جعفرتابش،کشتوار ،جموں و کشمیر
نسلِ آدم کے شروع ہوتے ہی انسان اپنی زندگی کی ضروریات میں الجھتا چلا گیا۔ کبھی کھانے کو روٹی چاہئے تو کبھی پہننے کو کپڑا۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک بہت ساری اقوام دنیا میں ظہور پزیر ہوئیں اور ایک مقررہ وقت کے بعد ختم بھی ہو گئیں۔ان اقوام کے کھانے پینے، بول چال، بود و باش اور پہننے کے طور طریقے دوسری اقوام سے مختلف تھے۔ اسی طرح اسلام بھی انسانی لباس کے معاملے میں ایک واضح حکم رکھتا ہے کہ وہ ساتر بھی ہو اور پہننے والے کی حیثیت اور موسم کے موافق بھی۔ بہترین غذا، بہترین پوشاک اور بہترین رہائش ہر شخص کا خواب ہوتے ہیں۔ انسان ہر وقت دوسروں کی نظروں میں رہنا چاہتا ہے اور یہ اس وقت تک ہوتا ہے جب تک حقیقت اس کے سامنے نہیں آ جاتی اور جب حقیقت اس کے سامنے عیاں ہو جاتی ہے تو وہ اس ذاتی دکھلاوے سے خوف کھانے لگتا ہے۔
ایسی ہی ایک کہانی ہے امریکا جیسی جدید ریاست میں پیدا ہونے والی سابق اداکارہ ’سارہ بوکر‘ کی۔ سارہ کا جنم امریکا کے ایک شہر مغربی ڈکوٹا میں ہوا۔ بنیادی تعلیم مغربی ڈکوٹا میں ہی حاصل کی۔ سارہ کے والدین عیسائی تھے۔ جب کبھی سارہ کے والدین نزدیکی کلیسا میں عبادت کے لیے جاتے تو سارہ کو بھی ساتھ لے جاتے۔ سارہ خدا پر یقین رکھتی تھی لیکن کلیسا کا رنگ ڈھنگ اور گانا بجانا وغیرہ اسے پسند نہیں تھا۔ 19 سال کی عمر میں سارہ نے گھر والوں سے دوری اختیار کی اور کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر امریکی ریاست فلوریڈا منتقل ہو گئی اور میامی کے ساحل پر مغربی لڑکیوں کی اکثریت کی طرح دو عدد مختصر کپڑوں میں گھومنا شروع کر دیا۔ سارہ بوکر نے ہر وہ کام انجام دیا جو ان کی عمر کی اکثر مغربی لڑکیاں انجام دیتی ہیں۔ انہیں میامی کے ساحل پر ایک پر سکون اور مطمئن زندگی کی تلاش تھی لیکن وہ وہاں مفقود تھی بلکہ دور دور تک اس کا کوئی نشان بھی موجود نہیں تھا۔
سارہ بوکر ایک اداکارہ کے علاوہ ایک فٹنس ٹرینر اور ایک سماجی کارکن بھی تھی جو عورتوں کے حقوق کی نام نہاد سوچ ’فیمینزم‘ سے متاثر تھی۔
سارہ کا اکثر وقت خود کو سجانے سنوارنے میں گزرتا تھا اور وہ یہ سب صرف لوگوں کی نظروں میں آنے کے لیے کر رہی تھی۔ اس نے بہت زیادہ کسرت کی اور جلد کی ایک نجی استاد کی حیثیت سے کام کرنے لگ گئی۔ سارہ بوکر کو ایک خوبصورت رہائش گاہ بھی حاصل ہوگئی جو سمندر کے بالکل قریب میں واقع تھی۔
سارہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بناؤ سنگھار سے تنگ آ چکی تھی ۔اسے اپنا آپا سراپا ان چیزوں کا غلام معلوم ہونے لگا تھا۔ وہ جب مختلف موقعوں پر لوگوں کو شراب پیتے ہوئے دیکھتی تو اسے محسوس ہوتا کہ یہ ہمارے درد کی اصل دوا نہیں ہو سکتی اصل دوا کچھ اور ہی ہے۔
سارہ کی زندگی کا یہ سفر اسی طرح جاری رہا۔اس دوران اس نے مختلف مذاہب کے بارے میں پڑھنا شروع کر دیا۔ سارہ کو Metaphysics اور مشرقی یوگا میں دلچسپی بڑھنے لگی اور اس نے اس بارے میں کافی مطالعہ بھی کیا۔ کچھ وقت کے بعد سارہ نے دوبارہ کالج میں داخلہ لیا اور امریکی تاریخ اور امریکا کی ’’خارجہ پالیسی‘‘ کو پڑھنا شروع کر دیا۔ ان موضوعات کی پڑھائی کے دوران سارہ کو انتہائی درجے کا دکھ ہوا اور اس نے خود کو دل برداشتہ محسوس کیا۔
سارہ نے امریکا کے مختلف ہائی اسکولوں اور کالجوں کے بچوں سے تعلق قائم کیا اور انہیں مشرقِ وسطیٰ میں بپا ظلم و جبر اور نا انصافی کے بارے میں آگاہ کیا۔
سارہ نے مختلف حلقوں کو امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں احتجاج کے لیے مدعو بھی کیا تاکہ وہ اس وقت عراق میں جاری جنگ کو روک سکیں۔ اسی دوران سارہ کی ملاقات ایک مسلمان شخص سے ہوئی جس کی اپنی ایک تنظیم تھی اور وہ بھی اسی موضوع پر کام کر رہا تھا۔ سارہ نے رضاکارانہ طور پر خود کو اس تنظیم کے لیے پیش کیا اور تنظیم کا حصہ بن گئی تاکہ کچھ مزید سیکھ بھی سکے اور ان کی کچھ مدد بھی کر سکے۔ سارہ نے اس شخص کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کر دیا۔ اسی دوران وہ شخص سارہ کو پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ کی حیات طیبہ کے بارے میں بتانے لگا۔ سارہ یہ سب سن کر حیران رہ جاتی تھی کیونکہ اس نے کسی انسان کی ایسی پاکیزہ زندگی کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ سارہ نے اس بارے میں پڑھنا شروع کیا اور آخر کار سارہ کے ہاتھ کتابِ ہدایت آگئی۔ یہ دن تھا 21 ستمبر 2001 جب سارہ بوکر کو پہلی مرتبہ قرآن پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ ایک ایسی کتاب سے شناسا ہونے کا موقع ملا جسے اہلِ مغرب نے انتہائی غلط انداز میں اپنے لوگوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ اور یہی وہ دن تھا جس میں نیم عریاں لباس زیب تن کرنے والی آزاد ذہن لڑکی نے اس پُر سکون اور کامیاب زندگی کے میدان میں قدم رکھا جس کی اسے برسوں سے تلاش تھی۔وہ خواتین کے اسلامی لباس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔ قرآن سے شناسائی سے قبل سارہ کے نزدیک پردہ ایک جبر تھا جو مسلمان خواتین پر زبردستی تھوپ دیا گیا تھا وہ بھی مغرب کی اکثریت کی طرح یہی سمجھتی تھی کہ اسلام مسلمان خواتین کو گھر کی چار دیواری میں محدود رکھنا چاہتا ہے اور ظلم اور تشدد کے سوا اسلام نے خواتین کے لیے اور کسی حق کی ضمانت نہیں دی ہے۔ لیکن جب سارہ نے قرآن کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی تو یہ سارے راز ایک کے بعد ایک اس پر کھلتے چلے گئے کہ اور یہ حقیقت اس پر آشکار ہوئی کہ در اصل اسلام نے ہی عورت کو سب سے زیادہ حقوق دیے ہیں۔
سارہ کے ذہن میں بہت سارے سوالات تھے جن کا کہیں بھی تسلی بخش جواب اسے نہیں مل پا رہا تھا۔ مثلاً
عورت کیوں اپنا وقت گھر پر صرف کرے؟
کیوں اپنے بچوں اور شوہر کے لیے ہر وقت حاضر رہے؟ کیوں اپنے شوہر کی اطاعت کرے؟
یہ ایسے سوالات تھے جن کے انتہائی عقلی اور تسلی بخش جواب سارہ کو قرآن سے مل چکے تھے۔
قرآن کے اندازِ بیان، تخلیقِ آدم، خالق و مخلوق کا تعلق، انسانی زندگی اور ایسے دیگر کئی موضوعات نے سارہ کو حد درج متاثر کیا۔ یہ سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی سارہ اسلام قبول کرنے پر راضی نہیں ہو پا رہی تھی ۔اس کے ذہن میں ابھی بھی کچھ سوالات گردش کر رہے تھے اگرچہ اسے اسلام کے حق ہونے پر کوئی شک نہیں تھا لیکن وہ خود کو اس ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں کر پا رہی تھی۔ اس کے مطالعے میں آنے والا یہ واحد مذہب تھا جسے وہ مکمل نظامِ حیات سمجھتی تھی۔
وہ جنوری 2003 کی سرد رات تھی جب سارہ واشنگٹن سے جنگ مخالف احتجاج کے بعد بس میں اپنے گھر واپس ہو رہی تھی۔اس سے قبل اس میں اور اس کے عیسائی شوہر میں ذاتی اختلافات کی وجہ سے علیحدگی ہو چکی تھی۔سارہ کی عمر اس وقت 29 سال تھی لیکن وہ ابھی تک اپنی زندگی کا کوئی مقصد طے نہیں کر پائی تھی۔ واشنگٹن سے گھر پہنچنے پر سارہ کے دل میں ایک سوال پیدا ہوا کہ وہ کیا کرے اور کیسے اس ظلم پر مبنی نظام کے خلاف کھڑی ہو؟ اسی کشمکش میں اچانک اس کے اندر سے ایک آواز آئی کہ اسے اب مسلمان ہو جانا چاہیے چنانچہ اس نے اگلے روز ایک زیرتعمیر مسجد کے باہر کلمہ شہادت کہا اور مسلمان ہو گئی۔
قرآن کی برکت سے جب سارہ بوکر پر زندگی کا اصل مقصد واضح ہو گیا تو انہوں نے مقامی دوکان سے کچھ حجاب اور عبایا (برقعے) خریدے۔ سارہ نے جب یہ لباس زیب تن کیا اور فلوریڈا کی انہی گلیوں میں چلنا شروع کیا جہاں کچھ دن پہلے وہ نیم عریاں لباس میں چلتی تھیں تو لوگوں نے انہیں حیرت بھری نظروں سے دیکھنا شروع کیا کیونکہ نام نہاد آزاد ذہن لوگوں کے لیے یہ کسی گہرے صدمے سے کم نہیں تھا۔ کچھ لوگ خوش تھے، کچھ حیران اور کچھ غصے میں۔ سارہ نے زندگی میں پہلی مرتبہ اس قدر پر سکون اور خود کو محفوظ محسوس کیا تھا۔
اسلام قبول کرنے کے ایک ماہ بعد اسی شخص سے سارہ کا نکاح ہوا جس نے انہیں اسلام سے روشناس کرایا تھا۔ سارہ نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر مشرقِ وسطیٰ کے بہت سارے ممالک کا سفر کیا۔
سارہ بوکر نے اپنے شوہر کے ساتھ دس سال مصر میں گزارے اور پھر دوبارہ امریکا واپس آ گئیں اور کیلیفورنیا کے ایک اسلامی اسکول میں درس و تدریس کا کام شروع کر دیا۔
اس کے علاوہ سارہ بوکر ’’مارچ فار جسٹس‘‘ کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر اور ’’گلوبل سسڑرس نٹ ورک‘‘ کی شریک بانی بھی رہ چکی ہیں۔
سارہ بوکر کے قبول اسلام کا سفر بہت ساری مشکلات سے گزرتا ہوا آخر کار اپنی حقیقی منزل کو پہنچا۔سارہ نے ان تمام باتوں کا ذکر اپنے ایک مشہور مضمون
Why I Shed Bikini For Niqab”
A New Symbol Of Women’s Liberation
میں کیا۔ ان کے بقول:’’میں ابھی بھی ایک فیمینیسٹ ہوں لیکن ایک مسلمان فیمینیسٹ، جو مسلم خواتین کو اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے متعلق ذمہ داریوں کو سمجھیں جن کی بدولت وہ انہیں ایک اچھا مسلمان بننے میں مدد کر سکتی ہیں۔ اپنے بچوں کو دیانتدار اور راست باز مسلمان بنائیں تاکہ وہ عالمِ انسانی کے لیے پھر سے مشعلِ راہ بن سکیں، جو بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، حق بات کہیں اور ہر بدی کے خلاف بولیں، ہمارے حقوقِ پردہ کی پاسداری کر سکیں اور اس راہ پر چل کر جسے ہم نے منتخب کیا ہے اپنے رب کو راضی کرلیں۔ اس کے علاوہ ہمیں حجاب کے متعلق اپنا تجربہ باقی خواتین کے ساتھ بھی کرنا چاہئے جو اس بارے میں کوئی علم نہیں رکھتیں کہ کیوں ہم نے حجاب کو اتنی محبت کے ساتھ اپنایا ہے اور اسے پہنتی ہیں۔
سارہ بوکر کا یہ سفر بہت سی بہنوں کے لیے چراغِ راہ کی مانند ہے جنہیں یہ مبالغہ ہے کہ مغربی لباس پہننا اور آزادی کے نام پر کوئی بھی غیر اخلاقی کام کر گزرنا، حسین اور پر سکون زندگی کی علامت ہے۔ ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ ایسا ہرگز بھی نہیں ہے۔ اسلام نے خواتین کو ان تمام حقوق سے نوازا ہے جو خواتین کو ملنے چاہئے تھے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم لوگوں کی سنی سنائی باتوں پر عمل کرنے کے بجائے خود قرآن مجید کو پڑھیں اور جانیں تاکہ ایک خوبصورت معاشرے کی تعمیر کی جا سکے۔
سارہ کی عمر اس وقت 29 سال تھی لیکن وہ ابھی تک اپنی زندگی کا کوئی مقصد طے نہیں کر پائی تھی۔ واشنگٹن سے گھر پہنچنے پر سارہ کے دل میں ایک سوال پیدا ہوا کہ وہ کیا کرے اور کیسے اس ظلم پر مبنی نظام کے خلاف کھڑی ہو؟ اسی کشمکش میں اچانک اس کے اندر سے ایک آواز آئی کہ اسے اب مسلمان ہو جانا چاہیے چنانچہ اس نے اگلے روز ایک زیرتعمیر مسجد کے باہر کلمہ شہادت کہا اور مسلمان ہو گئی۔