فکر و نظر سے محرو می جدید اردو ادب کی حرماں نصیبی

تنقیدی ادب میں بھی مغربی نظریہ سازوں کی چھاپ کا غلبہ

ڈاکٹر سید عبدالباری

مغرب زدہ ادیبوں نے نوجوانوں کی فکر کو بگاڑنے کا کام کیا
اردو اد ب کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اسے انیسویں صدی کے نصف آخر میں انگریزی اقتدار کے ابتدائی عہد میں ایسے معتبر اور باشعور نقاد ملے جنہوں نے مغربی افکار اور تہذیبی اور ادبی رجحانات کی چمک دمک اور شور شرابہ کے باوجود اردو ادب یا مشرقی ادب کو اس کی بنیادوں پر قائم رکھا اور مشرقی فکر و عقائد سے حاصل ہونے والی روشنی کو جس سے اس عہد کا ادب، معاشرہ اور تہذیب سب تابندہ تھے اور سب ایک صحت مند رخ پر گامزن تھے برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ یہ سلسلہ بیسویں صدی میں مغرب کے بے شمار گمراہ کن افکار و رجحانات کے باوجود جو انسان کو حیوان اور اس کی ساری سرگرمیوں کو خالص مادہ پرستانہ اور افادیت پسندانہ بنانے کے درپے تھے قائم رہا اور اردو ادب کو یوسف حسین خاں، رشید احمد صدیقی، آل احمد سرور، حسن عسکری، اسلوب احمد انصاری وغیرہ جیسے متوازن معتبر اور مشرق کے مزاج شناس نقاد حاصل ہوئے۔ ترقی پسندوں نے بھی سماجی تناظر پر زور دینے ، طبقاتی کشمکش اور انسان کی مادی ضروریات کو اس کی پوری زندگی کا محور قرار دینے اور ادب کو اشتراکی نظریات کی اشاعت تک محدود کرنے کے باوجود ظلم و شر سے مظلوم اور خیر پسند انسانوں کی مقاومت اور ان کی حمایت کی خاطر انسان کے عالم گیر و ازلی مسائل سے ادب کو جوڑنے کی کوشش کی اور ادب کو تفریح محض کے دلدل سے مستحکم نظریات کی سطح مرتفع تک لانے کی جدوجہد کی لیکن بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں تنقید کی جولان گاہ میں تگ و تاز کرنے والوں کا ذہنی توازن اس قدر خراب تھا کہ وہ بے تکان و بے لگام عجب عجب بکواس کرنے لگے۔ بد قسمتی سے یونیورسٹیوں میں بھی اور اردو کے کچھ فیض بخش مرکزی اداروں پر بیٹھے ہوئے کچھ لوگ ادب و تنقید کے ماحول کو بے حد مکدر کرتے رہے۔ یہ غریب ادب و تہذیب کی نظریاتی اساس سے بے بہرہ تھے اور مغرب کے کچھ نظریہ سازوں اور نقد و نظر کے پیمانے بنانے والے اہل قلم کی تحریروں کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے تھے اور ان کے الفاظ و اصطلاحات کا رعب داب قائم کرنے کے لیے اردو میں کوئی مناسب متبادل تلاش کیے بغیر اس طرح نقل کرتے رہے گویا وہ کوئی نہایت معتبر ادبی نظریاتی اصول اردو والوں کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ ترقی پسندوں کے بعد جدیدیت، مابعد جدیدیت اور گوپی چند نارنگ کی ساختیات و پس ساختیات تک یہی تماشا اردو تنقید میں جاری ہے۔ یہ لوگ ادب، تہذیب، اقدار، فنکار، متن، قاری وغیرہ کے بارے میں ایسی پیش پا افتادہ باتیں اس طرح پیش کرتے ہیں گویا وہ نئے حقائق سے دنیا کو آگاہ کر رہے ہوں۔ ان کے خیالات میں (Coherence) کا شدید فقدان ہے اور قدم قدم پر یہ تضادات اور نظریاتی الٹ پھیر کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی مجبوری وہی ہے جو مغرب کے ادبی نظریہ سازوں کی ہے جہاں 4۔5سال کے بعد لوگ اپنے نظریات کا پیراہن تبدیل کردیتے ہیں۔ ان نقادوں کے نزدیک کبھی مصنف کے منشا کی تذلیل و تحقیر اور بے اعتباری مسلم ہوجاتی ہے اور کبھی قاری اور متن کے رشتے کے بارے میں طرح طرح کی موشگافیاں کی جاتی ہیں۔ اسلوبیات اور ساختیات کے جنگل میں ٹہلتے ٹہلتے کبھی یہ کسی مجذوب کی طرح کام کی باتیں بھی کہنے لگتے ہیں مثلاً کراچی کے ماہنامہ صریر کے تازہ شمارہ میں ایک بزرگ ارشاد فرماتے ہیں ’’ادب تہذیب کا چہرہ ہے۔ اگر واقعی ادب تہذیب کا چہرہ ہے تو تنقید کے عمل میں آپ تاریخ و تہذیب سے صرف نظر نہیں کرسکتے‘۔ یعنی متن کے ساتھ زبان کی تہذیبی جڑوں اور تہذیبی فضا کی زبردست اہمیت ہے۔ انہیں احساس ہے کہ نو آبادیاتی عہد کے خاتمہ کے بعد لوگ اپنی جڑوں کی طرف لوٹنے کی کوشش کررہے ہیں اور اپنی تہذیبی و ملکی شناخت پر اصرار کر رہے ہیں۔ پھر یہی بزرگ فرماتے ہیں منشائے مصنف جسے جدیدیت نے رد کردیا تھا اس کی بھی کچھ نہ کچھ اہمیت ہے لیکن اس کی زیادہ اہمیت نہیں کیونکہ متن قاری کی دسترس میں ہے۔ اس طرح منشائے مصنف کے ساتھ متن، قاری ، تناظر سب کو قابل توجہ قرار دیا جارہا ہے۔ البتہ ان سب میں قاری سب سے زیادہ اہم ہے اور انسان کے بدلتے ہوئے تصورات اور تکثیریت ، تانیثیت اور بین المتونیت کی نظریاتی و تنقیدی اصطلاحات کے باوجود وہ اردو تنقید کو بے یقینی اور اگر مگر کے دلدل سے نجات دلانے کے بجائے اسے مزید ذہنی انتشار (Confusion ) کا شکار بناتے رہے ہیں۔ نظریاتی و اقداری رویہ کو تنقید کے لیے مفید و قابل ترجیح قرار دینے کے باوجود موصوف کا خیال ہے کہ ادب و تنقید میں کوئی پوزیشن معصوم یا بے لوث یعنی غیر جانبدار نہیں ہوتی۔ یعنی نظریاتی اور اقداری پوزیشن ادیب و نقاد کو بے لوث ہونے سے محروم کردیتی ہے۔ لفظ بے لوث کی اس سے زیادہ توہین نہ ہوئی ہوگی۔ انسان اگر اپنے کسی رویہ میں اپنے نفس، اپنی ذاتی اغراض یا کسی کے ساتھ ذاتی بغض و عناد کو شامل نہ ہونے دے اور اپنی
فکر میں زیادہ سے زیادہ بنی نوع انسان کے لیے معروضی اور بے غرض ہوتو اسے بے لوث کہا جائے گا اور یہ پوزیشن کسی اعلیٰ نظریہ اور نظام اقدار سے تعلق کے بغیر انسان حاصل ہی نہیں کرسکتا۔ اقدار اور نظریہ سے یہی محرومی ماہنامہ صریر کراچی کے اس ہندوستانی معروف نقاد کو جس کی جھولی میں اردو کے چھوٹے بڑے بے شمار اہل قلم اپنے اپنے چھوٹے موٹے مفادات کی وجہ سے جمع ہیں اس قدر تنگ نظر نہ بناتا کہ جب وہ عصر حاضر کے اردو نقادوں کی فہرست سازی کرتا ہے تو اسلام کے عالم گیر تہذیبی و اقداری نظریات کی روشنی میں ادب و تنقید میں اپنا ایک بلند مقام حاصل کرنے والے اہل قلم اور نقادان فن مثلاً ڈاکٹر عبدالمغنی، ابن فرید، پروفیسر عبدالحق، قاضی عبیدالرحمن، ڈاکٹر محمود شیخ، پروفیسیر کبیر احمد جائسی، ڈاکٹر احمد سجاد، طیب عثمانی وغیرہ کو ناقابل اعتنا سمجھتا ہے۔ اردو ادب کی بد قسمتی ہے کہ اس کے اوپر ایسے نقاد اور اہل قلم مسلط ہوگئے ہیں جن کا کوئی ذہنی، جذباتی اور فکری رابطہ اردو بولنے والی آبادی یا عوام سے نہیں۔ یہ لوگ اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر مغرب سے آنے والے مزخرفات کی روشنی میں اپنے ادبی نظریات ایجاد کرتے ہیں اور اردو سے پیشہ ورانہ طور پر متعلق نوجوانوں میں فکری انتشار پیدا کرنے کا کارنامہ انجام دیتے رہتے ہیں۔
(، ماہنامہ پیش رفت، جنوری ۲۰۰۴)
***

 

***

 بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں تنقید کی جولان گاہ میں تگ و تاز کرنے والوں کا ذہنی توازن اس قدر خراب تھا کہ وہ بے تکان و بے لگام عجب عجب بکواس کرنے لگے۔ بد قسمتی سے یونیورسٹیوں میں بھی اور اردو کے کچھ فیض بخش مرکزی اداروں پر بیٹھے ہوئے کچھ لوگ ادب و تنقید کے ماحول کو بے حد مکدر کرتے رہے۔ یہ غریب ادب و تہذیب کی نظریاتی اساس سے بے بہرہ تھے اور مغرب کے کچھ نظریہ سازوں اور نقد و نظر کے پیمانے بنانے والے اہل قلم کی تحریروں کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے تھے اور ان کے الفاظ و اصطلاحات کا رعب داب قائم کرنے کے لیے اردو میں کوئی مناسب متبادل تلاش کیے بغیر اس طرح نقل کرتے رہے گویا وہ کوئی نہایت معتبر ادبی نظریاتی اصول اردو والوں کے سامنے پیش کررہے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  16 جنوری تا 22 جنوری 2022