ام خولہ
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ ائے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
5 ؍ اگست 2001 کا دن تھا اور گلابوں کا مہینہ تھا۔ گھر کے آنگن میں گلاب کے پودے پر سرخ سرخ گلاب کھلے تھے اور برستی ہوئی بارش کی بوندیں اس پر گر کر اسے مزید دلکش بنارہی تھیں۔ گھر کے کچے آنگن میں گلابوں کی خوشبو مہک رہی تھی اور ’’گلاب ہیں ہم لوگ‘‘ کے شاعر فضل اللہ قریشی مرحوم اپنے متوسط درجے کے گھر میں ابدی نیند سوئے ہوئے اپنے اصل گھر کی جانب روانگی کے لیے لوگوں کے سہارے کے منتظر تھے۔
یہ داستان درد کی
ابھی نہ چھیڑ ہم نشیں
کہ موت آگئی انہیں
نہیں نہیں یقین نہیں
فضل اللہ نام تھا قریشی تخلص اختیار کیا تھا۔ چار بھائیوں اور چار بہنوں میں چوتھا نمبر تھا جب کہ بھائیوں میں دوسرا نمبر تھا۔ ریاست تلنگانہ کا ایک چھوٹا سا شہر پداپلی پیدائشی وطن تھا۔ ایمرجنسی کے بعد کے حالات نے انہیں تلنگانہ ہی کے ایک اور شہر آرمور پہنچا دیا تھا۔
نوجوانی ہی میں تحریک اسلامی سے قریب ہوگئے تھے اور پوری عمر اس کی توسیع کے لیے کوشاں رہے۔ مسعود جاوید ہاشمی صاحب لکھتے ہیں۔
’’وہ دینِ مبین کے مخلص داعی تھے۔ وہ پداپلی میں پیدا ہوئے۔ کاغذ نگر اور پھر آرمور کو اپنا مسکن بنایا۔ جہاں رہے ان کی داعیانہ روش قابل صد رشک رہی۔ ادب کے گہواروں سے دور شعر و سخن کی شمع روشن کرتے رہے۔ اپنی محدود آمدنی پر قناعت ان کا اہم وصف رہا۔ وہ اس شعر کے مصداق تھے
ہم سے قائم ہے زینت عالم
اس چمن کے گلاب ہیں ہم لوگ
ان کی شاعری میں ان کی فکر بہت نمایاں ہے۔ ہر میدان میں انہوں نے طبع آزمائی کی ہے اور اپنے پاکیزہ جذبات کو شعر کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے‘‘
بہت زیادہ حساس طعیت کے مالک تھے۔ چھوٹی سی بات پر بھی بہت زیادہ متاثر ہو جاتے تھے۔ بابا کے اندر اقبال کی خودی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ اپنی خودی کی اسی انداز میں حفاظت کرتے تھے۔
جو رہے خودی تو شاہی
ان کی پوری زندگی اقبال کے اس شعر کے مصداق تھی
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
اور اسی کا سبق انہوں نے ہم بہنوں کو دیا تھا۔ بہت جری اور بے باک تھے۔ منافقت، مصلحت اور مداہنت سے سخت نفرت تھی۔ سانحہ بابری مسجد کے بعد ذمہ داروں نے پیغام بھیجا کہ فوری گھر سے کہیں دوسری طرف منتقل ہونے کی کوشش کریں۔ مگر بابا ہیں کہ تیار ہو کر گھر پر ہی موجود ہیں۔
دریافت کرنے پر بتایا کہ میں گرفتاری کے لیے تیار ہوں برعکس اس کے کہ روپوش ہو جاؤں۔ یہ چیزیں تو ہماری راہ کے سنگ میل ہیں۔ پولیس چار پانچ دن ہمارے گھر کے اطراف موجود رہی مگر الحمدللہ گرفتاری نہیں ہوئی۔
دور اندیش اور دور بین تھے۔ نوجوانوں سے خاص لگاؤ تھا، انہیں تحریک سے قریب کرنے کی بھرپور کوشش کرتے۔ گھر میں بھی تحریک کا تذکرہ کرتے رہتے۔ خاص بات یہ تھی کہ ہر تحریکی سرگرمی کو گھر میں تفصیل سے اس طرح دلچسپ انداز میں بتایا کرتے گویا ہم بھی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس طرح وہ ہمارے اندر تحریک سے لگاؤ پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
انداز گفتگو بہت دلچسپ بلکہ پر لطف ہوتا۔ زبان دانی پر خاص زور دیا کرتے تھے۔
لوگوں میں موجود صلاحیتوں کو پہنچاننے کا وصف موجود تھا اور اسی کے مطابق کام دیا کرتے تھے۔ غیر مسلموں میں بھی بہت مقبول تھے۔ بی جے پی اور وشوا ہندو پریشد کے ذمہ دارں سے تعلق تھا اور گیٹورائی اور ریڈینس پابندی سے انہیں پہنچایا کرتے تھے۔ ان کو تبادلہ خیال کے ذریعے قریب کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کرتے۔ شعبہ خواتین اور شعبہ جی آئی او کو مستحکم کرنے کی بہت فکر کیا کرتے تھے۔ مختلف مقامات سے ذمہ دار خواتین کو مدعو کرکے ہمیں ان سے مستفید کرنے کی خاص فکر کیا کرتے تھے۔
تحریک اسلامی سے والہانہ عشق تھا۔ ان کی اس خوبی کو جناب محترم تمکین آفاقی مرحوم نے اس طرح بیان کیا ہے:
’’فضل اللہ قریشی کی جس خوبی سے میں بہت متاثر ہوا ہوں وہ ان کی تحریک اسلامی سے گہری اور مخلصانہ وابستگی ہے۔ میں اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے مختلف مراحل کے دوران برسوں موصوف کے ساتھ رہا ہوں اور اس پورے عرصے میں مَیں نے انہیں تحریک اسلامی کا طوطی ہزار داستان پایا ہے۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور حافظہ غضب کا تیز۔
بہت اچھی تقریری اور تحریری صلاحیت کے مالک تھے۔ بات میں سے بات نکال کر تحریک اسلامی کا پیغام دوسروں تک پہنچانے میں ان کی بے قراری اور کوشش قابل تعریف اور لائق تقلید تھی۔ استدلال کے وہ بادشاہ تھے۔ بڑے سے بڑے مخالف کو بھی قائل کرکے چھوڑتے۔
تحریکی شخصیتوں سے متعلق ان کی معلومات بہت وسیع تھیں۔ مولانا مودودیؒ سے لے کر دور حاضر کے ذمہ داران جماعت تک بہت سے لوگوں سے متعلق وہ بہت سی باتیں نہ صرف جانتے تھے بلکہ اپنی ان معلومات سے محفلوں کو گرماتے رہتے۔ وہ کسی سے بھی مرعوب نہ ہوتے تھے۔ ان سے برابری کی سطح پر پوری خود اعتمادی سے تبادلہ خیال کرتے اور اکثر مخاطب ان کے دلائل کو ماننے پر م
جبور ہوجاتے ۔ مسلم نوجوانوں سے ان کا لگاؤ غیرمعمولی نوعیت کا تھا۔ ان کے جوہر کو چمکانے ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور دین حنیف سے انہیں وابستہ کرنے کے جذبے سے وہ زبان و بیان کی تمام صلاحیتوں سے کام لیتے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کی کوششوں سے بہت سے نوجوان نہ صرف تحریک اسلامی سے وابستہ ہوئے بلکہ اس کے بہترین دست و بازو بن گئے۔
اس موقع پر ان کی زندہ دلی اور خوش مزاجی کا تذکرہ بھی ضروری محسوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں عجیب حس مزاح عطا کی تھی۔ جس محفل میں بیٹھتے اسے اپنی پھلجھڑیوں سے خوشگوار بنا دیتے۔ ہر بات میں سے مزاح کا پہلو ابھار دیتے اور لوگ بے ساختہ ہنس پڑتے۔
شعر و سخن کا چسکا تو انہیں نوعمری سے ہی لگ گیا تھا اور یہی ذوق تھا جو ہماری قربت کا باعث بنا اور بعد میں قریب ترین رشتہ داری کا۔ (تمکین آفاقی مرحوم والد صاحب کے بہنوئی تھے) مگر جو بات انہیں ہم سب میں ممتاز کرتی تھی وہ ان کا شعری مطالعہ تھا۔ ہمارے لیے تو اپنے اشعار بھی یاد رکھنا مشکل تھا اور فضل اللہ قریشی کا عالم یہ تھا کہ سینکڑوں برمحل اشعار ان کی نوک زباں پر رہتے تھے۔ اساتذہ سخن سے لے کر جدید شعرا کے کام پر ان کی گہری نظر تھی۔ بالخصوص تحریک اسلامی سے وابستہ شعرا اور ادیبوں کو انہوں نے خوب پڑھا تھا اور اپنے اس مطالعہ کا صحیح استعمال بھی کیا تھا۔
اللہ تعالیٰ موصوف کے خلوص اور جدوجہد کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے‘‘ آمین۔
ان کے انتقال پر آرمور کی مشہور و معروف شخصیت جناب یعقوب سروش مدیر بساطِ فکر و نظر نے یوں خراج عقیدت پیش کیا: ’’5 اگست (2001) کی آدھی رات تھی کہ اللہ کے ایک درویش صفت بندے فضل اللہ قریشی کے نام پیام اجل آیا اور چشم زدن میں وہ اپنے خالق و پروردگار کے حضور جاپہنچے۔ گزشتہ چند ماہ سے وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے اسی وجہ سے انہوں نے دو تین ماہ قبل ہی آرمور جماعت کی مقامی امارت سے استعفی دے دیا تھا۔ مرحوم جماعت کے قدیم ارکان میں سے تھے۔ ان کے روابط ضلع اور حلقہ کی سطح سے لے کر کل ہند سطح تک تھے وہ ایک شعلہ بیان خطیب تھے اور کوثر و تسنیم میں دُھلی ہوئی اردو بولتے تھے۔ اعلیٰ درجے کے سخن فہم تھے۔ اقبال کے کئی اشعار ان کے نوک زبان تھے۔ اپنی بذلہ سنجی اور خوش مزاجی سے وہ اپنے احباب اور رفقا میں بہت مقبول تھے۔
والد صاحب علامہ اقبال سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ اسی لیے اپنے تمام بیٹوں کے نام کے ساتھ انھوں نے اقبال کا لاحقہ لگا رکھا تھا (فریس اقبال، انیس اقبال،صہیب اقبال، مصعب اقبال، مونس اقبال، انس اقبال)
ماہر القادری کا مشہور سلام بڑے جذب کے انداز میں پڑھتے ۔ نبی ؐ کا ذکر کرتے ہوئے بڑے والہانہ انداز کا لب ولہجہ اختیار کرتے ۔
اسکول میں اسلامیات کے ٹیچر تھے اور 10ویں کے طلبا کی بھی خواہش ہوتی تھی کہ وہ والد محترم کو روز اپنی کلاس میں مدعو کریں۔ leisure پیریڈ میں طلبا میں جھگڑا ہوتا تھا کہ ہم اپنی کلاس میں مولوی صاحب کو لے جائیں گے۔ طلبا پر بہت محبت اور شفقت فرماتے۔
رحمانیہ اسکول اور بکران تایا (صالح بکران مرحوم) کے بغیر بابا کی زندگی کا تذکرہ ادھورا رہے گا۔
بکران تایا سے تحریکی روابط پر استوار ہونے والا دوستی کا رشتہ بعد میں دو قلب ایک جان والا معاملہ ہوگیا تھا۔
اللہ ان سب کو غریق رحمت کرے۔ بکران تایا کے انتقال پر قطعہ لکھا تھا ؎
بڑی وحشت، بڑی دیوانگی محسوس کرتاہوں
جگر میں درد آنکھوں میں نمی محسوس کرتا ہوں
رواں ہے زندگی کا قافلہ رونق بھی ہے لیکن
میرے بکران بھائی کی کمی محسوس کرتا ہوں
تحریکی مصروفیات انہیں مہینے کے 30 دنوں میں سے 15 دن دوروں پر مصروف رکھتیں۔ اپنی کثیرالعیالی اور قلیل ترین آمدنی کے باوجود وہ کبھی بھی دنیا کی طرف راغب نہیں ہوئے۔ عجب درویشانہ اور قلندرانہ مزاج پایا تھا۔ دنیاوی آسائشوں کی طرف نہ کبھی راغب ہوئے نہ اس کی طلب کی۔ وہ ہم سب کو بھی بے نیازی کا سبق دیتے تھے۔ اگر کبھی ہم بھائی بہنوں کو کسی کے گھر کے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے سنتے تو ناگواری کا اظہار کرتے تھے۔
رحمانیہ اسکول گویا بابا ہی کے لیے بنا تھا۔ گھر کے راستے کی تنگی کی وجہ سے ہم نے بابا کو انتقال کے بعد رحمانیہ اسکول منتقل کیا تھا۔ انتقال کے بعد لطیف مولانا مرحوم نے کہاکہ ’’میں نے بانی مدرسہ محترم صالح بکران صاحب کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا ’’رحمانیہ اسکول فضل اللہ صاحب کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔‘‘
’’آج ان کو رحمانیہ اسکول سے آخری سفر پر روانہ ہوتے ہوئے دیکھ کر مجھے معلوم ہوگیا کہ رحمانیہ اسکول واقعی فضل اللہ صاحب کے لیے ہی بنایا گیا تھا‘‘۔
بابا کے کئی شاگرد آج تحریکِ اسلامی کے ذمہ داروں میں سے ہیں۔
اے بی وی پی آرمور کی مقامی تنظیم کے صدر ایک مسلم نوجوان شیخ حسین صاحب تھے۔ ان کو اس تنظیم میں دیکھ کر والد محترم بہت بے چین رہا کرتے تھے اور کہتے تھے مجھے اس نوجوان تک پہنچ کر اسے واپس لانا ہے۔ بعد میں والد محترم کی کوششوں سے وہ جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے اب وہ غالباً نظام آباد کے ذمہ داروں میں سے ہیں۔
وہ اکثر کہا کرتے تھے ’’ہمارے گھر میں بھی بڑی عقیدت و محبت سے دور جاہلیت کی تمام رسومات ہوا کرتی تھیں۔ مگر میرے صرف ایک بار کہنے سے میری والدہ محترمہ نے تمام رسومات کو یکلخت چھوڑ دیا تھا۔
اپنے ایک شعرمیں وہ کہتے ہیں:
کیا جو عہد وفا ان سے استوار رہے
خزاں کا دور ہو یا موسمِ بہار رہے
ہمارے دور کے آزر بڑے منافق ہیں
خلیلِ وقت سے کہہ دو کہ ہوشیار رہے
بابا کے انتقال پر جنازہ کے ساتھ بہت سے غیر مسلم اور پولیس محکمہ کے لوگوں نے کندھا دینے کی درخواست کی۔ غیر مسلم دوکاندار جنازے کے گزرتے وقت اپنی دوکانوں کے شٹر گرا کر احتراماً باہر نکل کر کھڑے ہوگئے۔
ایک بزرگ خاتون کہنے لگیں: ’’آج آرمور خالی ہوگیا۔ مولانا آرمور کی ناک کی مانند تھے‘‘۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ بابا کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ حسنات کو اپنی رحمت سے بڑھا چڑھا کر قبول کرے اور سیئات پر اپنی رحمت کا پردہ ڈال دے۔ ہم تمام بھائیوں و بہنوں کو باقیات الصالحات بنائے۔
آمین ۔
زمانہ بڑے غور سے سن رہا تھا
تمہی سوگئے داستان کہتے کہتے
دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات
***
غیر مسلم دوکاندار جنازے کے گزرتے وقت اپنی دوکانوں کے شٹر گرا کر احتراماً باہر نکل کر کھڑے ہوگئے۔ ایک بزرگ خاتون کہنے لگیں: ’’آج آرمور خالی ہوگیا۔ مولانا آرمور کی ناک کی مانند تھے‘‘