کی جائے تو معاشرے میں جھگڑے اور لڑائیوں میں کمی آسکتی ہے اور معاشرے کا فساد بھی ختم ہو سکتا ہے۔ پہلی برائی ’’بہت زیادہ گمان اور دوسری برائی ٹوہ میں لگے رہنے‘‘ کا ذکر گزشتہ قسط میں آچکا ہے۔
(3) غیبت
غیبت کی تعریف یہ ہے کہ ’’آدمی کسی شخص کے پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہے جو اگر اسے معلوم ہو تو اس کو ناگوار گزرے‘‘۔ یہ تعریف خود رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمائی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے غیبت کی یہ تعریف بیان فرمائی ہے کہ غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے جو اسے ناگوار ہو‘‘۔ عرض کیا گیا کہ اگر اس میں وہ بات پائی جاتی ہو؟ فرمایا: اگر اس میں وہ بات پائی جاتی ہو تبھی تو تُو نے اس کی غیبت کی ورنہ وہ بہتان ہے۔ ایک دوسری روایت میں آپ ﷺنے فرمایا ’’ غیبت یہ ہے کہ تو کسی شخص کا ذکر اس طرح کرے کہ وہ سنے تو اسے ناگوار ہو‘‘۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ اگرچہ میری بات حق ہو؟ آپ نے جواب دیا اگر تیری بات باطل ہو تو یہی چیز پھر بہتان ہے۔ ان ارشادات سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے خلاف اس کے پیچھے جھوٹا الزام لگانا بہتان ہے اور اس کے واقعی عیوب بیان کرنا غیبت۔ یہ فعل خواہ صریح الفاظ میں کیا جائے یا اشارہ وکنایہ میں بہر صورت یہ حرام ہے۔ اسی طرح یہ فعل خواہ آدمی کی زندگی میں کیا جائے یا اس کے مرنے کے بعد، دونوں صورتوں میں اس کی حرمت یکساں ہے۔ ابو داؤد کی روایت ہے کہ ماعز بن مالک اسلمی کو جب زنا کے جرم میں رجم کی سزا دے دی گئی تو نبی کریم ﷺ نے راہ چلتے ایک صاحب کو اپنے دوسرے ساتھی سے یہ کہتے سن لیا کہ ’’اس شخص کو دیکھو، اللہ نے اس کا پردہ ڈھانک دیا تھا مگر اس کے نفس نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک یہ کتے کی موت نہ مار دیا گیا‘‘۔ کچھ دور آگے جاکر راستے میں ایک گدھے کی سڑی ہوئی لاش نظر آئی۔ حضور ﷺ رک گئے اور ان دونوں اصحاب کو بلا کر فرمایا ’’اتریے اور اس گدھے کا گوشت تناول فرمایے‘‘۔ ان دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہ اسے کون کھائے گا؟ فرمایا فما نلتما من عرض اخیکما اٰنفاً اشد من اکل منہ ’’ابھی آپ لوگ اپنے بھائی کی عزت پر جو حرف زنی کر رہے تھے وہ اس گدھے کی لاش کھانے سے بہت زیادہ بری تھی‘‘۔
اس حرمت سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کسی شخص کے پیٹھ پیچھے یا اس کے مرنے کے بعد اس کی برائی بیان کرنے کی کوئی ایسی ضرورت لاحق ہو جو شریعت کی نگاہ میں ایک صحیح ضرورت ہو، اور وہ ضرورت غیبت کے بغیر پوری نہ ہوسکتی ہو، اور اس کے لیے اگر غیبت نہ کی جائے تو غیبت سے زیادہ بڑی بڑائی لازم آتی ہو۔ نبی کریم ﷺ نے اس استثناء کو اصولاً یوں بیان فرمایا ہے: بد ترین زیادتی کسی مسلمان کی عزت پر ناحق حملہ کرنا ہے۔ اس ارشاد میں ’’ناحق کی قید یہ بتاتی ہے کہ ’’حق‘‘ کی بنا پر ایسا کرنا جائز ہے۔ پھر خود نبی ﷺ ہی کے طرز عمل میں ہم کو چند نظیریں ایسی ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’حق‘‘ سے مراد کیا ہے اور کس قسم کے حالات میں غیبت بقدر ضرورت جائز ہوسکتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک بدو آ کر حضور ﷺ کے پیچھے نماز میں شامل ہوا اور نماز ختم ہوتے ہی یہ کہتا ہوا چل دیا کہ ’’خدایا! مجھ پر رحم کر اور محمد پر، اور ہم دونوں کے سوا کسی کو اس رحمت میں شریک نہ کر‘‘۔ حضور ﷺ نے صحابہ سے فرمایا اتقولون ہو اضل ام بعیرہ؟ الم تسمعوا الی ما قال؟ ’’تم لوگ کیا کہتے ہو، یہ شخص زیادہ نادان ہے یا اس کا اونٹ؟ تم نے سنا نہیں کہ یہ کیا کہہ رہا تھا؟ (ابو داؤد)۔ یہ بات حضور ﷺ کو اس کے پیٹھ پیچھے کہنی پڑی کیونکہ وہ سلام پھیرتے ہی جا چکا تھا۔ اس نے چونکہ حضور ﷺکی موجودگی میں ایک بہت غلط بات کہہ دی تھی، اور آپ کا اس پر خاموش رہ جانا کسی شخص کو اس غلط فہمی میں ڈال سکتا تھا کہ ایسی بات کہنا کسی درجہ میں جائز ہوسکتا ہے، اس لیے ضروری تھا کہ آپ اس کی تردید فرمائیں۔ ایک خاتون فاطمہ بنت قیس کو دو صاحبوں نے نکاح کا پیغام دیا۔ ایک حضرت معاویہؓ دوسرے حضرت ابو الجہم۔ انہوں نے آکر حضور ﷺ سے مشورہ طلب کیا۔ آپ نے فرمایا ’’معاویہ مفلس ہیں اور ابو الجہم بیویوں کو بہت مارتے پیٹتے ہیں‘‘
(بخاری و مسلم)۔
یہاں ایک خاتون کے لیے مستقبل کی زندگی کا مسئلہ در پیش تھا اور حضور ﷺسے انہوں نے مشورہ طلب کیا تھا اس حالت میں آپ نے ضروری سمجھا کہ دونوں صاحبوں کی جو کمزوریاں آپ کے علم میں ہیں وہ انہیں بتادیں۔
سنت رسول ﷺ کی نظیروں سے استفادہ کر کے فقہاء ومحدثین نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ ’’غیبت صرف اس صورت میں جائز ہے جبکہ ایک صحیح (یعنی شرعاً صحیح) غرض کے لیے اس کی ضرورت ہو اور وہ ضرورت اس کے بغیر پوری نہ ہوسکتی ہو۔‘‘ پھر اسی قاعدے پر بنا رکھتے ہوئے علماء نے غیبت کی حسب ذیل صورتیں جائز قرار دی ہیں:
ظالم کے خلاف مظلوم کی شکایت ہر اس شخص کے سامنے جس سے وہ یہ توقع رکھتا ہو کہ وہ ظلم کو دفع کرنے کے لیے کچھ کرسکتا ہے۔ (۲) اصلاح کی نیت سے کسی شخص یا گروہ کی برائیوں کا ذکر ایسے لوگوں کے سامنے جن سے یہ امید ہو کہ وہ ان برائیوں کو دور کرنے کے لیے کچھ کر سکیں گے۔ (۳) استفتاء کی غرض سے کسی مفتی کے سامنے صورت واقعہ بیان کرنا جس میں کسی شخص کے کسی غلط فعل کا ذکر آجائے۔ (۴) لوگوں کو کسی شخص یا اشخاص کے شر سے خبردار کرنا تاکہ وہ اس کے نقصان سے بچ سکیں۔ مثلاً راویوں، گواہوں اور مصنفین کی کمزوریاں بیان کرنا بالاتفاق جائز ہی نہیں واجب ہے کیونکہ اس کے بغیر شریعت کو غلط روایتوں کی اشاعت سے، عدالتوں کو بے انصافی سے، اور عوام یا طالبان علم کو گمراہیوں سے بچانا ممکن نہیں ہے۔ یا مثلاً کوئی شخص کسی سے شادی بیاہ کا رشتہ کرنا چاہتا ہو، یا کسی کے پڑوس میں مکان لینا چاہتا ہو، یا کسی سے شرکت کا معاملہ کرنا چاہتا ہو، یا کسی کو اپنی امانت سونپنا چاہتا ہو اور آپ سے مشورہ لے تو آپ کے لیے واجب ہے کہ اس کا عیب و صواب اسے بتا دیں تاکہ ناواقفیت میں وہ دھوکا نہ کھائے۔ (۵) ایسے لوگوں کے خلاف علی الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں پر تنقید کرنا جو فسق وفجور پھیلا رہے ہوں، یا بدعات اور گمراہیوں کی اشاعت کر رہے ہوں، یا خلق خدا کو بے دینی اور ظلم و جور کے فتنوں میں مبتلا کر رہے ہوں۔ (۶) جو لوگ کسی برے لقب سے اس قدر مشہور ہو چکے ہوں کہ وہ اس لقب کے سوا کسی اور لقب سے پہنچانے نہ جاسکتے ہوں ان کے لیے وہ لقب استعمال کرنا بغرض تعریف نہ کہ بغرض تنقیص۔ ان مستثنیٰ صورتوں کے ما سوا پیٹھ پیچھے کسی کی بد گوئی کرنا مطلقاً حرام ہے۔ یہ بدگوئی اگر سچی ہو تو غیبت ہے، جھوٹی ہو تو بہتان ہے، اور دو آدمیوں کو لڑانے کے لیے ہو تو چغلی ہے۔ شریعت ان تینوں چیزوں کو حرام کرتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ اگر اس کے سامنے کسی شخص پر تہمت لگائی جارہی ہو تو وہ اس کو خاموشی سے نہ سنے بلکہ اس کی تردید کرے، اور اگر کسی کے سامنے کسی جائز شرعی ضرورت کے بغیر کسی کی واقعی برائیاں بیان کی جا رہی ہوں تو اس فعل کے مرتکبین کو خدا سے ڈرانے اور اس گناہ سے باز رہنے کی تلقین کرے رہا غیبت کرنے والا، تو جس وقت بھی اسے احساس ہو جائے کہ وہ اس گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے یا کر چکا ہے، اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ اللہ سے توبہ کرے اور اس حرام فعل سے رک جائے۔ اس کے بعد دوسرا فرض اس پر یہ عائد ہوتا ہے کہ حتی الامکان اس کی تلافی کرے۔(ماخوذ: تفہیم القرآن۔ مرتب: عبدالعزیز کولکاتہ)