قازقستان کی خود مختاری خطرے میں

کرپٹ قیادت اور مہنگائی کے خلاف عوامی بے چینی کا لاوا پھٹ پڑا

مسعود ابدالی

حکمراں اقتدار بچانے کی خاطر بیرونی فوجی مداخلت کا جواز پیدا کرنے کے لیے کوشاں!
دنیا میں رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا مسلم ملک قازقستان آجکل بدترین خلفشار میں مبتلا ہے۔ ستائیس لاکھ 25 ہزار مربع میل کلومیٹر پر مشمل اس ملک کی آبادی صرف ایک کروڑ91 لاکھ کے قریب ہے اور اس اعتبار سے یہاں ہر مربع کلومیٹر رقبے پراوسطاً 7 نفوس آباد ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ پاکستان میں ہر مربع کلومیٹر پر 244، ہندوستان میں 414اور بنگلہ دیش میں اوسطاً 1106افراد رہتے ہیں۔ آبادی میں مسلمانوں اور مسیحیوں کا تناسب بالترتیب72 اور 23.1 ہے جبکہ چار فیصد آبادی کسی بھی مذہب کی پیروکار نہیں۔ دنیا کی دوبڑی طاقتیں قازقستان کی پڑوسی ہیں۔ شمال اور شمال مغربی جانب روس اور مشرق میں اسکی سرحدیں چین سے ملتی ہیں۔قازق روسی سرحد کی لمبائی 7644 اور چین سے ملنے والی سرحد 1783 کلو میٹر لمبی ہے۔جنوب میں کرغستان، ازبکستان اور ترکمانستان اسکے ہمسائے ہیں۔
چودھویں صدی میں یہ خطہ اسلام کی روشنی سے منور ہوا اور جلد ہی قازق خانات قائم ہوگئی، عربی رسم الخط رائج ہوااور مبلغین نے اپنے کردار سے سارے علاقے کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ اٹھارہویں صدی کے آغاز میں روسیوں نے حملوں کا آغاز کیا۔یہ برطانوی سلطنت کی توسیع کا دور تھا۔ روسیوں نے ’گوروں‘ کا خوف دلاکر قازق عوام کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کیا اور روسی سلطنت نے قبائلیوں کی مدد سے قازقستان کے بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا، 1860 تک قازق مزاحمت جاری رہی لیکن جلد ہی روس کی فوجی طاقت غالب آگئی اور 1917 میں علاقائی خود مختاری اور رسم الخط برقرار رکھنے کا وعدہ کرکے قازق مجاہدین کو تحریک مزاحمت ختم کرنے پر راضی کرلیاگیا، لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا چنانچہ 1936 میں قازقستان سوویٹ سوشلسٹ ریپبلک قائم ہوتے ہی روسی رسم الخط رائج ہوگیا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران جب جوہری اسلحے کی دوڑ شروع ہوئی تو بڑے لق و دق علاقے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آزمائشی جوہری دھماکوں کے لیے مشرقی قازقستان کے شہر سیمی کا انتخاب کیا گیا اور 1949 میں ہونے والے پہلے کامیاب تجربے کے بعد 1989 تک یہاں سیکڑوں جوہری تجربات کیے گئے۔ ان پے در پے دھماکوں سے خارج ہونے والی تابکاری نے قازق شہریوں کی صحت پر جو منفی اثرات مرتب کیے اسکی روسیوں کو قطعی کوئی فکر نہ تھی اور سفاک کے جی بی نے ’فکرمندوں‘ کو صفحہ ہستی سے مٹاکر اس مسئلے کو بڑا تنازعہ نہ بننےدیا۔
افغانستان میں روس کی شکست بلکہ سوویت یونین کے کِریاکرم نے وسط ایشیا کی دوسری سوویت ریا ستوں کی طرح قازقستان کی آزادی کی راہ ہموار کی اور سابق سوویت رہنما نورسلطان نذربایوف نے اقتدار سنبھال لیا۔گویا آسمان سے گر کر مظلوم قازق عوام کھجور میں اٹک گئے۔ نورسلطان کا آمرانہ نظام، بدترین کرپشن کی اپنی مثال آپ ہے۔ جب 2002 میں حکومت مخالف اخبار نے سوئٹزرلینڈ کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایک خبر کی بنیاد پر قازق اسٹیٹ بینک سے ایک ارب ڈالر چوری کا انکشاف کیا تو اسکے دفتر پر بم کا دھماکہ ہوا جس سے کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوالیکن روزنامہ جمہوریہ کے دفتر کو شدید نقصان پہنچا۔ امریکی اخبار نیویارکر نے 1999 میں ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق سوئس بینک کے کئی افسروں نے قازق اسٹیٹ بینک سے ساڑھے آٹھ کروڑ ڈالر ایک بے نامی اکاونٹ میں جمع کرانے کی تصدیق کی تھی اور بینک میں سب کو پتہ تھا کہ یہ اکاونٹ نورسلطان نذربایوف کا ہے۔ افسوس کہ شفافیت اور دیانت داری کی مالا جپنے والا یورپ اس قسم کی چوری کی حوصلہ افزائی میں مصروف ہے۔
دوسال پہلے صدر نور سلطان نذر بایوف نے صدارت سے مستعفی ہوکر اقتدار اپنے فرمانبردار قاسم جمعرت توقیر کے حوالے کردیا تاہم قاسم صاحب نے وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نذربایوف کو قومی دفاعی کونسل کا سربراہ مقرر کردیا۔ قازقستان کی مسلح افواج اور خفیہ ادارے اس کونسل کو جوابدہ ہیں، یعنی نذربایوف صاحب فوج کے سویلین سپریم کمانڈر بنا دیے گئے۔ فوج پرگرفت مزید مضبوط کرنے کے لیے نذربایوف نے اپنے بھتیجے صمد عباس کو کونسل کا نائب سربراہ مقرر کردیا۔
شاید قازقستان کا تعارف اور اسکی تاریخ کا ذکر ہمارے کچھ قارئین کو غیر ضروری محسوس ہورہا ہو۔ اگر آپکا بھی یہی خیال ہے تو وقت کے زیاں پر معذرت لیکن اس روداد کا مقصد یہ بتانا تھا کہ حالیہ ہنگامے اچانک نہیں ہوئے بلکہ عوام میں قازق حکمرانوں کی لوٹ مار پر بے چینی کا لاوا ایک عرصے سے پک رہا تھا۔ دوکروڑ سے بھی کم آبادی والےاس ملک میں تیل کی یومیہ پیداوار 17 لاکھ بیرل ہے جس میں سے صرف سواتین لاکھ بیرل مقامی طور پر استعمال ہوتا ہے، یعنی ہر روز 13 لاکھ 75 ہزار بیرل تیل برآمد کیا جاتا ہے۔ تیل کے ساتھ ہی قدرت نے قازقستان کو معدنیات بھی فیاضی کے ساتھ عطا کی ہیں۔یہاں یورینیم، کرومیم، جست، سیسہ،تانبا، لوہا، سونا اور کوئلے کے عظیم الشان ذخائر ہیں، جنکی برآمد سےملک کو اربوں ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ اس رقم کا بڑا حصہ نورسلطان نوربایوف نے دوامِ اقتدار کے لیے خفیہ پولیس اور جاسوسی کے نظام پر پھونک دیا۔ باقی ماندہ رقم سوئٹزر لینڈ کے بے نامی اکاونٹ میں جمع کرادی گئی۔ حکومتی اخراجات پورا کرنے کے لیے وہ نت نئے ٹیکس عائد کررہے ہیں اور ایندھن کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
اس سال کے شروع میں حکومت نے ایل پی جی (LPG)کی قیمتیں دگنی کردیں۔ ساتھ ہی بجلی اور پٹرولیم مصنوعات بھی مہنگی کردی گئیں۔ موسمِ سرما کی سختی نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور مغربی قازقستاں کے ایک شہر ژاناوژن (Zhanaozen) سے بے چینی کا آغاز ہوا۔ ژاناوژن تیل اور گیس کا مرکز ہے اور یہاں کام کرنے والے کارکن ایک عرصے سے کم تنخواہ اور مہمل حفاظتی اقدامات پر احتجاج کررہے ہیں۔ اس مسئلہ پر 2011 میں یہاں زبردست ہنگامہ ہوچکا ہے جب تیل کے کنووں اور تنصیبات پر کام کرنے والے مزدروں نے تنخواہوں میں اضافے اور سہولتوں کی بہتری کے لیے ہڑتال کی تو دارالحکومت سے بھیجے گئے خصوصی فوجی دستے نے اندھادھند فائرنگ کرکے ایک درجن سے زیادہ زیادہ مزدوروں کو ہلاک کردیاتھا۔
ایندھن کی قیمت میں حالیہ اضافے کے خلاف ژانا وژن کے مزدور سڑکوں پر اتر آئے جسے پولیس نے سختی سے کچل دیا۔ ساتھ ہی صدر قاسم جمعرات اور انکے وزرا نے رنگین چارٹ اور گراف کی مدد سے یہ ثابت کردیا کہ اضافے کے بعد بھی قازقستان میں ایندھن سارے وسط ایشیا سے سستا ہے۔انکا کہنا تھا کہ مہنگائی ساری دنیا کا مسئلہ ہے۔ قازقستان دنیا سے الگ تھگ جزیرہ یا قلعہ نہیں جو عالمی اقتصادیات کے منفی اثرات سے محفوظ ومامون ہو۔ اپنے زخموں پر حکمرانوں کی نمک پاشی سے عوام بلبلا اٹھے۔ ژاناوژن میں ہونے والے مظاہرے کو تو فوج کچلنے میں کامیاب ہوگئی لیکن قریبی شہروں میں ہنگامے شروع ہو گئے اور جلد ہی سب سے بڑے شہر الماتی اور دارالحکومت نورسلطان سمیت سارا ملک اسکی لپیٹ میں آگیا۔ قازقستان کے دارالحکومت کا نام آستانہ تھاجسے دوسال پہلے صدر نذربایوف نے اپنے نام سے موسوم کردیاہے۔ مظاہرین کا ہدف نورسلطان نذربایوف ہیں اور سارا ملک ’بڈھے ہماری جان چھوڑو‘ کے نعروں سے گونج رہا ہے۔
چار جنوری سے مظاہروں میں شدت کے ساتھ تشدد کا عنصر بھی داخل ہوگیا، مشتعل ہجوم نے الماتی، دارالحکومت اور دوسرے بڑے شہروں میں سرکاری عمارتوں کو آگ لگادی جن میں نورسلطان نذربایوف کے رشتے داروں کے مکانات بھی شامل ہیں۔ مظاہرین نے نورسلطان میں صدارتی محل پر بھی حملہ کیا جس سے بیرونی دیوار کا کچھ حصہ منہدم ہوگیا۔ فوج نے مظاہروں کو کچلنے کے لیے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا اور عوام پر اندھادھند گولیاں برسائیں۔ فوج کی فائرنگ سے درجنوں افراد ہلاک ہوئے لیکن مظاہرین منتشر نہ ہوئے۔ عوام کے پتھراو سے دودرجن کے قریب سپاہی بھی مارے گئے۔ مشتعل مظاہرین نے ایک پولیس افسر کا تیزدھار آلے سے سرقلم کردیا۔پانچ جنوری کو اپنے خطاب میں صدر قاسم جمعرات نے ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ واپس لیتے ہوئے ’نااہل حکومت‘ کو برطرف کردیا۔ ساتھ ہی انہوں نے نورسلطان نذربایوف کو قومی سلامتی کونسل کی سربراہی سے الگ کردیا۔ اسکے باوجود مظاہرے جار ی رہے۔جابرانہ نظام کی وجہ سے قازقستان میں سیاسی جماعتیں منظم نہیں اور مہنگائی کے خلاف حالیہ تحریک کا بھی کوئی سربراہ نہیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر ’شہریانِ ژان وژن‘ کے نام سے ایک نامعلوم گروہ اس تحریک کی غیر رسمی قیادت کررہاہے۔
چھ جنوری کو صورتحال قابو سے باہر ہوتی دیکھ کر صدر قاسم جمعرات نے روس سے مدد کی درخواست کی۔ جس پر صدر پوٹن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ قازقستان کا اندرونی معاملہ جس میں بیرونی مداخلت سے صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔روس کے ساتھ ہی قازق صدر نے معاہدہ برائے اجتماعی دفاع یا CSTOسے مدد کی درخواست کی۔ روس آرمینیا، بیلاروس، قازقستان، کرغیزستان اور تاجکستان پر مشتمل CSTO آنجہانی سوویت یونین کی دولت مشترکہ ہے۔ آرمینیا کے وزیراعظم اور CSTO کے روحِ رواں نکول پشینیان نے صدر قاسم کی درخواست پر فوجی دستےقازقستان بھیجنے کا اعلان کیا، تاہم اعلامیے میں بہت صراحت کیساتھ کہاگیا کہ CSTOمظاہرین کو کچلنے کے لیے استعمال نہیں ہوگی اور ہمارے سپاہی صرف امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں گے۔اس معاملے میں آرمینیا کی دلچسپی پر آذربائیجان خوش نہیں۔ یہ دونوں ملک ڈیڑھ برس پہلے خونریز جنگ لڑ چکے ہیں۔قازقستان کے لیے آرمینیائی فوج کی روانگی پر ترکی کو بھی تحفظات ہیں۔ دوسری طرف صدر پوٹن کی جانب سے عدم مداخلت کی یقین دہانی کے باوجود روسی فوج کے چھاتہ بردار دستے قازق دارالحکومت کے تحفظ کیلیے بھیج دیے گئے ہیں ۔اب تک روس یا CSTOنے قازقستان بھیجے جانے والے سپاہیوں کی کل تعداد نہیں بتائی لیکن مغربی نامہ نگاروں کاکہنا ہے کہ 2500 کے قریب سپاہی قازقستان پہنچ گئے ہیں۔
روسی فوج کے آتے ہی قازق فوج نے زبردست کارروائی کا آغاز کیا اور اب عوامی مزاحمت پسپا ہوتی نظر آرہی ہے۔الماتی، آستانہ اور توانائی کے مرکز ژاناوژن میں روسی ٹینک گشت کررہے ہیں۔قوم سے اپنے خطاب میں صدر قاسم نے انتہائی متکبرانہ لہجے میں کہا کہ غیر ملکی دہشت گردوں کا تعاقب کیا جائےگا اور جن لوگوں نے قومی املاک کو نقصان پہنچایا ہے انہیں نشان عبرت بنتے ساری دنیا دیکھے گی۔ قازق صدر نے ایک بار پھر کہا کہ مہنگائی ساری دنیا میں ہے اور اسےمظاہرے کا جواز قرار نہیں دیا جاسکتا چنانچہ مظاہرین کو بلاانتباہ گولی ماردینے کا حکم دیدیا گیا ہے۔قازق ابلاغ عامہ کے ذرائع نے جو اعدادوشمار جاری کیے ہیں، اسکے مطابق ان ہنگاموں میں 164 افراد ہلاک ہوئے اورمالی نقصان کا تخمینہ 20 کروڑ ڈالر ہے۔وزارت داخلہ نے ہنگاموں میں ملوث پانچ ہزار افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
قازقستان میں مہنگائی کے خلاف حالیہ تحریک اس ملک کا اندرونی معاملہ ہے لیکن جس تیزی سے روس نے وہاں اپنی فوج بھیجی ہے اس سے قازقستان کی سلامتی و خودمختاری کے بارے میں سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔پہلے کہا گیا تھا کہ CSTO کے جوان صرف سرکاری عمارتوں اور قومی تنصیبات کی حفاظت کریں گے لیکن اب روسی ٹینک، تیل اور گیس کے مرکز ژاناوژن کے گرد گھیرا ڈال چکے ہیں۔ الماتی اور دارالحکومت میں بھی روسی ٹینک گشت کرتے نظر آرہے ہیں۔
اس حوالے سے قازقستان کا محل وقوع بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اسکے ایک طرف روس اور دوسری جانب چین ہے۔ قازق عوام ان دونوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔ بظاہر روس، قازقستان کا قریبی اتحادی ہے، لیکن اپنے پڑوسیوں کے خلاف روس کے توسیع پسندانہ عزائم پر قازق قوم کو سخت تشویش ہے۔قازقستان کی 20 فیصد آبادی روسیوں پر مشتمل ہے جنکی غالب اکثریت روس کی سرحد پر رہتی ہے۔کریمیا پر حملے کے لیے روس نے وہاں آباد روسی اقلیت کے تحفظ کو جواز بنایا تھا۔
روس کےساتھ چین کے بارے میں بھی قازق قوم کو شدید تحفظات ہیں۔ یہ خیال عام ہے کہ بیجنگ، قازقستان کے قدرتی ذخائر پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ قازقستان کی سرحد چین کے مسلم اکثریتی صوبہ سنکیانگ سے ملتی ہے اور وہاں ایغوروں کے ساتھ قازق اور تاتار بھی نسل کشی کا شکار ہیں۔ اسی معاملے پر قازقستان میں کئی بار پرتشدد مظاہرے ہوچکے ہیں۔
روس اور چین دونوں کے ذرائع ابلاغ پر وقتاً فوقتاً اس قسم کے مضامین شایع ہوتے رہے ہیں جن میں قازقستان کو تاریخی اعتبار سے ان ملکوں کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔بعض چینی دانشوروں کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں قازقستان سنکیانگ کا حصہ تھا اور اسے دوبارہ چین میں ضم ہونے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
اس تناظر میں قازقستان کی سڑکوں پر روسی ٹینکوں کی موجودگی قازق خودمختاری کے لیے اچھا شگون نہیں۔ وہاں غیر ملکی فوج کتنا عرصہ قیام کرےگی یہ بات بھی واضح نہیں۔ روسی خبر رساں ایجنسی RIA Novostiکے مطابق ان دستوں کے قیام کا دورانیہ کئی ہفتے ہوسکتا ہے۔دوسری طرف روس کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں امید ظاہر کی ہے کہ قازق دھڑے باہم مذاکرات کے ذریعے تنازعے کا حل تلاش کر لیں گے جسکے بعد وہاں غیر ملکی فوج کی ضرورت نہیں رہے گی۔بیان میں مظاہروں کو قازقستان کا اندرونی معاملہ قراردیا گیا لیکن سرکاری اخبارات کا کہنا ہے کہ ’ہنگامے‘ مغرب کی شہ پر ہورہے ہیں۔
کسی بھی ملک میں غیر ملکی فوج آتی تو میزبان کی مرضی سے ہے لیکن اسے واپس بھیجنا اتنا آسان نہیں۔ افغانستان سے واپس جانے میں امریکی فوج کو 20 سال لگے اورجاتے جاتے امریکہ بہادر افغان اسٹیٹ بینک کی تجوری اپنے ساتھ لے گئے۔ عراق میں امریکی فوج 2003میں آئی تھی اور اب تک وہاں موجود ہے۔ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کے لیے بھارت آئی اور ایک سو سال تک ملک پر قابض رہی۔ پتہ نہیں روسی فوج کتنا عرصہ قازقستان میں موجود رہےگی۔
عوام کی بدنصیبی کہ سونا اگلتی قازق سرزمین کے مالی وسائل حکمراں چٹ کرگئے، قومی و ملی اداروں کو دیمک بن کر کھوکھلا کیا اور اب دوامِ اقتدار کے لیے ملک کے دروازے دشمنوں کے لیے کھول دیے گئے۔ روسی فوج کےساتھ آرمینیا کے سپاہی بھی قازقستان کی سڑکوں پر گشت کررہے ہیں۔اٹھارہ ماہ پہلے نگورنوکارباخ میں تاتاروں اور آذربائیجان نے ترکوں کی مدد سے آرمینیائی فوج کو خاک چٹائی ہے اور آتشِ انتقام میں سلگتے یہ سپاہی اب قازق عوام سے اپنی ذلت آمیز شکست کا بدلہ لے رہے ہیں۔روسی فوج کی آمد کے بعد جمعہ کو ’شہریانِ ژان وژن‘ نے عوام سے احتجاج ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔ حکومت مخالفین کو ڈر ہے کہ مظاہرے جاری رہنے کی صورت میں CSTO افواج کو یہاں غیر معینہ مدت تک قیام کا بہانہ مل سکتا ہے۔ چین اور روس دونوں کی نظر قازقستان کے تیل اور معدنیات پر ہے۔
قازق فوج کے بعض سابق جرنیلوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ روسی کے جی بی اور چینی خفیہ ایجنسی قازق افواج پر جعلی دہشت گرد حملوں کا منصوبہ بنارہی ہیں۔ ان حملوں کا الزام افغان طالبان، چیچن مجاہدین، اراکان گوریلوں اور ایغور چھاپہ ماروں پر ڈال کر چین اور روس کے لیے فوجی مداخلت کا جواز پیدا کیا جائے گا۔

(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 عوام کی بدنصیبی کہ سونا اگلتی قازق سرزمین کے مالی وسائل حکمراں چٹ کرگئے، قومی و ملی اداروں کو دیمک بن کر کھوکھلا کیا اور ا ب دوامِ اقتدار کے لیے ملک کے دروازے دشمنوں کے لیے کھول دیے گئے۔ روسی فوج کےساتھ آرمینیا کے سپاہی بھی قازقستان کی سڑکوں پر گشت کررہے ہیں۔اٹھارہ ماہ پہلے نگورنوکارباخ میں تاتاروں اور آذربائیجان نے ترکوں کی مدد سے آرمینیائی فوج کو خاک چٹائی ہے اور آتشِ انتقام میں سلگتے یہ سپاہی اب قازق عوام سے اپنی ذلت آمیز شکست کا بدلہ لے رہے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  16 جنوری تا 22 جنوری 2022